چاہ کَن را چاہ در پیش
چاہ کَن را چاہ در پیش
سویڈن میں قرآن سوزی کے تناظر میں
تحریر: محسن رضا ضیائی، پونہ
کہتے ہیں کہ جب کسی کو ختم کرنا یا شکست دینا ہوتو پہلے اسے ذہنی و نفسیاتی آزمائش میں مبتلا کردو تو وہ خود بہ خود ہلاک وبرباد ہوجائے گا۔
اگر دیکھا جائے تو آج مخالفین مسلمانوں کے خلاف سب سے زیادہ یہی حربہ استعمال کررہے ہیں۔
کبھی پیغمبرِ اسلام ﷺ کی توہین و گستاخی کرکے تو کبھی قرآن سوزی کرکے مسلمانوں کو طرح طرح کی ذہنی و نفسیاتی آزمائش میں مبتلا کر رہے ہیں۔
ایسا کرکے باطل طاقتیں مسلمانوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرنا چاہتی ہیں، ان کی آنے والی نسلوں کو اپنے کنٹرول میں کرنا چاہتی ہیں، یہاں تک کہ وہ اس کے لیے ہمہ وقت کوشاں بھی ہیں
لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے، کیوں کہ اس پر اب تک صدیاں لگ چکی ہیں، لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔انہیں اچھی طرح پتہ ہے کہ مسلمان کوئی معمولی قوم نہیں ہے
اسے صفحۂ ہستی سے مٹانا بھی اتنا آسان نہیں ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے سلاطین و حکمراں آئے،اس کے لیے لاکھوں جتن کیے، ساری توانائیاں صرف کردیں، لیکن اخیر میں نتیجہ یہ نکلا کہ یا تو وہ سر جوڑ کر بیٹھ گئے یا پھر اپنے انجامِ اخیر کو پہنچ گئے۔
اس لیے اب انہوں نے مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا یہ طریقہ اختیار کیا ہوا ہے، جس کے کچھ نمونے ہم حالیہ کچھ سالوں سے مسلسل دیکھتے چلے آرہے ہیں۔
سویڈن میں قرآن سوزی کی ناپاک جسارت وحرکت ہو یا پھر فرانس، ہندوستان اور ہالینڈ جیسے ممالک میں توہین و گستاخی کا معاملہ ، یہ سب اسی کی مشقیں ہیں۔
اب ایسے ذہنی و نفسیاتی آزمائشوں کے دور میں ہم مسلمانوں کو جذبات و نفسیات سے پرے ہوکر اس سلسلے میں مستحکم منصوبہ بندی اور کامل حکمتِ عملی کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور سب سے پہلے انہیں یہ باور کرانا ہوگا کہ ہم وہ قوم نہیں ہے
جو تمہارے زہریلے جرثوموں سے ذہنی و نفسیاتی آزمائش میں مبتلا ہوجائیں، بلکہ ہمارے جسم و خمیر میں سلطان صلاح الدین ایوبی، طارق بن زیاد، محمد بن قاسم اور سلطان عبد الحمید جیسے سپاہیان و غازیانِ اسلام کا دوڑتا ہوا خون ہے، جس کا ایک قطرہ بھی کبھی ماند نہیں پڑسکتا ہے۔
دوسرا کام یہ کریں کہ غیروں کی چالوں اور سازشوں کو سمجھیں ،جو انہوں نے ہمارے خلاف کررکھی ہیں اور کوشش کریں کہ انہیں ان ہی کے منصوبوں میں بری طرح ناکام بنائیں۔فارسی زبان کا مشہور مقولہ ہے’’چاہ کن را چاہ در پیش‘‘یعنی جو دوسروں کے لیے کنواں کھودتا ہے وہ خود اس کے اندر جا گرتا ہے۔
اپنی فولادی طاقت و قوت اور آہنی عزم و ہمت سے اِس قعرِ مذلّت میں انہیں ہی ڈھکیلنے کا کام کچھ اِس طرح کریں:
جا بجا قرآن کریم پر مبنی پروگرامات، سیمنارز اور کانفرنسیز کا انعقاد کریں۔
مدارس،اسکول اور کالجیز میں سابقوں ، مکالموں ، سوالوں اور جوابوں کے ذریعہ طلبہ میں بیداری لائیں۔
دنیا بھر میں قرآن فہمی کی ایک عالم گیر تحریک شروع کریں۔
قرآن مقدس کی آیتوں کے معانی و مفاہیم اور مطالب سے لوگوں کو روشناس کرائیں۔بین الاقوامی اور مروّجہ زبانوں میں قرآنِ کریم کے تراجم و تفاسیر پر کام کریں۔
اس سے اغیار و اعداے اسلام اپنے منصوبوں اور ہتھکنڈوں میں نہ صرف ناکام ہوں گے بلکہ اپنے کھودے ہوئے کنوے میں خود جاگریں گے۔