شہادت بابری مسجد ہمارے لیے عبرت انگیز

Spread the love

شہادت بابری مسجد ہمارے لیے عبرت انگیز

مولانا محمد شمیم احمد نوری مصباحی

سہلاؤ شریف/باڑمیر (پریس ریلیز)

بابری مسجد کی شہادت اسلامی تاریخ کا ایک اندوہناک باب اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ناقابل فراموش سانحہ ہے۔ 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں ہندو انتہا پسندوں نے قانون و انصاف کو پامال کرتے ہوئے اس تاریخی مسجد کو شہید کر دیا۔ یہ واقعہ صرف ایک مذہبی عمارت کا انہدام نہیں تھا بلکہ یہ مسلمانوں کی دینی، ثقافتی اور تاریخی شناخت پر براہ راست حملہ تھا۔ اس سانحے نے نہ صرف ہندوستان کی جمہوری اور سیکولر بنیادوں کو کمزور کیا بلکہ عالمی سطح پر امت مسلمہ کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار رہنے کی اہمیت اجاگر کی۔معروف عالم دین و قلم کار اور ادیب شہیر حضرت مولانا محمد شمیم احمد نوری مصباحی نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بابری مسجد کا سانحہ ہمیں کئی گہرے سبق دیتا ہے۔

پہلا سبق یہ ہے کہ ہم اپنی دینی اور ثقافتی وراثت کی حفاظت کے لیے ہمیشہ چوکس رہیں۔ دوسرا یہ کہ اتحاد اور یکجہتی ہماری سب سے بڑی طاقت ہے اور اس کے بغیر ہم اپنی شناخت اور حقوق کا دفاع نہیں کر سکتے۔

تیسرا یہ کہ ہمیں اپنی نسلوں کو دین کی صحیح تعلیم اور تاریخی شعور سے روشناس کرانا ہوگا تاکہ وہ اپنے ورثے کی حفاظت کا عزم رکھیں۔

مولانا نے مزید کہا کہ یہ سانحہ ہمیں اس بات کا بھی احساس دلاتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا ہمارا دینی و اخلاقی فریضہ ہے۔ یہ ضروری ہے کہ انصاف کے قیام کے لیے صبر و استقامت کے ساتھ حکمت عملی اختیار کی جائے۔

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بابری مسجد کی شہادت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے ایک آزمائش تھی، جس نے ہمیں ماضی کی غلطیوں سے سبق لینے اور اپنے ایمان، اتحاد اور جدوجہد کو مضبوط کرنے کا پیغام دیا۔موجودہ حالات میں اہم سبق اور تجاویز:بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہمارے مقدسات اور دینی شعائر پر حملے کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

یہ ایک تشویشناک پہلو ہے، جو مسلمانوں کو مزید بیدار اور منظم ہونے کا درس دیتا ہے۔ اس ضمن میں درج ذیل اقدامات وقت کی ضرورت ہیں:1. قانونی شعور اور جدوجہد: مسلمانوں کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی طریقوں کا شعور ہونا چاہیے اور تمام مقدمات کو مضبوطی اور حکمت کے ساتھ لڑنا ہوگا۔2.تعلیمی بیداری: نئی نسل کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے تاریخی ورثے کی اہمیت سے بھی روشناس کرایا جائے تاکہ وہ اپنے مقدسات کی حفاظت کے لیے پرعزم ہوں۔3. مذہبی ہم آہنگی کا فروغ: دیگر مذاہب کے افراد کے ساتھ مثبت مکالمے اور ہم آہنگی کو فروغ دینا بھی ضروری ہے تاکہ معاشرتی تعلقات بہتر ہوں۔4. اتحاد اور یکجہتی: مسلمانوں کو اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرکے ایک مضبوط اور متحد امت کے طور پر کام کرنا ہوگا۔5. میڈیا کا مؤثر استعمال: جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی آواز کو مؤثر طریقے سے اٹھایا جائے تاکہ عالمی سطح پر بھی اپنی مشکلات اجاگر کی جا سکیں۔مولانا نوری نے آخر میں کہا کہ بابری مسجد کا سانحہ ایک لمحۂ فکریہ ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے ظلم و ناانصافی کے خلاف متحد ہو کر کھڑے ہوں۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق لے کر مستقبل میں اپنے دینی، ثقافتی اور تاریخی ورثے کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *