ارتداد کی طرف بڑھتے قدم
شمع فروزاں
ارتداد کی طرف بڑھتے قدم !
فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب
(جنرل سکریٹری: آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ و اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا)
ایمان کچھ حقیقتوں کو ماننے کا نام ہے، جن میں سب سے اہم اللہ پر، رسول پر، اللہ کی کتاب پر اور آخرت پر ایمان لانا ہے؛ لیکن رسول اللہ ﷺنے صرف ایمانیات ہی پر زور نہیں دیا؛ بلکہ عبادات، معاملات اور زندگی کے تمام شعبوں میں اپنی ہدایات سے سر فراز فرمایا اور پوری قوت اور تاکید کے ساتھ اُمتِ مسلمہ کو ان تعلیمات پر کار بند رہنے کی تلقین فرمائی؛ کیوں کہ کسی قوم کے لیے اپنے تشخص کو برقرار رکھنا صرف عقیدہ کے ذریعہ ممکن نہیں؛ بلکہ تہذیب و معاشرت کو بھی اس میں بڑا دخل ہے، ہندوستان میں کتنی ہی قومیں ہیں جو آج ہندوستان کا حصہ بن چکی ہیں
وہ اعتقادی اور نظریاتی اعتبار سے اپنا الگ وجود رکھتی ہیں؛ لیکن انھوں نے دوسری قوموں سے سماجی اور تہذیبی فاصلہ قائم نہیں رکھا، رہن سہن، لباس و پوشاک، خور د و نوش، شادی بیاہ، خوشی اور غم کی تقریبات وغیرہ میں انھوں نے اپنا رنگ برقرار نہیں رکھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آہستہ آہستہ انھوں نے اپنا تشخص کو کھو دیا اور آج ہندوستان ان کو اپنا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔
اس وقت پوری دنیا میں اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو ان کے مذہبی تشخص سے محروم کر دیا جائے؛ کیوں کہ جب کوئی قوم اپنی سماجی انفرادیت سے محروم ہو جاتی ہے، تو وہ آہستہ آہستہ دین و مذہب ہی سے اپنا رشتہ توڑ لیتی ہے اور اگر وہ کسی دوسرے مذہب کے دائرہ میں داخل نہ ہو، جب بھی الحاد و انکار کا راستہ اختیار کر لیتی ہے، یا کم سے کم وہ مذہب کے بارے میں غیر سنجیدہ رویہ اختیار کر لیتی ہے، غیر سنجیدہ رویہ سے مراد یہ ہے کہ مذہب سے اس کی کوئی ذہنی اور فکری وابستگی نہیں ہوتی
البتہ وہ اسے ایک خاندانی روایت سمجھ کر ڈھوتی رہتی ہے، مذہبی اقدار پر اس کا کوئی یقین نہیں ہوتا؛ البتہ خاندانی روایت کے تحت خاص خاص مذہبی تقریبات اور تہواروں میں اس کی شرکت ہو جاتی ہے اور گاہے گاہے کچھ عبادت کی توفیق میسر آجاتی ہے؛ لیکن حلال و حرام، معاملات، کسب ِمعاش اور سماجی زندگی میں مذہب کے لئے کوئی خانہ نہیں ہوتا، اسی کیفیت کو میں نے ’’ تہذیبی ارتداد‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔
یہ ارتداد دبے پاؤں آتا ہے، غیر محسوس طریقہ پر داخل ہوتا ہے اور ایسا میٹھا زہر بن کر حلق سے اتر تا ہے کہ زہر کھا کر بھی انسان تحسین و آفریں کے کلمات کہہ اُٹھتا ہے ، یہ ارتداد نہ سوئے ہوؤں کو جگاتا ہے ، نہ غافلوں کو متوجہ کرتا ہے ، نہ فکر مند دِلوں میں تلاطم پیدا کرتا ہے ، نہ قلب و ذہن کو جھنجھوڑتا ہے اور نہ اس کی وجہ سے سماج میں کوئی ہلچل پیدا ہوتی ہے ، یہ اس بیماری کی طرح ہے ، جو بظاہر ہلکی ہو
لیکن بتدریج انسان کو موت کی طرف لے جائے اور یہ ایسا نشہ ہے کہ مقتول خود قتل کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ، اس لئے اس ارتداد کو خوب سمجھنے ، اس کے اسباب پر نظر رکھنے اور اس کے نتائج و عواقب پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت پوری دنیا جو بنیادی طور پر یہودی دماغ اور یہودی منصوبہ بندی کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے اور اس کے اشارۂ چشم و ابرو پر رقصاں ہے ، اس بات کے لئے کوشاں ہے کہ اگر مسلمانوں کو کھلے عام مرتد نہیں کیا جاسکتا ، تو ان پر ایسی زبر دست تمدنی یلغار کردی جائے کہ وہ خوشی خوشی تہذیبی ارتداد کو قبول کر لیں اور اس مقصد کے لئے اتنے طاقتور حربے استعمال کئے جار ہے ہیں
بظاہر اس سے زیادہ دُور رس اور قوی و مؤثر کوئی اور ذریعہ نہیں ، ٹی وی نے اس رفتار کو بہت تیز کر دیا ہے اور ڈش انٹینا کی وجہ سے مسلمان اور مشرقی ملکوں میں ایسے فحش پروگرام کا ایک طوفان سا آگیا ہے کہ جن کا اسلام اور مسلم سماج میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، اب انٹرنیٹ نے اس تہذیبی یلغار کو مزید طاقتور بنا دیا ہے اور ایک ایسی چیز جو بہترین تعمیری اور تعلیمی مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتی تھی
وہی چیزیں انتہائی تخریبی اور غیر اخلاقی مہم جوئی کا آلۂ کار بنی ہوئی ہیں ، اب جو نئی معاشی اصلاحات کا عمل پوری دنیا میںجاری ہے اور ’’عالمیانے ‘‘ کی نئی اصطلاح شروع ہوئی ہے ، اس کے نتیجہ میں مغربی صحافت ، مغربی لٹریچر اور مغربی کمپنیوں کے وساطت سے مخرب اخلاق غذائی اور غیر غذائی اشیاء کی آمد کا ایک سیل بلا جاری و ساری ہے ۔
اس وقت اس منصوبہ کے نقوش مشرقی علاقوں میں اور مسلم ملکوں میں نہایت واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں ، ادھر چند سالوں میں عرب اور اسلامی ممالک میں خواتین کے لباس اس قدر تبدیل ہو گئے ہیں کہ امریکی و یورپی ملبوسات اور عرب خواتین کے ملبوسات میں کوئی فرق باقی نہیں رہا
بہت سے عرب اور مسلم ممالک وہ ہیں جہاں عوام تو کجا ، علما بھی داڑھی نہیں رکھتے ، ڈاڑھی جسے کسی زمانہ میں صلاح و تقویٰ اور شرافت و اعتماد کی علامت سمجھا جاتا تھا ، اب دہشت گردی اور شدت پسندی کی پہچان سمجھی جاتی ہے
مجھے ایک بار حج کے موقع سے مکہ مکرمہ میں ایک ہوٹل میں ٹھہرنے کا اتفاق ہوا ، جس کے استقبالیہ پر ایک دین دار ، خوش شکل ، مصری نوجوان لڑکا بیٹھا کرتا تھا اور اس کے چہرے پر داڑھی بہت بھلی محسوس ہوتی تھی۔
میں اکثر عشا کے بعد مسجد سے واپس ہوتے ہوئے دو چار منٹ اس کے پاس بیٹھ جاتا ، کبھی مذہب پر ، کبھی عربی زبان کے بارے میں اور کبھی مصر میں مسلمانوں کے حالات کے متعلق اس سے گفتگو ہوتی ، وہ بہت برجستہ اور بہت ہی بلیغ اور سہل عربی زبان میں گفتگو کرتا اور بہت ہی اخلاق و مروت سے پیش آتا ، اس لیے اس نوجوان سے گفتگو کرتے ہوئے لطف سا آتا تھا ، میں نے ایک دن کہا کہ مصر کے لوگ اکثر داڑھی نہیں رکھتے
لیکن تم نے جو یہ داڑھی رکھی ہے ، یہ بہت اچھی بات ہے ، اس سے تمہارے چہرے پر ایک نورانیت اور معصومیت سی معلوم ہوتی ہے ، میری یہ بات سن کر وہ افسردہ سا ہو گیا اور اس نے سنجیدہ ہو کر کہا کہ شیخ آپ سچ کہتے ہیں ، میں داڑھی رکھنا چاہتا ہوں
لیکن مصر میں داڑھی رکھنے میں بڑی مشکلات ہیں ، ہمارے یہاں داڑھی رکھنے والوں کو باضابطہ اپنا رجسٹریشن کرانا پڑتا ہے ، میں جب پہلی بار داڑھی رکھ کر اپنے وطن گیا تو مجھے سات آٹھ گھنٹہ ایر پورٹ پر تفتیش کے لیے روک لیا گیا اور میرے پورے اہل خاندان کو طلب کیا گیا ، جن میں میری ماں اور بہنیں بھی تھیں اور ان سے بھی کافی دیر تک تفتیش کی گئی ، اس کے بعد سے مجبوراً میں مصر جاتے ہوئے اپنی داڑھی صاف کرا لیتا ہوں اور واپسی کے بعد پھر داڑھی رکھ لیتا ہوں ۔
غور کیجیے ! کیسا غضب ہے کہ ایک مسلمان ملک میں مسلمانوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت نہ ہو ، کاش یہ اسرائیل ہی سے سبق حاصل کرتے جہاں یہودی مذہبی طبقے کے داڑھی رکھنے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ، جب مسلمان ملکوں میں بسنے والے مسلمانوں کا یہ حال ہے تو ان مسلمانوں کے بارے میں کیا کہا جائے ، جو مغربی ثقافت کی آغوش میں محو غفلت ہیں اوراسے دنیا ہی میں جنت تصور کرتے ہیں ۔
اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ مغربی ممالک نے عرب اور اسلامی ممالک اور مختلف علاقوں میں بسنے والے تارکین وطن مسلمانوں کے لئے نہایت فراخ دلی کے ساتھ اپنا دامن دل کھول رکھا ہے ، انھیں شہریت دی جاتی ہے ، انھیں ملازمت اور مزدوری کے مواقع ملتے ہیں ، اور انھیں اپنے ملکوں سے بڑھ کر شہری حقوق دے دیئے جاتے ہیں ، تارکین وطن خوش ہیں کہ انھیں پھلنے ، پھولنے اور آگے بڑھنے کے بھر پور مواقع ہاتھ آ رہے ہیں ؛ لیکن انھیں نہیں معلوم کہ وہ ان ممالک کے ہاتھوں اپنی اگلی نسلوں کا سودا کر رہے ہیں
چناں چہ لاکھوں عرب اور فلسطینی جو پچاس سال پہلے امریکہ گئے ، اب ان میں اپنے مسلمان ہونے کی پہچان بھی باقی نہیں رہی، مذہبی شعور رُخصت ہوا ، رہن سہن بدل گیا ، زندگی کے طور و طریق تبدیل ہو گئے ، یہاں تک کہ ان کے نام میں بھی مسلمانیت کی کوئی بو باقی نہیں رہ گئی ہے ؛ حالاں کہ ان کے آباء و اجداد راسخ العقیدہ مسلمان اور عرب تہذیب کے علمبردار بن کر یہاں آئے تھے
اگر آج ان گذری ہوئی روحوں کو دوسری زندگی دے دی جائے تو شاید ہی وہ خود اپنی نسل اور اپنی اولاد کو پہچان سکیں ، یہ ہے اس تہذیبی ارتداد کا اثر ، جو بتدریج افراد و اقوام کو فطری اور اعتقادی ارتداد کی طرف لے جاتا ہے !
اسی پس منظر میں رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جس نے کسی قوم کی مشابہت اورمماثلت اختیار کی ، وہ ان ہی میں سے ہو گیا ، اس روایت کو امام ابو داؤد نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ اور امام طبرانی ؒنے حضرت حذیفہ بن الیمان ؓ سے روایت کیا ہے اور علامہ سیوطیؒ نے اس حدیث کو ’’ حسن ‘‘ یعنی مقبول قرار دیا ہے ، (الجامع الصغیر، حدیث نمبر: ۸۵۹۳)
رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد میں عقیدۂ و ایمان میں غیر مسلموں سے مماثلت مراد نہیں ہے ؛ کیوں کہ جو شخص عقیدہ کے اعتبار سے غیر اسلامی فکر اختیار کرلے ، وہ تو پہلے ہی سے مسلمان نہیں ہے ، اس کے غیرمسلموں سے مشابہت اختیار کرنے کے کیا معنی ؟
لہٰذا اس حدیث میں عملی اور سماجی زندگی میں غیر مسلموں کے تشبہ سے منع فرمایا گیا ہے اور مختلف مسائل میں حضورﷺکی تشریح و توضیح نے اس نکتہ کو مزید واضح کیا ہے ، مثلاً آپ ﷺنے سورج نکلنے ، سورج ڈوبنے اور سورج کے نصف آسمان پر ہونے کے وقت نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے ، (مسند بزار:۳؍۸۶، حدیث نمبر: ۸۵۸)
اس کی وجہ کیا ہے ؟ یہ کہ یہی اوقات عام طور پر مشرک اورآفتاب پرست قوموں کی عبادت کے رہے ہیں ، جو قومیں سورج کی پرستار ہیں ، وہ ان ہی اوقات میں سورج کی پوجا کرتی ہیں ، اس لیے ان اوقات میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے منع فرمایا گیا ۔
روزہ میں حکم دیا گیا کہ افطار جلدی کیا جائے ، افطار میں تاخیر نہ کی جائے ؛ کیوںکہ افطار میں تاخیر اہل کتاب کا طریقہ ہے ، یومِ عاشوراء کے ساتھ مزید ایک روزہ رکھنے کا حکم ہوا ؛ کیوں کہ اس دن یہود بھی روزہ رکھا کرتے تھے ؛ تاکہ مسلمان اپنی عبادت میں ان سے ممتاز رہیں ، حج میں بہت سے ایسے افعال جن کو مشرکین بہت اہمیت دیتے تھے
اسلام نے ان کو ختم کیا ، یا ان میں تبدیلی پیدا کی، پھر یہی ہدایات آپ نے وضع قطع اور لباس و پوشاک کے بارے میں بھی دی ، مجوسی داڑھی منڈایا کرتے تھے ، بعض قومیں داڑھی بڑھایا کرتی تھیں ، آپ ﷺنے ان دونوں باتوں سے منع فرمایا ، اہل ایران اظہار فخر کے لئے ٹخنوں سے نیچے کپڑے پہنتے تھے ، آپ ﷺنے اس پر سخت نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا ، اہل مکہ سر میں مانگ بھی نکالا کرتے تھے
چناں چہ مکی زندگی میں آپ نے سیدھے بال رکھنے کو پسند فرمایا ؛ تاکہ مسلمان ان سے ممتاز رہیں ، مدینہ میں یہود سیدھے بال رکھتے تھے ، تو وہاں آپ نے مانگ نکالنے کو پسند فرمایا ، پھر جب تمام عرب نے اسلام قبول کر لیا ، تو آپ ﷺنے دونوں طرح بال رکھنے کی اجازت مرحمت فرمادی
اسی طرح عرب یا تو صرف ٹوپی پہنتے تھے ، یا صرف عمامہ باندھتے تھے ، رسول اللہ ﷺنے صحابہ کو ابتداء ً ہدایت دی تھی کہ وہ ٹوپی اور عمامہ دونوں کا استعمال کریں ؛ تاکہ ان کے اور مشرکین کے درمیان امتیاز باقی رہے ، بعد کو جب اہل عرب ایمان لے آئے ، تو آپ نے صرف ٹوپی یاصرف عمامہ کے استعمال کی بھی اجازت مرحمت فرمائی ۔
دین کا یہ مزاج کہ مسلمانوں کو قومی اعتبار سے دوسری اقوام سے ممتاز اور مشخص رہنا چاہئے ، فقہا نے بھی اپنے اجتہاد و استنباط اور قانون شرع کی تشریح و توضیح میں ہمیشہ اس کو ملحوظ رکھا ہے اور لباس و پوشاک ، خور د و نوش ، عبادات ، یہاں تک کہ عبادت گاہوں کے طرزِ تعمیر وغیرہ ہر مرحلہ پر ایک بنیادی اُصول کی حیثیت سے اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ مسلمان ایک امتیازی شان کے حامل ہیں اور وہ اپنے دین و مذہب اور تہذیب و تمدن میں دوسری قوموں سے ممتاز اور مشخص رہیں ؛ کیوں کہ جب کوئی قوم اپنی تہذیب سے محروم ہوجاتی ہے اور تمدن وثقافت کے میدان میں در یوزہ گری پر اُتر آتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ وہ اپنے فکر و عقیدہ سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔
ہندوستان میں اس وقت اس بات کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان نماز پڑھیں ، مسجدوں کو جائیں ، عید بقرعید وغیرہ کر لیا کریں ؛ لیکن اسلامی تہذیب کو خیر باد کہہ دیں ، اس کے لیے بظاہر معمولی ؛ لیکن نتائج کے اعتبار سے دُور رس اقدامات کئے جارہے ہیں، نصابِ تعلیم میں تبدیلی لائی جا رہی ہے ، ہندو ازم کو ایک نظریۂ وعقیدہ کے بجائے قومی ثقافت کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے
اسکولوں میں دیویوں ، دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی جاتی ہیں ، ہندو مذہبی تقریبات میں مسلمانوں کو دعوت دی جاتی ہے اور انھیں شریک کیا جاتا ہے اور ہمارے مسلمان نوجوان دیوالی اور ہولی میں ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہو رہے ہیں، مردوں اور عورتوں کے لئے دھوتی نما پائجامہ بنائے جارہے ہیں، بہت سے علاقوں میں مسلمان عورتیں ہندوانہ رسم و رواج کے مطابق سیندور لگاتی ، یا کالی پوت کے ہار پہنتی ہیں، بین مذہبی شادی بیاہ کا رواج بھی بڑھ رہا ہے
بعض جگہ مسلمان بچوں کے ہندی نام بھی رکھے جارہے ہیں، ٹی وی پروگراموں کا ہندو کرن کیا جارہا ہے اور ہندو دیوتاؤں اور فرماں رواؤں کو قومی ہیروز کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے اور اس طرح کی بہت سی چیزیں ہیں، جو ہمارے سماج میں دبے پاؤں آگے بڑھ رہی ہیں، آج ہم ان کے قدموں کی آہٹ سننے سے قاصر ہیں
لیکن اگر ہم نے حالات کو محسوس نہیں کیا تو مستقبل میں اس سے ناقابل تلافی نقصان کا اندیشہ ہے ، اس لئے اس وقت اس تہذیبی ارتداد کی طرف بڑھتے ہوئے قدم کو پوری قوت کے ساتھ روکنے کی ضرورت ہے کہ یہ محض سیاسی و ثقافتی مسئلہ نہیں؛ بلکہ اپنے دُور رس اثرات کے اعتبار سے ہمارے ملی بقا اور دینی تحفظ کا مسئلہ ہے!