جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں
جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں ؟
خطاب، وعظ، بیان یہ تینوں لفظ اپنے اوصاف میں ایک دوسرے کے بڑے قریب ہیں مگر ایکشن میں فرق ہے۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ خطاب کا رنگ روپ لہجہ اسلوب، سب اپنا خوں خوار تیور لیے ہوا ہے۔ خطاب کا روایتی مطلب ہے چیخ پھاڑ گرج دار لہجہ۔اسی لیے ہمارے جلسہ پوسٹرس میں لکھا جاتا ہے خطیب شعلہ بار، خطیب برق بار۔وعظ و بیان ذرا اس سے مختلف ہے۔یہ پیش کش میں بالکل سادگی کا متقاضی ہے۔آج بھی ٹھنڈے اسلوب اور میٹھی زبان سے “بیان” کیا جاتا ہے۔علم بیان بھی تو یہی سکھاتا ہے۔خطیب کا خطاب تو چند ساعات میں ہوا ہو جاتا ہے مگر بیان و موعظۂ حسنہ، دل و دماغ میں جگہ بنانے میں کام یاب رہتا ہے۔
ہمارے علاقے(سیمانچل بہار)میں ایک کہاوت کہی جاتی ہے کہ چمار کی ہمیشہ نیت اور دعا رہتی ہے کہ خوب جانور مرے۔بعض اوقات جب کوئی کسی کا برا چاہتا ہے یا بد دعا کرتا ہے تو لوگ جوابا اس طرح بھی کہتے ہیں کہ چمار کی بد دعا سے کسی کا بیل نہیں مرتا۔ اس کہاوت کا علاقائی پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ہاں جیسے ہی کسی کی گاے، بیل یا بھینس مر جاتا تھا لوگ اس مردار جانور کو باہر کہیں جنگل یا بانس واڑی میں پھینک آتے تھے۔بس تھوڑی ہی دیر بعد کوئی چمار چمڑا اتارنے کے لیے اپنے اوزار لے کر پہنچ جاتا۔کیوں کہ اسے چمڑا بیچ کر کچھ پیسے گھر لانا تھا۔
ذرا تیکھے لہجے میں یہ بھی پڑھ لیں کہ آج کل جلسہ جلوس میں پیسوں کی ریل پیل دیکھ کر ہر مدرسہ خواں خود کو شاعر و خطیب بنا کر پیش کرنا چاہتا ہے۔ہر کوئی چاہتا ہے اس کا بھی نام ہو، شہرت ہو، مفت کی عزت ملے، پیسے ملے۔یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ ان جلسہ بازوں کی نیت بھی ٹھیک اس چمار جیسی ہی رہتی ہے کہ جلسوں کی باڑھ آۓ، ہر گلی، محلہ، قریہ، نگر، سارے بلاد و امصار میں ہر چہار جانب جلسے ہی جلسے ہوں۔
اس کی کسی کو بھی فکر نہیں کہ ملت کو کتنا فائدہ ہوا۔آپ ٹھنڈے دماغ سے دل پہ ہاتھ رکھ کر سوچیں کیا ہمارے جلسہ بازوں کی نیت، چمار کی نیت سے زیادہ مختلف ہے؟ ویسے چمار کی بد دعا سے بیل تو نہیں مرتے مگر جلسہ بازوں کی حسرت و چاہ سے جلسے ضرور بڑھ رہے ہیں۔ اس وقت جلسہ وائرس سے متاثرہ جو ریاستیں ہیں ان میں بہار، بنگال، جھارکھنڈ، یوپی، اڑیسہ،چھتیس گڑھ ہیں۔یہ صوبے سب سے زیادہ جلسہ مافیا کے عذاب سے بے حال ہیں۔ہند کی دیگر ریاستوں میں بھی جلسے ہوتے ہیں مگر وہ معدودے ہی ہیں۔
مذہبی بازیگروں نے مذکورہ چھ ریاستوں پر کچھ زیادہ ہی مہربانی دکھائی ہے۔اس جلسہ باز ٹولے کی دلی خواہش ہے کہ ان چھ کے علاوہ ہند کی دیگر ساری ریاستوں میں جلسہ کا وائرس پھیل جاۓ تو مزہ ہی آ جاۓ۔خدا نہ کرے کہ وہ دن آۓ اور بہار بنگال کی طرح ہر جگہ جلسہ جلوسی مداری نظر آئیں ورنہ اپنوں کے درمیاں دین بھی اجنبی و نامانوس ہو جاۓ گا۔
بہار دیگر ریاستوں کی بنست ہند کی سب سے غریب اور کمزور ریاست ہے۔اس میں آج بھی روزگار کے ذرائع وضع نہیں کیے جا سکے ہیں۔لوگ آج بھی روزی روٹی کے لیے دیگر ریاستوں میں کام کرتے ہیں۔تلخ تو یہ ہے کہ یہاں کے جتنے مدارس چلتے ہیں سب باہر کے چندوں کے بھروسے۔رمضان کے مہینے میں مدارس کے اساتذہ ملک کی دیگر ریاستوں کی خاک چھانتے ہیں۔
اپنی تنخواہ سے زائد چندے لا کر دینے کی ذمے داری انہیں شہر شہر سیٹھوں، رئیسوں کے دروازے کھٹکھٹانے پر مجبور کرتی ہے۔آپ کو حیرت ہوگی کہ اسی غربت زدہ بہار میں تیس سے چالیس لاکھ بجٹ تک کے جلسے ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے اندر اخلاص ہے،خدا ترسی ہے تو آپ جلسوں کے گویا مزاج شاعری اور بھانڈ انداز میں پروسے گئے خطاب کے طلسم ہوش ربا سے باہر نکلیے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ قوم کو دین سیکھنا سکھانا ہے تو اس کے لیے رب نے جمعہ کے دن کا انتظام کر رکھا ہے۔شاید آپ کو اس کا مشاہدہ و تجربہ ہوگا کہ جس مسجد کا امام و خطیب پڑھا لکھا اور سنجیدہ مزاج ہے۔
ان کے اندر سیرت و شرع کو سمجھانے کی صلاحیت ہے۔مصلین کو پیغمبرانہ اسلوب میں اڈریس کرنے کا ہنر ہے وہاں لوگ خطاب سننے کے لیے پہلے آ کر جگہ لیتے ہیں۔کیا ہم یہ اشارہ نہیں سمجھ پاتے کہ رب نے ظہر کی چار کی جگہ جمعہ کی محض دو رکعات نماز رکھی؟ تاکہ مزید کچھ وقت ملے، دین کا خطیب قوم کو رسول کی سیرت سے آشنا کر سکے۔
یہ بات یقینی طور پر بجا ہے کہ آج بھی لوگ جمعہ کے خطاب سے دینی معلومات اخذ کرتے ہیں۔یہ جلسے جلوس آج صرف ماہانہ یا سالانہ وقت گزاری و مٹر گشتی کا ذریعہ ہیں۔
اگر دل میں ایما نداری ہے۔ خلوص ہے اور آپ ان مسائل کے تئیں از حد سنجیدہ ہیں۔ قومی بیداری کے ذریعہ انقلابی سوچ کے حامل بھی ہیں تو مذکورہ ریاستوں کی مسلم آبادی کی مذہبی، معاشی و سماجی اسٹیٹس بحال کرنے کے لیے ہر سال ہو رہی لاکھوں کروڑوں روپے کی بربادی روکنے کے لیے موثر لائحۂ عمل تیار کریں۔
قوم کو بس یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہر سال ہم جو لاکھوں روپے جلسے کے نام پر خرچ کر رہے ہیں اس کا بیس پچیس فیصد بھی اگر ایمان داری سے تعلیم و تعمیر پر خرچ کیا جاۓ تو اگلے دس سال میں بڑے انقلاب کی امید جاگ سکتی ہے۔
بہار و جھارکھنڈ جیسے کمزور صوبوں کی نسل نو کو معیاری و تعلیم یافتہ بنانے کے لیے علما کے اندر ملی بیداری ناگزیر ہے۔ورنہ عبدل کا لفظ آج ملک بھر میں بطور طنز و دشنام ہی بولا جاتا ہے۔یہ اسی ناخواندگی کی کوکھ سے نکلے زہر ناک رویہ ہے جو ہمیں غیر مسلم حلقوں کی طرف سے بارہا جھیلنا پڑتا ہے۔
جب دہلی ممبئی جیسے شہروں میں لفظ بہاری بطور سب و طنز بولا جاتا تھا تو اس وقت اسے بہار کے دیگر طبقوں نے سنجیدگی سے لیا اور بدلاؤ کی ہر ممکن کوشش کی مگر مسلم حلقے آج بھی اسی بھڑ چال میں ہیں۔
جلسے کا جنوبی ہند ماڈل
جنوبی ہند کی بڑی بڑی ریاستوں میں جلسوں کا زہر اب تک نہیں پھیلا ہے۔جیسے آندھرا، تلنگانہ، کرناٹک، تمل ناڈو وغیرہ۔حیدر آباد میں کچھ مہینے مجھے رہنے کا نیک اتفاق ہوا۔کرناٹک کو بھی دیکھ رہا ہوں۔حیدر آباد میں جلسے نہیں ہوتے۔وہاں میں نے دیکھا کہ بعض مساجد میں ہفتے وار بیان کا سلسلہ چلتا ہے۔بعض موقعوں پر اسپیشل خطیب بلاۓ جاتے ہیں اور ایک گھنٹے کا بیان ہوتا ہے۔
اس کے لیے نہ باہر سے ساؤنڈ سسٹم کی ضرورت رہتی ہے، نہ پنڈال سجانے مجمع جمانی کی۔مسجد کی مائک سیٹ سے ہی سب کچھ ہوتا ہے۔سب سے بڑی بات کہ لوگ ہمہ تن گوش ہو کر دل جمعی سے سماعت کر رہے ہوتے ہیں۔یہی چیز کرناٹک کے بعض شہروں میں بھی دیکھنے کو ملی۔
اگر بہار و جھارکھنڈ کو جلسے کی نحوست سے ستھرا کرنا ہے تو جنوبی ہند کا ماڈل اپنانا ہوگا۔آپ نے کبھی غور کیا کہ جہاں جتنا زیادہ جلسے ہو رہے ہیں وہاں دین کے اصل خدمت گاروں(ائمہ و معلمین)کی تنخواہیں بہت ہی قلیل ہیں۔
آج بھی بہار و بنگال کی نوے فیصد مساجد میں ائمہ کی تنخواہ چھ سے سات ہزار کے ارد گرد چکر کھا رہی ہے۔ادھر جنوبی ہند میں جہاں سال میں دو چار بھی جلسے بمشکل ہوتے ہیں ائمہ و مدرسین کی تنخواہ مناسب ضرور ہے۔کرناٹک میں اٹھارہ، بیس، پچیس ہزار کی تنخواہ عام ہے۔بہار کے ائمہ کو بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ آپ جلسوں کو بڑھاوا دے کر اپنے معیار کے ساتھ کھلواڑ مت کیجئے۔
مشتاق نوری
Pingback: نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر ⋆ اردو دنیا