نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر

Spread the love

نوٹوں کی بارش میں نہاتے شاعر

حال ہی میں چند روز قبل ایک عازم حرمین کے پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔جو ایک بڑا تاجر ہے۔میاں بیوی ساتھ میں حج کو جا رہے ہیں۔اس خوشی کے اظہار کے لیے دعوت عام و خاص میں عشائیہ کا منفرد انتظام کیا گیا تھا۔مغرب کے بعد سے لے کر گیارہ بجے تک عام دعوت چلتی رہی۔ہندو مسلم سب کو دعوت تھی۔

دعوت میں کئی قسم کے لذیذ پکوان تھے۔ناشتے میں کئی قسم کی مٹھائیاں تھیں۔بالکل فائیو سٹار ہوٹل کی طرح۔کول ڈرنکس تو ایسے پلاۓ جا رہے تھے مانو یہ کوئی گنگا کا پانی ہو۔ہر پانچ منٹ دس منٹ پر ویٹر لے کر پہنچ جاتا۔جو نہیں پینا چاہتا اسے بھی بہ اصرار پلایا جا رہا تھا۔پھر دس بجے کے بعد میلاد النبی کا پروگرام شروع ہوا۔

میں تھا اور بھی دو باہر سے بلاۓ گئے عالم تھے۔ہم تینوں نے پروگرام کا آغاز تلاوت و نعت سے کیا۔پھر تھوڑی ہی دیر بعد راجستھان سے بلاۓ گئے نعت خواں کو بر اسٹیج کیا گیا۔سفید جبہ سفید عمامہ پہنے شہ نشیں پر براجمان ہوا۔وہ بالکل گجرات والے شبیر برکاتی کی طرح اپنی مائک سیٹ لے کر پہنچا تھا۔

پھر وہی پرانی پاکستانی دھن میں کلام شروع کیا۔وہی سارے کلام جو ہم پچھلے بیس سال سے سنتے آ رہے ہیں۔مگر حیرت یہ تھی کہ جیسے ہی نعت خواں نے مائک سنبھالا حاجی صاحب کی پوری فیملی نوٹوں کی گڈی لے کر مجمع میں بیٹھ گئی۔

حاجی صاحب کے والد، بھائی، بیٹے، بھتیجے اور بہنوئی سب کے سب نوٹوں کو یوں اچھال رہے تھے جیسے کوئی ردی کاغذ ہو۔حاجی صاحب خود اسٹیج پر لگے صوفے پر نعت خواں کے پاس ہی بیٹھے تھے اور وہ ہر ہر مصرعے پر نوٹ لٹا رہے تھے۔

دیکھ کر حیرت بھی ہوتی رہی اور قوم کے مزاج پر رونا بھی آیا۔نوٹ اچھالنے میں یہیں تک نہیں رکے، بلکہ پہلے حاجی صاحب کی ماں کو بر سر اسٹیج لایا گیا اور انہوں نے بیٹے کی بلائیں لیتے ہوۓ دس ہزار کی گڈی شایر پہ اڑا دی۔پھر حاجی صاحب کی ساس کو نواسے لے کر آۓ انہوں نے بھی وہی کیا۔اندازے کے مطابق تقریبا ایک لاکھ سے زائد روپے شایر پہ لٹاۓ گئے۔

اس میں لٹاۓ گئے روپوں میں سب سے چھوٹا نوٹ پچاس کا تھا۔دس بیس کا نوٹ تھا ہی نہیں۔میں نے خود ہزاروں بڑے جلسے دیکھے ہیں

مگر پہلی بار اس طرح دیوانہ وار نوٹ لٹاتے دیکھ کر یہ خیال آتا رہا کہ بزنیس مین حاجی صاحب کی عقیدت پر داد دوں یا پھر اس بد مستی و ذہنی عیاشی پر کلمۂ استرجاع پڑھ لوں۔ہم تینوں غریب مولوی اور وہاں کے مظلوم امام صاحب، اسٹیج پر بیٹھے دو بجے رات تک بس نوٹ اچھالے جانا لٹاۓ جانا دیکھتے رہے۔

چار گھنٹے کے پروگرام میں صرف نعت خوانی ہوئی۔میں خود حج کے موضوع پر خطاب کرنے کو تیار بیٹھا تھا۔مگر خطاب کون سنتا ہے۔چار ساڑھے چار گھنٹے کا یہ پروگرام نعت خوانی کی بھینٹ چڑھ کے رہ گیا۔

ان لنکوں پر کلک کرکے خرید داری کریں  اور پیسے بچائیں 

Click here

Click here

Click here

جلسہ ماڈل میں بدلاو کی ضرورت کیوں

تصویر کا دوسرا رخ

فجر پڑھنے کے بعد ہم بھی اسٹیشن کی طرف نکلے۔دیکھا کہ چند لونڈوں کے ساتھ رات والا نعت خواں ہوٹل میں چاے پی رہا ہے۔نہ عشا کی نماز میں تھا نہ فجر میں رہا۔
رات کو جبہ اور عمامہ میں فرشتہ لباس دکھنے والا شاعرِ اہلسنت اس وقت جنس اور ٹی شرٹ میں ہے۔خدا کی قسم یہ تجارت پیشہ لوگ قوم کے ذہن و دماغ پر عقیدت بن کر قابض ہیں۔سیاہ کردار کے بعد بھی نعت خوانی کی رسیا قوم کو یہ محترم لگتے ہیں۔

رات کو جبہ عمامہ میں ملبوس شایر صاحب پورے مجمع کو جنت پہنچا کر، صبح ہوتے ہی جنس و ٹی شرٹ میں گھومتے ہوئے  ہچکچاتا بھی نہیں۔ بنداس مکھوٹا بدل لیتا ہے۔ محلہ کا امام ایک بہترین باصلاحیت عالم ہے ، مفتی ہے۔

ہر رات عشا بعد تفسیر قرآن کا درس دیتا ہے۔ میں نے امام صاحب سے پوچھا حضرت یہاں ایسا ماحول ہے تو آپ کو تو بہت سی مراعات و سہولیات میسر ہوں گی۔پھر امام صاحب درد بھرے لہجے میں گویا ہوۓ کہ حضرت یہی لوگ ہیں جب میں پہلی بار گھر سے فیملی کو لے کر آیا تو خانہ داری اور رسوئی کے کچھ سامان مسجد انتظامیہ نے مجھے خرید کر لا دیئے۔ میں خوش تھا کہ کمیٹی نے اتنا تو کیا۔دل ہی دل دعائیں دیتا رہا۔مگر جب تنخواہ دی جانے لگی تو میری تنخواہ سے وہ تین ہزار روپے کاٹ لیے گئے۔

عرض کرتا چلوں کہ دس ہزار پہ تفسیر سنانے والا نماز پڑھانے والا امام کی سال بھر کی تنخواہ، نعت خواں کی رات بھر کی کمائی سے بھی کم۔ایسے بے شعور پر ظلم وعدوان کی کونسی دفعہ لگنی چاہیے؟
آخر یہ ٹرینڈ کس نے چلایا کہ ائمہ کو نظر انداز کیا جاۓ اور بے عمل بلکہ بد عمل نعت خوانوں پر ایک رات میں لاکھوں لٹا دیئے جائیں؟

آخر وہ کونسے محرکات ہیں کہ ہر رات تفسیر قرآن سنانے پر بھی کوئی سو دو سو نکالنے کو کبھی تیار نہیں ہوا۔تفسیر سن کر نذرانہ دینے میں نانی مرتی ہے۔مگر دھن میں پڑھے گیےکلام پر ناگن ڈانس کیا جاتا ہے؟یہاں اسٹیج ہولڈر طبقہ ہم جیسوں پر اتہام باندھتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری کمائی سے جلتے ہیں حسد کرتے ہیں۔

ارے بھئی شاعرو! آپ لوگ اطمینان رکھیں ہمیں آپ کی کمائی سے نہیں، قوم کی بد مزاجی و عیاشی سے دقت ہے۔

قوم کی اس اکرام و نوازش کا اصل حق دار اس کا امام ہی ہے۔وہ امام جو گناہ و فریب کے دور میں بھی نیک چلنی و پارسائی کی مورت جیسا ہونا ضروری ہے وہ امام سماج کی ان دیکھی جھیل کر بھی مسکراتا ہے۔اگر کسی نے دیکھ لیا کہ امام نے فلاں دن ہوٹل میں چاے نوشی کی ہے تو لوگ اس بات کو بھی بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔اگر کسی نے دیکھ لیا امام نے نفل نہیں پڑھی تو لوگ پیچھے برائی شروع کر دیتے ہیں۔مطلب یہ کہ امام سماج کا سب سے سفید و پارسا شخص ہوتا ہے۔دین کے معیار کا آدمی ہوتا ہے۔

جو معیار کا ہو اسے ہر زاویہ سے مقدم رکھا جانا چاہیے۔مگر خانقاہوں اور درگاہوں کے چلاۓ گئے ناجائز ٹرینڈ کے سبب ائمہ کو نظر انداز کر کے اوباش قسم کے شاعروں کی جھولی بھری جاتی ہے۔

اس لیے مجھے یہ بد دعا کرنے کی اجازت دی جاۓ اور آپ آمین کہیں کہ وہ درگاہ، وہ مولوی، وہ پیر خاک آلود ہو جس نے سماج میں ائمہ کو زیرو کر کے نوٹ خواہ گویوں کو ہیرو بنانے کا کام کیا ہے اور کر رہے ہیں۔انہیں خدا غارت کرے۔

(متعلقہ شاعر ، حاجی صاحب اور مقام کا نام پتہ دانستہ مخفی رکھا گیا تاکہ کسی کی پرائیویسی کو چوٹ نہ پہنچے۔اور میں بھی کچھ ممکنہ دقتوں سے محفوظ رہوں)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *