پولیس کی پابندی کے باوجود بابری مسجد کی شہادت کی 31 ویں برسی پر جنتر منتر پر ریلی

Spread the love

پولیس کی پابندی کے باوجود بابری مسجد کی شہادت کی 31 ویں برسی پر جنتر منتر پر ریلی

عین موقع پر پولس کا حکم امتناعی، بڑی تعداد میں فورس کے ذریعہ احتجاجیوں کو کیا منتشر

نئی دہلی (محمد علم اللہ)

دہلی کے جنتر منتر پر ملک کی متعدد تنظیموں نے سول سوسائٹی اور سماجی کارکنان کے ساتھ بابری مسجد کی شہادت کی مناسبت سے اکتیسویں برسی پر ایک احتجاجی پروگرام کا انعقاد کیا۔ حالانکہ عین موقع پر پولس فورس نے پروگرام کے انعقاد سے منع کر دیا اور بڑی تعداد میں پولس اور فورس کے جوانوں نے لوگوں کو تتر بتر کر دیا۔

اطلاعات کے مطابق پولس نے ایک دن پہلے اجازت دے دی تھی لیکن آج بارہ بجے پروگرام کا انعقاد کرنے والوں کو تھانہ بلایا اور بتایا کہ اوپر سے منع ہو گیا اس لیے کسی بھی قسم کے پروگرام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ پولس کے امتناع کے بعد بھی سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جنتر منتر پر جمع ہو گئے تھے۔

اس موقع پر احتجاجیوں نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جبکہ حق و انصاف کے لیے نعرے بھی لگا رہے تھے۔

ابھی پروگرام اچھی طرح شروع بھی نہیں ہوا تھا کہ پولس کی نفری پہنچ گئی اور انھوں نے کسی بھی قسم کے پروگرام کے انعقادسے منع کر دیا۔ یہاں تک کہ میڈیا سے بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی۔

اس موقع پر سماجی کارکنان نے اپنے غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔

اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے صدر ڈاکٹر قاسم رسول الیاس جو اس پروگرام کے انعقاد کرنے والوں میں سے ایک تھے نے کہا کہ یہ ہمارا جمہوری حق ہے کہ ہم ظلم و نا انصافی کے خلاف آواز اٹھائیں

لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت ہماری آواز کو بھی کچل دینا چاہتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ 30 سال سے یہ پروگرام منعقد کرتے آ رہے ہیں جب 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد شہید کر دی گئی تھی۔ انھوں نے مزید کہا کہ گرچہ حکومت ہماری آواز کو دبا دینا چاہتی ہے لیکن ہم اپنا پر احتجاج جاری رکھیں گے۔

تقریبا دو درجن تنظیموں نے اس احتجاج کی کال دی تھی جس میں بطور خاص لوک راج سنگٹھن، جماعت اسلامی ہند، ہندوستان کی کمیونسٹ غدر پارٹی، دی سکھ فورم، کسان مزدور مہاسبھا، مزدور ایکتا کمیٹی، ویفیئر پارٹی آف انڈیا، یونائٹیڈ مسلم فرنٹ، سٹیزنس فار ڈیوموکریسی، استوڈنٹ اسلامک آرکنائزیشن آف انڈیا، پورو گامی مہیلا سنگٹھن، ہند نوجوان ایکتا سبھا، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا، لوک پکچھ، وومن انڈیا موومنٹ، فرٹرنیٹی موومنٹ آف انڈیا، سی پی آئی ایم ایل نیو پرولیتیرین شامل ہیں۔

بتا دیں کہ اترپردیش کے ایودھیا میں 16 ویں صدی کی بابری مسجد کو 6 ڈسمبر 1992 ء کو منہدم کردیا تھا۔

اس واقعے کے بعد، ایودھیا میں مقیم مسلم کمیونٹی پر بڑے پیمانے پر حملوں کے ذریعے ان کے جان و املاک کو نقصان ہنچایا گیا تھا۔

آج اس مقام پر موجودہ مرکزی حکومت نے عدالت سے فیصلہ حاصل ہونے کے بعد بڑی رام مندر تعمیر کرلی ہے جس کا آئندہ ماہ افتتاح مقرر ہے۔ 9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ آف انڈیا نے ایودھیا تنازعہ پر متفقہ فیصلہ سنایا، جس کے مطابق مسجد کی جگہ مندر کو دے دی گئی جبکہ مسجد سے کافی دور مسلم کمیونٹی کو پانچ ایکڑ زمین دینے کا حکم دیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *