نماز کوئی مجرمانہ فعل ہے
از قلم : مشتاق نوری :: نماز کوئی مجرمانہ فعل ہے؟
نماز کوئی مجرمانہ فعل ہے
یہ میری نماز ہے جو امن اور پاکیزگی کی علامت ہے۔امن اس لیے کہ نماز میں اپنے پراۓ سب کے لیے صرف دعا کی جاتی ہے بد دعا نہیں۔اور پاکیزگی اس لیے کہ نماز میں نمازی اور جگہ دونوں کو اعلی درجے کا صاف ستھرا ہونا شرط ہے۔یہی دونوں چیزیں، اس بے چین و دہشت زدہ اور غلیظ و غبار آلود دنیا کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔مگر اتنی اہم بات ہم دنیا کو باور کرانے سے بالکل چوک گئے۔
نماز اسلام کی سب سے بڑی پہچان ہے۔نماز کی اقامت اور اس کی اہمیت کا دفاع ہر مومن کی اولین دینی ذمے داری ہے۔ادھر چند سالوں سے ہندو احیا پرستی کے جنون نے اس نماز کی افادیت و اہمیت کا تحفظ بڑا مسئلہ بنا دیا ہے۔
نماز جو ایک عبادت ہے اسے ایک جرم بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ لولو مال سے پہلے اور اب اسٹیشن پر نماز ادا کرنے والوں کے خلاف کس طرح مقدمہ درج کیا گیا پھر انہیں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔جس طرح جہاد جیسے مبارک لفظ کو دہشت بنا دیا گیا ہے اسی طرح نماز کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔
آج آپ ٹرین یا کسی ہندو آبادی میں بیٹھ کر جہاد کے فضائل و فوائد پر چند جملے بول کر دیکھ لیں اگلے ہی پل آپ کی لنچنگ ہو جاۓ گی۔اسی طرح آج کھلے میں نماز کے خلاف صرف کیس اور گرفتاری سے کام چلایا جا رہا ہے کل ڈائریکٹ حملے ہوں گے اور نماز کو ملک مخالف سرگرمی قرار دے کر حملے کا جواز نکال لیا جاۓ گا۔
میڈیا کے ذریعے ماحول تیار کیا جا رہا ہے۔میڈیا میں ایسے بریکنگ نیوز چلاۓ جاتے ہیں مانو یہ چند لوگ نماز نہیں بلکہ کوئی دہشت گردانہ کاروائی کر رہے ہوں۔
یہ اتنا حساس مسئلہ ہے مگر ہم پر کوئی اثر نہیں۔شاید اس لیے اثر نہیں ہوتا کہ جب ہم گھر کے پاس والی مسجد میں نماز کے لیے نہیں جاتے تو ایسے پبلک مقامات پر نماز کی نوبت کب آۓ گی۔شاید یہی سوچ کر ہمارے پیران، مسند نشینان، لیڈرس اور ذمہ داران چپ سادھ رکھے ہیں۔اگر یہی سوچ ہے تو ایسی سوچ پر ہزار لعنت۔ ہم نے کبھی سوچا کہ آخر اس کے پیچھے کون لوگ ہیں؟
یہ کون لوگ ہیں جو نماز سے اس قدر خوف کھاۓ ہوۓ ہیں؟
اگر سوچا ہے اس پر غور کیا ہے تو پھر ہم کیوں خاموش ہیں؟ کیا نماز کوئی مجرمانہ فعل ہے؟
نماز مسجد کے علاوہ بحالت مجبوری ہم دوسرے مقامات پر ادا کیوں نہیں کر سکتے؟ اگر نہیں کر سکتے تو پھر دوسرے کو یہ کھلی چھوٹ کیوں؟
اگر آج ہم اور آپ خاموش ہیں تو کل اس کے برے نتائج دیکھنے کے لیے ہمیں تیار رہنا چاہیے۔کوئی لبرل یا آزاد خیال شخص کہے گا کہ ان کو پبلک مقامات پر نماز نہیں ادا کرنا چاہیے۔انہیں مسجد میں پرھنی چاہیے تھی۔مگر کیا یہ لبرل طبقہ نہیں جانتا کہ انہیں دقت نماز سے ہے اسلام کی شناخت سے ہے؟
اگر یہ ملک سیکولر ہے اور واقعی ہے تو صرف نماز پر ہی اس قدر بوال کیوں؟ جس طرح پبلک مقامات پر کسی مذہبی عمل کی ادائیگی غیر قانونی ہے اسی طرح ان مقامات پر سگریٹ نوشی، شراب نوشی و غیر اخلاقی فعل بھی غیر قانونی ہے کیا کبھی ہم نے دیکھا کہ پبلک پلیس پر کسی سگریٹ پینے والے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہو اسے فورن سے پیشتر گرفتار بھی کیا گیا ہو؟
یقین جانیں آج نماز مسئلہ اس لیے ہے کہ ہمیں اس کی فکر نہیں ہے۔نماز مسئلوں کا حل ہے جب خود اس کا احترام کر لیں گے اور دنیا سے کروا لیں گے۔
آج نماز جیسی صاف ستھری عبادت کو مجرمانہ عمل بنا کر پیش کر دیا گیا ہے۔ٹی وی پر مردم خاص کر خواتین اینکرز اس طرح پیش کرتی ہیں جیسے دو چار مسلمانوں نماز کی بجاۓ وہاں کوئی بم پلانٹ کر رہے تھے۔ اور ہم سب خاموش ہیں۔
آخر کہاں ہیں وہ لوگ جو ادے پور کانڈ ہوتے ہی اپنے اپنے لیٹر پیڈس نکال کر کنہیا لال کے ساتھ ہم دردی جتانا ضروری سمجھ رہے تھے۔کہاں ہیں وہ تنظیمیں تحریکیں جو کانوڑ شردھالووں پر پھول برسانے کا غیر ضروری عمل کرنے کو گنگا جمنی تہذیب کا حصہ مانتی ہیں؟
پہلے ہمارے درمیان کے لبرل کہتے تھے کہ گنگا جمنی تہذیب اور ہندو مسلم بھائی چارے کی خاطر مسلم سماج کو چاہیے کہ خوشی سے بابری مسجد ہندوؤں کے حوالے کر دے۔ مگر کیا ہوا؟ کیا وہ بابری پر رک گئے؟ کیا انہیں اب ہماری مسجدوں سے کوئی بیر نہیں؟
ٹھیک اسی طرح آج بھی ہمارے لبرل کہتے ہیں کہ ان کو عوامی مقامات پر نماز نہیں پڑھنی تھی۔مسلمانوں کو عوامی مقامات کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔یہ غلط ہے وغیرہ۔مگر انہیں کون سمجھاۓ کہ دشمن کو تیرے دین سے، دین کی علامات سے نفرت ہے ڈر ہے خوف ہے اس لیے وہ آج کہیں نماز پڑھنے پر واویلا مچا رہے ہیں۔
ہر سال ساون کے مہینے میں بول بم جانے والوں سے سارا دیش ڈسٹرب رہتا ہے مگر اس سے نہ لا اینڈ آرڈر خراب ہوتا ہے اور نہ کسی کی آمد و رفت متأثر ہوتی ہے یہی دوغلی پالیسی ملک کے لیے خطرناک ہے۔
میں پچھلے دس سالوں سے دیکھتا آ رہا ہوں کہ پٹنہ مظفرپور ہائی وے کو کانوڑیوں کے لیے ایک طرف سے بالکل لاک کر دیا جاتا ہے۔روڈ ون وے موڈ میں چلی جاتی ہے جب کہ یہ شاہراہ بہت ہی مصروف ترین ہے۔پھر بھی کسی کو کوئی دقت نہیں۔
دقت ہے تو صرف نماز سے۔پھر بھی ہم چپ ہیں۔بلکہ ایسے معاملوں میں سانس بھی سوچ سمجھ کر لیتے ہیں کہ کہیں حاکم وقت کو برا نہ لگ جاۓ۔یہ دین نہیں، مداہنت ہے۔یہ مصلحت نہیں، منافقت ہے۔ایسے لوگوں کو وہن کا عارضہ لاحق ہے۔
مشتاق نوری
Pingback: نوبل انعام اور فیکٹ چیکر محمد زبیر ⋆ مشتاق نوری