فلسفۂ روزہ اور اس کے نکات فرمودات کی روشنی میں

Spread the love

ازقلم : محمد مجیب احمد فیضی،بلرام پوری فلسفۂ روزہ اور اس کے نکات فرمودات کی روشنی میں 

فلسفۂ روزہ اور اس کے نکات فرمودات کی روشنی میں

عربی زبان کا ایک مقولہ بڑا مشہور ہے، چناں چہ کہا جاتا ہے:”فعل الحکیم لایخلو عن الحکمۃ” بندوں کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے لیکن یہ بات حقیقت پر مسلم ہے کہ “حکیم کا کوئی بھی کام حکمت سے خالی نہیں ہوتا” ، بلا تشبیہ وتمثیل ،مذہب محتاط کی ہر تعلیم اور رب کے ہر حکم میں بےشمار حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں

یہ اور بات ہے کہ اس کی حکمت، راز، کبھی ہمارے ناقص عقل  میں جلدی سےآجاتی ہے اور کبھی نہیں،اور یہ ضد کرنا کہ اس کی حکمتیں ہم بندوں کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی؟

یہ فضول ہے سنیں!وہ حکیم مطلق، مالک حقیقی  ہے،اس کا کوئی ہم سری وبرابری کرہی نہیں سکتا،بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ ہم سب عبادت کرنے والے وہ عبادت کا مکمل مستحق معبود حقیقی ،وہ مالک ہم اس کے بندے ،ہم محتاج اور وہ محتاج الیہ

ہم سب روزی پانے والے ،وہ پوری کائنات کوروزی دینے والا، ہم مانگنے والا وہ سب کو عطا کرنے والا

ارے کیا مقابلہ ہے جناب !!ہم سب مل کر عالم ہیں، وہ تن تنہا خالق عالم ہے، ہم سب حادث ہیں وہ قدیم ہے،ہم سب فانی وہ تن تنہا باقی،بندہ بندہ ہے خدا خدا ہے،رب کے ہرفعل کی حکمت بندوں کے سمجھ میں  یہ کوئی ضروری نہیں، لہذا ہم سب کو اللہ جل مجدہ الکریم کےحکم پر بغیر کسی چوں چرا کے آنکھ بند کرکے عمل کرنا چاہیے

وہ ہرحکمت وخوبی کا مالک ہے،اور اپنے بندوں پر ستر ماؤوں سے زیادہ مہربان بھی اس لیے اس کا ہر فعل ہر حکم حکمتوں اور خوبیوں سے بھرا ہے۔

ہم سب کو اس کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کے ساتھ،سراپا اطاعت شعار ہوکر اس کے احکام پر عمل پیرا ہونے کے لیے پورے ذوق وشوق کے ساتھ کمر کسنا چاہئیے، رمضان المبارک کاروزہ بھی اس کے احکام اور عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت ہے

جس کی حکمت وخوبی پر زمانے بھر کے اطباء ،ڈاکٹرز اپناسرخم تسلیم کرنے کے بعد بھی ببانگ دہل اعتراف کرنے پر مجبورہیں،جس میں رضاے مولائے قدیر اور اخروی ثواب کے ساتھ ہمارے لیے صحت وتندرستی کا انمول خزانہ بھی پوشیدہ ہے۔ معلوم ہواکہ روزہ یہ بہت سی لاعلاج بیماریوں کا صحیح علاج ہے،اس لیے اس راز سے پردہ ہٹاتےاور اس حقیقت کو منکشف فرماتے ہوئے حضور تاج دار مدینہ، سرور قلب وسینہ، علیۃ التحیۃ والثناء ارشاد فرماتے ہیں: “جہاد کرو مال غنیمت پاؤگے،

اور روزہ رکھو صحت ملے گی، سفر کرو غنی ہوجاؤگے۔”

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کا ایک جز یہ بھی ہے کہ روزہ رکھو صحت ملے گی،پتہ چلا اورمعلوم ہوا کہ حقیقی تندرستی کا واحد نسخہ و ذریعہ روزہ ہے جو تمہارے تندرستی وصحت مندی کی ضمانت ہے۔ بلاشبہ کچھ امراض ایسے بھی ہوتے ہیں

جنہیں ختم ہونے کے لُے پرسکون وپر امن ماحول درکار ہوتی ہیں،مثلا: BP ڈبریشن ،ٹیشن وغیرہ، یہ ایسے امراض ہیں جس کی زد سے شاذ و نادر ہی لوگ بچ پاتے ہیں، ان شکایات کے لیے روزہ بالخصوص روزۂ ماہ رمضان بڑاہی مفید اور موثر ثابت ہوتا ہے۔

رمضان المبارک کے مہینہ میں ایک گھڑی ایسی بھی آتی ہے جس گھڑی روزہ داروں کو بڑی خوشی اورسکون میسر ہوتا ہے،اور وہ گھڑی افطار کی ہے، ہرروزہ دار انسان اس وقت فرحت وانبساط کے بحر بیکراں میں مستغرق ہو کر اپنے غموں کو بھول جاتا ہے،اگر ہم بات کریں خواتین اسلام کی تو وہ انتہائی سرعت کے ساتھ انتظام وانصرام کرکے افطاری اکٹھا کرنے لگ جاتیں ہیں

پھر تھوڑی دیر کے بعد انتظار کی گھڑیاں گنی جانے لگتی ہیں،راحت وسرور کا ایک سماں سا بندھ جاتا ہے،افطاری سے قبل سب اپنے “من” میں موجود جائز اور نیک خواہشات کی تکمیل کے لیے رب ذوالجلال سے دعائیں مانگتے ہیں

اس وقت کا منظر قابل دیدنی ہوتا ہے مطعومات اور مشروبات کی تقریبا تمام چیزیں سامنے موجود ہیں لیکن ایک بندۂ مومن کا اپنے رب پہ اعتقاد کتنا مستحکم ہوتا ہےاس کا آپ اندازہ خود لگائیے!

کہ ایک مسلمان کا اپنے خدائے رحمن پر ایمان کتنا پختہ ہے کہ وقت سے پہلے دسترخوان پر موجود کھانے پینے والی اشیاء میں سے کسی بھی شی کو ہاتھ نہیں لگاتا، بھوک وپیاس کی شدت کو برداشت کر لیتا ، وقت سے ایک منٹ قبل کوئی بھی روزۂ افطار نہیں کرتا، کیوں ؟

اس لیے کہ روزہ دار جانتا ہے کہ اس کی حرکت ساری کائنات سے تو چھپ سکتی ہے مگر اللہ عزوجل سے پوشیدہ نہیں رہ سکتیں، اپنے رب سے ڈرتا ہے، وہ سوچتا ہے کہ وقت سے پہلے روزہ توڑ کر رب کی ناراضگی کے سوا ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ۔

اس طرح من مانی کرنے پر دن بھر کی ساری بھوک پیاس رائیگاں چلی جائے گی، ساری کائنات کا پالن ہار ناراض ہوجائے گا،ثواب آخرت کی محرومی بھی آلگے ہوگی۔افطار کے وقت کی مسرت وشادمانی،فرحت انبساط صرف روزہ داروں کا نصیب ہے۔ورنہ کچھ بدمعاش ٹائپ غیر روزہ دار اس وقت شرمندہ ہوکر ادھر ادھر منہ چھپاتے پھرتے ہیں

یا پھر خودکو بنوٹی روزہ دار بنا کر رب کی غضب کا مستحق ہوکر خودکو اور دوسروں کو بڑے ہی بے حیائی کے ساتھ دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں

 

چناں چہ وقت افطار کی اس خوشی کا ذکر کرتے ہوئے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں:

“روزہ دار کے لیے دو ( ۲) خوشیاں ہیں ایک جب وہ افطار کرتا ہے اور دوسری خوشی، جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا۔”

حدیث پاک میں ایک لطیف اشارہ ملتا ہے کہ روزہ دار دنیا وآخرت دونوں جگہ خوش وخرم ہے اور بےروزہ دونوں جگہ حرماں نصیبی کا شکار ہے۔ حدیث مبارکہ کی رو سے دنیا میں ملنے والی خوشی تو ہم اور آپ دیکھ ہی رہے ہیں افطار کے وقت چہروں پہ مسکراہٹیں جوکھیلنے لگتی ہے۔اب انشاء اللہ ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے بموجب آخرت میں دوسری خوشی بھی ضرور میسر ہوگی۔      شعر:

ہے قول محمد قول خدا فان نہ بدلاجائےگا

بدلےگا زمانہ لاکھ مگر قرآن نہ بدلا جائےگا

  ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ دینی امور میں بغیر خلوص کے ثواب کی امید بھی کرنا فضول ہے اس لیے روزہ ہو یا پھر کوئی دوسری عبادت رب کی رضا کے حصول کے خاطر کرنا چاہئیے دنیاوی اغراض ومقاصد کے لیے دل میں خیال نہ لاکر ایک مومن کو کمال بندگی تصور کرنا چاہیے۔

اب روزے کی فوائد وبرکات پر چند نکات ملاحظہ ہوں:فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

۱ پیٹ بھرنے سے نفس اور خواہشات کو قوت ملتی ہے،جب کہ بھوکھا رہنے اور روزہ رکھنے سے روح کو تقویت ملتی ہے۔

۲روزہ تندرستی اور پیٹ کے بیماریوں کا ایک بہترین علاج ہے۔

  ۳ روزہ رکھنے سے غرباء فقراء کی بھوک کا اندازہ لگتا ہےاور ان سے ہمدردی غم گساری،ملن ساری کا جذبہ پروان چڑھتا ہے۔

  ۴ روزہ رکھنے سے ایمان کو تازگی اور روح کو بالیدگی ملتی ہے۔

۵روزہ رکھنے سے صبروقناعت کی عادت پڑجاتی ہے تاکہ اگر کبھی کچھ نہ ملےتو گراں نہ ہو،صبر کی توفیق ملے

۶ غذا وشکم سیری گناہوں کی طرف دعوت دیتی ہے جب کہ روزہ نفس کو ماردیتا ہے اس لیے گناہ کی قوت اس سے کمزور پڑ جاتی ہے۔

۷ روزہ فضول گوئی اور گالی گلوج سے بچاتا ہے۔۸روزہ سے یہ یقین ایک دم پختہ ہوجاتا ہے کہ خدا ہم سب کو دیکھ رہا ہے۔

۹ روزہ رکھنے سے بندہ اپنے پروردگار کی رحمت کے قریب ہوجاتا ہے اور ہمیشہ اس کی یاد میں لگا رہتا ہے۔

۱۰ جس طرح مال کی زکوۃ نکالنے سے مال پاک ہوتا ہے ایسے ہی روزہ یہ جسمانی عبادت ہے اس کو رکھنے سے جسم پاک ہوتا ہے۔

اور اس طرح اس کے بہت سے فوائد وبرکات ہیں،رب کی بارگاہ میں دعا ہے کہ مالک ومولی ہمیں اس ماہ مبارک میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ نماز،روزہ،تراویح تلاوت قرآن کریم  ودیگر اعمال صالحہ کرنے کی زیادہ توفیق بخش

 

ازقلم : محمد مجیب احمد فیضی،بلرام پوری

خادم /دارالعلوم محبوبیہ رموا پور کلاں اترولہ بلرام پور 

faizimujeeb46@gmail.com

 حسد کی تباہ کاریاں اور ہمارا معاشرہ 

13 thoughts on “فلسفۂ روزہ اور اس کے نکات فرمودات کی روشنی میں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *