اپنے خونی بھائیوں تک رب کا پیغام پہنچانے کا سب سے آسان اور موثر طریقہ

Spread the love

اپنے خونی بھائیوں تک رب کا پیغام پہنچانے کا سب سے آسان اور موثر طریقہ

مشن تقویتِ امت قسط 33

داعی کو سب سے پہلے چار چیزیں اپنے د ل و دماغ میں بٹھالینی چاہیئں :

1 دعوت ہم فرض ہے کیوں کے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا ہے {سورۃ المائدۃ 67} یعنی ان پر تبلیغ فرض تھی تو مجھ پر بھی تبلیغ فرض ہے اور میں اسی فریضے کو انجام دینے جارہا ہوں ، اور قیامت کے دن مجھ سے اس بابت سوال بھی ہوگا ، (سورۃ الاعراف6) جس طرح رسولوں سے پوچھا جائے گا۔

2 پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے لیکن منوانا ،اسلام قبول کروانا اور ہدایت دینا ہمارے بس میں نہیں یہ تو بس اسی کی توفیق ہے انك لا تهدي من احببت و لکن اللہ یھدی من یشاء “۔

3 ہندوستان کے تناظر میں اس بات کا بہت زیادہ خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں کوئی ہنگامہ نہ ہوجائے یا مدعو جھگڑا نہ شروع کردے اور اول فول نہ بکنے لگے تو یاد رکھیں کہ حضورﷺ کی طرح آپ کو بھی تسلی دی گئی ہے کہ {سورۃ المائدۃ 67} کہ اللہ لوگوں سے آپ کو بچائے گا اس لیے بے خوف و خطر اللہ اور رسول کا پیغام پہنچانے کے لیے نکلیں۔

دعوت کی شروعات کیسے کریں؟

4 ہمیں دعوت دیتے وقت ہر بات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے سامنے قرآن کی آیتیں طرز کے ساتھ پڑھنا ہے؛ کیوں کہ قرآن میں ایک غیر محسوس معجزاتی طاقت ہے جو سننے والے کے دل کو اپنی طرف مائل کرلیتی ہے کیوں کہ یہ خدا کا کلام ہے، اور کوشش کرنا ہے کہ اللہ کی عظمت اور بڑائی اس کے دل میں بٹھانے کی کوشش کی جائے کیوں کہ قرآن نے کہا ہے قم فأنذر و ربک فکبر

5 مدعو سے بحث بالکل نہیں کرنی ہے ؛ کیوں کہ بحث انسان کے دل کو سخت اور ضدی بنا دیتی ہے، بہت نرمی سے گفتگو کرتے ہوئے اس کو غور و فکر کی دعوت دینی ہے

جیسے اللہ نے موسی علیہ السلام کو ہدایت دیتے ہوئے کہا (سورہ طہ 44) کہ جب فرعون کے پاس دعوت لے کر جاو تو نرمی سے گفتگو کرنا تاکہ وہ نصیحت حاصل کرے اور ڈرے، سیاست وغیرہ کی بات کرے تو حکمت کے ساتھ ٹال دینا ہے۔

تعارف

سب سے پہلے اپنا تعارف کرائیں، بہتر یہ ہوگا کہ مدعو کا تعارف آپ کی نظرمیں پہلے سے ہو لیکن کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ ہم پہلی بار مل رہے ہوتے ہیں تو آپ ان سے تعارف پوچھ لیں تاکہ مدعو کے سرنیم {اس سے ان کی نفسیات کا پتہ چلتا ہے } سطح {ادنی ، متوسط اور اعلی} کو سامنے رکھ کر اس کے فیلڈ کے مناسب مثالیں پیش کرسکیں۔

پھر اپنے آنے کا مقصد بتانا ہے یہ کہتے ہوئے کہ آپ کے ذہن میں سوال ہوگا کہ ہم مسلم ہیں تو ہم کیوں آئے ہیں؟

میرا کام پڑھنے پڑھانے کا ہے{ مشغولیت }، ہم لوگوں سے ملتے ہیں، ان سے محبت بھائی چارے کی بات کرتے ہیں، تاکہ ہم ایک دوسرے کو سمجھ سکیں، کمیونیکیشن گیپ کی وجہ سے ہمارے بیچ میں یہ نفرتیں پیدا کی جارہی ہیں جس کو ختم کرنا ضروری ہے، اسی طرح کے اور بھی کچھ بہانے بنا سکتے ہیں ہم، مثلا کسی مندر میں گئے تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم لوگ گھومنے آئے ہیں گھوم سکتے ہیں؟

