عبادت گاہوں کے تقدس کو بچانا بھی ضروری ہے
عبادت گاہوں کے تقدس کو بچانا بھی ضروری ہے
تحریر : محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
شاہی جامع مسجد سنبھل: عبادت گاہوں کے تقدس کو بچانا بھی ضروری ہے ! آج کے اس پرفتن،پرآشوب ماحول اور کینہ پرور دور میں ہندوستان کی حالت پر ایک سر سری نگاہ ڈالی جائے تو ایک طر فہ قانون، ایک طرفہ دستور اور ایک طرفہ آئین صرف مذہب اسلام یعنی مسلمانوںکے خلاف عمل میں لایا جا رہاہے اور مسلمانوں کی مقدس کتاب قرانِ مجید اور اس کے پیغامات کو نست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے ۔
اس سے بھی بڑھ کر مساجد و معابد کومنہدم اور مسمار کرنے کی ناپاک سازشیں کی جا رہی ہے گویا یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنے کا کو ئی بھی حق ہی نہیں ہے حالانکہ دفعہ ۲۵ کے تحت ہر مذہب کے ماننے والوںکو اپنے مذہب کے مطابق عبادت و ریاضت کرنے کا حق ہے او رانہیں اپنے عبادت گاہوں کی حفاظت کرنے کا بھی حق حاصل ہے ۔
۱۹۹۱ عبادت گاہ ایکٹ میں صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ ۱۹۵۷ کے بعد کسی بھی مسجد یا مندر کو گرانے اور منہدم کر نے کا حق کسی کو نہیں اور اگر ایسا کوئی کرتاہے تو اسے قانوں سزا دیگی مگر حکوتِ ہند کیا کررہی ہے یہ سب کے سامنے ہے ۔
فرقہ ورانہ فساد او رکشیدگی کی تازہ ترین مثال شاہی جامع مسجد سنبھل کا ہے جو ایک کھلی کتاب کی طرح ہے اور یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے ۔ کچھ دنوں پہلے بہرئچ میں مسلمانوں کے گھروں کو بے دردی کے ساتھ سپرد خالک کر دیا گیا۔
دور حاضرمیں جو حالت ہندوستان کی ہے وہ ناقابل دید ہے کیوں کہ یہاں دستور او رقانون کی دھجیا اڑائی جارہی ہے۔ سپرم کورٹ سے لیکر ہائی کورٹ تک کوئی فیصلہ مسلمانوں کے حق میں ہو ہی نہیں رہاہے بس ایک طرفہ قانون کا ایک حسین منظر دیکھنے کو مل رہاہے ۔
جس ملک میں تمام مذاہب کو برابر کا حق ملنا چاہیے تھا اور سب کو ایک نگاہ سے دیکھا جانا چاہئے تھا وہیں آج مذہب کے نام پر مسلمانوں کو تعصب بھری نگاہ سے دیکھا جارہاہے ،مذہب اسلام کے ماننے والوں کی عبادت گاہوں کا مذاق بنایا جارہاہے او ران کی عبادت گاہوںکو یعنی مساجد کو مندر کے نام پر مسمار کیا جارہاہے ۔
ملکِ ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف جاری موجودہ حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل صاف صاف دکھائی دیتی ہے کہ ایک منظم سازش کے تحت ان کے مقدس مقامات کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ عدالتوں میں مسلسل ایسی درخواستیں دی جارہی ہیں جن میں مختلف مساجد کے نیچے مندروں کے ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ عدالتیں ان درخواستوں کو فوری سماعت کے لیے منظور کر رہی ہیں اور فیصلے بھی تیزی سے صادر کیے جا رہے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک کے سامنے یہی سب سے بڑا مسئلہ ہے، جبکہ سماج کو درپیش حقیقی مسائل کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔سنبھل اور اجمیر کے معاملات نے عدلیہ کے شفاف کردار پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ بابری مسجد کے متنازع فیصلے نے پہلے ہی مسلمانوں کے عدلیہ پر اعتماد کو متزلزل کر دیا تھا
لیکن اس کے باوجود بھارتی مسلمان عدلیہ کے فیصلوں کو تسلیم کرتے آئے ہیں اور اپنے قانونی حقوق کے تحفظ کے لیے عدالتوں سے رجوع کرتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس، انہیں انصاف دینے کے بجائے، تاریخ پر تاریخ کا سامنا کرنا پڑتا ہے یا فیصلے ان کے خلاف صادر کیے جاتے ہیں۔ یہ رویہ انصاف کے تقاضوں کو مجروح کرتا ہے اور اقلیتوں میں مایوسی کو بڑھاوا دیتا ہے۔
یہی نہیں، جب مسلمان اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے ہیں، احتجاج یا مظاہرے کرتے ہیں تو ان پر گولیاں چلائی جاتی ہے، ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے، اور ان کے مظاہروں کو غیر قانونی قرار دے کر طاقت کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جب وہ سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی فریاد لے کر جاتے ہیں تو انہیں یہ کہہ کر دھتکار دیا جاتا ہے کہ وہ انہیں ووٹ نہیں دیتے۔ ایسے میں مسلمانوں کی اپنی جماعتیں اور تنظیمیں بھی اکثر خاموش رہتی ہے یا بعض اوقات ظالموں کی حمایت کرتی نظر آتی ہے۔آج ہندوستانی مسلمانوں کے سامنے سوال یہ ہے کہ وہ آخر کریں کیا؟۔
وہ اپنے حقوق کے لیے کہاں جائیں اور کس سے انصاف طلب کریں؟ ان کی اپنی صفوں میں بھی اتحاد کا فقدان ہے، اور جب تک وہ متحد ہو کر مضبوط حکمت عملی اختیار نہیں کریں گے، ان کے مسائل کا حل مشکل نظر آتا ہے۔
اس صورتحال میں مسلمانوں کو خود احتسابی کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنے اندر اتحاد پیدا کرنا ہوگا اور ایک متفقہ پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھانا ہوگا۔ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ان کے مسائل کا حل صرف خدا پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات میں ہے۔ انہیں اپنی سیاسی، سماجی اور تعلیمی پوزیشن کو مضبوط کرنا ہوگا اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے مسلسل جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہ وقت خاموشی کا نہیں بلکہ بیداری کا ہے،
کیونکہ جو قوم خود اپنی حالت بدلنے کی کوشش نہیں کرتی، تاریخ اسے ہمیشہ کے لیے فراموش کر دیتی ہے۔ موجودہ حالات پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ نفرت اور انتشار کا ماحول دانستہ طور پر پیدا کیا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کے لیڈران حکومت پر الزام عائد کر رہے ہیں کہ وہ نفرت کو ہوا دے رہی ہے اور ملک کی سا لمیت کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
حکومتی وزراء کی اشتعال انگیزی اور عدالتوں کے آئین و قانون کے ساتھ کھلواڑ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ یہ تمام الزامات درست معلوم ہوتے ہیں، لیکن ان حالات سے حیرت یا مایوسی کی گنجائش کم ہے۔آپ کے ذہن میںیہ بھی ہونا لازمی ہے کہ ازل سے خیر و شر کا معرکہ جاری ہے اور قیامت تک رہے گا۔ ہر ایک کو اپنے کردار کی انجام دہی کرنی ہے، اور ظالموں کا کردار بھی ان کے نصیب میں لکھا جا چکا ہے۔
میں حکومت سے یہ پوچھنا چاہتا ہون کہ آخرکیوں آخر قوم مسلم کو تعصب بھری نگاہ سے دیکھا جارہاہے ؟
کیوں حقارت و ذلت بھری انداز میں مسلمانوں کودیکھا جارہاہے ؟ کیا اس ہندوستان کی سرزمین پر جہان ہر قسم کی لوگ آباد ہیں وہاں یہ ملت اسلامیہ کے پیروکا ر نہیں رہ سکتے ہیں ؟
جس طرح مختلف مذاہب کے لوگ اپنی پنی عبادت گاہوں میں محو عبادت ہوتے ہیں کیا اس طرح مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں عبادت نہیں کرسکتے ہیں؟
کیوں بقیہ تمام مذاہب کے درمیا ن کسی بھی قسم کا کوئی بھی تفریق نہیں سوائے کہ مسلمانوں کے ؟
فقط مسلمانوں ہی کے ساتھ کیوں ہو رہا ہے ؟ ۔
جب کہ اس آزاد بھارت کا سنبھیدان سب کو اس آزاد ملک میں امن و آشتی کے ساتھ رہنے کا حق دیتاہے ۔کیاہم مسلمانوںنے اس ملک کو انگریزوں کے غلامی سے بچانے کے لیے اپناخون نہیں بہایا؟ یقینا متفرق مذاہب کے ماننے والوں نے جس طرح اس ملک کو انگریزوں کے غلامی سے بچانے کے لیے ان کے خلف جنگیں لڑی بالکل اسی طرح ہم مسلمانوں نے بھی اس ملک کو آزاد کرانے میں اہم کردار ادا کیے ہیں ۔
اس صورتحال میں حکومت کے نمائندے، سنگھ پریوار کے شدت پسند رہنما، اور دیگر نفرت انگیز عناصر ملک کے اتحاد کو نقصان پہنچانے کے لیے سرگرم ہیں۔ اس نفرت انگیزی میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ کچھ مذہبی رہنما بھی شامل ہیں، جو اپنے بیانات سے نفرت کی آگ کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ ان کے بیانات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ خود خون ریزی اور خانہ جنگی کی خواہش رکھتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کی زبانوں پر کوئی لرزش نہیں، ان کے دلوں میں کوئی خوف نہیں، اور وہ اپنی اکثریت اور طاقت کے نشے میں انسانیت کے اصولوں کو فراموش کر چکے ہیں۔یہ طاقت اور اکثریت کا غرور انہیں یہ بھلا بیٹھا ہے کہ دنیا میں صرف ظاہری وسائل اور طاقت کا حکم نہیں چلتا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب آسمانی فیصلے ہوتے ہیں تو بڑے سے بڑے طاقتور بھی شکست سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ہزاروں سالہ سلطنتیں معمولی تحریکوں کے سامنے بکھر جاتی ہیں۔
برٹش سامراج کا سورج جسے کبھی نہ غروب ہونے والا کہا جاتا تھا، خدا کے فیصلے کے سامنے ماند پڑ گیا۔ سپر پاورز کے زوال اور نہتوں کی کام یابیاں یہی بتاتی ہے کہ زمین پر طاقت کا کھیل عارضی ہے، لیکن خدا کی عدالت ابدی اور برحق ہے۔
مسلمانوں کے رہنماؤں اور عوام کو ان حالات میں جذبات سے پرہیز کرنا ہوگا۔ نفرت کے ماحول میں مزید جذباتی بیانات اور اقدامات آگ میں گھی ڈالنے کے مترادف ہوں گے۔ ہمیں اپنے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں سے یہ امید رکھنی چاہئے کہ وہ ملک کی سا لمیت کو بچانے کی فکر کریں گے اور نفرت انگیزی کے خلاف متحد ہو کر عملی اقدامات کریں گے۔
ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو تقسیم کرنے کے بجائے ان میں بھائی چارہ اور اتحاد کو فروغ دیا جائے۔اس وقت ملک کو ضرورت ہے کہ تمام مذاہب اور طبقات کے رہنما اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ایسی حکمت عملی اپنائیں جو ملک کے امن و امان کو برقرار رکھ سکے۔ ہمیں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ نفرت اور انتشار کا جواب عقل مندی، صبر، اور حکمت سے دینا ہی سب سے بہتر راستہ ہے۔
اگرچہ ظاہری حالات مایوس کن ہیں، لیکن ہمیں یہ یقین رکھنا ہوگا کہ خدا کی عدالت دیر سے آتی ہے مگر ضرور آتی ہے، اور وہی حق اور انصاف کا سب سے بڑا محافظ ہے۔
یہ سوال کہ آج کے حالات میں مسلمان کیا کریں؟، بہت اہم ہے۔ میری رائے میں مسلمانوں کو سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ کیا ہم حقیقی معنوں میں مسلمان ہیں؟، یا صرف ہمارے نام مسلمانوں جیسے ہیں؟ یہ جائزہ ہر ایک کو لینا ہوگا، چاہے وہ عام مسلمان ہو یا خاص، امیر ہو یا غریب، عالم ہو یا عوام۔ ہمیں اپنی زندگیوں پر غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم اسلام کے بنیادی اصولوں پر عمل پیرا ہیں یا نہیں؟۔
اسلام کی بنیاد توحید اور عقائد پر ہے، لیکن ہماری حالت یہ ہے کہ ہم خدا کے وجود کو فراموش کر چکے ہیں۔ مساجد جمعہ کے دن تو بھر جاتی ہیں، مگر باقی دن خالی رہتی ہیں۔ کیا یہ عملی طور پر خدا کے وجود کا انکار نہیں؟ مزارات پر سجدے، تعویذ و گنڈے، اور غیر اللہ کے نام کی نیازیں کیا شرک کی نشانیاں نہیں؟ ہمارے رویے، مسلکی تنازعات، اور فرقہ واریت خدا کی تعلیمات سے کتنی مطابقت رکھتے ہیں؟
ہمارا حال یہ ہے کہ قرآن کو سمجھ کر پڑھنے کے بجائے اسے محض زبانی پڑھنا ہی کافی سمجھا جاتا ہے، اور اس کی گہرائی میں جانے کو گمراہی قرار دیا جاتا ہے۔ہمارے اعمال، رسوم، اور روایات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات سے کوسوں دور ہیں۔ ہم اخلاقی طور پر اس قدر پستی میں گر چکے ہیں کہ ایمان اور آخرت کی فکر ہمارے دلوں سے نکل چکی ہے۔
ہماری قیادت کی حالت بھی یہی ہے۔ قیادت کی کرسی پر بیٹھے ہمارے علماء ا ور امراء عوام کے مسائل کے لیے آگے آنے کے بجائے آرام دہ دفاتر میں بیٹھ کر بیانات دیتے ہیں اور اجلاس منعقد کرتے ہیں ، مگر عملی جدوجہد کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔کہیں آپ نے دیکھا کہ آزادی کے بعد کسی عالمِ دین کی جان گئی ہو ؟این آر سی جیسے مسائل پر کئی مظاہرے ہوئے، مگر ان میں ہماری قیادت کہاں تھی؟ شاہی جامع مسجد سنبھل کے حالیہ تنازع میں عام مسلمانوں نے اپنی جانیں گنوائیں
لیکن ان شہداء میں کوئی رہنما شامل نہیں تھا۔ آزادی کے بعد کتنے رہنما مسلمانوں کے مسائل کے لیے جان دینے پر آمادہ ہوئے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہر قربانی عام مسلمانوں نے دی، اور ہماری قیادت صرف زبانی دعوے کرتی رہی۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری قیادت عوامی مسائل کے حل کے بجائے اپنی سہولتوں اور عیش و عشرت میں مصروف ہے۔ شہداء کے لیے چندہ جمع کرکے کچھ رقم تقسیم کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے، مگر کیا یہ رقم ان قیمتی جانوں کا بدل ہو سکتی ہے؟ہمیں اپنی قیادت کے طرز عمل کو سمجھنا ہوگا اور خود احتسابی کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ ایمان اور عمل صالح کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانا ہوگا۔
ہمیں اللہ کی نصرت کی امید رکھنی چاہیے، لیکن اس کے لیے پہلے خود کو اس کا اہل بنانا ہوگا۔ اگر ہم واقعی ’’خیر امت‘‘ بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہوگا اور اسلام کے حقیقی اصولوں پر عمل کرنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات ہندوستانی مسلمانوں کے لیے اللہ کی طرف سے ایک آزمائش یا تنبیہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم اللہ کی رحمت کے حقدار نہیں بنے۔ جب تک ہم خود کو اللہ کی رحمت اور فضل کے لائق نہیں بنائیں گے، حالات بہتر ہونے کے بجائے مزید خراب ہوتے رہیں گے۔ جس طرح ایک استاد اپنے نافرمان شاگرد کو انعام نہیں دیتا، والدین اپنی نافرمان اولاد کو عاق کردیتے ہیں، اور حکومت اپنے باغیوں کو سزا دیتی ہے، اسی طرح ہم اللہ کی نافرمانی کرتے ہوئے اس کی رحمت کے طلبگار کیسے ہوسکتے ہیں؟
اگر ہمیں ذلت اور رسوائی کے اس گڑھے سے نکلنا ہے، خاص طور پر اپنے وطن میں، تو سب سے پہلے اللہ کی رحمت کے مستحق بننا ہوگا۔ اس کے علاوہ کوئی اور راستہ کارگر نہیں ہوگا۔ بے شک ہم جتنے چاہیں احتجاج کریں، کتنے ہی بڑے اجتماعات منعقد کریں، قراردادیں پاس کریں، یا عدالتوں کے چکر لگائیں، ان تمام کوششوں سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ تبدیلی تبھی آئے گی جب ہم حقیقی مسلمان بن جائیں گے۔ ہمیں ملاؤں کی خود ساختہ تعلیمات کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل اسلام اپنانا ہوگا۔
قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ مانگنے کی عادت کو ترک کرکے دینے والا بننا ہوگا۔ ہمیں ’’خیر امت‘‘ہونے کا عملی ثبوت دینا ہوگا اور دعوت کے مشن کو اپنانا ہوگا۔ جب ہم اللہ کے اس راستے پر چلیں گے، تو یقیناً اللہ کی رحمت ہماری طرف متوجہ ہوگی اور ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ البتہ، یہ بھی ممکن ہے کہ اللہ ہمیں آزمانا چاہے۔
لیکن آزمائش عذاب نہیں ہوتی۔ آزمائش اللہ اپنے دوستوں کی لیتا ہے، جب کہ عذاب مجرموں کے لیے ہوتا ہے۔
اگر ہم اللہ کی رضا کے لیے مشکلات برداشت کریں اور اپنے ایمان کو مضبوط کریں، تو یہی ہمارے لیے دنیا اور آخرت میں کام یابی کی ضمانت ہوگی۔
لہٰذا، وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم خود کا محاسبہ کریں اور اپنی زندگیوں کو اسلام کے حقیقی اصولوں کے مطابق ڈھالیں۔
تحریر : محمد فداء المصطفیٰ گیاوی
رابطہ نمبر:9037099731
ڈگری اسکالر : جامعہ دارالہدی اسلامیہ ، ملاپورم ،کیرالا