زرد صحافت یہ بھی ہے

Spread the love

تحریر: عرفان احمد ازہری چھپرہ بہار زرد صحافت یہ بھی ہے

زرد صحافت یہ بھی ہے

آج بتاریخ ١٢ دیسمبر ٢٠٢١ بروز اتوار کے قومی تنظیم پٹنہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ کے پہلے صفحہ پر ایک سرخی “سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی” نظر سے گزری۔

میں نے سوچا کہ انٹر نیٹ ایڈشن سے اس خبر کو اپنے ڈیوائس پر محفوظ کر لیا جائے، لیکن انٹر نیٹ ایڈیشن جب کھول کر دیکھا تو پہلے صفحہ پرتبلیغی جماعت پر پابندی کے سوا تمام خبریں ہو بہو تھیں۔ انٹر نیٹ ایڈیشن میں تبلیغی جماعت پر پابندی کے خبر کی جگہ جتیندر تیاگی کے حوالے سے ایک پرانی خبر کو جگہ دی گئی تھی۔

زرد صحافت یہ بھی ہے

زرد صحافت یہ بھی ہے

انٹرنیٹ والے ایڈیشن میں اس تبدیلی کا مقصد تو ناشرین ہی بتا سکتے ہیں لیکن شاید سبکی کی وجہ سے انہوں نے ایسا کیا ہے کیوں کہ پرنٹ اخبار کی اشاعت اور پہنچ محدود ہوتی ہے اس کے برعکس انٹرنیٹ ایڈیشن کی پہنچ کئی گنا زیادہ ہوتی ہے

جب کہ برصغیر کے سیدھے سادے مسلمانوں کے سامنے سعودی عرب کو ہی اسلام بنا کر پیش کرنے والے تبلیغی جماعت کو آج اسی سعودی عرب نے انہیں لات ماردیا تو اب ان لوگوں کے سامنے کیا منھ لے کر جائیں گے جنہیں سعودی عرب کے نام پر گمراہ کیا تھا۔ویسے یہ تو ہونا ہی تھا دو کشتی پر سواری سے بہت زیادہ دیر تک لطف اندوز نہیں ہوا جاسکتا۔

بہت پہلے سے ہی علما عرب تبلیغی جماعت کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے رہے ہیں لیکن ذوالوجہین علی میاں ندوی بہت چابکدستی سے تبلیغی جماعت اور دیوبند پر پردہ ڈالتے رہے اور سعودی ریال سے اپنے باطل عقیدے کی نشر و اشاعت کرتے رہے۔ علی میاں کے بعد ان کے اخلاف اس بھرم کو زیادہ دیر تک قائم نہیں رکھ سکے۔

ابوالحسن ندوی سعودی پہنچ کر “خالص توحیدی” چولہ زیب تن کر کے پکے وہابی بن جاتے، آل شیوخ کو خوش کرنے کے لیے ابن عبد الوہاب کی بدنام زمانہ کتاب “کتاب التوحید” پر حاشیہ بھی تحریر کرکے اپنے ادارے میں داخل نصاب کردیتے۔

اور وہاں سے توصیفی اسناد اور تکریمی خطاب لے اڑتے اور جب ترکی پہنچتے تو تصوف کا چوغہ زیب تن کرکے پکے صاحب طریقت بن جاتے اور سلسلہ نقشبندیہ میں ہزاروں لوگوں کو داخل سلسلہ فرماکر ترکوں کو بھی بیوقوف بناتے۔

یہاں تک کہ تبلیغی جماعت کا سلسلہ مشہور ترکی صوفی بزرگ بدیع الزماں شیخ سعید نورسی سے منسوب کرنے کی کوشش کی گئی۔

شیخ سیف الرحمن أحمد اپنی کتاب “نظره عابرة اعتبارية حول الجماعة التبليغية” میں لکھتے ہیں “ان نسب هذه الجماعة التبليغية حسب ما بلغني يتصل بالشيخ الكبير سعيد نورسي الكردي كما قاله البعض”ترجمہ:”میری معلومات کے مطابق جیسا کہ بعض لوگوں نے کہا ہے

اس تبلیغی جماعت کا سلسلہ نسب شیخ کبیر سعید نورسی کردی سے ملتا ہے” سلفی عالم شیخ حمود بن عبداللہ کی ٣٥٣ صفحہ کی کتاب “القول البلیغ فی التحذیر من جماعۃ التبلیغ” ١٩٩٣ء میں ہی شائع ہوگئی تھی‌۔

اس میں تبلیغی جماعت کے بارے میں ایک سؤال کے جواب میں وہ لکھتے ہیں:”اقول: اما جماعة التبليغ فان هم جماعة بدعة وضلالة وليسوا على الامر الذي كان عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه والتابعون لهم باحسان”ترجمہ”میرا کہنا ہے: جہاں تک تبلیغی جماعت کی بات ہے تو یہ گمراہ اور بدعتیوں کی جماعت ہے، یہ لوگ اس راہ پر نہیں ہیں جو اللہ کے رسول ﷺ، صحابہ اور تابعین کا ہے

۔”٢٠٠٦ میں ریاض کے اخبار میں شائع ایک بیان میں شیخ ابن عثیمین نے تبلیغی جماعت کے بارے میں کہا:(بلغني عن زعماء لهؤلاء الجماعة في الأقطار الإسلامية خارج بلادنا أنهم على انحراف في العقيدة فإذا صح ذلك فإن الواجب التحذير منهم والاقتصار على الدعوة داخل بلادنا على الوجه المشروع)”۔

ہمارے ملک سے باہر دیگر اسلامی ممالک میں اس جماعت کے سربراہان کے بارے میں ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ عقائد کے معاملہ میں وہ گمراہی کے شکار ہیں، اگر یہ بات درست ہے تو ان سے بچنا ضروری ہے اور ملک کے اندر ان کی دعوتی سرگرمیوں کو قانونی طور پر محدود کرنا چاہیے

۔” اسی طر ح دکتور محمد تقی الدین الہلالی الحسینی نے 1979 میں شائع شدہ اپنی کتاب “السراج المنیر فی تنبیہ جماعۃ التبلیغ علی أخطائہم” میں تبلیغی جماعت کا پردہ کچھ اس طرح فاش کیا۔

لکھتے ہیں:”يسمون انفسهم اهل التبليغ وضعوا لدعوتهم اركان ستة مدارها على السياحة فهي الركن الاساسي عندهم فهي بمنزلة الشهادتين عند اهل الاستقامة فمن قبلها اشتغل بها، احبوه واكرموه وغفر له ذنوبه وتقصيره وضلاله و بدعته ومن خالفه فيها لم يقبلوا منه شيئا وان كان مؤديا لجميع الواجبات قائما بالفرائض والسنن متبعا لاقوم السنن، فهي خلاصة دينهم”ترجمہ:” وہ لوگ اپنا نام تبلیغی رکھتے ہیں اور انہوں نے اپنی دعوت کے لیے چھ رکن بنایا ہے جن کی بنیاد سیاحت (سفر) ہے

اور ان کے نزدیک یہی بنیادی رکن ہے اور کلمہ شہادت کے منزل میں ہے، جو اسے مان لے، اس پر عمل کرلے اس سے محبت کرتے ہیں، اس کی تعظیم کرتے ہیں، اس کی خطاؤں سے چشم پوشی کرتے ہیں، اس کی بدعت و گمرہی کو درگزر کرتے ہیں اور جو ان کی مخالفت کرتا ہے وہ اگرچہ فرائض و واجبات کی ادائیگی کرتا ہو، سنتوں کی پابندی کرتا ہو اس کی کوئی چیز قابل قبول نہیں

یہی ان کے دین کا خلاصہ ہے۔” صاحب تصانیف کثیرہ شیخ خالد ثابت مصری حفظہ اللہ کا واقعہ تو اور بھی دل چسپ ہے۔

ازہر شریف میں طالب علمی کے زمانے میں ایک شب جمعہ ان کے یہاں ہونے والے ہفتہ وار محفل میلاد میں اپنے دوست مولانا عارف جمال ازہری (وارانسی) اور ایک انڈونیشی دوست احمد ونڈاری کے ہمراہ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔

محفل میلاد کے بعد دوران گفتگو شیخ خالد ثابت نے بتایا کہ وہ پہلے تبلیغی جماعت سے اتنے متاثر تھے کہ تبلیغی جماعت کے ساتھ مختلف ممالک کے دورہ پر بھی گئے، ہندوستان بھی ان کا آنا ہوا اور وہ تبلیغی جماعت کو سنی صوفی جماعت سمجھتے تھے۔

ایک مرتبہ ندوۃ العلماء کے سرخیل عالم سعید الرحمن اعظمی نے (جنہیں وہ صوفی/سنی سمجھتے تھے) اپنی کتاب “ساعۃ مع العارفین” انہیں تحفہ میں بھیجا۔ کتاب کے مشمولات میں ہندوستان کے “مشاہیر” علما کے طور پر علماء دیوبند اور وہابی علما کا تذکرہ تھا۔

اسی دوران استاد گرامی علامہ محمد احمد مصباحی حفظہ اللہ کی کتاب “حدوث الفتن” بھی ان کے ہاتھ لگ گئی جس میں “ساعۃ مع العارفین” میں ذکر کردہ کئی ناموں کو ہندوستان میں وہابیت کی ترویج و اشاعت کی جڑ قرار دیا گیا تھا۔

جس سے شیخ خالد ثابت حفظہ اللہ شدید الجھن کے شکار ہو گئے۔ اپنے ذہنی خلجان کو دور کرنے کے لیے انہوں نے شیخ سعید الرحمن کو خط لکھ کر کتاب میں ذکر کردہ ہندوستان میں مبینہ اساطین تصوف سید احمد رائے بریلوی وغیرہ کے حوالے سے وضاحت طلب کی لیکن کوئی جواب نہیں پا کر دوبارہ خط لکھا لیکن جواب ندارد! ۔

آخر حقیقت کی تلاش خود شروع کی تو اس وقت وہاں زیر تعلیم کیرالہ کے ہندوستانی طالب علم شیخ ڈاکٹر نصیر الدین ملیباری سے ان کا رابطہ ہوا اور اس کے بعد رفتہ رفتہ تبلیغی جماعت کی جعل سازی ان پر آشکارا ہوتی گئی اور وہ تبلیغی جماعت سے اس قدر متنفر ہوگیے کہ اپنی ہر شائع ہونے والی کتاب کے پشت پر تبلیغی جماعت سے لوگوں کو ہوشیار رہنے کی گزارش کرنے لگے۔

ایک نظرادھربھی

اندرونی سطور میں تبلیغی جماعت کو سنیوں کی تنظیم کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو یقیناً خلاف واقع امر ہے۔ لیکن اخبار کے ناشرین کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ سنی تو اپنی صف میں سنیوں کو ہی جگہ دینے کو تیار نہیں انہیں کیا خاک جگہ ملے گی

جن کا سنیت سے دور دور کا بھی واسطہ نہیں! “خالص سنیوں” نے سنیت کا دائرہ تو اس قدر تنگ کردیا ہے کہ حقیقی سنیت کی عملی تبلیغ کرنے والی تنظیم اور علمی نشر و اشاعت کی خدمات انجام دینے والے اداروں کو بھی سنیت کی خود ساختہ لکیر سے باہر رکھا ہے۔

سواد اعظم کا نام تو ضرور لیتے ہیں لیکن سواد اعظم کے مفہوم پر ان کی سنیت کی خود ساختہ تشریح منطبق ہو رہی ہے یا نہیں اس کی بھی انہیں پروا نہیں۔

انہیں اس پر بھی غور کرنے کی چنداں ضرورت محسوس نہیں ہوتی کہ اخبار کی بازی گری اور اندرونی سطور پر تبلیغی جماعت کو سنیوں کی تنظیم قرار دینا اس پروپیگنڈے اور ایجنڈے کا ہی حصہ ہے جس کے تحت وہ سالہا سال سے ہمارے مساجد اور اداروں کے ساتھ کرتے آئے ہیں۔

بنے بنائے ہمارے ادارے اور مساجد پر چابکدستی سے قبضہ کرلیتے تھے اس کی ناقابل شمار مثالیں موجود ہیں اور اب سنی ٹیگ بھی اپنی جھولی میں کرنا چاہتے ہیں۔

اور یہ با آسانی ہو بھی جائے گا کیوں کہ “خالص سنیوں” کو صرف سنی لفظ گوارا نہیں جب تک “سنی” کے ساتھ لفظ “بریلوی” کا مضبوط اسٹیکر نہ لگا ہو۔

جب کہ دوسری طرف تبلیغی جماعت اور دیگر گمراہ جماعتیں عوام کو دھوکا دینے کے لیے خود کو سنی اور سنیوں کو بریلوی کا نام دیتے رہے ہیں اور ہمارے بعض اپنوں کو یہی چیز اس قدر پسند ہے کہ کوئی اپنے آپ کو صرف سنی کہے تو اس کی سنیت مشکوک ہوجاتی ہے۔

عرفان احمد ازہر ی
مقیم حال چھپرہ بہار

٧ جمادی الاولی

مطابق ١٢ دیسمبر بروز یکشنبہ

ان مضامین کو بھی پڑھیں

 تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں 

ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی 

 مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر

قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

محبت کریں پیار بانٹیں

ایک مظلوم مجاہد آزادی

عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات

سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن

شوسل میڈیا بلیک مینگ 

ہمارے لیے آئیڈیل کون ہیں ؟ 

  قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی 

 اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے

خطرے میں کون ہے ؟

افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں 

 مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز

۔ 1979 سے 2021 تک کی  آسام کے مختصر روداد

کسان بل واپس ہوسکتا ہے تو سی اے اے اور این آر سی بل کیوں نہیں

ہوائی جہاز ٹکٹ آن لائن بک کرتے ہوے کیسے بچت کریں

ہندی میں مضامین کے لیے کلک کریں 

हिन्दी में पढ़ने क्लिक करें

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *