عقیدت و مودت اہل بیت کی اموشنل بلیک میلنگ
از قلم : مشتاق نوری :: عقیدت و مودت اہل بیت کی اموشنل بلیک میلنگ
عقیدت و مودت اہل بیت کی اموشنل بلیک میلنگ
جب جب اسلامی کیلینڈر کا لہو زار مہینہ، ہلال محرم کے بے حجاب ہوتے ہی ظلمات گاہ دہر میں روشنی بکھیرتا ہے تو محافظین عشق و وفا اور پاسبان صبر و رضا کے دل میں غموں کی لہریں موج مارنے لگتی ہیں۔ نینوا کی تپتی ریت پر عترت پیمبر کے نازنیں بدن والوں کے بکھرے لاشے یاد کرکے قلب و نظر میں بجلیاں کوند جاتی ہیں۔سلسلۂ عشق کا غم آگیں دائرہ حد اختیار سے نکل کر سرحد اضطرار میں داخل ہو جاتا ہے۔ تب ظہور و شعور کے اندر جذبۂ حسینیت کا بگل بے تابانہ بجنے لگتا ہے۔
- کثرت مدارس مفید یا مضر
- نفرت کا بلڈوزر
- ہمارے لیے آئیڈیل کون ہے ؟۔
- گیان واپی مسجد اور کاشی وشوناتھ مندر تاریخی حقائق ، تنازعہ اور سیاسی اثرات
- مسجدوں کو مندر بنانے کی مہم
- اورنگزیب عالمگیرہندوکش مندرشکن نہیں انصاف کا علم بردارعظیم حکمراں
- سنیما کے بہانے تاریخ گری کی ناپاک مہم
- مسلم نوجوانوں پر نصیحتوں کا پہاڑ
قافلۂ شوق شہادت کا سفر مزید طول پکڑ لیتا ہے۔ ہزار ضبط، لاکھ صبر کے باوجود ان کے دل ضرب نالہ و فگاں کی تکرار مزید سے رہ رہ کے منہ کو آجاتا ہے۔بظاہر یہ طبقۂ حق یاب، سلاب پہن کر ماتم تو نہیں کرتا مگر اس کی روم روم، اس کی نس نس میں غم کربلا کا نہ تھمنے والا ایک کھولتا سیلاب برپا ہوتا ہے
جس میں اس کا وجود سوگوار بہ جانے کو، جھلس جانے کو بے چین رہتا ہے۔یہ طبقہ وہ ہے جس کا عشق قیس کے عشق بادیہ نشیں سے، فرہاد کے عشق کوہ پیما سے بہت آگے ہوتا ہے ۔اس کا عشق جنوں خیز، غم حسین کو خالص و سادہ رکھنے کے لیے نفس شر انگیز کے فتنوں سے برپا ہر طرح کے ریا و سمعہ سے گریز کرتا ہے۔وہ یا حسین کی بے لوث رٹ لگاتا ہے۔پھر درد بڑھ کر کرب بن جاتا ہے اور وہ اندر ہی اندر مرغ بسمل کی طرح چھٹپٹاتا رہتا ہے۔
مفاد و غرض کی اس ہوس ناک دنیا میں آج ہر چیز میں ملاوٹ ایک عام بات ہے ۔کوئی شے آپ کو خالص ملے یہ بہت مشکل امر ہے۔ان اشیا میں کسی طرح کی بھی ملاوٹ انسانی جسم سے متعلق سنگین مسئلہ ہے۔
جیسے آج کل دودھ میں ملاوٹ کا کاروبار چل رہا ہے۔بعض جگہ مختلف کیمیکلز کے ذریعہ سے دودھ تیار کیا جاتا ہے۔
اس ملاوٹ سے انسان کا جسم متأثر ہوتا ہے۔صحت بگڑنے کا شدید امکان ہے۔مگر ایسی ملاوٹ جس سے ایمان متأثر ہو وہ بہت خطرناک کیس ہے۔صد حیف! کہ جس جماعت کی مودت و محبت کو قرآن نے ایمان کی سلامتی کا ضامن بتایا ہے تجارت و صارفیت کے اس بے رحم وقت نے اس میں بھی ملاوٹ کا بازار گرم کر رکھا ہے۔مودت میں ملاوٹ کا یہ مجرمانہ کام درگاہوں سے شروع ہو کر پیٹ پرست خطبا اور مرثیہ خواں گویّوں پر آ رکا ہے۔
اس میں بعض کا استثنا کیا جا سکتا ہے۔ آپ کو یقین نہ ہو تو محرم سے دس پندرہ روز قبل ان خطبا و شعرا کی محفل میں تھوڑی دیر بیٹھ کر دیکھ لیں۔ان کی مجلسی گفتگو اسی محور پہ گردش کھاتی ہے کہ اس سال چھتیس گڑھ دس روزہ پروگرام کے لیے جا رہا ہوں۔اس سال کرناٹک میں پانچ روزہ ذکر شہادت میں ۵۰ ہزار پہ بات فائنل ہوئی ہے۔
کوئی گجرات کے لیے بک ہے۔کوئی اڑیشہ کے لیے ۷۰ ہزار پہ بک ہے۔یعنی سب کی ریٹ طے ہو چکی ہے۔منہ مانگے داموں میں نیلامی ہوئی ہے۔ فلوس خلوص کو زنگ لگا دیتا ہے۔
جہاں پیسے کمانے کی ہوس بڑھ جاۓ وہاں ناصرف غیر شرعی طریقے اپناۓ جاتے ہیں بلکہ مذہبی معاملات بھی اس سے متأثر ہوتے ہیں۔تب مودت و محبت تجارت کا روپ لے لیتی ہے۔تب ہر ایسے حربے بروۓ کار لاۓ جاتے ہیں جو مخاطبین و سامعین کو جذباتی بنا سکے۔
انہیں عقیدت کے ایسے جوشیلے و دل فریب بیان سناۓ جائیں کہ وہ اپنا آپا کھودیں۔عوام کے ذہن کو مسمرایز کر کے اس سے اپنے مفاد سنجوۓ جاتے ہیں یہی عقیدت کی اموشنل بلیک میلنگ ہے۔
سر عام جذبات و عقیدت کا استحصال کیا جاتا ہے اور ہم بھولے پن میں غم حسین کے نام پر جیب خالی کر کے خوش ہوتے ہیں۔ جب مودت اہل بیت پر خطاب ہو اور نیت میں خلوص کے بجاۓ فلوس کا دخل ہو تو پھر وہاں نہ اسلوب بیان شایان شان رہتا ہے اور نہ ہی الفاظ کا انتخاب مناسب ہو پاتا ہے۔
خطیب بس ایک رو میں بولتا جاتا ہے وہ سامعین کو کرتا پھاڑتا ہوا دیکھنا چاہتا ہے۔وہ بے محل نعروں کو حسینیت کی علامت بتا کر بات بات پہ مجمع کو اپنے فیور میں کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
ہمارے نعت خواں جو محرم کے مہینے میں منقبت خوانی کی تیاری کرکے آتے ہیں وہ منقبت کی حدود سے باہر نکل کر انیس و دبیر کے علاقۂ مراثی میں داخل ہو جاتے ہیں۔یہ بے چارے کریں بھی تو کیا کریں علم و فن سے واسطہ تو رہا ہی نہیں۔شاید اسی لیے اردو کی ایک مثل مشہور ہے “بگڑا شاعر مرثیہ گو، بگڑا گویّا مرثیہ خواں”۔
تقریبا دو دہائی قبل کی بات ہے۔میں دربھنگہ میں ابتدائی جماعت میں زیر تعلیم تھا۔یہ بتا دیں کہ ایام محرم میں دربھنگہ شہر میں چہل پہل بڑھ جاتی ہے۔جا بجا لاٹھی بازی کا دنگل سجتا ہے۔ہر چوراہے، ہر نکڑ پہ ایسی رزم گاہیں سجائی جاتی ہیں۔اسی بیچ ہر شب ذکر اہل بیت کی محفلیں بھی روشن رہتی ہیں۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ شہر دربھنگہ کا ہی ایک خطیب ذکر اہل بیت پر بولتے ہوۓ یہ بول گیا کہ “جب یزیدی فوج نے زینب کی چادر کھینچ لی تو زینب نے اپنے بالوں سے اپنے چہرے کو چھپا لیا” اولا تو یہ روایت کس محدث نے نقل کی یہی محل اعتراض ہے۔
نہ جانے یہ روایت کہاں سے لے آیا۔ثانیا کربلا کے حالات بیان کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ خطیب اس قدر جسارت کرجاۓ کہ حضرت زینب کے لیے شایان شان الفاظ و جملہ بھی منتخب نہ کر سکے۔
اور جس انداز میں بیان کیا گیا لگتا ہے وہ وہیں بیٹھا دیکھ رہا تھا۔جس در پہ جبریل بھی بے اجازت نہ آتے ہوں اس کے مستورات مقدسات کی شان بیان کرنے کے لیے خطیبانہ جسارت نہیں، غلامانہ مودت درکار ہے۔افسوس تو یہ ہے کہ ایک خطیب اس طرح کی روایت بے باکانہ بیان کرتا ہے اسی اسٹیج پر علما و مدرسین کا قافلہ بیٹھا ہوتا ہے پھر بھی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
یہی کوئی ۲۰۱۰ کا سال رہا ہوگا۔میرے ایک ہم جماعت کی دعوت پر مجھے دسویں محرم کو ضلع سمستی پور جانا رہا۔اس جلسے میں کرناٹک سے ایک خطیب بلاۓ گئے تھے۔جسے نقیب جلسہ بار بار “فاتح کرناٹک” کے سابقہ خطاب سے یاد کرتا رہتا تھا۔ان کی تقریر میں ایسی ایسی روایتیں سننے کو ملیں جو مجھ طالب علم کے لیے بالکل نئی تھیں۔
ان روایات میں ایک یہ بھی تھی کہ “جب سر حسین کو ابن زیاد کے پاس لایا گیا تو اس نے نفرت بھرے انداز میں سر کو اٹھا کر اپنی ران پہ رکھا۔اور اسے مارنے لگا۔اس کٹے سر سے ایک قطرہ خون نکلا اور ابن زیاد کی ران کو چھیدتا ہوا، تخت کو چھیدتا ہوا زمین میں سما گیا”(بالکل یہی الفاظ تھے) .
پھر نتیجہ نکال کر پورے خطیبانہ داو کھیلتے ہوۓ کہتا ہے، اے یزیدیو جب حسین کا ایک قطرہ خون اپنا راستہ نہیں بدلتا تو سراپا حسین کیسے راستہ بدل لیتا۔ اس روایت کی سند کیا ہے کس معتبر کتاب میں منقول ہے یہ تو علما اصول حدیث ہی بتائیں گے ویسے اس طرح کی روایت کو درایت کی کسوٹی پر پرکھا جاۓ مجھ سا علم حدیث سے کورا شخص بھی اسے قبول کرنے سے ہچکچاۓ گا۔ اہل سنت کے اندر رفض زدہ امور کا در آنا کوئی نیا نہیں ہے۔
بہت پہلے سے ہمارے سنی حلقے نے بھی ذکر حسین کے نام پہ وہ سب کچھ گلے لگا رکھا ہے جو اہل تشیع کے ہاں رائج تھا۔مگر ہمارے خطبا شیعہ ذاکرین کی پیروی میں اتنا آگے نکل جائیں گے یہ لمحۂ فکریہ ہے۔ہمارے سنجیدہ ذہن علما کو اس پر نکیل لگانے کی ضرورت ہے۔
یہ اسلوب یہ نیا پن صرف اس لیے برتے جا رہے ہیں تاکہ سامعین کو بھرپور محظوظ کیا جا سکے۔بعض بڑے نامور خطبا تو مجمع کو فیور کرنے کے لیے رونے دھونے کی ایکٹنگ تک کرتے ہیں(خدا ہی جانے سر محفل اس آہ و بکا میں کتنا خلوص ہوتا ہے).
