شعری مجموعہ وفا کے پھول کے تناظر میں
شعری مجموعہ وفا کے پھول کے تناظر میں بسلسلہ ” سیمانچل ادب کا گہوارہ “
ممتاز نیر : شخصیت اور شاعری ( شعری مجموعہ ‘ وفا کے پھول ‘ کے تناظر میں )
کچھ لوگ ملٹی وٹامن ملٹی مِنرل کیپسول جیسے ہوتے ہیں ۔ بظاہر ایک کیپسول ۔۔۔۔ لیکن اگر اس کیپسول کے اندر موجود مواد کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس میں اے تا زیڈ تمامتر حیاتین ، سونا چاندی لوہا زِنک اور دیگر ضروری معدنیات کے ساتھ ہی مختلف نمکیات ، جِنسینگ ، جِنگکو بِلوبا ، گرین ٹی ایکسٹریکٹ اور دیگر اینٹی آکسیڈینٹس وغیرہ بھی شامل ہیں ۔
ممتاز نیر کی شخصیت بھی کچھ ایسی ہی رنگ برنگی ہے ۔ ان کے اندر شاعر ، افسانہ نگار ، مضمون نگار ، نعت گو ، استاد ، خطاط ، مصور ، پینٹر ، ڈاکٹر ، موسیقار ، قوال اور نہ جانے کن کن خوبیوں کا مرکب بھرا ہے ۔ ان کے بارے میں سوچتا ہوں تو ذہن میں حضرت حسرت موہانی کی رنگارنگ شخصیت کا خاکہ ابھر کر سامنے آ جاتا ہے جو بیک وقت شاعر بھی تھے اور پہلوان بھی ۔ صحافی و مدیر بھی تھے اور جنگِ آزادی کے مجاہد بھی ۔
جنھوں نے ‘ چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے/ ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے ‘ جیسے دلپذیر رومانی اشعار و غزلیات کے ساتھ ‘ انقلاب زندہ باد ‘ کا ہردلعزیز اور پرجوش نعرہ بھی دیا اور جیل کی کال کوٹھری میں چکی بھی پیسی ۔ جیل تو ممتاز نیر بھی گئے ، ملک کی آزادی کی خاطر نہ سہی ، قتل کے جھوٹے مقدمے میں ملوث ہوکر ہی سہی لیکن ان کا جیل کی کال کوٹھری میں پانچ سال سے زائد عرصہ تک مقید رہنا آزاد ہندوستان کے سماجی ، اخلاقی ، انتظامی و قانونی ڈھانچے کی خامیوں کی نشاندہی ضرور کرتا ہے ۔
میرے خیال سے اتنی ساری مماثلت کے بعد انھیں ہلکے پھلکے انداز میں ” سیمانچل کا حسرت موہانی ” تو کہا ہی جا سکتا ہے ۔
ممتاز نیر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا اور ان کا پہلا افسانہ ” کنواری بیوی ” ماہنامہ پرواز ، لدھیانہ کے شمارہ بابت ماہ جولائی 1977ء میں شائع ہوا ۔
تخلیقی صلاحیت سے معمور ان کا قلم زودنویسی کی جانب مائل رہا ہے ۔ انھوں نے ڈھیر سارے افسانے اور مضامین قلم بند کئے ، شاعری بھی خوب کی مگر سوا پانچ سال قید و بند میں رہنے ، سیلاب کی تباہ کاری اور مسودات کے رکھ رکھاؤ میں کمی کے باعث بیشتر تخلیقات ضائع ہو گئیں ۔
پرواز کے علاوہ ان کے افسانے پاسبان، بیسویں صدی، خاتون مشرق، گلابی کرن، تیزگام، رگِ سنگ، شیبا، کہکشاں، خوشبوئے ادب وغیرہ رسائل میں شائع ہوئے ۔ ان کے افسانے سادہ ، ابہام سے پاک اور رواں بیانیہ کے حامل ہیں ۔
افسانوں میں تمثیل ، استعارہ یا علامت سازی کا فقدان ہے جس وجہ سے افسانوں میں اکہرے پن کی کیفیت پائی جاتی ہے ، لیکن بیانیہ کی روانی قاری کو باندھے رکھتی ہے ۔
افسانہ نگاری کے ایک سال بعد یعنی 1978 ء سے ان کی شاعری کا بھی آغاز ہوا ۔ شروع میں جناب وفا ملک پوری سے اصلاح لیا اور غزلیں اور نعتیہ کلام کہنے لگے ۔
1994 ء سے 1997 ء تک ان کی خود کی آواز میں ان کے نعتیہ کلام کے کئی البم منظرِ عام پر آئے جنہیں دہلی مینا بازار کی شہرت یافتہ ریکارڈنگ کمپنی ‘ سونک انٹر پرائز ‘ دہلی نے ریلیز کیا ۔ ان البموں کے نام حسب ذیل ہیں ۔
1 ۔ نغماتِ نور
2 ۔ بارشِ نور
3 ۔ رضائے نور
4 ۔ نوائے نور
ممتاز نیر قدیم پورنیہ ضلع جسے ان دنوں عرف عام میں ‘ سیمانچل ‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ، کے ضلع کشن گنج میں واقع ایک ترقیاتی بلاک ٹھاکرگنج کے حدود اربعہ میں بسے ایک غیر معروف گاؤں ‘ دودھ اونٹی ‘ میں مجیر الدین مرحوم کے گھر تعلیمی سند کے مطابق یکم جنوری 1955 ء کو پیدا ہوئے ۔
گاؤں میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد میٹرک رسل ہائی اسکول ، بہادر گنج سے 1976 ء میں اور انٹر ماڑواری کالج ، کشن گنج سے 1978 ء میں پاس کیا ۔ 1978 ء سے 2002 ء تک ایک سرکاری مدرسے میں بحیثیت مدرس علم ریاضی و سائنس ملازمت کی ۔
مدرس بننے کے بعد مولانا ریاض الحق صاحب کی زیرِ نگرانی فاضل تک کی درسی کتب کا مطالعہ بھی کیا ۔
اسی زمانے میں افسانہ نگاری اور شاعری کا آغاز بھی ہوا ۔ اس کے علاوہ استاد صغیر الدین پروانہ ، قوال ڈانگی بستی چھتر گاچھ سے گائکی اور موسیقی کی تربیت حاصل کی ۔ ان سے ہارمونیم پر طرز سازی کا فن بھی سیکھا ۔
فنِ خطاطی ، فنِ مصوری اور پینٹنگ کا بھی کام سیکھا اور سکھایا ۔ دس سال تک بطور دیہی طبیب ( Rural medical practitioner ) علاقے میں لوگوں کا علاج بھی کیا ۔
2002 ء میں انھیں قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا گیا جس کے باعث زندگی کے بیش قیمت سوا پانچ سال کشن گنج جیل میں گزارنے پر مجبور ہونا پڑا ۔ لیکن شاعری ، خصوصا” نعتیہ شاعری کے ایسے اسیر ہوئے کہ جیل میں بھی غزلوں اور نعتیہ کلام کے چھ کتابچے ہاتھ سے تیار کر ڈالے جو اردو اور ہندی رسم الخط میں ہیں ۔
انہیں خود سے کتابی شکل دی اور ان کے سرورق بھی قلم سے ہی تیار کئے ۔ ان کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں بہت سارے لوگ لے گئے ۔ جیل میں آنے والے افسران اور صحافیوں نے بھی ان کی خوب پذیرائی کی اور اخبارات میں ان کتابوں پر رپورٹس بھی شائع ہوئیں ۔ یہ کتابچے مندرجہ ذیل ہیں ۔
1 ۔ انجمن
2. ۔ بے قراری
3. ۔ رحمتوں کی بارش ( نعتیہ )
4 ۔ عقیدت کے پھول ( نعتیہ )
5 ۔ من کے پھول
6 ۔ آنسو اور پھول
جیل سے واپسی کے بعد پینٹنگ / Mural کو انھوں نے ذریعہ معاش بنالیا ہے ۔
ممتاز نیر کا تعلق ٹھاکر گنج سے ہے ۔
کیوں نہ کچھ باتیں ٹھاکرگنج کے متعلق بھی کر لی جائیں ؟
کہا جاتا ہے کہ بنگال کے مشہور زمین دار ٹھاکر خاندان ( جس کے ایک فرد نوبل انعام یافتہ گرو دیو رابندر ناتھ ٹھاکر بھی تھے ) کی کافی زمینیں یہاں تھیں اور انھوں نے ہی یہاں ایک ہاٹ کی شروعات کی تھی جو رفتہ رفتہ ٹھاکرگنج کے نام سے مشہور ہو گیا ۔
لیکن ٹھاکرگنج کی تاریخی حیثیت فقط اتنی ہی نہیں ہے بلکہ راجا بھرت جو ہستنا پور ( دلی ) کے حکمران تھے ان کی رانیوں میں سے ایک ‘ رانی کرنتی ‘ کیرات دیش کی تھی جو حالیہ ٹھاکرگنج کا خطہ ہے ۔
مہا بھارت کال میں یہاں راجا بیراٹھ کی حکومت تھی اور ویاس مُنی کے مشورے پر پانڈؤں نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے راجا بیراٹھ کے دربار میں اپنا اگیات واس کا سمے گزارا تھا ۔ بھیم تکیہ، کیچک ودھ وغیرہ اس زمانے کی باقیات میں سے ہیں ۔
( پورنیہ کی تاریخی اہمیت از پنڈت کرتیانند بیوگی : انسان پورنیہ نمبر ۔ صفحہ 21 )
سیمانچل میں اردو زبان و ادب کے فروغ میں کشن گنج ضلع کا بڑا اہم کردار رہا ہے ۔ حکیم رکن الدین دانا سہسرامی، مولوی عبدالعزیز عزیز، مولوی محمد سلیمان سلیماں، مولانا محمد اسمعیل ناصح، مولانا شاہ شرف الدین حفیظی، مولوی سید ابوالقاسم اختر بلگرامی، حکیم سید آغا علی احقر بلگرامی، حکیم سید مظفر حسین بلگرامی، تہذیب احمد غافل، محبوب الرحمن محبوب ،احمد حسین شمس بمن گرامی ، شمیم ربانی اور اکمل یزدانی جامعی وغیرہ ایسی تاریخی شخصیات ہیں جنہوں نے کشن گنج ضلع میں اردو زبان و ادب کی آبیاری کی ۔
ان شخصیات کے بعد کشن گنج کے ادبی منظر نامے میں ہمیں ایک خلا نظر آتا ہے کیوں کہ بعد کی نسل میں اس ضلع کی مٹی سے کوئی ایسا چہرہ ابھر کر سامنے نہیں آیا جس نے اپنی شناخت قائم کرنے کی سعی کی ہو ۔ ایک طویل گیپ کے بعد 78 -1977 ء سے جب ممتاز نیر کی افسانوی اور شعری تخلیقات منظر عام پر تواتر سے آنے لگیں تو اس واقعہ نے ہم عصر نوجوان طبقہ کو متاثر کیا ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب اردو کے باذوق قارئین بڑی تعداد میں گاؤں دیہات تک میں موجود تھے اور قصبوں اور گاؤں میں بھی شمع، روبی ، بیسویں صدی ، خاتون مشرق، پرواز ادب، تعمیرِ ہریانہ، پاسبان، گلابی کرن وغیرہ جیسے رسائل بآسانی دستیاب تھے ۔
ممتاز نیر نے جلد ہی کشن گنج ضلع کے نوجوانوں کے درمیان مقبولیت حاصل کرلی ۔ ان کی تقلید میں کئی نوجوانوں نے قلم اٹھایا اور میدانِ افسانہ نگاری و شاعری میں مشق کی شروعات کی ۔ گوہر رفیع شاذ ، مستحسن عزم ، جہانگیر نایاب ، مشتاق احمد گوہر وغیرہ جیسے کئی نام ہیں جو سرفہرست ہیں ۔ ان میں سے مستحسن عزم اور جہانگیر نایاب شاعری کے باب میں اپنی مستحکم پہچان بنانے میں کامیاب رہے ہیں ۔
اوپر میں نے ممتاز نیر کی شخصیت کا خاکہ اور پس منظر بیان کیا ہے ۔ کسی شاعر اور اس کی شاعری کو اس کے پس منظر سے الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ کاشت کاری پر منحصر ، وسائل سے محروم سیمانچل جیسے علمی و ادبی مراکز سے دور واقع خطے کے ایک دور افتادہ گمنام گاؤں میں مالی اعتبار سے کمزور ایک کسان کے گھر پیدا ہونے والے بچے کے اندر ادبی ذوق و شوق کا پیدا ہونا کسی معجزے سے کم نہیں ۔
اور پھر ایک مکمل غیر ادبی ماحول میں پل بڑھ کر ادبی ذوق کا پروان چڑھنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ ممتاز نیر میں شاعرانہ وصف قدرت کی دین ہے ۔ ان کی پرورش جس سادگی بھرے ماحول میں ہوئی اس نے ان کی شخصیت میں سادگی کے بیج بوئے اور محبت کی فصل اگائی ہے ۔ ان کی شاعری میں سادگی اور محبت کے یہ عناصر واضح طور پر نظر آتے ہیں ۔ ان کی شاعری کا اندازِ بیان سادہ اور پیغام محبت، بھائی چارہ اور امن و آشتی ہے
نفرتوں کے چلن کو مٹانا ہو گر
پیار کرنا میرے بھائیو سیکھ لو
دو دلوں کے بیچ بےحد فاصلہ ہو جائے گا
ختم جس دن پیار کا یہ سلسلہ ہو جائے گا
ممتاز نیر ملک کے اندر اور باہر پوری دنیا میں پھیلتے نفرت سے دلبرداشتہ اور اس کے انجام سے فکرمند نظر آتے ہیں ۔ انسانوں کے درمیان نفرت اور تعصب پھیلانے کا کام سیاسی بازیگروں کے ذریعہ کیا جا رہا ہے اور اس کا پرچار نہایت چالاکی سے امن اور انسانیت کے نام پر کیا جا رہا ہے
علم جو امن کا لےکر دکھائی دیتا ہے
اسی کے ہاتھ میں خنجر دکھائی دیتا ہے
ہوا میں کون سی یہ بو اڑائی تم نے اے مالی
چمن میں اب گل و بلبل بہت نفرت سے ملتے ہیں
روشنی کے دعوے ہیں پر کہاں اجالا ہے
رخ یہاں سیاست کا ہر طرف سے کالا ہے
شہر میں قتل و خوں کا موسم ہے
خوف میں ہے ہر اک بشر یارو
معاشرے میں نفرت کا زہر گھولنے والوں کو آج عروج حاصل ہے اور ہر چہار جانب ان کی شہرت کا
ڈنکا بج رہا ہے
آج کے شیطاں کی شہرت دیکھئے
آدمی ہے محوِ حیرت دیکھئے
سیاست اور سرمایہ دارانہ نظام نے گویا پوری دنیا میں انسان اور انسانیت کے گرد آہنی زنجیریں ڈال رکھی ہیں
جسم پر ہیں قید کی پابندیاں
فکر بھی ہے آہنی ماحول میں
لیکن شاعر ان حالات سے ہار نہیں مانتا بلکہ ایک انقلابی جدوجہد کا آغاز چاہتا ہے
کبھی گرمی میں جھونکا اک ہوا کا دے نہیں سکتے
جلا دو ایسے پیڑوں کو جو سایہ دے نہیں سکتے
فیصلے میں ابھی تھوڑی تاخیر ہے
کب سے کھلنے کو بیتاب زنجیر ہے
عطا ہو کوئی وسیلہ مری رہائی کا
گھِرا ہوا ہوں بہت دن سے قید خانے میں
شاعر کا کامل یقین اس بات پر ہے کہ اس قید سے نجات ملک ، رنگ ، نسل ، ذات ، مذہب ، فرقہ بندی کے تعصب سے پاک ہوکر اپنے گھر میں آدمیت کا چراغ روشن کر حاصل کی جا سکتی ہے
بجھ نہیں سکتا کبھی بھی اس کی عظمت کا چراغ
جل رہا ہو جس کے گھر میں آدمیت کا چراغ
انسانیت کا تقاضہ ہے کہ دنیا کے ہر گھر میں تھوڑی سی روشنی ہونی چاہئے ۔ ایسا نہیں کہ کسی کا
گھر اندھیرے میں ڈوبا ہو اور کسی کے محل میں چراغاں ہی چراغاں ہو
مجھ کو چاہئے تھوڑی سی روشنی مرے گھر میں
یہ نہیں کہا تھا تم آفتاب رکھ دینا
دنیا میں محبت کا پیغام عام کرنے کے لیے صبر ، سکون ، قناعت اور قربانی کی ضرورت ہے ۔ نظریاتی اختلافات کے باوجود ضبط و تحمل اور درگزر کرنے کی صلاحیت اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے
زندگی خوشیوں میں ڈھلتی جائے گی
غم بھی ہو تو مسکراتے جایئے
دوستوں میں بانٹئے الفت بہت
دشمنوں کو بھی مناتے جاییے
ہو خوشی تو بانٹ دیجے ہر طرف
غم کو سینے میں چھپایا کیجیے
رنج میں دیکھ لو اجی ہنس کر
پاس آ جائے گی خوشی ہنس کر
بات شاعری کی ہو ، غزل گوئی کی ہو اور بات حسن و عشق کی نہ ہو ایسا کب ممکن ہے اور اس پر ممتاز نیر جیسا پیدائشی شاعر ، افسانہ نگار ، مصور اور دیگر فنون لطیفہ کا دیوانہ
ان کے لب کو ہی چھوکے بنتا ہے
کوئی پانی شراب کا پانی
دھڑکنیں یہ کہتی ہیں آپ ان میں رہتے ہیں
چل گیا پتہ ہم کو آپ کے ٹھکانے کا
جمال حسن کا جب آشکار ہوتا ہے
وہیں پہ دل کا پرندہ شکار ہوتا ہے
ممتاز نیر نے زندگی کے تلخ تجربات کو اپنی شاعری میں سمیٹنے کی سعی کی ہے
بدلاؤ دیکھتے ہیں سبھی کے مزاج میں
لوٹے ہیں جب سے قید کے لمبے سفر سے ہم
ممتاز نیر کی شاعری کے مزید پہلوؤں کی دریافت کی جا سکتی ہے لیکن طوالت کا خوف دامن گیر ہے ۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان کی شاعری کچھ دل کی تو کچھ دنیا کی حکایت ہے جس کا اندازِ بیاں روایت کا پاسدار ، الفاظ سیدھے سادے اور زبان عام فہم ہے ۔ کہیں کہیں ہندی الفاظ کا استعمال بھی خوب صورتی کے ساتھ کیا گیا ہے ۔
چند اشعار میں زبان و بیان کی خامیاں در آئی ہیں جن پر نظرثانی کی ضرورت ہے ۔ غزلوں/ اشعار کا انتخاب بھی مزید توجہ کا طالب ہے ۔
ممتاز نیر صاحب کے لیے نیک خواہشات !
* برادر ممتاز نیر کا اولین شعری مجموعہ منظرعام پر آنے جا رہا ہے جس کےلیے انھیں اردو ڈائریکٹوریٹ ، پٹنہ سے منظوری مل چکی ہے ۔ انھوں نے زیر ترتیب مجموعہ کی پی ڈی ایف فائل مجھے ارسال کی تو میں نے یہ مختصر مضمون لکھ دیا تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آوے ۔ اب آگے ان کی مرضی ، مضمون اپنی کتاب میں مکمل یا جزوی طور پر شامل کریں نہ کریں ۔ کسی شخص کا مضمون نگار کے خیالات سے متفق ہونا بھی لازمی نہیں ۔
ہاں ! اولین مجموعہء کلام کی اشاعت اور مالی تعاون کے حصول پر مبارک باد پیش کرنا لازمی ہے ۔