پھر کوشش کریں کہ ایسے دکھوں اور پریشانیوں پر بات کرسکیں جن سے آپ دونوں جھوجھ رہے ہوں کیوں کہ اس سے اپنائیت اور قربت میں اضافہ ہوتا ہے، اسی طرح مدعو کے دل کو نرم کرنے کے لیے چائے بھی پلاسکتے ہیں ۔
یہاں تک آپ نے تعارف ، سرنیم، آنے کا مقصد اور دکھوں کا اشتراک کرلیا اب اصل ٹاپک دعوت پر آنا ہے :

کامن گراؤنڈ ز اور مماثلتوں سے شروعات کریں :

کیوں کہ قرآن ہمیں یہی سکھاتا ہے قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ
ان سے کہنا ہے کہ کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہمارے بیچ دو سمانتائیں ہیں؟

پہلا یہ کہ ہم سب کا ایشور، ڈیزائنر اور پیدا کرنے والا سیم ہے ، دوسرا یہ کہ ہمارا ماں باپ ایک ہی ہے ، یعنی ہم سگے بھائی ہیں

اللہ قرآن میں کہتا ہے {سورۃ النساء ۱} اے لوگو  ۔ اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ائج جان سے پیدا کیا

 (سورۃ الحجرات 13) کہ اے منشیہ جاتی !ہم نے تمہیں ایک مرد ایک عورت سے پیدا کیا ، اب آپ غور کریں کہ ہمارے ہاتھ پیر سب ایک ہیں، ہماری ضرورتیں ایک ہیں

دو ہندو دو مسلمانوں کا خون ملا کر بیسٹ ڈاکٹر سے کہیے پہچاننے کے لیے تو وہ نہیں کرپائے گا

اس کا مطلب ہم ایک ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی سنتان ہیں، اسی طرح ہمارے پیدا ہونے کی پرکریا اور پراسیس ایک ہے، پھل سب کے لیے میٹھا ہے، سورج سب کو روشنی دیتا ہے وہ یہ تو نہیں کہتا کہ میں صرف ہندوؤں کو روشنی دوں گا یا صرف مسلمانوں کو ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم دونوں کا ڈیزائنر اور ایشور ایک ہے، اگر الگ ہوتا تو ہمیں الگ طریقے سے پیدا کرتا ۔ وہ بالکل کہے گا کہ ہمارا مالک ایک ہی ہے۔

اب آپ اس کو ایشور بولیں کہ اللہ یا خدا سب ایک ہے،آپ خود ہی دیکھہے نا کہ ہمیں پیاس لگی ہو تو ہم بہار یوپی میں پانی مانگتے ہیں، بنگال میں جل، اور کرناٹک میں نیرو اور انگلشمیں واٹر؛ تو لینگویج کے بدلنے سے شی نہیں بدلتی ہر ایک لینگویج میں وہ پانی ہی ہے

اسی طرح پیدا کرنے والے اور ڈیزائنر کو کچھ لوگ بھگوان کہتے ہیں کچھ اشور کچھ ساتھی خدا تو کچھ گوڈ اور مسلمان اللہ کہتے ہیں تو اس سے ہر ایک کا پیدا کرنے والا الگ الگ نہیں ہوا بلکہ سب لوگ اسی ایک اللہ کی پوجا کررہے ہیں بس لینگویج بدل گئی ہے باقی کچھ نہیں چیز بدلا ؟ نہیں کیوں کہ ہم گُن اور خصوصیت دیکھتے ہیں، ۔ (اور ہم نے ہر رسول کو اس کی قوم کی زبان کے ساتھ ہی بھیجا ۔ سورۃ ابراھیم 4)

ان تحریروں کوبھی پڑھیں

مشن تقویتِ امت کے زیر اہتمام ایک نئے نظامِ تعلیم کا خاکہ

زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں

اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کرنے، اضافہ اوربرقرار رکھنے کے پچیس طریقے

 نوجوانوں کی معاشی پریشانیوں کوکیسے دورکیا جائے؟

 مال کی محبت کیسےختم کی جائے؟

مال کی محبت پیدا کیوں ہوتی ہے؟

تبدیلی کی تین سطحیں 

منصب امامت اور عوام کے حالات

 اپنی نسلوں میں اجتماعی، دینی اور تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے گیارہ طریقے 

جدیدیت کی دی ہوئی ایپسٹمالوجی علما کے لیے سب بڑا چیلنج

اپنی زندگی کا مقصد اور گولز کیسے متعین کریں

 

انہیں اسمانتا اور ڈائیورسٹی کی وجہ بتانی ہے:

ان دو سمانتاوں کے ساتھ ساتھ ہمارے درمیان ڈائیورسٹی بھی ہے، تو ایشور ہمارے بیچ کی دو سمانتائیں بتانے کے بعد ڈائیورسٹی کو تیسرے نمبر پر لاتا ہے اور کہتا ہے وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ہمارے درمیان ڈائیورسٹی اس لیے بنائی ہے تاکہ ہم ایک دوسرے کو پہچان سکیں جیسے اگر سب کا نام آپ کے نام پر رکھ دیا جائے تو گاوں میں لوگ آپ کو کیسے پہچانیں گے؟

لیکن ہمارے درمیان کالے گورے کو لے کر، مراٹھی ہندی اور بنگلا کو لےکر اور بہاری یوپی کو لےکر جھگڑا ہورہا ہے حالاں کہ یہ ڈائیورسٹی ایشور نے تو صرف پہچان کے لیے بنائی تھی ، جب اس نے ہمارے لیے سرشٹی میں کوئی بھید بھاؤ نہیں رکھا تو ہمارے درمیان آپس میں بھی کوئی بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہیے، اسی کو دوسری مثال سے سمجھیے کہ آپ کے پاس کتنے بچے یا بھائی ہیں؟

وہ جو بھی جواب دے اس کے بعد پوچھنا ہے کیا سارے ایک جیسے ہیں ؟ نہیں، ان سب کے درمیان رنگ مزاج لمبائی جیسے کئی سارے اسمانتاوں کے باوجود ب سب بھائی بھائی ہیں کہ نہیں؟ کیوں کہ ان کے ماتا پتا ایک ہیں، پھر جیسے ہمارا خاندان پھیل جاتا ہے ویسے ہی ہم ایک ماں باپ سے پھیلتے چلے گئے اور اس طرح ہم سب{ ماتا ست روپا اورپتا ادیمانو }آدم اور حوا کی اولاد ہیں ، یہیں سے ان کی نفرت ختم یا کم ہو جائے گی۔

اب یہاں پر تین سوالات ہمارے دماغ میں آنے چاہئیں :

1 ہمارا مالک اور ڈیزائنر تو سیم ہے لیکن وہ مالک ہے کون؟ اگر وہ کہے کہ اوپر والا تو اوپر تو بہت کچھ ہے آسمان ، سورج اور چاند بہت ساری چیزیں ہیں ، صحیح طریقے پر معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مالک کون ہے؟

2 ہمیں کیوں پیدا اکیا گیا ؟ جس طرح لیپ ٹاپ، موبائل اور گھر بنانے کا ایک مقصد ہے، بنا مقصد کے کوئی چیز وجود میں نہیں آتی، وہ کہتا ہے  (سورۃ المومنون 115) کیا انسان یہ سمجھتا ہے کہ یونہی کھیل کود کے لئے پیدا کیا گیا اور اس کو ہمارے پاس لوٹ کر نہیں آنا ہے؟

3 ہماری لائف اور ڈیتھ کا کیا مقصد ہے؟ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق روزانہ ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار لوگ مررہے ہیں اور تین لاکھ سرسٹھ ہزار بچے پیدا ہورہے ہیں ، آخر اس موت اور زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کیا ہم میں سے کوئی ہے جو مرے گا نہیں ہمیشہ رہے گا ؟ نہیں

قرآن میں اللہ کہتا ہے :  (سورۃ الملک 2) کہ اس نے موت اور زندگی پیدا کی تاکہ وہ ہمارا ٹیسٹ اور اگزام لے سکے کہ کون پنیہ کے کام کرتا ہےاور کون نہیں کرتا، آپ خود ہی سوچیں کہ ہر کمپنی آڈٹ لیتی ہے، بازار بھیجنے پر بھی بچوں سے حساب لیا جاتا ہے؛ تو جب اس ایشور نے اتنی ساری نعمتوں سے نواز رکھا ہے، اولادیں عطا کی ہیں، پراپرٹی کا مالک بنایا ہے تو کیا وہ آڈٹ نہیں کرے گا ؟

کسی بھی امتحان کا دو مقصد ہوتا ہے یا تو پاس یا فیل، نیز ہر اگزام کا سلیبس اور نصاب ہوتا ہےجس کو پڑھنا ہوتا ہے امتحان میں پاس ہونےکے لیے، اور جو اگزام لیتا ہے وہی سلیبس ڈیزائن کرتا ہے؛لہذا جب اللہ نے موت اور زندگی کا مقصد ٹیسٹ بتایا تو اب اس ٹیسٹ میں پاس ہونے کے لیے کیا کرنا ہے اس کا سلیبس بتاتے ہوئے اللہ چار سبجیکٹ بتاتا ہے

جن کی تیاری کرنا ضروری ہے، وَالْعَصْرِ * إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر1-3) کہ تمام مانو جاتی الٹی میٹ لاس میں ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لاتے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں اور حق پر قائم رہنے کی اور صبر کرنے کی آپس میں وصیت کرتے رہے، یعنی جس طرح پہلی کلاس میں ایڈمیشن لینے والا بچہ بائی ڈیفالٹ فیل ہوتا ہے اس کو سال بھر محنت کرنی پڑتی ہے تاکہ وہ امتحان میں پاس ہوسکے ، اسی طرح یہاں اللّٰہ بائی ڈیفالٹ نیچر بتارہا ہے کہ ہر انسان بائی ڈیفالٹ فیل ہوتا ہے وہ محنت اس لیے کرتا ہے تاکہ وہ پاس کرے۔

اب کنڈیشن بتادیا ہے کہ پاس ہونے کے لیے چار چیزیں ضروری ہیں، پہلا ہےایمان، اس خالق نے صاف صاف کہا ہے کہ نرک کی اگنی اور فیل ہونے سے بچنا ہے تو چار چیزوں میں سے ایمان ہر حال میں کمپلسری سبجیکٹ ہے، یعنی جیسے مین سبجیکٹ میں فیل کرنے کے بعد آپشنل سبجیکٹ میں وہ کتنے ہی اچھے نمبرات لے کر آئے وہ فیل ہی مانا جائے گا اسی طرح بعد والے تینوں میں پاس ہونے کے باوجود پنیہ کے کام صحیح باتوں اور صبر کی تلقین کرنے کے باوجود اگر ایمان نہیں ہے تو وہ فیل ہی مانا جائے گا ۔

اب اس سے پوچھئے گا آپ کو پتہ ہے ایمان کیا ہے؟ دو جواب آسکتے ہیں:ایمان داری یا نہیں پتہ، اگر وہ ایمان داری کہے تو اس سے کہنا ہے کہ آپ کی بات ٹھیک ہے، ایمان داری ایمان کا بس ایک پارٹ ہے اصل ایمان کیا ہے وہ سمجھئے

پوچھنا ہے کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟پینتیس سال،وہ جتنی بھی عمر بتائے اس سے تھوڑا بڑھاکر دوسرا سوال پوچھنا ہے،چالیس سال پہلے کہاں تھے؟ سب لوگوں کا جواب ہوگا ہم نہیں تھے ،تیسرا سوال: دیکھو اگر آپ کا نانیہالی خاندان ہے بہت سے لوگ آپ کو پہنچانتے ہیں جانتے ہیں آپ کو دنیا میں پہچان ملی ہوئی ہے اگر آپ پیدا نہیں ہوئے ہوتے تو دنیا میں کوئی پہچانتا؟نہیں

چوتھا سوال: تو بھائی یہ پہچان آپ کو کس نے دی ہے؟ ممکنہ جواب: خدا یا ماں باپ ماں باپ: اگر تو جواب دینا ہے کہ اگر والدین ہی نے پیدا کیا ہے تو بہت سارے والدین ایسے ہیں کہ انکو چھ چھ بیٹے ہیں بیٹی کی لیے ترس رہے ہیں اور ہر مندر ہر مسجد ہر درگاہ جا رہے ہیں پر لڈکی نہیں ہوئ کچھ والدین ایسے ہیں کہ انکو چار چار لڑکیاں ہے پر لڈکے کےلۓ مولوی اور پنڈتوں کے پاس بھاگ رہے ہیں پر لڈکے نہیں ملے کئی والدین ایسے ہیں جو دونو صحت کے لحاظ سے با لکل صحیح ہیں اور گینک ڈاکٹر بھی ہیں پر کوئی اولاد ہی نہی ہےتو اس سے معلوم ہوا کہ والدین اونلی ریزن ہین نا کہ بھگوان جس نے پیدا کیا۔۔

ماں باپ صرف مادھیم اور ذریعہ ہیں سمجھ میں آیا ؟ جی ،اسی کو اللہ نے قرآن میں سمجھایا ہے کہ هَلْ اَتٰى عَلَى الْاِنْسَانِ حِیْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ یَكُنْ شَیْــٴًـا مَّذْكُوْرًا(1) اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَةٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْهِ فَجَعَلْنٰهُ سَمِیْعًۢا بَصِیْرًا(2)اِنَّا هَدَیْنٰهُ السَّبِیْلَ اِمَّا شَاكِرًا وَّ اِمَّا كَفُوْرًا(3) کہ انسان پہ ایسا وقت گزرچکا ہے جب اس کی کوئی پہچان نہیں تھی ، وہ تو قابل ذکر چیز بھی نہیں تھا ، ہم نے اس کو منگل ڈراپ mingle drop سے پیدا کیا اور پھر اس کو سننے اور دیکھنے والا بنایا اور پھر اس کو صحیح راستہ بھی بتادیا اب اس کی مرضی ہے کہ وہ شکر گزار مومن بن جائے یا نا شکرا کا فر بن جائے

پھر وہ ہم سے سوال کرتا ہے كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ بِاللّٰهِ وَ كُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْیَاكُمْۚ-ثُمَّ یُمِیْتُكُمْ ثُمَّ یُحْیِیْكُمْ ثُمَّ اِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ(سورہ بقرۃ 28) کہ تم اپنے رب کا انکار کیسے کرسکتے ہو حالاں کہ 1 جب تم نہیں تھے تمہارا وجود تھا ہی نہیں2 پھر اس نے زندگی دی ہمیں ایک زندگی ملی ہوئی ہے، 3 پھر تمہیں وہ موت دے گا، {ان تینوں کو کفار و مسلمان دونوں مانتے ہیں}4 تم دوبارہ جیویت کئے جاؤگے5 پھر تم اللہ کے پاس لوٹائے جاؤ گے

اب سمجھئے : ایمان کہتے ہیں کہ جس خدا نے ہمیں اس دنیا میں اور اس دھرتی پہ پہچان دی ہے اس خدا کو پہچاننا اور اس کی ماننا، اب خدا تو بہت ہیں مارکیٹ میں، ہم نے خدا کو تو دیکھا نہیں ہم کیسے جان لیں کہ کون ہے خدا،کیسے پہچانیں اس کو؟ کسی کمپنی میں کام کرنے والا ورکر جب تک مینیجر کو پہنچانے گا نہیں تو اس کی بات کیسے مانے گا، تواپنے آخری پیغمبر کے ذریعے اس نے خود اپنی پہچان کرائی ہے اور چار چیزیں اپنی پہچان کے لیے بتائی ہیں: قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ(1) وہ ایک ہے ۔

جس طرح ایک ملک میں دو پردھان منتری اور وزیر اعظم نہیں ہوسکتے اسی طرح وہ قرآن میں کہتا ہے لَوْ كَانَ فِیْهِمَاۤ اٰلِهَةٌ اِلَّا اللّٰهُ لَفَسَدَتَاۚ-(22) کہ اگر ایک سے زیادہ ایشور ہوتے تو زمین میں فساد مچ جاتا، اَللّٰهُ الصَّمَدُ(2)وہ آتم نربھر ہے وہ کسی چیز پر آشرت اور ڈیپینڈینٹ نہیں ، لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ(3)اس کی کوئی سنتان نہیں نہ وہ کسی کی سنتان ہے، اگر خدا کا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کا انش اس کے اندر ہوتا تو وہ بھی تو خدا ہوتا اس طرح انیک خدا ہوتے، اس کی تردید پہلے ہی جملے نے کردی کہ وہ ایک ہے، وَ لَمْ یَكُنْ لَّهٗ كُفُوًا اَحَدٌ(4) اور اس کے برابر کوئی نہیں اس کے جیسا کوئی نہیں لیس کمثلہ شئی، وہ اپنے گُن اور خصوصیات بتاتے ہوئے کہتا ہے اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لَا تَاْخُذُهٗ سِنَةٌ وَّ لَا نَوْمٌؕ (سورۃ البقرۃ 255) کہ اس کے سوا کوئی پوجے جانے کے لائق نہیں ، وہ ہمیشہ جیویت رہنے والا ہے اور تمام شرسٹی کو تھامے رکھا ہے،اسے اونگھ نہیں آتی هُوَ اللّٰهُ الَّذِیْ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۚ-عٰلِمُ الْغَیْبِ وَ الشَّهَادَةِۚ-هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْمُ(22)

اب اس کو سامنے رکھ کر اگر ہم غور کریں تو شری کرشن، رام، عیسی، محمد وغیرہ سب کھاتے تھے ، ان کے ماتا پتا اور آل اولاد بھی تھے، اس سے پتہ چلا کہ وہ خدا نہیں ہیں، ہم بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پوچا نہیں کرتے، اور اسی وجہ سے خدا کے نزدیک سب سے بڑا گناہ اور پاپ شرک ہے اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ(سورہ لقمان 13)، اور اللہ کہتا ہے اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُۚ- (سورۃ النساء 48)، کہ اللہ سارے پاپ معاف کرسکتا ہے لیکن شرک کو معاف نہیں کرتا ، اس کو ایک مثال سے سمجھئے کہ بیوی ہر وقت شوہر کی خدمت لگی رہتی ہے ، شوہر اس سے بہت خوش ہے، لیکن اگر شوہر کو پتہ چلے کہ اس کا کوئی افئیر چل رہا ہے تو اتنی خدمت کے باوجود اس کی ساری محبت ختم ہو جائے گی۔

اسی طرح وہ کہتا ہے کہ کھلا میں رہا پلا میں رہا ہوں تو تم دوسرے سے کیسے مانگ سکتے ہو، بل کہ وہ کہتا ہے تم میرے مقابلے میں مانگ کس سے رہے ہو وہ تو دیکھو اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(اعراف 194)کہ یہ تو تمہاری طرح انسان ہیں ، یہ کیسے معبود ہوسکتے ہیں؟ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ(73)اے مانو جاتی اللہ کو چھوڑ کر جن وستووں کی پوجا کرتے ہو وہ ایک مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتا بلکہ مکھی اس پر بیٹھ جائے وہ بھی نہیں بھگا سکتا تو وہ معبود کیسے ہوسکتا ہے؟ کیسے کائر ہیں پوجنے والے کہ ایسے کمزور وستو اور پتلے کو اپنا بھگوان بنائے ہوئے بیٹھے اور کتنا کمزور ہے وہ جس کی پوجا کی جارہی ہےکہ ایک کھر بھی اپنے سے نہیں ہلاسکتا، یقین جانیں کہ شرک کی غلاظت اس کے اندر سے نکل جائے گی ان شاء اللہ۔

ایشور کو پہچان تو گئے لیکن اب اس کی ماننا بھی ہے، اگر پہچاننے کے بعد ماننے سے انکار کردیں تو وہ باس نکال دے گا کمپنی سے مانیں گے، لیکن مانیں گے تب جب جانیں گے وہ چاہتا کیا ہے ہم سے، اس نے ہم کو وجود کیوں بخشا؟

تو ایشور کہتا ہے وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(سورۃ الذاریت56)،کہ ہم نے منشیہ اور جنات کو اپنی اپاسنا کے لیے پیدا کیا ہے، اپاسنا کا مطلب ہے ہماری چوبیس گھنٹے کی زندگی اس مالک کی مرضی کے مطابق اس کو راضی کرنے کے لیے ہونی چاہئے، پھر ان کو یہ بتانا ہے کہ ہمیں خدا نے حکم دیا ہے یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ(21)،وہ کہ رہا ہے اے مانو جاتی اپاسنا کرو اس مالک کی جس نے تم کو اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا، اسی طرح صرف میری اپاسنا کرو سورج اور چاند کی مت کرو، وَ مِنْ اٰیٰتِهِ الَّیْلُ وَ النَّهَارُ وَ الشَّمْسُ وَ الْقَمَرُؕ-لَا تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَ لَا لِلْقَمَرِ وَ اسْجُدُوْا لِلّٰهِ الَّذِیْ خَلَقَهُنَّ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(حم السجدہ 37)
وَ مَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَۙ-لَا بُرْهَانَ لَهٗ بِهٖۙ-فَاِنَّمَا حِسَابُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الْكٰفِرُوْنَ(117)یعنی جو اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارتا ہے،جس کی دلیل اس کے پاس نہیں پھر اس کا حساب تو اس مالک کے پاس ہوگا ، خدا کو چھوڑ کر وہ جس کو بھی پکارے وہ سب ناکام ہوں گے اور نرک کی اگنی میں جلیں گے.
اب ے بات اتی ہے کہ ہم اللہ کی کیوں مانیں ہماری زندگی ہے ہم جیسا چاہیں گزاریں

تواس کا جواب ے ہے کہ جب ہم شوروم سے گاڑی لیتے ہیں تو اسکے ساتھ کمپنی ایک بک لیٹ دیتا ہے اس میں لکھا ہوتا ہے کہ آپ اس گاڑی کو کیسے استعمال کریں اگر آپ اسکو پھاڑ کر پھینک دیں کہ میری گاڑی ے میں جیسے چاہوں چلاؤں میں کیوں رول کو فولو کروں اور پھر آپ گاڑی میں تیل کی جگہ پانی ڈال کر چلائے نا  تو کیا گاڑی چلے گی اے آپ موبائل سے سم نکال دیں اور بغیر سم کے چلاۓن تو کیا موبائل کام کرتا یا پھر آپ گاڑی سے ہوا نکال دیں کہ میری گاڑی ہے میری مرضی میں بغیر ہوا کہ ہی چلاۓن تو کیا گاڑی چلے گی ٹھیک اسی طرح اللہ اس دنیا کا خالق اور مالک ہے وہ جانتا ہے کہ انسان کے لیے  کیا فائدہ مند ہوگا اور کیا نقصان دہ ہوگا اسی لیے اللہ انسان کی اچھی زندگی کے لیے  پوتر قرآن نازل کیا کہ انسان اپنی زندگی اپنےلونچر کی طرح گزارے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم کو دوبارہ یہ زندگی کیوں مل رہی ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ایگزامینیشن سسٹم امتحان لیتے وقت ہی ریزلٹ نہیں آوٹ کرتا ہے بل کہ کچھ دنوں کے بعد دیتا ہے یا امتحان ختم ہونے کے فورا بعد دیتا ہے، اسی طرح ہماری آخری سانس تک ہمارا ٹیسٹ جاری رہتا ہے،پھر ایک دن قیامت آئے گی،یہ آسمان زمین سورج چاند اور ستارے سب کچھ تباہ کردئیے جائیں گے ، یہاں پر آپ قیامت کی ہولناکی، تباہی و بربادی کی تھوڑی سی جھلکیاں ان آیتوں کو پڑھ کر بتاسکتے ہیں تاکہ ان کے اندر خوف بیٹھے اور وہ شرک چھوڑدیں: إِذَا وَقَعَتِ الْوَاقِعَةُ 1 لَيْسَ لِوَقْعَتِهَا كَاذِبَةٌ 2 خَافِضَةٌ رَافِعَةٌ 3 إِذَا رُجَّتِ الْأَرْضُ رَجًّا 4 وَبُسَّتِ الْجِبَالُ بَسًّا 5 فَكَانَتْ هَبَاءً مُنْبَثًّا {سورۃ الواقعۃ}اسی طرح سورہ قیامۃ ، سورۃ الزلزال، کورت اور انفطرت کی آیتیں سناکر ان کا ترجمہ کریں۔

پھر ہمیں دوبارہ زندہ کیا جائے گا جسے آخرت اور پرلوک کی زندگی کہاجاتا ہے، اس کے بعد ریزلٹ ڈے شروع ہوگا ، ہمارے اچھے اور برے کاموں کا ریزلٹ دیا جائے گا ، کیوں کہ اگر ریزلٹ آؤٹ نہ کیا جائے تو امتحان کا مطلب کیا رہ جائے گا پھر، اگر ہم پاس کرگئے تو سورگ اور خدا سے قریب ہوں گے اور اگر ہم فیل کرگئے تو نرک ہمارا ٹھکانہ بنے گا

اس لیے حضرت محمد ﷺپر ایمان لانے کے بعد ضروری ہے کہ ہم آخرت پر بھی ایمان لائیں، ایشور بار بار اس رزلٹ ڈے کے بارے میں بتارہا ہے کہ مالک یوم الدین وہ فیصلے کے دن کا مالک ہے ان یوم الفصل کاں میقاتا فیصلے کا دن آکر رہے گا، اس دن جو پاس کرے گا اس کے لیے کیا انعامات ہوں گے فَاَمَّا مَنْ اُوْتِیَ كِتٰبَهٗ بِیَمِیْنِهٖۙ-فَیَقُوْلُ هَآؤُمُ اقْرَءُوْا كِتٰبِیَهْ(الحاقۃ 19)اِنِّیْ ظَنَنْتُ اَنِّیْ مُلٰقٍ حِسَابِیَهْ(20)، کیسے یوپی ایس سی پاس کرنے والا اپنا رزلٹ لوگوں کو دکھاتا پھرتا ہے 

فوٹو کھنچواتا ہےایسے ہی جس نے ایمان لاکر پنیہ کے کام کئے ہوں گے وہ پاس ہوکر دوسروں کو دکھاتا پھرے گا کہ میرا رزلٹ دیکھو، مجھے پتہ تھا کہ میرا رزلٹ آنے والا ہے اس لیے میں نے زندگی بھر تیاری کی ، إِنَّ الْأَبْرَارَ يَشْرَبُونَ مِن كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا (5)اس طرح کی آیتیں پڑھ کر سنائیں۔
ریزلٹ اگر بائیں ہاتھ میں ہوا تو وہ کہے گا وَأَمَّا مَنۡ أُوتِيَ كِتَٰبَهُۥ بِشِمَالِهِۦ فَيَقُولُ يَٰلَيۡتَنِي لَمۡ أُوتَ كِتَٰبِيَهۡ 25 وَلَمۡ أَدۡرِ مَا حِسَابِيَهۡ 26 يَٰلَيۡتَهَا كَانَتِ ٱلۡقَاضِيَةَ 27 مَآ أَغۡنَىٰ عَنِّي مَالِيَهۡۜ (الحاقۃ 28)، کاش مجھے نامہ اعمال دیا ہی نہ جاتا ، مجھے اپنے رزلٹ کا پتہ ہی نہ چلتا، سورہ ملک کی آیتیں وَلِلَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ (6) إِذَا أُلْقُوا فِيهَا سَمِعُوا لَهَا شَهِيقًا وَهِيَ تَفُورُ (7) تَكَادُ تَمَيَّزُ مِنَ الْغَيْظِ ۖ كُلَّمَا أُلْقِيَ فِيهَا فَوْجٌ سَأَلَهُمْ خَزَنَتُهَا أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَذِيرٌ (8) قَالُوا بَلَىٰ قَدْ جَاءَنَا نَذِيرٌ فَكَذَّبْنَا وَقُلْنَا مَا نَزَّلَ اللَّهُ مِن شَيْءٍ إِنْ أَنتُمْ إِلَّا فِي ضَلَالٍ كَبِيرٍ (9) وَقَالُوا لَوْ كُنَّا نَسْمَعُ أَوْ نَعْقِلُ مَا كُنَّا فِي أَصْحَابِ السَّعِيرِ (10) اور ان جہنم کانت مرصادا جیسی آیتیں اور ان کا ترجمہ پڑھ کر سنائیں

یہ سارا پیغام ہم نے خود سے نہیں دیا بل کہ ایشور نے اپنے ایش دوت اور پیغمبر کے ذریعے سے یہ سارے میسیجز بھجوائے ہیں ، لہذا جب تک پیغمبر کو نہیں مانیں گے خدا کو کیسے مان لیں گے، اسی لئے اللہ اپنے ایش دوت محمد سے کہتے ہیں ،قُلْ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعَا (اعراف 158) آپ کہئے کہ اے لوگو!بے شک میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بناکر بھیجا گیا ہوں، وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ (الانبیاء 107) میں پوری دنیا کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، اور میں اکیلا ایش دوت نہیں ہوں 

اس کے پہلے بھی بہت سے ایش دوت خدا نے بھیجے ہیں وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ(النحل 36) ہم نے ہر نیشن اور ہر کمیونٹی میں ایش دوت اور رشی منیوں کو بھیجا ہے اور سب کا پیغام ایک ہی تھا کہ ایک ایشور کی عبادت کرو، لیکن اس آخری ایش دوت کو ایشور نے قرآن دے کر بھیجا ہے جو سنسار میں صحیح طریقے سے بنا بھید بھاؤ کے جینے کا قانون بتاتا ہے؛ کیوں کہ ایک سماج بنانے کے لیے رولز اینڈ ریگولیشن بنانا ضروری ہے

دیگر انبیاء پر بھی کتابیں نازل ہوئیں جو بعد میں کرپٹ ہوگئیں لیکن قرآن کی حفاظت کا ذمہ اس نے خود لیا ہے، اور پرانی تمام کتابوں میں بگاڑآنے کے باوجود آخری ایش دوت کی کئی علامتیں ان کتابوں میں موجود ہیں، اللہ کہتا ہے اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَعْرِفُوْنَهٗ كَمَا یَعْرِفُوْنَ اَبْنَآءَهُمْؕ-وَ اِنَّ فَرِیْقًا مِّنْهُمْ لَیَكْتُمُوْنَ الْحَقَّ وَ هُمْ یَعْلَمُوْنَ(146) ، کہ پرانی کتابوں کو اچھے سے پڑھنے والے لوگ آخری ایش دوت کو اپنے بیٹے کی طرح جانتے ہیں لیکن وہ جان بوجھ کر چھپاتے ہیں۔

اس آخری ایش دوت نے کہا ہے من قال لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ تو آپ بھی اس آخری ایش دوت کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے میرے ساتھ کلمہ پڑھیں
جو اس بات کی گواہی دل سے دے گا وہی جنت میں جائے گا
ایمان قبول کرنے کے بعد
ایمان لانے کے بعد ان کو پاکی کا طریقہ بتلانا ہے اور کہنا ہے کہ آپ اپنے کام میں رہئے مگر بس شرک مت کیجئے، خفیہ کبھی کبھی نماز پڑھ لیجئے، سو مرتبہ یا ھادی یا رحیم پڑھتے رہئے، ان شاء اللہ آگے کی منزلیں بھی آسان کردے گا۔

نوٹ: اس مضمون کو تیار کرنے میں انجینئیر رحمت اللہ صاحب، مفتی مہتاب قاسمی صاحب، اوردیگر فیلڈ ورک کرنے والے احباب کی کی معاونت لی گئی ہے

قیام الدین قاسمی سیتامڑھی خادم مشن تقویتِ امت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *