علامہ سید مظفر حسین اور فساد مخالف بل تاریخ کے آئینے میں قسط اول
علامہ سید مظفر حسین اور فساد مخالف بل تاریخ کے آئینے میں قسط اول
محمد زاہد علی مرکزی
چئیرمین : تحریک علمائے بندیل کھنڈ
بھارت میں ہندو مسلم فساد کی بنیاد انگریزی راج میں پڑی۔انگریز مسلمانوں کی قوت مزاحمت کو خوب جانتے تھے اس لیے ان کے خلاف اکثریت کے ذہنوں میں چند بے بنیاد اور چِھٹ پُٹ باتوں کو لے کر اکثریت کو ورغلایا گیا اور مسلم عہد حکمرانی کو ہندوؤں پر ظلم و ستم مذہبی تعصب سے تعبیر کیا گیا۔انگریزوں کی سازش کام کر گئی اور آٹھ سو سال سے ساتھ رہنے والی قوموں میں فسادات کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
آزادی کے بعد لوگوں کو امید بندھی کہ شاید یہ سلسلہ رک جائے گا مگر انگریز افسر کی قائم کردہ “کانگریس” کے ذمہ داران انگریزی پالیسی کو قریب سے دیکھ اور سمجھ چکے تھے اس لیے انہوں نے بھی اپنے اقتدار کو مضبوط رکھنے کے لیے ہندو مسلم فساد کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کیا۔کانگریس کی دیکھا دیکھی دیگر سیاسی پارٹیوں نے بھی ہندو مسلم فساد کو اپنی سیاسی ترقی کا زینہ بنایا اور کامیابیاں حاصل کیں۔
تب سے لے کر اب تک بھارت میں ہزاروں فسادات ہوچکے ہیں، مہاراشٹر میں کانگریس حکومت میں 2004-2008 تک محض چار سال میں 681 دنگے ہوئے۔ جنوری 1950 سے جولائی 1995 کے درمیان 45 سال کے عرصے میں دہلی میں ہی 1192 دنگے ہوئے
جب کہ دہلی میں اکثر وقت کانگریس کی ہی حکومت تھی – 2012-2017 میں اتر پردیش کی سماجوادی پارٹی کے دور حکومت میں 457 دنگے ہوئے. 13 ستمبر ء 2011 کو مشہور صحافی رویش کمار نے اپنے پرائم ٹام پروگرام میں ایک ہندی نیوز چینل این ڈی ٹی وی (NDTV) پر “دنگا ورودھی بل” کے متعلق بحث کی ، اس میں شامل ایک پینلسٹ نے کہا کہ آزادی کے بعد سے اب تک 60 سالوں میں چالیس ہزار (40000)فسادات ہوے ہیں، ان میں بعد کے نو سالوں کے فسادات اگر اور شامل کرلیے جائیں تو یہ تعداد پچاس ہزار کے قریب پہنچ جائے گی. جس ملک میں اس کثرت سے فسادات ہوتے ہوں، اور جس قوم کو نشانہ بناکر ہوتے ہوں اگر وہ قوم زندہ ہے تو اللہ کے رحم و کرم پر ہی زندہ رہ سکتی ہے، ایسی قوم کس طرح تعلیم، روزگار، تمدن، مذہبی کلچر بچا کر ترقی کرسکتی ہے؟
جس ملک کی تقریبا پندرہ فیصد آبادی کو فسادات کے ذریعے بار بار کچلا گیا ہو وہ ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارا ملک غربت میں ہے، غریبی ہٹانے کے لیے کوشش نہیں ہوتی بلکہ غریب ہٹانے کی کوشش ہوتی ہے، پلاننگ کمیشن(یوجنا آیوگ) کے غربت کے اعدادوشمار کے مطابق سال 2009۔2010 میں کہا گیا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران ، ملک میں غربت 37.2 فیصد سے کم ہوکر 29.8 فیصد ہوگئی ہے۔ یعنی شہر میں 28 روپے 65 پیسے اور دیہاتوں میں 22 روپے 42 پیسے خرچ کرنے والے افراد کو غریب نہیں کہا جاسکتا۔ نئے فارمولے کے مطابق شہروں میں ایک ماہ میں 859 روپے 60 پیسے اور دیہی علاقوں میں 672 روپے 80 پیسے خرچ کرنے والا شخص غریب نہیں ہے – 2011-2012 میں اسے دیہی علاقوں میں 816 روپے اور شہر میں 1000 روپے مقرر کیا گیا ہے”۔
جب کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حکومت اعداد و شمار چھپا رہی ہے غربت 77 فیصد تک پہنچی ہوئی ہے – ملک میں بڑھتے ہوئے فسادات پر کبھی بھی سنجیدہ ہوکر غور و خوض نہیں کیا گیا، کوئی بھی پارٹی رہی ہو سبھی نے اقلیتوں، دلتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے قانون سازی کی، ورنہ کیا وجہ رہی کہ اقلیتوں کے ووٹ حاصل کئے اور پھر انھیں مرنے کے لیے چھوڑ دیا گیا، اگر بنظر عمیق دیکھا جائے تو ایسا لگتا ہے کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے یہ سوچ رکھا ہے کہ مسلمانوں کو انکے حقوق سے محروم رکھنا ہے، ایک پارٹی اکثریتی فرقے کو اقلیتوں کا ڈر دکھا کر، مذہبی کارڈ کھیل کر ووٹ لیتی رہی، دوسری پارٹی اقلیتوں کی حمایت کا ڈھونگ دکھا کر انکا ووٹ لیتی رہی، آزادی کے بعد سے اکثر حکومت کانگریس نے کی اور مسلمانان ہند کا سیاسی مستقبل بکمال جڑ سے ختم کیا، اتنا ہی نہیں دبے پنجوں انھیں حکومتی اداروں، عہدوں سے بھی کنارے لگادیا، مسلمان ویسے بھی کسی بھلے کی امید نہیں رکھتے تھے مگر اسے یہ امید تھی کہ کانگریس اور دیگر نام نہاد سیکولر پارٹیاں کم از کم ان کی عزتوں کا خیال کریں گی اور ایک ایسا قانون لائیں گی کہ مسلمان ہر ہفتے دو ہفتے میں اکثریتی فرقے اور پولیس، پی اے سی کے ظلم سے محفوظ ہو جائیں گے، مگر وا حسرتاہ! جو حالات 1947 میں تھے 75 سال بعد بھی وہی ہیں، بل کہ دن بدن ہمارے وجود کو نیست و نابود کرنے کے لیے نت نئے طریقے ایجاد کیے جا رہے ہیں اور سیکولر پارٹیاں ہمیشہ کی طرح خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، اب تک جو حالات رہے ہیں کچھ مزید برے ہوں گے لیکن مسلمانوں کو ختم کرنے کے ان کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
حضرت آدم علیہ السلام جس ملک میں تشریف لائے ہوں اور اللہ رب العزت نے جس ملک کو آدمیت کی ابتدا کے لیے منتخب فرمایا ہو، اپنا محبوب بندہ جس سرزمین پر بھیج کر” ولقد کرمنا بنی آدم” کا تاج پہنایا ہو، فقیر قادری (محمد زاہد علی مرکزی ) کو نہیں لگتا کہ اس ملک سے کبھی اسلام اور مسلمان دور کئے جاسکیں گے، کوششیں ہوتی رہی ہیں اور ہوتی رہیں گی،لیکن اسلام اپنی مکمل آب و تاب کے ساتھ یوں ہی بڑھتا رہے گا، دور نہ جائیے اسی ملک میں ہم نے مسلم مخالف گروہوں سے پنجہ آزمائ کرنے والوں کو بھی دیکھا ہے، علامہ فضل حق خیرآبادی ،حضور مجاہد ملت، حضور مفتی اعظم ہند جیسی ہستیاں بھی ہمیں میسر آئی ہیں
اللہ چاہے گ تو پھر کوئی علامہ فضل حق پیدا ہوگا اور ظالم کے پنجے کو توڑ کر اظہار حق فرمائے گا – انھیں ہستیوں میں ایک نام ممبر آف پارلیمنٹ حضرت علامہ “سید مظفر حسین کچھوچھوی” علیہ الرحمہ کا ہے، سیاسی جماعتوں کے مکر و فریب سے آزاد بھارت میں جس ذات نے سنگھی اور سیکولر جماعتوں کے چہروں سے نقاب کھینچ کر انھیں بے پردہ کیا ہے اس ذات کا نام علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی ہے
آپ کے مختصر حالات زندگی نام
مظفر حسین ابن شاہ اشرف حسین آٹھ سال کی عمر میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، کچھوچھہ مقدسہ میں ہی تعلیم کی ابتدا ہوئی اور چند روز بعد ہی حضور صدر الافاضل عليہ الرحمہ تشریف لائے اور آپ کو ساتھ لے گیے پہلے ناگپور اور پھر مرادآباد رہے، حضور صدر الافاضل ہی نے آپ کو سیاسی میدان میں اتارا اور 1962 تا 1997 ء تک سیاسی افق پر سورج بن کر چمکتے رہے
بھارتی سیاست میں ایسا قومی لیڈر آج تک نہ دکھائی دیا، جیل بھی گئے، پریشانیاں بھی اٹھائیں، جس پارٹی سے الیکشن لڑے اسی کے خلاف جم کر حملہ آور بھی ہوے اور پھر استعفیٰ بھی دیا، بھارتی مسلمانوں کے لیے آپ کا دل جتنا دھڑکا اور جتنی کوششیں آپ نے کیں اس کی نظیر نہیں ملتی،بالآخر 10 نومبر 1997 ء کو اس دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرگیے
ابر رحمت ان کی مرقد پر گہر باری کرے
حشر تک شان کریمی ناز برداری کرے
قوم مسلم کو فسادات سے کس طرح نجات دلائی جائے اور بھارت میں مسلمان کس طرح باعزت زندگی گزاریں، ان کی جان، مال، عزت ، آبرو کیسے محفوظ رہے؟ ان کے حقوق کیسے ملیں، اس پر اپنی انتھک کوششیں کرنے والے علامہ سید مظفر حسین کچھوچھوی کا فسادات پر دل کس طرح بے چین رہتا تھا اور آپ نے کس طرح کی کوششیں کیں، یہ آپ ملاحظہ فرمائیں گے
آپ ساری زندگی مسلمانوں، مظلوموں کے حقوق، انکی عزت بحالی کی فکر میں رہے، ہر ممکن سعی کی کہ مسلمانوں کو ان کا مقام حاصل ہو، مہینوں جیل میں رہے، حکومتی ظلم و ستم بھی سہے، کبھی کلکتہ، کبھی بمبئ، کبھی جمشید پور، ملک کے مختلف علاقوں میں سرگرمیاں انجام دیتے رہے، جو کوششیں آپ نے کیں، نہ آپ سے پہلے کسی نے کیں اور نہ آپ کے بعد دیکھنے کو ملیں، فسادات پر آپ خون کے آنسو روتے ہوے قوم مسلم کے لیڈران اور دینی رہنماؤں کو جھنجھوڑتے ہوئے ایک جلسے میں فرمات ہیں ” اب اگر ہندوستان میں مسلمانوں کو رہنا ہے اور باعزت زندگی گزارنا ہے تو اب غیروں کی طرف نہ دیکھیں، اور نہ اوروں کے رحم و کرم پر اپنے مستقبل کا فیصلہ کریں بلکہ اب ہندوستان کے مسلم رہنماؤں، وکلا، منتخب ممبران پارلیمنٹ، ایم ایل اے، ایم ایل سی اور منسٹر صاحبان کے دروازوں پر دستک دے کر سوال کریں کہ قوم کے لٹے ہوئے کارواں، اجڑی ہوئی بستیاں، بہوؤں، بیٹیوں، ماؤں کی لٹی ہوئی عزتوں کو تماشائی بنکر کب تک دیکھتے رہوگے؟
اور اپنے اقتدار اپنی اپنی کرسیوں کے تحفظ و بقا کے لئے قوم کے نوجوانوں کو آپ کب تک قربان گاہ پر بھینٹ چڑھاتے رہوگے؟ اگر آپ حضرات نے فرقہ پرستوں غننڈوں کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا اور ذاتی مصلحتوں کو سامنے رکھتے ہوئے، حکومت وقت کی خوشنودیِ مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کی تو اب ہندوستان کا مسلمان آپ حضرات کو کبھی معاف نہیں کرے گا اور نہ کرنا چاہیے، ہندوستان میں بسنے والے (۱۵) کروڑ مسلمانوں کے مستقبل کا فیصلہ کوئی پارٹی کرے گی یہ غلط ہے
میری قوم مسلم کے ہر فرد و بشر سے گزارش ہے کہ دنیامیں وہی قومیں عزت و وقار کے ساتھ زندگی گزارسکتی ہیں جن کے بازوؤں میں طاقت ہو اور جنھیں جینے کے بجائے مرنے کا سلیقہ آتا ہو، سکھوں اور اچھوتوں سے سیکھو، ان کا قومی اتحاد دوسری قوموں کے لیے تازیانہ عبرت ہے، کیا پندرہ کروڑ مسلمانوں میں سے صرف ایک کروڑ مسلمان قوم و ملت کے تحفظ و بقا کے لیے کسی ایک تاریخ پر پارلیمنٹ کے میدان میں اللہ اکبر کے نعروں کی چھاؤں میں جمع ہوکر اپنے مستقبل کے لئے اگر کوئی فیصلہ کرانا چاہیں تو کیا فیصلہ نہیں ہوسکتا؟ لیکن اس کے لئے قدم آگے کون بڑھائے اور اور قوم کو آواز کون دے یہ بھی ایک لمحہ فکریہ ہے ۔کیونکہ آج قوم کے اندر میر جعفر و میرصادق جیسے لوگوں کی کمی نہیں ہے، میں امید کرتا ہوں کہ جہاں تک میری تحریر اخبارات کے ذریعے عوام و خواص کی نظر سے گزرے مجھے اپنی رائے سے ضرور نوازیں مشکور ہوں گا” ۔(سرگزشت حیات مجاہد دوراں، ص 86)
ایسا نہیں تھا کہ آپ کے مخالف نہ ہوں آپ کے دور میں بھی میر جعفر، میر صادق جیسے ضمیر فروش تھے لیکن آپ نے کبھی ہمت نہ ہارے اور ہمیشہ قوم مسلم کے مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے حتی الوسع انھیں حقوق دلانے کے لیے کوشاں رہے. مرادآباد فساد پر حکوت سے آپ کی مانگیں. فسادات پر آپ کی تجاویز اتنی بہتر ہیں کہ اگر حکومت انھیں لاگو کرتی تو انڈیا کے ماتھے پر جو فسادات کا کلنک لگا ہے کب کا ختم ہوچکا ہوتا، نیز ملک کا اربوں روپیہ کا سرمایہ خاک میں نہ ملتا، اسی پیسے سے اقلیتوں، دلتوں کی زندگیاں سنور سکتی تھیں، پولیس، پی اے سی، حکومتی عملہ اپنی ذمے داری بھی سمجھتا، لیکن افسوس صد افسوس! کہ کانگریس اور بعد میں صوبائی سیکولر کہلائی جانے والی جماعتوں نے ان سفارشات پر کان دھرنا بھی مناسب نہ سمجھا اور آج تک قوم مسلم اپنے خون سے اس کی قیمت ادا کر رہی ہے اور نہ جانے کب تک یہی صورت حال رہنے والی ہے کیوں کہ اب تو روز بروز اقلیتوں اور دلتوں کے خلاف نفرتیں بڑھتی جارہی ہیں، مختصر اور طویل میعاد کے پیمانے جو آپ اور آپ کے رفقا نے مل کر تیار کئے ایک نظر ان پر ڈالیے اور پھر دیکھئے کہ اگر حکومت ان پر عمل کرتی تو آج ہمارا ملک پھر سونے کی چڑیا بنا ہوتا.اے بسا آرزو کہ خاک شدہ.جاری