عید کی خوشیوں میں اپنے امام ومؤذن کا خاص خیال کیجیے

Spread the love

تحریر:مفتی محمد شمس تبریزعلیمی :عید کی خوشیوں میں اپنے امام ومؤذن کا خاص خیال کیجیے

عید کی خوشیوں میں اپنے امام ومؤذن کا خاص خیال کیجیے

رمضان المبارک کے گزرنے کے فوراًبعدخدائے تعالیٰ ہمیں عیدمنانے کاموقع عطافرماتاہے یہ اس کاکتنابڑااحسان ہے۔ابوداؤدشریف کی حدیث میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراقدس ﷺ جب مدینہ میں تشریف لائے اس زمانہ میں اہلِ مدینہ سال میں دودن خوشیاں مناتے تھے(مہرگان ونیروز) آقائے کریم ﷺ نے فرمایایہ کیا دن ہے؟

لوگوں نے عرض کیا:جاہلیت میں ہم ان دنوں خوشی کرتے تھے،نبی کریم نے فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے میں ان سے بہتردودن تمہیں دیئے،عیداضحی وعیدالفطرکے دن‘‘۔

اس دنیامیں جتنے بھی مذاہب وملل کے ماننے والے لوگ ہیں ہرکوئی اپنے اپنے رسم ورواج اورطورطریقے کے مطابق خوشیوں کااظہارکرتے ہوئے عیدمناتے ہیں۔

مسلمانوں کواللہ عزوجل اوراس کے رسول ﷺ نے سب سے بہترین اورانوکھے اندازمیں عیدمنانے کاحکم دیاہے۔

دنیاکی دوسری قومیں اپنی عیدمیں بے حیائی وبرائی کے کاموں میں مصروف نظرآتی ہیں ،ناچ گانے ،شراب وشباب کی محفلیں منعقدکرنا،دوسروں پرظلم وزیادتی کرنااورایک دوسرے قبائل وخاندان کے درمیان لباس اورکھانے ،پینے کی چیزوں سے موازنہ کرنا۔

اپنے باطل معبودوں کے پاس جانااورانواع واقسام کے پھلوں اوردودھ وغیرہ کا تحفہ پیش کرنا، غرض لہو و لعب میں مستغرق رہنا ان کی عید ہے۔مذہب ِ اسلام کے علاوہ جتنے بھی مذاہب کے لوگوں کے تہواراورعیدمنانے کے طریقے ہیں جب ان کاگہرائی سے مشاہدہ کیاجاتاہے تویہ بات عیاں ہوجاتی ہیں کہ دیگرقوم اپنی خوشیوں میں صرف اپنی اولادکوشامل کرتی ہیں اپنے قرب وجوارکے غرباومساکین اورضرورت مندوں کاکوئی خیال نہیں کیاجاتاہے۔

بلکہ حقیقی بھائی ،بہن اورماں باپ کوبھی نذراندازکردیاجاتاہے۔لیکن مذہب اسلام دنیا کاایک ایساواحدمذہب ہے جویہ درس دیتاہے کہ اپنےوالدین،اعزہ و اقرباء اوریتیموں، محتاجوں ، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک کرو،اپنی خوشیوں میں دوسرے ضرورت مندوں کوبھی شامل کرو۔

جیساکہ قرآن مقدس پارہ ۵،سورہ نسآء،آیت:۳۶،میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:’’اوراللہ کی عبادت کرواوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہ کرو،ماں باپ سے بھلائی کرواوررشتہ داروں اوریتیموں اورمحتاجوں اورپاس کے ہمسایہ اوردورکے ہمسایہ اورکروٹ کے ساتھی اورراہ گیراوراپنے باندی غلام سے ،بے شک اللہ کوخوش نہیں آتاکوئی اترانے والا،بڑائی مارنے والا‘‘۔

نبی کریم ﷺ کافرماہے :’’مومن (کامل)وہ نہیں جوخودپیٹ بھرکھائے اوراس کاپڑوسی اس کے پہلومیں بھوکارہے۔(شعب الایمان،ج۳،ص:۲۲۵)

مذہبِ اسلام جس طرح بندوں کومالک سے معاملہ ٹھیک رکھنے ،اس کی عبادت کرنے کاحکم دیتاہےاسی اہمیت کے ساتھ بندوں کوآپس میں اپنے معاملات درست کرنے اورایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی تعلیم دیتاہے۔یہ امیروں کوغریبوں کانگہبان ٹھہراتاہے کہ وہ زکوٰۃ ،صدقہ وخیرات کی صورت میں غریبوں پراپنی دولت صرف کریں۔انہیں تنگدستی ،جہالت کی زندگی سے نجات دلائیں۔

ارتکازِدولت کارجحان ایک لعنت ہے جس سے معاشرے میں غربت وجہالت بڑھتی اورضرورت مندوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

اسی لیےدنیاکا ہرنظام اس کے خاتمہ کی کوشش کرتاہے۔لیکن امیروں سے دولت چھیننے کے قانون تونافذہوتے ہیں مگرغریبوں میں اس کومنتقل کرنے کاکوئی انتظام نہیں ہوتا۔نتیجتاًعام امیروں کی دولت چھنتی ہے اوربااقتدارامیرکھاتے ہیں اورزیادہ دولت مندہوتے چلے جاتے ہیں۔

اسلام بڑی ہی حسن تدبرکے ساتھ امیروں سے دولت نکالتاہےاورغریبوں میں تقسیم کاحکم دیتااوراس کاانتظام کرتاہے۔زکوٰۃ،عُشر،قربانی،صدقہ وخیرات ،وراثت یہ دولت مندوں سے دولت نکالنے کے ذرائع ہی ہیں۔اوران کے مصارف کاتعین اورحکام کواس کی نگرانی کاذمہ دارٹھہرانااس دولت کوحق داروں تک پہنچانے ہی کا اہتمام ہے۔

مسلمانوں کوعیدمنانے کابہترین طریقہ بتایاگیاکہ بے راہ روی اورگناہ والے کھیل کودکی اجازت نہ دی بلکہ ہرقسم کے گناہوں سے روکااورکہاکہ عیدکادن توکثرت سے اللہ تعالیٰ کاذکراوراس کی کبریائی بیان کرنے کادن ہے۔ عیدکادن اللہ کے ان بندوں کواپنی خوشیوں میں شریک کرنے کاہے جومحتاج اورضرورت مندہیں۔

اسی لیے توزکوٰۃ وعشر اورخاص عیدکے موقع پرصدقۂ فطراداکرنے کاحکم دیاگیا ہے تاکہ معاشرے میں جہاں اہل ثروت دولت مندحضرات اپنے بچوں کے لیے نئے نئے لباس بنوائیں اورقسم قسم کے لذیذکھانے کاانتظام کریں توساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ دولت سے ان غریبوں کوبھی دیں کہ وہ لوگ بھی اپنے بچوں کے لیے نئے لباس اورعمدہ قسم کے کھانے کاانتظام کرسکیں ۔

دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے تہواروں میں دیکھاجاتاہے کہ جومالدارہے وہ اپنے لئے اوراپنے اہل وعیال کے لیے بہترین اورعمدہ لباس کاانتظام کرلیتے ہیں مگران کے ہی غریب بھائی اوران کی اولادانہیں للچائی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں غربت بڑھتی ہی جاتی ہے جس کا بُرانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چوری ،ڈکیتی کے جرائم بڑھنے لگتے ہیں ۔

مذہب اسلام نے زکوٰۃ وفطرہ کاحکم اسی لئے دیاہےتاکہ معاشرے سے غربت ختم ہوجائے ۔اورسماج کے غرباومساکین اپنی ضروریات پوری کرسکیں۔اورہرصاحب نصاب مسلمان کوصدقہ فطراداکرنے کاحکم دیاگیاہے تاکہ عیدکی خوشی میں ضرورت مندبھی شامل ہوسکیں۔

امام ومؤذن: ماہ رمضان المبارک میں انسان کی روزی میں بے شماربرکتیں ہوجاتی ہیں اورایساکیوں نہ ہو جب کہ یہ مہینہ رحمت وبرکت کاخزینہ ہے۔اس بات کااعتراف غیروں کوبھی ہے کہ انواع واقسام کے پھل ،فروٹ جوعام دنوں میں نہیں ملتے

وہ ماہ رمضان میں افطارکے وقت مسلمانوں کےدسترخوان پردیکھنے کوملتے ہیں اورساتھ ہی جوکھانادولتمندلوگ کھاتے ہیں وہی کھاناکچھ کم وبیش اس ماہ مبارک میں غریبوں کوبھی میسرہوجاتاہے۔

اس برکت والے مہینے اورعیدسعیدکے موقع پر قوم مسلم جتنی رقم خرچ کردیتی ہیں شایدکہ کسی قوم کونصیب ہو۔اس مبارک مہینے میں مساجدکے اخراجات بھی بڑھ جاتے ہیں ،جیسے کہ لائٹنگ،جنریٹر،اے سی،کولر،نمازیوں کے لئے چائے پانی کے انتظامات میں ۔

اور جس حافظ قرآن کی اقتداء میں نمازتراویح پڑھی جاتی ہے ان کوبغیرکسی ڈیمانڈاورمطالبہ کے خطیرنذرانے سے نوازاجاتاہے۔یہ سب اس پاک ذات قادرمطلق رب کافضل وکرم ہے کہ جس کے خزانہ قدرت سے ساری کائنات کورزق عطاکی جاتی ہے۔

 

مساجدومدارس کے ذمہ داروں سے گزارش یہ ہے کہ عیدسعیدکے موقع پرجہاں آپ سب دوسرے ضرورت مندوں کی مددکرتے ہیں اورماہ رمضان میں قرآن پاک سنانے والے حافظ قرآن کی دل کھول کرحوصلہ افزائی کرتے ہیں وہیں اپنے مدارس کے اساتذہ کرام کابھی خاص خیال کرلیاکیجئے ۔

کیوں کہ مدارس کے اساتذہ کی تنخواہ کتنی ہے وہ توآپ سب بخوبی جانتے ہی ہیں۔ توکم از کم عیدکے موقع پررمضان المبارک میں ان کے لیے خاطرخواہ رقم اورکپڑے وغیرہ کابھی انتظام کردیاکریں تاکہ وہ اپنے بچوں کے لیے نئے لباس بنواسکیں۔تراویح میں قرآن پاک سنانے والے حفاظ کونذرانہ دے کران کی حوصلہ افزائی کرنایہ بہت اچھی بات ہے ۔

لیکن ساتھ میں اپنی مسجدکے امام ومؤذن کابھی ذراخیال کرلیاکریں ،کہ چندروزکے لئے آنے والے حافظ قرآن کوآپ پچاس ہزار،ایک لاکھ،اوردودولاکھ روپے دے دیتے ہیں ۔

اورمیں بھی یہ کہتاہوں کہ دیناچاہیے بلکہ اورزیادہ دیاجائے تاکہ حافظ قرآن کومزیدہمت وحوصلہ ملے ،اورآنے والی نسلوں کوقرآن پاک حفظ کرنے اوریادرکھنے میں دل چسپی پیداہو۔

مگرکبھی آپ نے اپنے امام کے متعلق غوروفکرکیاکہ جوروزانہ بلاناغہ وقت مقررہ پرحاضرہوکرامامت وخطابت کے فرائض بخوبی انجام دیتے ہیں۔ اورہمیشہ اپنی قوم کی فکرمیں لگے رہتے ہیں۔

معاشرے میں ہونے والی بے راہ روی اورمسلم نوجوانوں کی حالت زار دیکھ کرمضطرب ہوجاتے ہیں۔اپنی قوم کی اصلاح کے لیے روزانہ کسی نہ کسی وقت بنیادی مسائل سکھاتے ہیں۔

اوران کی تنخواہ بھی خاطرخواہ نہیں ہوتی ،عصرحاضرمیں کسی کوچھ ہزار،توکسی کودس،یازیادہ سے زیادہ پندرہ ہزارروپے دیئے جاتے ہیں۔

اوراس پرطرفہ تماشہ یہ کہ مساجدکے ذمہ داران فخریہ کہتے ہوئے نظرآتے ہیں کہ ہمارے یہاں بہت زیادہ تنخواہ ملتی ہے اس قدرتوپوری دنیامیں نہیں ملتی ہوگی۔

ذراغورکریں اپنے مؤذن کے بارے میں ،کہ کس طرح روزانہ اوقاتِ مقررہ پراذان دیتےاورمسجدکی صفائی بھی کیاکرتے ہیں۔

مگران کواورامام کواتنی بھی تنخواہ نہیں دی جاتی ہے جتنی کہ آج اینٹ اٹھانے والامزدورکمالیتاہے۔کیوں کہ مزدورروزانہ چار،پانچ سو روپے اورماہانہ بارہ سے پندرہ ہزارکماتاہے ۔

لیکن ایک مؤذن کوماہانہ پانچ ،چھ ہزارہی مل پاتاہے۔مسجدکے ذمہ داران ذرایہ بتائیں کہ سرکاری پرائمری اسکول کے ٹیچرکو ۴٠،٣٥

ہزارروپے ماہانہ ملتے ہیں اوروقت مقررہ پرپہنچتے بھی نہیں پھربھی شکوہ و شکایت رہتی ہے کہ گھریلواخراجات پورے نہیں ہوپاتے ہیں۔کیاکبھی غورکیاکہ امام بھی ہماری طرح ایک انسان ہیں ۔

ان کے بھی گھریلوپروبلم ہیں۔وہ بھی اپنی اولادکومہنگے اسکول وکالج میں تعلیم دلانے کے متمنی ہیں، توجب آپ کے گھریلواخرات کے لئے تیس،چالیس ہزارکم پڑجاتے ہیں توکیاامام صاحب کو کم نہیں پڑتے ہوں گے۔

عیدکے موقع پرجب آپ اپنے اہل وعیال کے لیے دس،بیس ہزارروپے کے کپڑے خریدتے ہیں توکم ازکم امام ومؤذن کوبھی شامل کرلیا کیجیے۔

کچھ جگہوں پر امام ومؤذن کوماہ رمضان میں ڈبل تنخواہ ،الگ سے نذرانہ اوربونس دیاجاتاہے مگرمیری معلومات میں ایسی جگہ شاذونادرہی ہوگی ۔

اس لیے قوم کے اہل ثروت مخیرحضرات سے گزارش ہے کہ عیدکی خوشی کے موقعے پراپنے امام ومؤذن کے لیے الگ سے جوڑے کاانتظام بھی کریں تاکہ پورے سال ان دونوں کوکپڑے خریدنے کی ضرورت نہ پڑے ۔

اورجتنی رقم حافظ قرآن کوبطورنذرانہ پیش کرتے ہیں اسی کے مساوی اپنے امام کوبھی عیدی کے طورپردیں،اورمؤذن کوبھی اپنی خوشیوں میں شریک کرلیاکریں۔یہ دونوں حضرات ہیں جوبارہ مہینے آپ کی مساجدمیں ذمہ داری نبھاتے ہیں۔

اورخوشی وغم میں آپ کے شانہ بشانہ کھڑے رہتے ہیں۔توان مقدس ہستیوں کونظراندازکردیناعقل مندی نہیں ہوسکتی ہے۔

لہٰذااس عیدسعیدکے موقع سے ہی اپنی خوشیوں میں اپنے امام ومؤذن کا خاص خیال کیجئے !

اللہ تعالیٰ ہم سب کوعلمائے کرام وائمہ عظام کی قدرکرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین۔

تحریر:مفتی محمدشمس تبریز علیمی

(ایم.اے.بی.ایڈ.) مدارگنج،ارریہ بہار۔7001063703

11 thoughts on “عید کی خوشیوں میں اپنے امام ومؤذن کا خاص خیال کیجیے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *