ماڈرن تصوف کے چائنیزبرانڈ
ماڈرن تصوف کے چائنیزبرانڈ
غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی
پچھلے کچھ وقت سے تصوف کے نام پر ایک نیا ٹرینڈ دیکھنے میں آرہا ہے جس میں ایسے افراد بھی تصوف کے نمائندے ، حامی اور دوست بنا کر پیش کئے جارہے ہیں، جو عملاً تصوف سے اتنا ہی دور ہیں جتنا پورب سے پچھم، مگر کچھ مخصوص کاموں/نشانیوں کی بنیاد پر اُنہیں تصوف کا حامی و پیروکار بتانے کی ناروا کوششیں کی جارہی ہیں۔مذکورہ نشانیوں کی بنا پر انہیں اپنی محفلوں کی زینت بنایا جاتا ہے اور ان سے گہرے رسم وراہ نبھائے جارہے ہیں۔
صوفی ہونے کا نیا معیار
صوفیاے کرام کے مطابق تصوف نبی کریم ﷺ کی اطاعت اور پابندی شریعت کا نام ہے، جیسا کہ امام عبدالوہاب شعرانی فرماتے ہیں: التصوف إنما هو زبدة عمل العبد بأحكام الشريعة، (طبقات الکبریٰ:4) “تصوف کیا ہے؟ احکام شریعت پر بندے کے عمل کا خلاصہ ہے۔”
اما أبو عبداللہ محمد بن ضبی قدس سرہ تصوف کی تعریف اس طرح فرماتے ہیں:
التصوف تصفية القلوب واتباع النبي صلي الله عليه وسلم في الشريعة۔ (طبقات الکبریٰ 2/18)
“تصوف اس کا نام ہے کہ دل [گناہوں] سے صاف کیا جائے اور شریعت میں نبی کریم ﷺ کی پیروی کی جائے۔”
اب تک تصوف کا معیار یہی مانا جاتا تھا لیکن بدلتے وقت کے ساتھ کچھ لوگوں نے تصوف کی تعریف اور اس کے معیار بھی بدل ڈالے ہیں اب انہوں نے تصوف کے نام پر چند مخصوص کاموں اور نشانیوں کو معیار تصوف بنا لیا ہے۔انہیں کا سہارا لیکر ماڈرن تصوف کے نئے نئے چائنیز برانڈ مارکیٹ میں لانچ ہورہے ہیں۔
🔸 تصوف پر کسی کتاب کی تصنیف/لکچر/سیمینار/سمپوزیم کا انعقاد/شرکت۔
🔹مزارات پر حاضری/چادر وگاگر جیسی رسومات میں شرکت۔
🔸قوالیوں کا شوق/صوفی کلام اور صوفی موسیقی سے لگاؤ۔
🔹بظاہر وہابی نظریات سے اظہار علیحدگی اورضرورتاً ہلکی پھلکی تنقید۔
🔸صوفیانہ رواداری کے نام پر جملہ مذاہب سے اتحاد و یگانگت۔
🔹خیر سگالی کے نام پر شرکیہ تقاریب میں شرکت۔
🔸امن/انسانیت/بھائی چارگی کے نام پر دین اکبری جیسا مزاج ومنہج۔ اِنہیں یا اِن جیسی دیگر نشانیوں کی بنیاد پر ایسے افراد بھی تصوف کے نمائندے اور دوست کہلا رہے ہیں جن کی اپنی زندگیاں اسلام سے یکسر خالی ہیں۔آج کل یہ طبقہ تصوف کے نام پر ہر وہ کام کر رہا ہے جس کا تصوف میں تصور تک حرام ہے، مگر مادی منفعت اور ذاتی اغراض کی خاطر نہایت ڈھٹائی کے ساتھ تصوف کا بے جا استعمال کیا جارہا ہے۔
نیا تصوف، نئے نمونے
انسانیت نوازی اور خیر خواہی کے نام پر کچھ شاطر دماغوں نے تصوف کا بے جا استعمال شروع کیا۔فائدہ ملنے لگا تو بے جا استعمال بھی بڑھتا گیا نوبت بایں جا رسید کہ آج ہر دسواں بندہ تصوف کے نام پر ایک دکان کھولے بیٹھا ہے کہ کوئی آئے اور اس کا سودا خرید لے۔اس طبقے میں بھانت بھانت کے افراد شامل ہیں۔
🔸 ان میں کچھ افراد ایسے ہیں جو مذہب کو مانتے ہی نہیں۔ان کے نزدیک مذہب کوئی چیز نہیں ہے لیکن رواداری اور انسانیت جیسی اصطلاحات کی آڑ میں یہ لوگ بھی تصوف کے پیروکار مانے جارہے ہیں۔
🔹بعض افراد ایسے ہیں جو بظاہر مذہب کی تردید تو نہیں کرتے لیکن اُنہیں کفر وشرک سے کسی طرح کا پرہیز بھی نہیں ہوتا۔یہ لوگ علانیہ شرکیہ کاموں کا ارتکاب کرتے ہیں۔بت پرستی کی رسومات میں شرکت بھی کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ عرسوں میں چادر چڑھانے، مجاوروں سے ملاقات کرنے اور نیاز وفاتحہ میں شرکت جیسے کام بھی کرتے رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر تصوف دوست کہلاتے ہیں۔
🔸 ایسے لوگ بھی تصوف کے ہول سیل ڈیلر بنے گھوم رہے ہیں جن کی نہ تو شکل وصورت صوفیہ سے ملتی ہے اور نہ ہی ان کی وضع قطع اور حرکتیں کسی شریف انسان سے میل کھاتی ہیں۔غیر مسلموں کے ساتھ ہولی کھیلنا، دیوالی منانا،جنماشٹمی جیسے مواقع پر معبودان ہنود کی یوم ولادت منانا بھی ان کے تصوف کا حصہ ہے۔
🔸 اس گروہ میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو مکمل طور پر مغربی تہذیب کے دلدادہ ہوتے ہیں۔شراب وشباب کی بدمستیاں ہو کہ جنسی خرمستیاں، وہ لوگ نہایت کھلے پن کے ساتھ Western cultur کو فالو کرتے ہیں۔اسلامی احکام سے انہیں مطلب ہوتا ہے نہ سروکار! یہ طبقہ اپنی اس روش میں اتنا آزاد خیال ہے کہ اگر آپ انہیں اسلامی احکام بتانے کی کوشش کریں تو یہ آپ پر ہی دقیانوس اور تنگ نظر جیسی صلواتوں کے ساتھ حملہ آور ہو جاتے ہیں، لیکن تصوف پر دو چار مضامین/کتابوں/لکچر یا انٹرویو کی بنیاد پر یہ لوگ بھی حامیان تصوف شمار کیے جاتے ہیں۔
اس طرح مختلف طبقات کے یہ گروہ اپنی من مرضی کی زندگی اور اسلام بیزاری کے باوجود تصوف حامی اور صوفی منش بنے گھومتے ہیں اور بھولے بھالے سنی مسلمان تصوف کے نام پر ان کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں۔اگر یہ فکر عام مسلمانوں تک ہی محدود ہوتی تو اتنی تشویش نہ تھی افسوس اس بات کا ہے کہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ سنجیدہ حضرات سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی محض تصوف کے نام پر ایسے لوگوں کو زینت محفل بنانا تصوف کی
خدمت سمجھتے ہیں حالانکہ تصوف کے صاف وشفاف دامن میں ایسے کسی بھی بدنما داغ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
وارثین تصوف آگے آئیں
تصوف کا بنیادی سبق توکل اور خدا ترسی ہے۔جس کے پاس توکل اور خشیت نہیں وہ صوفی نہیں۔توکل صوفی کو بادشاہ بناتا ہے اور خشیت الٰہی اسے محبوب ومقبول بناتی ہے۔زمانے کے امیر وکبیر اس کے در پر سوالی بن کر آتے ہیں۔جو خود امیروں کے دروازوں پر کاسہ گدائی لیے پھرتا ہے وہ بھلے ہی کچھ ہو مگر سچا صوفی نہیں ہوسکتا۔
کیوں کہ تصوف غیرت مند اور خود دار بناتا ہے۔تصوف شاہی کا نام ہے گدائی کا نہیں! تصوف کے پیروکار آزاد خیال نہیں پابند شریعت ہوتے ہیں۔ان کی زندگیاں اسلاف کی زندگی کا آئینہ ہوتی ہیں نہ کہ ایسی کہ جنہیں دیکھ کر دنیا دار بھی طعنے کسیں۔
یہ بھی یاد رکھیں!
جب اصلی مجنوں خاموش ہو تو حلوہ خور مجنوؤں کا ہجوم لگ جاتا ہے بس ایسا ہی تصوف کے ساتھ ہورہا ہے، اصل وارثین تصوف خاموش ہیں اور حلوہ خوروں کی جماعت لمبے چوڑے دعوؤں کے ساتھ خود کو صوفی باور کرا رہی ہے ضرورت ہے کہ وارثین تصوف میدان عمل میں آئیں تاکہ حلوہ خور صوفیوں سے تصوف اور ملت کی حفاظت کی جاسکے۔
Pingback: اللہ کا شیر ⋆ اردو دنیا ⋆ تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: شدید نامناسب علیہم الرحمہ ⋆ اردو دنیا تحریر: غلام مصطفےٰ نعیمی
Pingback: لوگوں کی مدد ضرورکریں لیکن انہیں کیمرے کے سامنے ذلیل نہ کریں ⋆
Pingback: سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی