ناموس رسالت اور فکر سرواں
ناموس رسالت اور فکر سراواں : ایک جائزہ
از : غلام مصطفےٰ نعیمی ، روشن مستقبل دہلی
گذشتہ دنوں سراواں کے غیر اعلانیہ ترجمان صاحب نے علماے دیوبند کو شان رسالت میں “شدید نامناسب” کلمات کے استعمال کا مجرم مان کر بھی “علیہم الرحمہ” قرار دیا تھا۔اسی پر ہم نے ایک تحریر لکھ کر طبقہ سراواں سے کچھ سوال پوچھے تھے۔ ( اس تحریر کو پڑھنے کے لیے کلک کریں شدید نامناسب علیھم الرحمہ)
خانقاہ سراواں کے تئیں نرم گوشہ رکھنے والے حلقوں سے بھی یہ سوال اٹھا کہ بارگاہ رسالت میں شدید مناسب کلمات کے اعتراف کے باوجود” قائلین شدید نامناسب” کو بزرگ و ولی ماننا کون سا ایمان، کیسی غیرت اور کون سی محبت ہے؟
اب اسے جھنجھلاہٹ کہیں یا خود کو پاک صاف اور عاشق رسول دکھانے کی کوشش کہ پہلی بار اہل سراواں نے عظمت رسالت اور ناموس مصطفےٰ ﷺ کا نام لیکر اپنا چہرہ اجلا کرنے کی کوشش کی ہے ورنہ اب تک تو یہ لوگ گستاخ اور گستاخیوں کی وکالت ہی کا فریضہ انجام دیتے آئے ہیں۔
کاش! حامیان سراواں کا یہ دعوی زبان وقلم کی بجائے دل سے نکلا ہوتا تو اس کا رنگ کچھ اور ہی ہوتا مگر افسوس انہوں نے بڑی کچی زمین پر پاؤں جمانے کی کوشش کی ہے،یہاں وہ جتنا پاؤں ماریں گے اتنا ہی دھنستے جائیں گے: جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائدار ہوگا
تازہ تحریر میں کیا ہے؟
حالیہ تحریر میں ترجمان سراواں نے مولانا اسماعیل دہلوی کی کتاب تقویت الایمان کی قباحت، اہانت اور گستاخیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: “دہلوی سب وشتم کر رہا ہے، گالیوں پر گالیاں بک رہا ہے۔رسول کے حق میں عطائی علم غیب بھی شرک کہہ رہا ہے۔ شفاعت بھی رد کر رہا ہے۔ دہلوی نبی کو ہر قسم کی گالیاں دیتا ہے۔ان سے ہر اختیار چھینتا ہے۔ان کے ہر اعزاز کو شرک کہتا ہے۔وہ پوری بدتمیزی پر اترا ہوا ہے۔”
اس تبصرے کے بعد موصوف نے اپنے گروہی مزاج کے برخلاف جاتے ہوئے یہ اعلان بھی کر ڈالا ہے:
“جو بھی اس(دہلوی) کے کفر میں شک کرے گا، اس کی تک۔فیر سے بچے گا، ہم اس کی تک۔فیر کریں گے۔”
اپنے اس دعوے کے بعد حسب عادت محرر نے امام احمد رضا کے تئیں اپنی گروہی سوچ کا اظہار کرتے ہوئے اس جملے کو لکھنا ضروری سمجھا: “ہم عظمت رسول کے سامنے ایک نہیں ہزار فاضل بریلوی قربان کر دیں گے، ہم کلمہ کسی بریلوی کا نہیں اپنے نبی کا پڑھتے ہیں۔”
یعنی گستاخیاں کرے دہلوی اور قربانی دی جائے امام احمد رضا کی، قبل ازیں کہ ہم اس جملے پر کچھ کہیں، آئیے پہلے سراوی صاحب کے اس دعوے؛ “جو دہلوی کے کفر میں شک کرے گا ہم اس کی تک۔فیر کریں گے۔”
پر قدرے تجزیاتی گفتگو کرتے ہیں۔اس دعوے کی حقیقت جاننے کے لیے دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں:
1تقویت الایمان کے بارے میں امام احمد رضا کی رائے۔
2 تقویت الایمان کے بارے میں علماے دیوبند کی رائے۔
ہر دو موقف کو سمجھنا اس لیے ضروری ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ جو تقویت الایمان اہل سراواں کے نزدیک مغلظات کا پلندہ اور مصنف نہایت بدتمیز ہے،آخر اس کتاب اور صاحب کتاب کے متعلق اہل سنت اور دیوبندی علما کے کیا نظریات ہیں؟
سب سے پہلے تقویۃ الایمان کے متعلق رامپوری صاحب کے “خدا ترس ،دین پھیلانے والے،علیہم الرحمہ” بزرگوں کے خیالات جان لیتے ہیں تاکہ قارئین پر اچھی طرح روشن ہوجائے کہ اہل سراواں کے ممدوحین تقویت الایمان جیسی کتاب کے بارے میں کیا نظریات رکھتے ہیں۔مولانا اشرف علی تھانوی تقویت الایمان کے بارے میں لکھتے ہیں:
“وہ کتاب بالکل قرآن وحدیث کے مطابق ہے۔جس شخص میں بدفہمی نہ ہو کہ نیز عنوان سے متوحش نہ ہو جائے ، اس کے درس کے قابل ہے۔جو شخص اس کتاب کو گمراہ کن اور بُرا کہتا ہے وہ قائل یا جاہل ہے یا معاند فقط۔”
دیوبند کے سرکردہ عالم مولانا رشید احمد گنگوہی تقویت الایمان کی بابت لکھتے ہیں :
“کتاب تقویت الایمان نہایت ہی عمدہ کتاب ہے اس کا رکھنا اور پڑھنا اور عمل کرنا عین اسلام ہے۔” (فتاویٰ رشیدیہ ص351)
یہ اقتباس تو کتاب سے متعلق تھے اب لگے ہاتھوں صاحب کتاب مولوی اسمعیل دہلوی کے متعلق بھی گنگوہی صاحب کے نیک خیالات جان لیں تاکہ کوئی گوشہ باقی نہ رہ جائے، گنگوہی صاحب،دہلوی صاحب کے متعلق رقم طراز ہیں: “مولوی اسمعیل دہلوی قطعی جنتّی ہیں۔” (فتاوٰی رشیدیہ ص252)
ان مختصر اقتباسات سے جو مفہوم سمجھ آتا ہے وہ کچھ اس طرح ہے:
🔸تقویت الایمان موافق قرآن وحدیث ہے۔
🔹نہایت بہترین کتاب ہے۔
🔸اس کارکھنا،پڑھنا عین اسلام ہے۔
🔹اس پر تنقید کرنے والا جاہل، بدفہم یا گمراہ ہے۔
🔸مصنف تقویت الایمان قطعی جنتی ہے۔
یہاں پہنچ کر صورت حال بڑی سنگین ہوجاتی ہے کہ جس کتاب کو رامپوری صاحب نے مغلظات کا پلندہ قرار دیا تھا اسی کتاب کو ان کے “خدا ترس بزرگ” موافق قرآن وحدیث بتا رہے ہیں۔جن عبارات کو رامپوری صاحب نے “گالیاں قرار دیا،انہیں عبارات کو ممدوحین سراواں باعث اجر وثواب اور عین اسلام بتارہے ہیں۔
رام پوری صاحب شاہ اسماعیل دہلوی کو “نہایت بدتمیز” قرار دے رہے ہیں اور ان کے علیہم الرحمہ بزرگ دہلوی صاحب کو قطعی جنتی قرار دے چکے ہیں۔اب یہ بڑا عجیب معمہ ہے کہ ایک کتاب سراپا مغلظات بھی ہو اور وہی کتاب موافق قرآن وحدیث بھی ہو۔
ایک ہی مصنف بارگاہ رسالت میں “بدتمیز” بھی مانا جائے اور اسی کو ممدوحین سراواں قطعی جنتی کی سند بھی تھما دیں۔فیا للعجب!
ہمارے قول وعمل میں تضاد کتنا ہے مگر یہ دل ہے کہ خوش اعتقاد کتنا ہے
سین بدلتا ہے
تقویت الایمان کے متعلق علماے دیوبند کی رائے جاننے کے بعد امام احمد رضا کی رائے بھی جان لیں تاکہ تصویر کے دونوں رخ نگاہوں کے سامنے رہیں۔
اعلیٰ حضرت تقویت الایمان اور اس کے مصنف کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
“اس فرقہ منفرقہ وہابیہ اسماعیلیہ اور اس کے امام نافر جام پر جزعا قطعا یقینا اجماعا بوجہ کثیرہ کفر لازم اور بلاشبہ جماہیر فقہائے کرام واصحاب فتوی اکابر و اعلام کی صریحات واضحہ پر یہ سب کے سب مرتد کافر باجماع ائمہ ان سب پر اپنے تمام کفریات ملعونہ سے بالتصریح توبہ ورجوع اور ازسرنو کلمہ اسلام پڑھنا فرض و واجب۔” (الکوکبۃ الشہابیہ۔صفحہ نمبر/۶۱)
صاحب کتاب کی بابت آپ تحریر فرماتے ہیں: “بالجملہ اس طائفہ حائفہ خصوصاً ان کے پیشوا کا حال مثل یزید پلید علیہ ماعلیہ ہے۔” (جلد ۱۵؍۲۳۵ سافٹ وئیر)
دوسری جگہ لکھتے ہیں: “اگر اس کی ضلالت وگمراہی پر آگاہ ہوکر اسے اہل حق جانتا ہو تو خود اسی کی مثل گمراہ وبد دین ہے۔” (فتاوی رضویہ جلد ۳؍۱۸۹ مطبوعہ رضا اکیڈمی)
معزز قارئین !
اب آپ ذرا دیکھیں نظریں بدلتی ہیں تو نظارہ کیسے بدلتا ہے۔تقویت الایمان کی “گالیوں” کو موافق قرآن وحدیث اور عین اسلام بتانے والے عناصر اربعہ پر ترجمان سراواں کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا لیکن جس امام احمد رضا نے دہلوی کو گمراہ،کافر فقہی (کافر فقہی سمجھ نہ آئے تو علامہ طارق انور مصباحی کی علمی تحریر “رد فرقہ بجنوریہ” کی قسطیں پڑھ لیں،معلومات ہوجائے گی) اور مثل یزید پلید قرار دیا۔اس کی پیروی کرنے والوں کو گمراہ وبد دین لکھا،اس کی کتاب کو کفر وگمراہی کا مجموعہ قرار دیا ،ترجمان سراواں ان کی اور ان جیسے ہزاروں علما کی قربانی دینے کی بات کرتے ہیں۔
سنو ترجمان سراواں! قربانی ہمیشہ اپنی چیز کی ہوتی ہے پرائی چیز کی نہیں، امام احمد رضا سراواں وگنگوہ کی میراث نہیں کہ تم ان کی قربانی کا خیال بھی لاؤ۔
امام احمد رضا دنیاے اسلام کے کروڑوں عاشقان رسالت کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔ اس کھرے سونے پر کوئی ایرا غیرا نگاہ ڈالنے کی کوشش نہ کرے۔ قربانی دینی ہے تو اپنے قبیلے ہی سے تلاش کرو۔تھانوی صاحب کو لاؤ یا گنگوہی صاحب کی گردن پر کارد تکفیر چلاؤ۔اگر حق پسند ہو تقویت الایمان کی “گالیوں” کو موافق قرآن وسنت کہنے والے تھانوی صاحب کی تکفیر کرکے دکھاؤ؟
اگر انصاف کی ذرا بھی رمق باقی ہے تو “نہایت بدتمیز” مصنف کو قطعی جنتی لکھنے والے گنگوہی صاحب پر فتوی تکفیر جاری کرکے دکھاؤ؟
لیکن ہم جانتے ہیں کہ تم اور تمہارا پورا قبیلہ مر کر مٹی میں مل جائے گا لیکن عناصر دیابنہ کے ان اقتباسات پر ایک لفظ نہیں لکھ پائے گا۔ جن عناصر کو تم لوگوں نے “خدا ترس اور علیہم الرحمہ” بنا لیا ہے تم لوگ ان کی تکفیر تو کجا ایک لفظ لکھنے کی ہمت تک نہیں جٹا سکتے۔
اخیراً ہم طبقہ سراواں کو ان کے “خدا ترس اور دین پھیلانے والے بزرگ” جناب گنگوہی صاحب کی زبانی کچھ یاد دہانی کرا دیتے ہیں تاکہ آئندہ اگر رامپوری صاحب تقویت الایمان کی بابت کچھ لکھیں تو اپنے ممدوح کی یہ عبارت اچھی طرح یاد رکھیں:
“جو تقویۃالایمان کو کفر اور مولوی اسمعیل کو کافر کہے وہ خود کافر اور شیطان ملعون ہے۔” (فتاوٰی رشید یہ ص252،356)
اب اہل سراواں شیطان ملعون کہنے کا الزام ہمیں نہ دیں کہ یہ تحفہ آپ ہی قبیلے کے “بزرگ عالم” نے بھیجا ہے ۔
ہمارے امام نے تقویت الایمان کو تفویت الایمان لکھ کر ہمیں سب کچھ بتا دیا ہے۔
Pingback: سراواں کے متضاد سُر ایک جائزہ ⋆ غلام مصطفےٰ نعیمی