یہ بڑا حیرت انگیز ہے کہ خطبا واقعات کربلا کو بیان کرنے کے لیے تصنع و ملمع کاری کا سہارا لیتے ہیں جیسے عرصۂ کربلا کوئی حقیقی جنگ نہیں، بلکہ ہالی ووڈ کی کوئی ایکشن مووی کا ذکر ہو۔(العیاذ باللہ) مظلومان کربلا پر درگاہی حلقوں نے بھی کم ظلم نہیں کیا ہے۔بہت سالوں پہلے تسلیم و عارف کی قوالی میں ہم نے سنا تھا کہ حسنین کریمین نے دو تختیاں لکھیں۔
کون بہتر ہے اس کا فیصلہ کرنے کے لیے پہلے ماں فاطمہ پھر بابا علی، اخیر میں نانا حضور کے پاس آۓ۔پھر جبریل نے جنت سے سیب لاکر اچھالا سیب ہوا میں دو ٹکڑے ہو کر دونوں تختیوں پہ گرا۔یہ واقعہ ہم نے پہلی بار قوالی میں ہی سنا تھا۔تب نہ ہم بالغ تھے نہ ہمارا شعور۔ایسی روایات سماعت کو بہت بھلی لگتی ہیں۔
حسن اتفاق کہ پھر علامہ اسید الحق(ان کے مرقد پر رحمت ہو)کا مضمون “تقریروں میں موضوع روایات: ایک لمحۂ فکریہ” جام نور کے سلسلے وار کالم میں پڑھا جس میں آپ نے لکھا تھا کہ ہزار تلاش کے باوجود یہ روایت مجھے کسی معتبر کتاب میں نہیں ملی،مگر حیرت تو یہ ہے کہ وہ دونوں تختی گجرات کی ایک خانقاہ (متعلقہ خانقاہ کا نام انہوں نے قصدا ذکر نہیں کیا)میں موجود ہیں۔
محرم میں ان کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ چلیے فرض کرتے ہیں کہ ایسا ہوا تھا۔تو کیا متعلقہ خانقاہ والے وہیں بیٹھے تھے؟ اتنے صحابہ رہتے ہوئے تختیاں ان کو کیسے مل گئیں؟ یہ روایت سبطین رسول کے بچپنے کا ہے تو اس وقت سارے جاں نثار صحابہ موجود تھے انہوں نے یہ تختیاں نہیں لیں؟
ان جیسے سوالوں کے بعد یہی ذہن میں آتا ہے کہ روایت کو کیش کرنے کے لیے ہی یہ طریقہ چنا گیا ہوگا۔خود کو مقدس بناۓ رکھنے کے لیے اور برہمنیت کی توسیع کے لیے اس طرح کی چیزیں کافی معاون ثابت ہوتی ہیں۔یہ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل بیت کی مودت میں خلوص و وارفتگی لازم ہے تبھی ان کی توجہات کے مستحق ٹھہریں گے۔ورنہ آپ لاکھ خود کو مولائی، علوی، فاطمی،حسنی، حسینی، لکھ لیں سب لاحاصل۔
مشتاق نوری
Pingback: سماج میں پپیسے کی حیثیت ⋆ مشتاق نوری
Pingback: آخر سماج اتنا بے حس کیوں ہے ⋆ مشتاق نوری
Pingback: جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں ⋆ مشتاق نوری
Pingback: نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر ⋆ اردو دنیا
Pingback: شعری مجموعہ وفا کے پھول کے تناظر میں ⋆ ممتاز نئر