برین واشنگ

Spread the love

برین واشنگ

مسرور احمد

ماضی میں لاطینی امریکہ کے کچھ ممالک اورحالیہ عشروں میں عراق، افغانستان، لیبیا، شام اور دیگر اسلامی ملکوں پر حملے کی حمائیت یا انھیں عدم استحکام سے دو چار کرنے کی کوششیں، کشمیریوں اورفلسطینیوں پر ظلم و تشددیا لبنان میں بار ہا اسرائیلی بربریت کی امریکا کی طرف سے حمائیت اور پشت پناہی کوئی نئی بات نہیں۔امریکی انتظامیہ ہر دور میں ایک مضبوط یہودی لابی کے زیر اثر رہی ہے۔

اینڈریو کارنگٹن ہچ کاک (Andrew Carrington Hitchcock) کی کتاب شیطان کا کنیسہ (Synagogue of Satan) اور The Protocols of the Elders of Zion جیسی کتابوں اور مسودات کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ صدیوں تک اپنی بقا کی جدوجہد لڑنے کے بعد ساٹھ کی دہائی میں ایک منظم طریقے سے یہودی اکابرین نے دنیا کی سپر پاور کو اپنا تابع بنانے کا عملی آغاز کیا تاکہ صیہونی عالمی مقاصد کا ایجنڈا پورا کیا جا سکے۔قارئین اس سلسلے میں یقیناً معلومات رکھتے ہوں گے۔

زیر نظر مضمون میں عالمی میڈیا پر یہودیوں کے اثر و رسوخ کی ایک جھلک دکھانا مقصود ہے۔جدید سائنسی اور تحقیقی دور میں بعض موضوعات ایک مستقل علمی شعبے کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔

ایسا ہی ایک موضوع برین واشنگ (Brain Washing) یعنی دماغی تطہیر کا بھی ہے۔گتاؤلی بان اس شعبے کا ایک اہم نام ہے۔اپنی کتاب(Psychology of gathering) میں وہ ایک جگہ تحریر کرتا ہے۔

“انسان تعلیم، تہذیب اور شعور کی جس قدر انتہا کو بھی پہنچ جائے، اگر وہ کسی گروہ یا مجمع کے ساتھ رہے گا تو لا محالہ طور پر وہ مجمع کی نفسیات اور کیفیت کے زیر اثر رہے گا، اچھے خاصے معقول اور سمجھ دارانسان بھی مجمع کے پیچھے جذباتی انداز میں بھاگنے لگتے ہیں۔

ایسے ذی شعور فرد بھی جو دوسروں کو کرتے دیکھتے ہیں وہی کچھ بلا تفکر کرنے لگتے ہیں گویا ان پر سحر طاری ہو گیا ہو۔”گتاؤلی بان کی کتاب کے اس اقتباس سے گلوبلائزیشن کے عمل اور سیٹلائٹ کے ذریعے تہذیبی سرحدوں کے خاتمے کے پس پردہ حکمت عملی کا باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس حکمت عملی کا مقصد دنیا کو اپنی منشاء اور مرضی کے تابع کرنا ہے۔

برین واشنگ اور پراپیگنڈا کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق کے عملی تجربات پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے کیے جاتے ہیں۔ یہ عمل بظاہر غیر جانب دار لیکن درحقیقت مخالف افراد کے قلوب و اذہان اور وجدان و جذبات پر خاص تکنیک کے تحت اثر انداز ہوتا ہے۔

میڈیا کا یہ عمل دراصل ایک نفسیاتی جنگ ہے جو دیگر اقوام پر غلبہ حاصل کرنے کیلئے ایک بنیادی محرک کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ ایک مغربی دانش ور کا قول ہے کہ”دشمن کے توپ خانہ کو برباد کرنے کے لیے ہم بموں کا استعمال کرتے ہیں

کیا اس سے زیادہ موزوں اور مناسب بات یہ نہیں کہ دشمن کے جو اذہان توپ خانوں کا استعمال کرنے پر سپاہیوں کے ہاتھوں کو آمادہ کرتے ہیں ان ذہنوں کو ہی بدل دیا جائے تاکہ وہ ہاتھ ہی کام نہ کر سکیں جو توپ خانہ استعمال کریں گے۔

“امریکی دانش ور اڈریان آرکنڈر نے نیو یارک میں اپنی ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ” عالمی خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے یہودی تمھارے دل و دماغ کو دھوکا دے رہے ہیں،وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق دنیا کے حالات و حوادث کو دیکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اس طرح ہم لوگ اس بات سے واقف نہیں ہو پاتے کہ اصل حقائق اور حوادث کیا ہیں۔”

یہی وجہ ہے کہ میڈیا پراپیگنڈا حقائق کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ جس کے باعث اگر ایک یہودی یا عیسائی مسجد ابراہیمی میں داخل ہو کر چالیس پچاس نمازیوں کو شہید کر دیتا ہے یا کسی سکول میں گھس کر درجنوں طلبا کو قتل کر دیتا ہے تو اسے صرف ایک جنونی (Fanatic) کہا جاتا ہے اور اگر ایک فلسطینی یا کشمیری اپنی زمین کی حفاظت کے لیے ایک چھوٹا سا پتھر اٹھاتا ہے تو وہ دہشت گرد کہلاتا ہے۔

انھیں دوہرے معیارات کی بدولت اگر چین میں حکومت سے اختلاف رکھنے کے جرم میں ایک وی جنگ شنگ نامی شخص قید ہو تو یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کہلاتی ہے اور اسے نوبل امن پرائز کے لیے نامزد کیا جاتا ہے اور اس کے بر عکس ایک نو برس کے فلسطینی بچے کو ماتھے پر گولی مار کر شہید کر دیا جاتا ہے تو وہ یقیناً ایسی ہی موت کے لائق تھا کیوں کہ وہ دہشت پسند اور دہشت گرد تھا

اور اگر اس بچے کا باپ اپنے بیٹے کے بدن کو کسی قریب المرگ اسرائیلی بچے کے لیے وقف کر دیتا ہے تو یہ اسرائیلی بچے کا حق تھا کیوں کہ غلام ہمیشہ مالک کے لیے اپنی جانیں نثار کرتے آئے ہیں۔

یہودیوں میں نسلی برتری کے غرور کو “تلمود” نے اساس فراہم کی ہے جو یہودیوں کی ایسی کتاب ہے جس میں ان کے اندر فخر و غرور پیدا کرنے والی روایتیں جمع کی گئی ہیں،اس کتاب کے مطابق کرہ ارضی پر صرف یہودی ہی اشرف المخلوقات ہیں

تلمود میں ایک مقام پر درج ہے کہ “یہودی اللہ کی منتخب قوم ہے اور غیر یہودی جانوروں سے بدتر ہیں ” 1897 میں سوئٹزر لینڈ کے شہر باسلز میں تین سو یہودی دانشوروں نے ہرٹزل کی قیادت میں دنیا پر صیہونیت کے غلبے کا منصوبہ 19 پروٹوکول (19 Protocoles) کے نام سے بنایا تھا

اس منصوبے میں ذرائع ابلاغ کو کلیدی اہمیت دی گئی تھی،آج اس 19 پروٹوکول کے مطابق یا تو عالمی میڈیا پر یہودیوں کا براہ راست تسلط ہے یا ان کا اثرو رسوخ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ عالمی میڈیا یہودی مفادات کے خلاف کام ہی نہیں کر سکتا۔

اعداد و شمار کے مطابق دو فیصد اقلیت میں ہونے کے باوجود امریکہ میں کروڑ پتی یہودیوں کا تناسب پچیس فیصد ہے۔

امریکی انتخابات میں یہودی ووٹروں کے کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا تناسب بانوے فیصد ہے۔جبکہ مجموعی طور پر پوری امریکی قوم کے کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا تناسب چون فیصد ہے۔واضح رہے کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں کی طرف سے کاسٹ ہونے والے ووٹوں کا تناسب صرف اٹھائیس فیصد ہے اور وہ بھی اختلافات کے باعث تقسیم ہو جاتے ہیں۔

ماضی قریب میں صرف ایک یہودی کمپنی نیو ہاؤس کے پاس 48 روزنامے، 20 ہفت روزہ رسالے، 182 ریڈیو اسٹیشن، 140 کیبل ٹی وی اور 1735 پبلشنگ کے ادارے تھے۔یہ کمپنی روسی نژاد یہودی سیموڈیل نیو ہاؤس (متوفی 1979) نے قائم کی تھی۔

نیو ہاؤس کمپنی کی جانب سے ہی ٹیڈ ٹرز نے 1980 میں بیس ملین ڈالر کے سرمائے سے CNN قائم کیا۔آج اس وقت امریکہ میں CNNکے ستائیس اور بیرونی ممالک کے اندر 37 سے زائد مراکز ہیں جہاں اس کے کارکنوں کی تعداد اٹھارہ سو ہے اور دنیا کے دو سو ممالک کے دوسو کروڑ لوگوں تک چوبیس گھنٹے سی این این کی خبریں اور تبصرے پہنچتے ہیں۔

سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کے انقلاب سے قبل امریکہ سے مجموعی طور پر 1759 روزنامے اور 668 ہفت روزہ میگزین شائع ہوتے تھے۔ماہنامے،پندرہ روزہ،سہ ماہی،ششماہی اور سالانہ جریدوں کی تعداد ان کے علاوہ ہے۔ ان اخبارات میں سے تین عالمی سطح پر زیادہ نمایاں ہیں۔یہی وہ اخبارات ہیں جو فیصلہ کرتے ہیں کہ کونسی “خبر” ہے اور کون سی نہیں۔دراصل خبر ان ہی اخبارات کے دفاتر میں جنم لیتی ہے اور پھر امریکہ اور دنیا بھر کے اخبارات ان کی تقلید کرتے ہیں۔

ان اخبارات میں پہلا نیو یارک ٹائمز (Newyork Times) ہے جس کی ایک عشرے پہلے تک دس لاکھ چھیاسی ہزار کی سرکولیشن تھی۔1986 میں ایک دولت مند یہودی ایڈولف اوکس نے اسے خریدا تھا۔دوسرا عالمی سطح کا اخبار وال سٹریٹ جنرل (Wall street General) ہے جس کا مالک یہودی ہے اور اس کی تعداداٹھارہ لاکھ روزانہ تھی۔

تیسرا عالمی سطح کا اخبار واشنگٹن پوسٹ (Washington Post) ہے جس کی سرکولیشن سات لاکھ تریسٹھ ہزار روزانہ تھی۔اسی طرح ہیرالڈ،ٹریبیون،ٹائم میگزین جیسے کثیر الاشاعت مجلات کے مالکان یہودی ہیں اور ان کی اشاعت 41 لاکھ سے زیادہ رہی ہے۔

اب سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا پر بھی غیر مرئی طریقے سے انھیں میڈیا ہاوسز کا غلبہ ہے۔عالمی خبر رساں ایجنسیوں میں رائٹر کا نام سب سے نمایاں ہے۔دنیا کے پیشتر اخبارات اور ٹی وی اس ایجنسی کی خبروں پر بھروسہ کرتے ہیں۔رائٹر کا بانی جولیس رائٹر ایک یہودی تھا۔

آج اس ادارے کے کارکنوں کی تعداد 3100 کے لگ بھگ ہے،اسی طرح عالمی سطح کی ایک اور نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (AP) ہے جس سے صرف امریکہ میں 1300 روزنامے،3788 ریڈیو اور ٹی وی اسٹیشن وابستہ ہیں، اسی طرح ا(Fox TV)،(B,SKY) کا مالک بھی یہودی رابرٹ مرڈاک ہے،اسی طرح سٹار نیٹ ورک کو رابرٹ مرڈاک نے 525 ملین ڈالر میں خریدا تھا جب کہ اس کی مارکیٹ ویلیو 150 ملین ڈالر تھی۔

لوگوں نے اس خریداری پر حیرت کا ظہار کیا تھا جب کہ ملائیشیا کے سابق وزیر اعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا تھا کہ”یہودی کبھی گائے کا سودا نہیں کرتے “، خود رابرٹ نے اکنامسٹ کے انٹرویو میں کہا تھا کہ I will dim at middle class یعنی اس نیٹ ورک کے ذریعے درمیانے طبقے کی اخلاقیات پر اثر انداز ہونا میرا ٹارگٹ ہے۔

کچھ عرصہ پہلے تک اسٹار نیٹ ورک کی پاکستان میں مقبولیت کا یہ عالم رہا ہے کہ اس کے ایک چینل سٹار پلس کے پروگراموں کے اسپانسرز صرف پاکستانی ادارے تھے۔

اب شنید ہے کہ اسٹار پلس کسی ہندو سرمایہ دار نے خرید لیا ہے۔1963 میں امریکی صدر جان ایف کینڈی کے قتل کے بعد عرب مسلمانوں کے خلاف میڈیا پر مہم چلائی گئی بعد میں معلوم ہوا کہ اس قتل میں یہودی ملوث تھے،اسی طرح 11 ستمبر ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے میں سوچی سمجھی یہودی سازش کارفرما تھی جس کی رو سے مسلمانوں پر حملے کا بہانہ تلاش کرنا تھا

اور افغانستان، عراق کے معدنی اور قدرتی وسائل پر قبضے کی صورت کو ممکن بنانا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک کو معاشی طور پر مزید کمزور کرنا تھا، اس مقصد کے لیے (CNN) اور (BBC) کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف میڈیا وار کی صورت میں نفسیاتی جنگ کا آغاز کر کے جنگ کو طوالت بخشی گئی اور مطلوبہ مقاصد کے حصول کو آسان بنایا گیا، اس کے بعد ان علاقوں کو خود ساختہ انتہا پسندوں کے سپرد کر دیا گیا۔

یہودی لابی نے میڈیا وار کے ذریعے مغرب کے عوام میں یہ شعور اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ اسلام جنونی، دہشت گرد اور امن کا قاتل مذہب ہے۔

آج جہاں جہاں مسلمان اپنی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں وہاں ان کی مزاحم یہودی اور ہندو لابی کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھایا جاتا کیوں کہ مسلمانوں کا آزادی کے حصول کا مطالبہ امریکہ کی نظر میں دہشت گردی ہے اور خود امریکہ کا معصوم افغانی و عراقی مسلمانوں کے لہو سے اپنے ہاتھ رنگین کرنا دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔

یہ وہ دوہرے معیارات ہیں جو دہشت گردی اور جہاد میں فرق کئے بغیر قائم ہوئے ہیں تاکہ مسلمانوں کو علمی،فکری،سائنسی اور اخلاقی لحاظ سے کمزور کر کے ان پر غلبہ حاصل کیا جائے۔

وسائل، سرمایہ اورذہنی صلاحیتوں کی فراوانی کے باوجود بھی صورت حال ایسی ہے کہ آج مسلم دنیا سے یہ توقع کرنا عبث ہو گا کہ وہ راتوں رات بی بی سی اور سی این این یا نیوز ویک اور ٹائمز کے معیار کے ادارے قائم کر سکیں کیوں کہ میڈیا کے شعبے میں ہم ترقی یافتہ دنیا سے کوسوں دور ہیں

گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں کچھ پرائیویٹ چینلز نے اسلامی اقدار کے فروغ اور دنیا کے سامنے اسلام کو دین امن کے طور پر متعارف کروانے میں کافی حد تک اپنا کردار ادا کیا ہے اور مغرب کے ذہنوں سے غلط فہمی دور کر کے اصل حقائق پیش کرنے کی سعی کی ہے لیکن اس وقت عالم اسلام کے لیے ناگزیر ہے کہ اپنا ایک مشترکہ ٹی وی نیٹ ورک قائم کریں جس میں ہر زبان کے ذریعے اسلام اور مسلمانوں کا مؤقف پیش کر کے دنیا کے سامنے امریکی اور یہودی لابی کا مکروہ چہرہ بے نقاب کیا جانا چاہیے

موجودہ دور میں میڈیا ایک ایسا ہتھیار ہے جو فتح و شکست، ذہن سازی،اقدام سازی اور قیادت سازی کے امور انجام دے رہا ہے۔

آج عالم اسلام کو در پیش چیلنجوں کا سامنا کرنے کے لیے الگ ورلڈ اسلامک یو این او، یورپی یونین کی طرز پر ورلڈ اسلامک کامن ویلتھ، ورلڈ اسلامک کورٹ آف جسٹس،نیٹو کی طرز پر ورلڈ اسلامک ڈیفنس کونسل اور ورلڈ اسلامک میڈیا جیسے ادارے قائم کر کے اپنے فیصلے خود کرنا ہوں گے ورنہ مسلمان نوجوان مغربی ابلاغ عامہ کے ذریعے کی جانے والی برین واشنگ کے زیر اثر جذبات میں آکر دہشت پسندانہ کاروائیوں میں حصہ لے کر مجموعی طور پر عالم اسلام کے لیے مسائل کھڑے کرتے رہیں گے۔

القاعدہ ، داعش اور طالبان کی آڑ میں دہشت گردی اور مسلمانوں پر عتاب ظاہر کرتا ہے کہ اس کا مقصد مسلمانوں کو اشتعال دلا کر اور “غلطیاں ” کروا کر انھیں عالمی سطح پر بدنام اور الگ تھلگ کرنا ہے۔

یقیناً یہ یہ دماغی تطہیر (Brain Washing) کی ایک نئی اور منفرد تکنیک ہے۔یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی فلم کے درمیانی وقفہ (Interval) کے بعد ناظرین بیک وقت,,Situational Irony Dramatic Irony اور Thematic Irony کا سامنا کرتے ہوئے فلم کے ہیرو کو ولن اور ولن کو ہیرو کے روپ میں دیکھیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *