شدید نامناسب علیہم الرحمہ
شدید نامناسب علیہم الرحمہ !!
تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی ، روشن مستقبل دہلی
عنوان دیکھ کر حیران نہ ہوں، یہ عجیب وغریب جملہ دیوبند کے عناصر اربعہ کی حمایت میں شیخ سراواں کے ایک رامپوری عاشق صادق کے قلم سے رقم ہوا ہے۔
جس میں محرر نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے دیوبند کے عناصر اربعہ کو “مومن، علماے دین اور علیہم الرحمہ” قرار دیا ہے۔ان سے اظہار عقیدت کے ساتھ ہی محرر نے علماے دیوبند کی مذکورہ متنازعہ عبارات کو “شدید نامناسب” بھی قرار دیا ہے۔اس طرح علماے دیوبند کائنات کے وہ منفرد نمونے بن گئے ہیں جو بارگاہ رسالت میں “شدید نامناسب” جملے لکھ کر بھی ولی و بزرگ اور رب کی رحمتوں کے حق دار قرار پائے۔
اگر آج وہ عناصر زندہ ہوتے تو اس موقف کو سن کر بڑے مخمصے میں پڑ جاتے کہ خود کو مومن، عالم دین اور علیہم الرحمہ کہنے والے محرر کا شکریہ ادا کریں یا ان کی عبارات کو “شدید نامناسب” کہہ کر دبے لفظوں میں بے ادب کہنے والے گستاخ کو ڈانٹ لگائیں؟؟
آہٹ ملی سکون کی مگر مخمصے میں ہیں
اس منطق عجیب سے عجب مرحلے میں ہیں
بارگاہ رسالت میں نامناسب جملوں کا استعمال
بارگاہ رسالت میں صرف انہیں الفاظ کے استعمال کی اجازت ہے جو آداب رسالت کے موافق ہوں۔جن جملوں سے توہین رسالت تو کجا ترک ادب کا ہلکا سا بھی پہلو نکلتا ہو انہیں استعمال کرنا انتہائی مذموم اور برا کام ہے۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَقُوۡلُوۡا رَاعِنَا وَ قُوۡلُوا انۡظُرۡنَا وَ اسۡمَعُوۡا ؕ وَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ ﴿سورہ بقرہ:۱۰۴ ﴾
“اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔”
لفظ “راعنا” لغت قریش میں درست ومناسب تھا اسی لیے صحابہ کرام اسے بارگاہ رسالت میں بے تکلفی سے استعمال فرماتے تھے لیکن لغت یہود میں یہ لفظ خلاف آداب تھا۔بس اسی بنیاد پر کہ اس لفظ کے استعمال سے ترک ادب کا ہلکا سا شائبہ نکلتا تھا، خداوند قدوس نے اس کے استعمال پر پابندی لگا کر قیامت تک کے لیے یہ نظیر قائم فرما دی کہ ہمارے محبوب کی بارگاہ میں ایسا کوئی جملہ استعمال نہ کیا جائے جو ان کی بارگاہ ناز کے لیے نامناسب اور خلاف ادب ہو۔
_الفاظ کا اپنا ایک محل اور اثر ہوتا ہے۔جس کی بنیاد پر ہر ایک کے مقام و مرتبے اور حیثیت عرفی کے مطابق الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔اس لیے جن لفظوں سے دوست کو پکارا جاتا ہے اُنہیں بھائی کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔جن لفظوں سے بچوں کو پکارتے ہیں وہ والد کے لیے استعمال نہیں کر سکتے۔یعنی دنیوی رشتے اور تعلقات نبھانے میں بھی “مناسب الفاظ” کا استعمال بے حد ضروری ہے ورنہ انسان بد اخلاق اور بدزبان کہلائے گا۔
جب عام انسانوں/رشتوں/تعلق داریوں میں “مناسب الفاظ” ضروری ہیں تو تاجدار مدینہ ﷺ کی مقدس ترین بارگاہ کا ادب واحترام کا خیال کس قدر ضروری ہوگا، لیکن شہرت بد کے حصول اور عقل آوارہ پر ضرورت سے زیادہ اعتماد نے بعض لوگوں کو یہاں تک پہنچا دیا کہ رسول کریم ﷺ کی شان اقدس میں “شدید نامناسب” جملوں کے استعمال کو بھی اتنا ہلکا گردانا جارہا ہے کہ خلاف ادب مان کر بھی اُنہیں “علیہم الرحمہ” کہہ کر رحمت ربی کا حق دار قرار دیا جارہا ہے۔
بارگاہ رسالت کے متعلق ایسی بے حسی بے ضمیری اور بے ایمانی کا مظاہرہ کرنے والوں نے شاید قرآن کی اس آیت پر غور نہیں کیا:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجۡہَرُوۡا لَہٗ بِالۡقَوۡلِ کَجَہۡرِ بَعۡضِکُمۡ لِبَعۡضٍ اَنۡ تَحۡبَطَ اَعۡمَالُکُمۡ وَاَنۡتُمۡ لَا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿سورہ حجرات ۲﴾
“اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔”
غور فرمائیں!
بارگاہ رسالت میں نامناسب الفاظ/انداز/لہجے کے استعمال پر اعمال برباد ہونے کی وعید سنائی جارہی ہے، لیکن مے خانہ سراواں کا ایک بادہ خوار کس قدر جسارت کے ساتھ کہتا ہے کہ بارگاہ رسالت میں “شدید نامناسب” حرکتیں کرکے بھی دیوبند کے عناصر اربعہ رحمت ربی کے حق دار ہیں۔ کاش اُسے احساس ہوتا کہ جس بارگاہ میں نامناسب لہجہ سلب ایمان کا سبب بن سکتا ہے اُس بارگاہ میں “شدید نامناسب” الفاظ کی شناعت اور قباحت کس قدر سخت ہوگی !!
عجیب بات ہے!
ایک طرف علماے دیوبند کی متنازعہ عبارات کو “شدید نامناسب” یعنی بارگاہ رسالت کے ادب کے خلاف بھی مانا جائے، پھر نہایت ڈھٹائی اور شقاوت کے ساتھ اُن عبارتوں کے قائلین کو “مومن وعالم اور علیہم الرحمہ” کہہ کر بارگاہ رسالت کے آداب کو ہلکا سمجھنے کی جسارت ناروا بھی کی جائے۔اُنہیں یاد رکھنا چاہیے کہ بے ادب کبھی فلاح نہیں پاتے، حضرت مولانا روم فرماتے ہیں:
از خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم ماند از فضلِ رب
“ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں اور بے ادب ہمیشہ خدا کے فضل سے محروم رہتا ہے۔” (مثنوی مولانا روم، دفتر دوم)
بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں “شدید نامناسب عبارات” کے استعمال کو کوئی بھی ذی شعور اور صاحبِ ایمان ادب کہنے کی جسارت نہیں کر سکتا یہ یقیناً بے ادبی ہے۔مولانا روم نے عمومی بے ادبوں کو فضل خدا سے محروم بتایا ہے۔جب عام بے ادب فضل خدا سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجاتا ہے تو جن لوگوں نے بارگاہ رسالت میں بے ادبی کا مظاہرہ کیا ہو ان کی محرومی کا کیا حال ہوگا؟
لیکن افسوس صد افسوس! زلف سراواں کے اسیر اُن محرومان بارگاہ خدا کو “علیہم الرحمہ” کہہ کر اپنی عاقبت کو داؤں پر لگا رہے ہیں۔
ہو سکے تو یہ کرلیں
عرصہ دراز سے سراوی مکتب فکر کے اہل علم وقلم دیوبندی عناصر اربعہ پر وارد شرعی حکم کو تبدیل/منسوخ کرانے کی جی توڑ کوشش کر رہے ہیں۔
شاید سراواں کے روشن خیال صوفیا، علماے دیوبند کو أقطاب امت میں شامل کرکے ان کا عرس منانے اور ان کی “خدمات جلیلہ” پر سیمینار وسمپوزیم کے خواہش مند ہیں اسی لیے ان کو “مومن، علماے دین اور علیہم الرحمہ” بنایا جارہا ہے تاکہ کل کو سراواں میں عرس نانوتوی وتھانوی منایا جائے تو کسی کو جائے اعتراض باقی نہ رہے۔خیر اپنے بزرگوں کے لیے کوششیں کرنا اُن کا آئینی حق ہے جس سے اُنہیں محروم نہیں کیا جاسکتا، ہاں اس مقام پر اہل سراواں کو دو باتوں پر توجہ دینا چاہیے؛
1۔جب خانقاہ سراواں کے غیر اعلانیہ ترجمان (अघोषित प्रवक्ता) عناصر اربعہ کی عبارات کو “شدید نامناسب” تسلیم کر ہی چکے ہیں تو وہ اپنے مذکورہ نظریہ پر دیوبندی مکتب فکر سے تصدیق بھی کرالیں۔
حالاں کہ مذکورہ عبارات “شدید نامناسب” نہیں بلکہ “شدید گستاخانہ” ہیں۔شدید نامناسب کی ٹکڑا اس لیے پکڑا ہے تاکہ اہل سنت کو فریب دہی میں آسانی ہو۔پھر بھی اگر سراوی حضرات طبقہ دیابنہ سے ان عبارات کو “شدید نامناسب” ہی تسلیم کرالیں تو ہوسکتا ہے اپنے ہم مزاجوں/ہم خیالوں کے سمجھانے سے ان پر بھی مذکورہ عبارات کی شناعت وقباحت ظاہر ہوجائے اور وہ بھی ایسی خلاف ادب تحریرات کے دفاع سے تائب ہوجائیں۔
2۔جب طبقہ سراواں متنازعہ عبارات کو “شدید نامناسب” مان چکا ہے تو صدق دل کے ساتھ اس بات پر غور کریں کہ جب وہ اپنے ممدوح اعظم صوفی احسان اللہ کے بارے میں نامناسب جملہ سننے کے روادار نہیں ہیں۔تو آخر ان کی غیرت نبی آخر الزماں ﷺ کی بارگاہ میں “شدید نامناسب” جملے لکھنے والوں کو کس طرح اپنا بزرگ اور ولی ماننے پر تیار ہوجاتی ہے؟ کیا اہل سراواں کو پیغمبر اسلام ﷺ کی بارگاہ سے اتنا بھی لگاؤ نہیں جتنا وہ اپنے پیر مغاں سے رکھتے ہیں؟
صوفی احسان اللہ پر ذرا سی تنقید سنتے ہی جاروب کشان سراواں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور رسول ہاشمی علیہ السلام کی بارگاہ اقدس کی بے ادبی پر در گزر اور نظر اندازی کا مشورہ دیتے ہیں۔
آخر اس بے حسی کو کیا نام دیا جائے؟ عرصہ ہوا شیخ سراواں کی جانب سے حسام الحرمین کی تصدیق وتائید منظر عام پر آچکی ہے لیکن کچھ وقت پہلے مذکورہ اَگَھوشِت پِرْوَکتَا نے اس تحریر کو سیاسی اسٹریٹجی اور “صلح حدیبیہ جدید” قرار دیا تھا، جس کی تردید ذمہ داران خانقاہ نے آج تک نہیں کی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خانقاہ کا موقف ہاتھی دانت کی طرح ہے۔
اب جب کہ ان کے غیر اعلانیہ ترجمان اور سرخیل جاروب کش کے نظریات کافی حد تک کھل کر سامنے چکے ہیں تو ذمہ داران خانقاہ وہابیہ کے تعلق سے اپنا موقف کھل کر ظاہر کریں تاکہ سادہ لوح سنی مسلمان ان سے اپنی اور اپنے عقیدے کی حفاظت کر سکیں۔
Pingback: ناموس رسالت اور فکر سرواں ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی