مسلم امہ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ

Spread the love

از قلم :  مشتاق نوری مسلم امہ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ 

مسلم امہ کے لیے ٹرننگ پوائنٹ

یہ وقت کا وہ ٹرننگ پوائنٹ ہے جس میں ہمارا سب کچھ داو پر لگا ہوا ہے جان بھی، مال بھی، آبرو بھی۔ان سب کی سلامتی کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی سر ہے۔

سر دھڑ،مال و متاع اور عزت و آبرو کا تحفظ کسی کو بھی سستے میں نہیں ملتا۔اس کے لیے طویل جد و جہد اور فکر و تدبیر سے لیس حل تلاشنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھنا ہوتا ہے۔

حکمت و مصلحت بھرے اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔صرف مسجد کے منبر و محراب کے ساۓ میں بیٹھ کر اخلاص و تضرع سے خالی، لمبی لمبی دعائیں کرنے سے قوم و ملت محفوظ نہیں رہ سکتی۔

ائمہ مساجد سے فلاں فلاں فساد زدہ علاقوں کا نام لے کر دعا کی گزارش کرنے سے وہ علاقے محفوظ و مامون نہیں ہو جائیں گے۔ایسے عمل کی حیثیت بس اتنی ہی ہے کہ دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔

ہم نے پہلے برما کے خونیں مناظر دیکھے ہیں۔برما میں بچوں کے کٹے پھٹے سر اور روہنگیا عورتوں کے بے لباس بدن دیکھے ہیں۔پر ہم نے برما کے حالات کو یکسر نظر انداز کیا۔

اس سے سبق نہیں لیا۔یہ ملک اتنی جلدی برما جیسا بنا دیا جاۓ گا یہ تو سوچا ہی نہیں تھا۔آج ملک میں جو لوگ ان دنگوں کے شکار ہوۓ ان سے پوچھیے کہ ان پر کتنے خقں آشام برما بتاۓ گئے۔

انہیں کن اذیت ناک انجام سے دو چار ہونا پڑا۔پر ہمیں کیا فرق پڑتا ہے۔رمضان کے روزے سے ہیں ۔حافظ صاحب کے پیچھے فاسٹ تراویح بھی پڑھ رہے ہیں۔

قسم قسم کے لذیذ پکوانوں سے بھری افطاری کا انتظام بھی ہمارے ہی سر ہے۔ہمارے مسند نشینوں کی مجلسیں بھی نارمل ہیں۔

بعض یو ٹیوب پر ویڈیوز دیکھ کر دل بہلا رہے ہیں۔ہم نے ٹھان رکھی ہے ہمارے مرے شعور میں روح پھونکنے، سرد پڑے احساسات میں حرارت بھرنے کے لیے کوئی فرشتہ ہی اترے، جس کا امکان صفر ہے۔

بقول شخصے

سنا ہے ڈوب گئی بے حسی کے دریا میں

وہ قوم جس کو جہاں کا امیر ہونا تھا

 

حالات اپنی خوفناک تبدیلی کا الارم پہلے بجا دیتے ہیں بس اسے سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔اقلیت پر قابو پانے کے لیے ہزاروں غیر قانونی حربے زیر عمل لاۓ گئے۔

اب کشمیر فائلس کو پردے پہ لاکر سارے ہندو سماج کو تشدد پر اکسایا گیا۔اس میں اس طرح کی حیوانیت دکھائی گئی ہے کہ ایک شانت مزاج آدمی بھی کھول اٹھے گا۔وہ اپنی جھوٹی مظلومیت اور ہمیں درندگی بھرا کردار میں دنیا کے سامنے پیش کر کے ہمیں انسانیت دشمن، امن مخالف ویلن ثابت کرنے میں کام یاب رہے۔

ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے۔یہ کوئی اچانک نہیں ہوا۔یہ اسکرپٹ عزرائل سے لیا گیا ہے۔

جس طرح عزرائل نے اپنی جھوٹی مظلومیت کا رونا رو کر فلسطین کی زمین ہتھیا لی اور آج وہی محلے کا رنگ دار بنا بیٹھا ہے اسی طرح پنڈتوں کی جھوٹی تاراجی و نسل کشی کا کارڈ کھیل کر کشمیری مسلم کو دوسرے درجے پہ پھینک دیا جاۓ گا اور وہاں دنیا بھر کی ہمدردیاں بٹور کر یہ چند پنڈت من مانا راج کریں گے۔وہ فلم ساز یہیں پر نہیں رکے۔

کیوں کہ اسے اپنے ایجنڈے کی تکمیل کرنی ہے۔سو دلی فائلس کا اناؤنس کرکے اس کی تیاری میں جٹ گئے ہیں۔اس دلی فائلس میں بھی ہم ہی ویلن ہوں گے۔قتل بھی ہمارا ہوا قاتل بھی ہمیں بنایا گیا۔

اسی فلم کا منفی اثر ہے کہ سیتاپور یوپی کا ایک اپاہج پنڈا مسجد کے سامنے لاؤڈ اسپیکر پہ کھلے عام مسلم خواتین کی آبرو ریزی کی دھمکی دیتا ہے آخر یہ جسارت کہاں سے آئی۔

اور ہم اتنے بے حس ٹھہرے کہ اس کے خلاف قرار واقعی قانونی چارہ جوئی بھی نہ کر سکے۔ہم اس یوگی کی پولیس پر بھروسہ کر کے بیٹھ گئے جس نے خود اس سے پہلے ہماری مردہ ماں بہنوں کی عصمت دری کا نعرہ لگایا تھا۔

خواتین کے تحفظ کا مسئلہ ہمیشہ نازک رہا ہے۔ایک باعزت سماج کے لیے عورتوں کا محفوظ ہونا ضروری ہے۔

دھارمک بھانگ کھاکر تانڈو کرنے والے راون کے چیلوں سے خواتین و پردہ نشیں کی آبرو کی خیر تبھی ممکن ہے جب آپ کے اندر ان کے خلاف دندان شکن اقدام کا پاور ہوگا۔اقوام عالم کے لہو زار تصادم میں سب سے زیادہ عورتوں کو ہی نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

تب دنگائی ٹولے بہن بیٹیوں کی عزت نوچ کھانا اپنا دھارمک ادھیکار سمجھتے ہیں۔شاید ہم لوگ بڑودہ (گجرات)کی وہ حاملہ خاتون بھول گیے جس کے وضع حمل کا محض ایک گھنٹہ رہ گیا تھا اور درجن بھر دنگائی اس کی عزت تار تار کر رہے تھے۔

یہ کتنا دل دوز منظر تھا مگر ہم نے کسی برے خواب کی طرح بھلا دیا ہے۔اس طرح کے سینکڑوں واقعات تاریخ کے دامن میں دفن ہیں۔

احساس مر نہ جاۓ تو انسان کے لیے

کافی ہے ایک راہ کی ٹھوکر لگی ہوئی

آج ہم آر ایس ایس کے ہندوتو عزائم کے نرغے میں آچکے ہیں۔اب اسی میں گھٹ گھٹ کے جینا پسند ہے یا ٹیپو سلطان کے وارث بن کر شیر کی طرح مرنا، یہ فیصلہ ہمیں کرنا ہے اور ابھی کرنا ہے۔

یہ قانون کے رکھوالے، یہ کورٹ یہ تھانے سب بھگوا نظام کے لیے کام کر رہے ہیں۔یہاں تو سیکولزرم براۓ نام بچا ہے۔ایک سیکولر اسٹیٹ میں اکثریت اقلیت پہ اس طرح چڑھ دوڑے گی ایسا کیسے ممکن ہے؟

گوڈسے وادی ٹولے ہمیشہ دستور ہند کو مٹانے کی بات کرتے رہے ہیں وہ یوں ہی نہیں کرتے بلکہ انہوں نے اتنی تیاری کر رکھی ہے۔

آج بات اذان پر آئی ہے۔ہم کیا سوچتے ہیں کہ اسے بخش دیا جاۓ گا۔نہیں نہیں!زعفرانی داداگیری کی رفتار بتا رہی ہے کہ ملک بھر کی مساجد سے لاؤڈ اسپیکرز اتار لیے جائیں گے۔ملک بھر میں حجاب ممنوع قرار دے دیا جاۓ گا۔

یہ سب مستقبل قریب میں متوقع ہے۔اگر کوئی یہ ماننے سے انکار کرے کہ انڈیا میں مسلم سماج سے ووٹ دینے کا حق بھی چھین لیا جاۓ گا تو وہ ضرورت سے زیادہ خوش فہمی میں مبتلا ہے۔

ہندو انتہا پسند خیمے نے ہر چیز پلان کر رکھی ہے۔وہ رفتہ رفتہ سب باہر لا رہا ہے اور تھوپتا جا رہا ہے۔ہمارے مفکرین و مدبرین بھرم پال رکھے تھے کہ بابری مسجد کے خلاف کورٹ فیصلہ نہیں دے سکتی ورنہ عالمی فورمز پر ملک کی امیج خراب ہو جاۓ گی۔

مسلم ممالک سے دوستانہ تعلقات بگڑ جائیں گے۔مگر کیا ہوا وہی ہوا جو ظالم کو راس آیا۔ایک جھٹکے میں تین طلاق کو غیر قانونی بنا دیا، ہم بھی دیکھتے رہے اور مسلم پرسنل لاء بورڈ بھی۔ اسی طرح کشمیر کے آرٹکل ۳۷۰ کی منسوخی کا اعلان ہوا۔کشمیری بالقہر سالوں تک لاک ڈاؤن جھیلتے رہے۔

این آر سی، سی اے اے بھی ہم پہ لاد رکھا ہے۔گاۓ کا گوشت کھانا آپ پر بین کر ہی دیا گیا۔کرناٹک میں حجاب کے خلاف آرڈر پاس کرا ہی لیا گیا۔ایسے میں سیکولر ازم کی دہائی ایک شکست خوردہ سماج کی مجبوری ہی کہلاۓ گا۔

پھر ہم کن ابابیل کے منتظر ہیں؟ کن غیبی طاقتوں کی راہ دیکھ رہے ہیں؟

ہمارے قول و فعل میں اتنا تضاد ہے کہ ہم امداد کے نام پر بدر و احد کی طرح فرشتوں کے لشکر کے نزول کا بھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔کیوں کہ بدر والوں کے لیے فرشتوں کی ذریعہ تب رسد و کمک پہنچائی گئی

جب وہ جی جان سے دشمن سے دو دو ہاتھ کر رہے تھے۔دین کی سربلندی کے لیے سر پہ کفن باندھ کر نکل چکے تھے تب ربانی مدد آئی تھی۔اور ہم تو صرف دعا پہ گزارا کرنے والے بے حس پڑے قبیلے کے لوگ ہیں۔

عملی جد و جہد تو صفر ہے۔ہمارے لیے آسمانی مدد کیسی؟

مسجدوں کے سامنے یہ ہندو دنگائی کا اچھل کود دیکھ کر لگتا ہے کہ دنیا سے امن و انصاف اٹھ ہی گیا ہے۔آپ کیا محسوس کرتے ہیں؟ میں تو اندر سے پریشان ہو جاتا ہوں کہ اس سے زیادہ ہماری بے بسی اور کیا ہوگی۔حالات بد سے بدتر بنا دیئے گئے ہیں مزید خراب ہوں گے۔

ہم اگر آج نہیں جاگے تو کل موت کی نیند سلا دیئے جائیں گے۔زندہ رہے بھی تو عزت و اعزاز سب چھن چکا ہوگا۔دنگا بھڑکانے والے انماد و جنون میں یہ بھول جاتے ہیں کہ کسی مذہب کو برباد کرنا تو الگ مسئلہ رہا۔دو مذہبوں کا باہم متصادم ہونا نہ سماج کے مفاد میں ہے نہ ملک کے مفاد میں۔

ہندو دنگائی ہر طرف دندناتے پھر رہے ہیں۔انہیں معلوم ہے کہ سیاں بھئے کوتوال تو ڈر کاہے کا۔ایسے میں ہمیں چوکنا رہنے اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔

ان حالات میں اپنے بچوں کی جان و آبرو کے ساتھ ان کا مستقبل بھی بچانا ہماری پہلی ذمہ داری ہے۔

ایک منٹ کے لیے ذرا سوچ لیں!

میں ملک کے سارے مفکرین، مدبرین،متکلمین،مدرسین، محررین،مقررین و معززین سے دست بستہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم سب ملک میں اپنے وجود و بقا کے لیے ایک شامیانے کے نیچے آجائیں؟

کیا ہمیں نئی نسل کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے سماجی روابط بڑھا کر سیاسی اتحاد بنانا نہیں چاہیے؟

کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم مسلک و مشرب کے حصار سے نکل کر بنام کلمہ ایک آواز ہو کر اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جد و جہد کریں؟

کیا یہی وہ وقت نہیں کہ جس میں مساجد و مدارس کی بلند بانگ عمارتوں کا تحفظ فقط امت کے جملہ فرقے کی اجتماعیت سے بندھا ہے؟

کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ زید بریلوی، بکر دیوبندی، خالد سلفی اور عمر شیعہ رہتے ہوئے ملت کی بھلائی کی خاطر ایک پلیٹ فارم کی ٹرین پکڑیں؟

کیا اب بھی سجادہ نشینوں کے خلوت سے نکلنے کا وقت دور ہے؟

یاد رکھیں!

اگر آج کی تاخیر سے کل قوم کو خون کے آنسو رونے پڑے تو اس کی ذمہ داری کسی ہندو یا مشرک تنظیم پر ڈالنے کے بجاۓ خود کو قبول کرنا ہوگی۔

قوم کے نوجوان آج سلاخوں کے پیچھے دھکیلے جا رہے ہیں ان کا کیا؟ یہ سردمہری کب تک چلے گی؟

اگر مریدین کا جتھا پیر صاحباب کو خواب خرگوش سے جگا نہیں سکا عقیدت کے ہاتھوں خاموش رہا۔اگر ارباب بست و کساد کی نیند نہیں ٹوٹی تو قیامت ہی ٹوٹے گی۔

پھر لازما یہ سوال ہوگا کہ اگر ملت کے لیے کچھ کر نہیں سکتے تو خدارا قیادت و امارت نام کا ٹائٹل بھی اتار ہی دیں، قوم پر احسان ہوگا۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر

مشتاق نوری