صدقۂ فطرمیں ہونے والی خامیاں اوراس کا شرعی حل

Spread the love

تحریر:مفتی محمدشمس تبریز قادری علیمی صدقۂ فطرمیں ہونے والی خامیاں اوراس کا شرعی حل

صدقۂ فطرمیں ہونے والی خامیاں اوراس کا شرعی حل

اللہ رب العزت کافرمان ہے:’’بے شک وہ مرادکوپہنچاجوستھراہوااوررب کانام لے کرنمازپڑھی‘‘(کنزالایمان،سورۂ اعلیٰ،آیت :۱۴،۱۵)

اس آیت کی تفسیرمیں کہاگیاکہ ’’تَزَکیّٰ‘‘سے صدقۂ فطردینااور’’رب کانام لینے‘‘سے عیدگاہ کے راستہ میں تکبیریں کہنا،اور’’نماز‘‘سے نمازِعیدمرادہے۔ (تفسیرخزائن العرفان)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا:’’بندہ کاروزہ آسمان وزمین کے درمیان معلق رہتاہے جب تک صدقۂ فطرادانہ کرے‘‘۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ فطرمقررفرمائی کہ لغواوربیہودہ کلام سے روزہ کی طہارت ہوجائے اورمساکین کی خوراک ہوجائے۔

حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے زکاۃ فطرایک صاع خرمایاجَو،غلام وآزادمردوعورت چھوٹے اوربڑے مسلمانوں پرمقررکی اوریہ حکم فرمایاکہ نمازکوجانے سے پیشتراداکریں۔(بہارشریعت،حصہ پنجم صدقۂ فطرکابیان)

صدقۂ فطراداکرنے سے ایک توحکم شرعی پرعمل کرنے کاثواب ملتاہی ہے اس کے ساتھ دومزیدفائدے ہیں۔اول یہ کہ صدقہ فطرروزوں کوپاک وصاف کرنے کاذریعہ ہے۔

روزے کی حالت میں جوفضول باتیں کیں اورجوخراب اورگندی باتیں زبان سے نکلیں صدقہ فطرکے ذریعے روزے ان چیزوں سے پاک ہوجاتے ہیں۔

دوسرافائدہ یہ ہے کہ عیدکے دن ناداروں اورمسکینوں کی خوراک کاانتظام ہوجاتاہے اوراسی لیے عیدکی نمازکوجانے سے پہلے صدقہ فطراداکرنے کاحکم دیاگیاہے۔

غورکرنے کی بات ہے کہ کتناسستاسوداہے کہ محض دوکلوسینتالیس گرام گیہوں دینے سے تیس روزوں کی تطہیرہوجاتی ہے یعنی لایعنی اورگندی باتوں کی روزے میں جوملاوٹ ہوگئی اس کے اثرات سے روزے پاک ہوجاتے ہیں۔

گویاصدقۂ فطراداکردینے سے روزوں کی قبولیت کی راہ میں کوئی اٹکانے والی چیزباقی نہیں رہ جاتی ہے۔

صدقۂ فطرکاحکم حضورنبی اکرم ﷺ نے زکوٰۃ سے پہلے اُس سال دیاجس سال رمضان کاروزہ فرض ہوا۔ صدقۂ فطرکا اداکرناہراس مسلمان مردوعورت کے لئے ضروری ہے جس کے پاس ساڑھے سات تولہ سونا(93.312) ترانوے گرام اورتین سوبارہ ملی گرام اسی طرح صرف چاندی یااس کا بنا ہوا زیورساڑھے باون تولہ (653.184)چھ سوترپن گرام اورایک سوچوراسی ملی گرام یااتنی چاندی کی رقم یااتنی مالیت کامالِ تجارت یاعام سامان ہواوریہ سب حاجت اصلیہ سے فارغ ہوں۔

حاجتِ اصلیہ کی توضیح :

انسان کوزندگی بسرکرنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ سب حاجتِ اصلیہ میں سے ہیں،جیسے رہنے کامکان ،چاہے وہ کتناہی بڑااورمہنگاہو،جاڑے اورگرمیوں میں پہننے کے کپڑے ،خانہ داری کے سامان مثلاًمیز،کرسی ،صوفہ،الماری،فریج،واشنگ مشین،کولراورپنکھاوغیرہ خواہ کتنی ہی قیمت کے ہوں،سواری کی چیزیں مثلاًگھورا،اونٹ،ہاتھی یااس زمانہ میں سائیکل،موٹرسائیکل اورموٹرکاروغیرہ،لڑائی کے ہتھیارخواہ وہ کسی قسم کے ہوں اورکتنے ہی مہنگے ہوں،پیشہ وروں کے اوزارمثلاًڈاکٹروں کے چیک اپ کی بڑی بڑی مشینیں ،نقشہ سازوں اورآپریٹروں کے کمپیوٹرولیب ٹاپ وغیرہ ،کاشت کاروں کے ہل بیل اورٹریکٹروغیرہ،کپڑاتیارکرنے والوں کے لیے پاورلوم وغیرہ،اوردیگرکام کرنے والوں کے لیے ان کے اوزار،اہل علم کے لیے حاجت کی کتابیں ،اورکھانے کے لیے غلہ وغیرہ حاجتِ اصلیہ میں آتے ہیں۔(عظمتِ زکوٰۃ)

عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطرواجب ہوتا ہے۔

مرد مالک نصاب پراپنی طرف سے اوراپنے چھوٹے بچہ کی طرف سے واجب ہے،جبکہ بچہ خودمالک نصاب نہ ہوورنہ اس کاصدقہ اسی کے مال سے اداکیاجائے۔

صدقہ فطرواجب ہونے کے لیےروزہ رکھناشرط نہیں ،اگرکسی عذر،سفر،مرض،بڑھاپے کی وجہ سے یامعاذاللہ بلاعذرروزہ نہ رکھاجب بھی واجب ہے۔صدقۂ فطرچنداشیاءکے ذریعہ اداکرنے کاحکم ہے مثلاً گیہوں یا اس کاآٹایاگیہوں کاستو،ان میں سے کوئی بھی چیزدیں توجدیدوزن کے اعتبارسےدوکلوسینتالیس گرام دیناہے۔کھجوریامنقّٰی ،جَویااس کاآٹایاجَوسے بناہواستو،ان میں سے کوئی بھی چیزچارکلوچورانوے گرام دیناہے۔

قارئین !ہم جب اپنے معاشرے اورسماج کامشاہدہ کرتے ہیں تویہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشرے میں زندگی گزارنے والے مسلمان ایک ہی درجےکے نہیں ہیں بلکہ ان کے اندرکئی  Categoryہے۔ اوران کے رہن سہن اوررسم ورواج بھی علاحدہ ہیں۔

مثلاًامیرترین اہل ثروت حضرات نہایت اعلیٰ اورقیمتی ،ایئرکنڈیشن مکانات میں بودوباش اختیارکئے ہوئے ہیں اوران کے کھانے بھی عمدہ اورلذیذہوتے ہیں ۔قیمتی Four-Wheelerگاڑیوں سے آمدورفت کرتے ہیں۔اس کے بعدMiddle Classکے لوگ ہوتے ہیں جواپنی استطاعت وحیثیت کے مطابق مکانات تعمیرکرتے اوراسی پرگزربسرکرتے ہیں۔اورایک طبقہ ایسابھی ہے جسے سب سے نچلے درجے (Lower Class)کاماناجاتاہے جن کے پاس اپنی زندگی گزارنے کے علاحدہ طورطریقے ہوتے ہیں۔

اپنی ذاتی زندگی پرجب خرچ کی بات آتی ہے توان تین درجے کے انسانوں میں سے ہرطبقہ اپنی استطاعت وحیثیت کے مطابق خرچ کرتا ہوا نظر آتا ہے مگرجب اللہ کے راستے میں دینے کی بات آتی ہے توتینوں طبقے کے لوگ سب سے سستی چیزپراتفاق کرلیتے ہیں یہ کہاں کاانصاف ہے ؟

اس لیے اس پربھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ صدقۂ فطراداکرنے میں ہرسال صرف گیہوں پرہی اکتفانہ کیاجائے بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق کسی سال کھجورسے اداکریں توکبھی منقی اورجوسے بھی اداکریں تاکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کاصحیح اوردرست طریقے سے شکراداہوسکے۔

صدقۂ فطرکن کودیاجائے اورکون سی دینی جگہ پراس کولگایاجائے؟تویہ جان لیں کہ صدقۂ فطرکے مصارف وہی ہیں جوزکوٰۃ کے مصارف ہیں ،(فقیر،مسکین،عامل،رقاب،غارم،فی سبیل اللہ،ابن سبیل،ان سب کی وضاحت علماے کرام سے معلوم کریں )یعنی جن کوزکوٰۃ دے سکتے ہیں انہیں فطرہ بھی دے سکتے ہیں اورجنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے انہیں فطرہ بھی نہیں دے سکتے ،سوائے عامل کے ،کہ اس کے لئے زکوٰۃ ہے فطرہ نہیں۔

آج کل دیکھایہ جارہاہے کہ چندجگہوں پرمساجداورمکاتب کے ذمہ داران کھلے عام صدقۂ فطراورزکوٰۃ وعشرکی رقم مسجدکے امام اورمکتب کے مدرس کی تنخواہ میں صرف کررہے ہیں۔

کئی جگہ سے اس کے متعلق میرے پاس استفتاءآیاکہ ایساکرناازروئے شرع درست ہے یانہیں؟صدقاتِ واجبہ کی رقم مسجدکے امام اورمکتب کے مدرس کی تنخواہ میں صرف کرنے والوں سے جب سوال کیاگیاکہ آپ ایساکیوں کررہے ہیں جب کہ یہ ناجائزہے توان کاجواب یہ تھاکہ ہم حیلۂ شرعی کے ذریعے جائزکرنے کے بعدہی صرف کرتے ہیں۔

ظاہرہے کہ حیلۂ شرعی کے متعلق عوام کوہمارے کچھ کم علم مولوی حضرات نے ہی بتایاہوگاجبکہ ان کویہ معلوم نہیں کہ کہاں پرحیلۂ شرعی کرناجائزہے اورکہاں ناجائز؟

حکم شرع غورسےپڑھیں،”والدین اگراہل ثروت یاصاحب نصاب ہیں اورمکتب میں صرف انہی کے بچے پڑھتے ہیں توایسے مکتب کے لئے حیلہ کرناجائزنہیں۔ فتاویٰ رضویہ میں ہے:’’ہزارون روپے فضول خواہش یادنیوی آسائش یاظاہری آرائش میں اٹھانے والے مصارف خیرمیں ان حیلوں کی آڑنہ لیں۔متوسط الحال بھی ایسی ہی ضرورتوں کی غرض سے خالص خداہی کے کام میں صرف کرنے کے لیے ان طریقوں پراقدام کریں،نہ یہ کہ معاذاللہ ان کے ذریعے سے ادائے زکوٰۃ کانام کرکے روپے اپنے خردبردمیں لائیں کہ یہ امرمقاصدشرع کے بالکل خلاف اوراس میں ایجاب زکوٰۃ کی حکمتوں کایکسرابطال ہے ،توگویااس کابرتنااپنے رب عزوجل کوفریب دیناہے۔(فتاویٰ رضویہ،مترجم،ج:۱۰،ص۱۰۹،کتاب الزکوٰۃ)

اوراگروالدین کسی وجہ سے مدرس کوتنخواہ نہ دے سکیں یاصرف غریب بچے تعلیم حاصل کرتے ہوں اورصورت حال یہ ہوکہ زکوٰۃ کی رقم استاذکودیئے بغیربچوں کے لیے تعلیم قرآن ممکن نہیں یامکتب بندہوجائے اورمدرس مکتب سے چلا جائے ایسی صورت میں قرآن کریم کی تعلیم کی صیانت وحفاظت کے پیش نظرمال زکوٰۃ کاحیلۂ شرعی کرکے مدرس کی تنخواہ دیناجائزہے تاکہ تعلیم قرآن ضائع نہ ہو۔فقہی ابواب میں اس طرح کے مسائل کی نظیریں ملتی ہیں”۔ (حیلۂ شرعی جواز اور تقاضے،ص:49/50) اس کے لئے ہدایہ آخرین کتاب الاجارۃ کامطالعہ کیاجائے۔

قارئین! اس سلسلے میں یہ بات بھی محل غورہے کہ جب ہمیں اپنے بچوں کودنیوی تعلیم دینے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے تواس کے لئے ہم ماہانہ دس دس ہزارروپے بے دریغ خرچ کرتے ہوئے نظرآتے ہیں اس کے لئے کبھی افسوس بھی نہیں ہوتاکہ ہم دنیوی تعلیم کے حصول کے لیے اس قدرروپے کیوں خرچ کررہے ہیں ؟

لیکن جب بات آتی ہے کہ دینی تعلیم دلائی جائے تواس وقت آج کے ماڈرن والدین یہ راگ الاپنے لگتے ہیں کہ ہمارے پاس روپے کہاں ہیں کہ دینی تعلیم دلائیں ؟جب کہ اس قدردینی تعلیم سیکھنا فرض ہے جس سےشریعت کے مطابق زندگی گزارناآجائے ۔

مگراس طرف والدین کی کوئی فکرنہیں ہے ۔اوراگردھیان آبھی گیاتوفوراًیہ کہتے ہیں کہ مکتب میں اپنے جیبِ خاص سے روپے دینے کی کی ضرورت ہے ؟

اس کے لیے توزکوٰۃ وعشر اورفطرہ ہی کافی ہے۔ توایسے لوگوں سے میں صرف اتناکہناچاہوں گاکہ جب خطیررقم خرچ کرکے آپ اپنے بچوں کودنیوی تعلیم دلاتے ہیں تواس سے اس علم کی اہمیت آپ کوبھی سمجھ میں آتی ہے اورآپ کے بچوں کوبھی ،کیوں کہ محنت کے روپے خرچ ہورہے ہیں۔

اس طرح دینی تعلیم بھی روپے خرچ کرکے دلائیں تاکہ اس لازوال علم کی اہمیت آپ کے ذہن وفکرمیں گردش کرے کہ اس کے بغیرایک انسان سچاپکا اورکامل مسلمان نہیں بن سکتاہے توضروری ہے کہ علم دین کی اہمیت خودبھی سمجھیں اوراپنی اولادکے ذہن وفکرمیں بھی اس کی افادیت ثبت کریں۔صدقۂ فطراورزکوٰۃ وعشرکے روپے ان کے لیے چھوڑدیں جواس کے مستحق ہیں۔

ان سب کابہترین مصرف دارالعلوم ہے ۔جہاں قرآن واحادیث اورشریعت مطہرہ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔

ایسے ادارے جس میں طلبہ کے قیام وطعام کے انتظام ہوں، اس میں حیلۂ شرعی کے ذریعے یہ رقم صرف کرناجائزودرست ہے کیونکہ یہاں ضرورت شرعیہ متحقق ہےاوراس میں دوردرازسے غریب ویتیم اوران کے صدقے میں معدودے دولتمندکے بچے بھی دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔

اسی طرح یہ بات بھی جان لینانہایت ضروری ہے کہ مسجدیہ اللہ تعالیٰ کاپاک گھرہے اوراس میں صدقاتِ واجبہ کی رقم لگاناجائزنہیں ہے اسی طرح مساجدکے ائمہ حضرات کی تنخواہ بھی صدقاتِ واجبہ کے روپے سے ادا کرنامنع ہے اور ائمہ مساجد کا ایسی رقم لینا بھی ممنوع ہے اور اگر اہل ثروت والدین ایسا کرتے ہیں تو ان کی زکوٰۃ بھی ادانہیں ہوگی۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعاگوہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہم سب کودین متین کی سمجھ عطافرمائے اورہم سب کے ایمان وعقائدکی حفاظت فرمائے ۔ مسلمانانِ ہندپراپناخصوصی فضل فرمائے اورظالمین ومشرکین کے شروفسادسے محفوظ رکھے ۔آمین ثم آمین۔

تحریر:مفتی محمدشمس تبریز قادری علیمی

(ایم.اے.بی.ایڈ)مدارگنج ،ارریہ ،بہار ۔

11 thoughts on “صدقۂ فطرمیں ہونے والی خامیاں اوراس کا شرعی حل

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *