اسلام کا نظام زکوٰۃ صالح اور پر امن معاشرے کا ضامن

Spread the love

تحریر:مفتی محمدشمس تبریز علیمی اسلام کا نظام زکوٰۃ:صالح اور پر امن معاشرے کا ضامن

اسلام کا نظام زکوٰۃ:صالح اور پر امن معاشرے کا ضامن

اسلام مکمل نظامِ حیات ہےجواپنے ماننے والوں کوایک باوقارپُرسکون اورپُرامن معاشرہ فراہم کرناچاہتاہے۔پس وہ غربت وافلاس کے خاتمہ کے لیے زکوٰۃ،صدقہ وخیرات کاحکم دیتاہے۔جہالت ختم کرنے کے لIے علم حاصل کرنےاورعلم کوعام کرنے کی تاکیدکرتاہےاورافرادکی اصلاح کے لیے ہرفردکواپنے اہل وعیال کی صحیح تربیت کی ہدایت کرتاہے ۔جس سے معاشرے سے غربت وجہالت ختم ہوگی اورافرادکی اصلاح ہوگی۔

وہ ایک خوب صورت اورحسین معاشرہ ہوگاجس میں بسنے والاہرشخص سکون کاسانس لے سکے گااوربے خوف ومطمئن ہوکرزندگی کے دن بسرکرسکے گا۔یہ معاشرہ ایک گھرکی طرح ہوجاتاہے جس کے ہرفردکی عزت وآبرومحفوظ ہوتی ہے اورجان ومال کوکسی قسم کاخطرلاحق نہیں ہوتا۔ایسے معاشرے میں بسنے والاہرشخص دوسروں کی نظروں میں باوقاراورباعزت ہوتاہے۔

اس سےمعاشرے میں تہذیب وتمدن ہوتاہے،خوش حالی ہوتی ہے۔مذہبِ اسلام جس طرح بندوں کومالک سے معاملہ ٹھیک رکھنے ،اس کی عبادت کرنے کاحکم دیتاہےاسی اہمیت کے ساتھ بندوں کوآپس میں اپنے معاملات درست کرنے اورایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی تعلیم دیتاہے۔یہ امیروں کوغریبوں کانگہبان ٹھہراتاہے کہ وہ زکوٰۃ ،صدقہ وخیرات کی صورت میں غریبوں پراپنی دولت صرف کریں۔انہیں تنگدستی ،جہالت کی زندگی سے نجات دلائیں۔

ارتکازِدولت کارجحان ایک لعنت ہے جس سے معاشرے میں غربت وجہالت بڑھتی اورضرورت مندوں کی حق تلفی ہوتی ہے۔

اسی لیے دنیا کا ہرنظام اس کے خاتمہ کی کوشش کرتاہے۔لیکن امیروں سے دولت چھیننے کے قانون تونافذہوتے ہیں مگرغریبوں میں اس کومنتقل کرنے کاکوئی انتظام نہیں ہوتا۔

نتیجتاًعام امیروں کی دولت چھنتی ہے اوربااقتدارامیرکھاتے ہیں اورزیادہ دولت مندہوتے چلے جاتے ہیں۔اسلام بڑی ہی حسن تدبرکے ساتھ امیروں سے دولت نکالتاہےاورغریبوں میں تقسیم کاحکم دیتااوراس کاانتظام کرتاہے۔زکوٰۃ،عُشر،قربانی،صدقہ وخیرات ،وراثت یہ دولت مندوں سے دولت نکالنے کے ذرائع ہی ہیں۔اوران کے مصارف کاتعین اورحکام کواس کی نگرانی کاذمہ دارٹھہرانااس دولت کوحق داروں تک پہنچانے ہی کااہتمام ہے۔

انفاق فی سبیل اللہ:- یہ دنیاتودارالعمل ہے،یہاں بیج بوؤاورقیامت میں اس کے پھل حاصل کرو۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں جودولت دی ہے اوراپنے فضل وکرم سے اسے خرچ کرنے کاتمہیں اختیاربھی دیاہے۔اسی لئے کہ تم دنیامیں اس سے وہ بیج بوؤجوآخرت میں تمہارے کام آسکیں۔کہ قیامت کے دن دنیامیں کی ہوئی نیکیوں،صدقہ وخیرات کے علاوہ کچھ کام نہ آئے گا۔

نہ تواس دن دنیاجیسی بیع اورخریدوفروخت ہوگی کہ کسی سے نیکیاں خریدکرتم فائدہ حاصل کرسکو۔نہ اس دن دنیاکے رشتے اورتعلقات کام آسکیں گے اورنہ ہی اللہ کی اجازت کے بغیرتمہاری کوئی سفارش کرے گا۔پس جوکچھ کرناہے دنیاہی میں کرلو،کافروں جیسی زندگی اختیارنہ کرو،ان کی طرح دولت عیش وعشرت میں بربادنہ کرو۔ وہ توظالم ہیں۔

ان کے طرزِحیات کواگرتم نے اختیارکیاتوتم بھی ظلم کرنے والوں میں ہوجاؤگے۔ انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرناان اہم اعمال میں سے ایک ہے جس کاذکراورتاکیدقرآن مقدس کی متعددآیات میں موجودہے۔سورہ بقرہ کی ابتدائی آیات میں ہی متقین نیکوں کی جوخوبیاں بیان ہوئیں ان میں سے ایک انفاق بھی ہے۔ ّّ (البقرہ:3 ترجمہ:اس میں ہدایت ہے ڈروالوں کووہ جوبے دیکھے ایمان لائیں اورنمازقائم رکھیں اورہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔( کنزالایمان)

انفاق :خرچ کرنا،جس طرح اردومیں عام ہے اسی طرح عربی میں بھی عام ہے۔یعنی کہیں بھی خرچ کیاجائے ،خرچ کرناہی انفاق ہے۔لیکن جوخرچ متقین کی علامت ہے اورجس خرچ کاحکم اہلِ ایمان کودیاگیاہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرناہے۔”انفاق فی سبیل اللہ “ہے۔

“(الانفال:60) ترجمہ:اوراللہ کی راہ میں جوکچھ خرچ کروگے تمہیں پورا دیاجائے گا اورکسی طرح گھاٹے میں نہ رہوگے۔( کنزالایمان)

“(الحدید:10) ترجمہ :اورتمہیں کیاہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو حالاں کہ آسمانوں اورزمین سب کاوارث اللہ ہی ہے۔( کنزالایمان)

(البقرہ:254) ترجمہ :اے ایمان والواللہ کی راہ میں ہمارے دیئے میں سے خرچ کرووہ دن آنے سے پہلے جس میں نہ خریدوفروخت ہے نہ کافروں کے لئے دوستی نہ شفاعت اورکافر خودہی ظالم ہیں۔( کنزالایمان) ان آیات نے واضح کردیاکہ اللہ جس انفاق کااہلِ ایمان سے مطالبہ فرماتاہےوہ اس کی راہ میں خرچ کرناہے۔

ان کے علاوہ بھی متعددآیات میں فی سبیل اللہ کاجملہ آتاہے۔اب خیال یہ پیداہوتاہے کہ سبیل اللہ،اللہ کی راہ کون سی ہے ،جس میں انفاق مطلوب اورباعث ِ اجروثواب ہے۔توحقیقت تویہی ہے کہ مسلمان کاہرایسے کام میں خرچ کرناانفاق فی سبیل اللہ ہے جوشریعت کے خلاف نہ ہو۔بس نیت کی ضرورت ہے۔مثلاًکھانے پینے پرخرچ کرنااس نیت سے کہ اللہ تعالیٰ نے جسم وجان کی حفاظت فرض قراردی ہے۔

لباس پرخرچ کرنااس نیت سے کہ اللہ نے سترپوشی کرنے کاحکم دیاہے۔سواری پرخرچ کرنااس نیت سے کہ یہ حصولِ معاش،صلہ رحمی،میل جول وغیرہ کاایک ذریعہ ہے۔اسی طرح دیگرتمام ضروریات پرغورکیجیے اوران پرجوکچھ خرچ کیاجاتاہے اس کواپنی نیت کے خلوص سے آپ انفاق فی سبیل اللہ بنالیجئے۔

اوراللہ کی طرف سے اس پراجروثواب کایقین رکھیئے کہ مسلمان کاہروہ عمل جوشریعت کے خلاف نہ ہوخلوصِ نیت کے ذریعہ عبادت بن جاتاہے۔

اوراگرکوئی لمبے لمبے سجدے کرے لیکن نیت میں فتورہوکہ لوگوں پراپنے تقویٰ کا اظہارمقصودہوتویہ سجدے ہی کیا،ہرعمل جونام ونموداوردنیوی مقصدکے لیے کیا جائے عنداللہ مردودہے۔اس پرنہ کوئی اجرہے اورنہ ثواب ۔بہرحال خلوصِ نیت کے ساتھ اللہ کی رضاکے لئے ہماراہرخرچ انفاق فی سبیل اللہ ہے۔

 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آقائے کریم رؤوف ورحیم ﷺنے فرمایا:ایک دینارہے جس کوتم اللہ کی راہ میں خرچ کرواورایک دینارہے جس کوتم غلام آزادکرنے پرخرچ کرواورایک دینارہے جوتم نے کسی غریب پرخرچ کیااورایک دینارہے جس کوتم اپنے گھروالوں پرخرچ کرتے ہو۔ان سب میں ثواب کے اعتبارسے وہ دینارسب سے بڑاہے جس کوتم نے اپنے گھروالوں پرخرچ کیا۔(مسلم شریف)

مطلب یہ کہ اگرچہ یہ تمام اخراجات باعث ِثواب ہیں۔لیکن اہل خانہ پرخرچ کرنے کاثواب زیادہ ہوتاہے کہ یہ وہ انفاق فی سبیل اللہ ہے جس سے آدمی اپنی ذمہ داری کواس لئے پوراکرتاہے کہ اللہ نے اسے اہل خانہ کاکفیل بنایاہے۔قرآن کریم بھی ایسے لوگوں پرانفاق کاحکم دیتاہےجن کی کفالت اورتعاون آپ کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

فرمایاگیا: ۔(البقرہ:215) ترجمہ:تم سے پوچھتے ہیں کیاخرچ کریں تم فرماؤ جوکچھ مال نیکی میں خرچ کروتووہ ماں باپ اورقریب کے رشتہ داروں اوریتیموں اورمحتاجوں اورراہ گیرکے لیے ہے اورجوبھلائی کروبے شک اللہ اسے جانتا ہے۔(کنزالایمان) 

غورفرمایا آپ نے کہ انفاق کی ابتداء والدین سے کرنے کا حکم دیاجا رہا ہے کہ انسان پر سب سے مقدم انہیں کاحق ہے۔

ان کی نگہداشت ان کی خدمت اولین فریضہ ہے۔ان کے بعددوسرے اعزاء پرخرچ کرنے کاحکم دیاگیا۔اولاد،بہن،بھائی،چچا،پھوپھی،ماموں اورخالہ وغیرہ ،اس کے بعد حق ہے باہرکے لوگوں کا۔والدین اوراقرباء کے بعد سب سے مقدم قوم کے یتیم بچے ہیں جوقوم کا کمزورترین لیکن نہایت ہی اہم حصہ ہیں۔یہ سب سے زیادہ تعاون کے محتاج ہوتے ہیں کہ اگران کی طرف سے لاپرواہی برتی گئی

ان کی صحت تعلیم وتربیت کاخیال نہ کیاگیاتویہ پوری قوم کی پریشانی اورزوال کاسبب بن سکتے ہیں۔پھرمسکینوں،مسافروںپرخرچ کیاجائے ،گویاانفاق کی ابتداء گھرسے کرو۔پہلے اپنے اہل خانہ وخاندان کی خوشحالی کی فکرکروپھرقومی ذمہ داری پوری کرو۔گھروالوں کوپریشان حال چھوڑکرقومی خدمات انجام دینا،رفاہی کاموں میں حصہ لینانہ عقل مندی ہے اورنہ ہی اللہ ورسول کاحکم۔

بہرحال انفاق کے معنی بہت ہی وسیع ہیں شرعی حدودمیں رہتے ہوئے جس پربھی خرچ کیاجائے وہ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کرناکہلائے گا

لیکن خصوصیت کے ساتھ دینی اورمذہبی کاموں پرخرچ کرنے کوعام طورپرانفاق کہاجاتاہے۔ مثلاًمدارس کے اخراجات پورے کرنا،علماء اورمبلغین کاتعاون کرنا،مساجدکی تعمیرمیں حصہ لینا،غریبوں کوکھاناکھلانا،کپڑے پہناناوغیرہ۔قرآن کریم جس انفاق کامطالبہ کررہاہے اس سے مقصوداللہ کی راہ میں دولت خرچ کرناہے کہ یہی انسان کے لیے اللہ کی راہ میں بڑی قربانی ہے۔کیونکہ فطری طورپرانسان کودولت سے بڑی محبت ہوتی ہے اورانفاق یاخرچ کرنے کالفظ عام طورپردولت خرچ کرنے ہی کے لیے استعمال ہوتاہے۔

دولت کی محبت دل سے نکال دینااوراسے ایسے کاموں پرخرچ کرناجن سے بظاہراپنی ذات کاکوئی فائدہ نظرنہ آتاہو،انفاق فی سبیل اللہ ہے جوایک بڑی قربانی ہے اورجس کااجروثواب بھی بہت عظیم ہے۔یہ قُربِ الٰہی کاذریعہ ہے۔انبیاء علیہم السلام بالخصوص سیدالانبیاء ﷺکی سنت ہے۔

صالحین کاوطیرہ ہے اس سے معاشرے میں فتنہ وفساد کاخاتمہ ہوتاکہ اکثرجرائم کاسبب غریبوں کی بھوک ہے۔

اگراللہ کے نام پردولت نکالی جائے اورنظم کے ساتھ اس سے غربت وجہالت کوختم کرنے کی سعی کی جائے توہماری تاریخ شاہدہے کہ مسلم معاشرے میں کوئی نہ بھوکاسوتاہے اورنہ کوئی جاہل نظرآتاہے۔

اسلام کے دیگراحکام کی طرح “انفاق فی سبیل اللہ”بھی درحقیقت معاشرے کی اصلاح اوراس کوپرسکون بنانے کی ایک ایسی تدبیرہے جس کی نظیردنیاکے کسی نظام میں نہیں ۔

انفاق فی سبیل اللہ ذریعہ برکت ہے:

اللہ کی راہ مین خرچ کرنے کی توفیق بڑی نعمت ہے۔قُربِ الٰہی ،رحمت الٰہی کے حصول کاذریعہ بن سکتی ہے ۔دولت مندوں کوچاہیے کہ وہ حضرت ابوبکرصدیق ،حضرت عثمان غنی،حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہم اوردیگردولت مندصحابہ کی زندگی کامطالعہ کیاکریں اوران کی طرح اپنی دولت کواللہ کی راہ میںخرچ کرنے کاجذبہ پیداکریں۔انفاق فی سبیل اللہ :ایک بڑاہی سودمندسوداہے۔

دنیاکاکوئی سودااس کے برابرمنافع بخش نہیں ہوسکتاکہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال بڑھتاہی رہتاہے۔

اللہ رب العزت ہم مسلمانوں کواپنی راہ میں زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین ۔

تحریر:مفتی محمدشمس تبریز علیمی

(ایم.اے.بی.ایڈ.) مدارگنج.ارریہ.بہار۔

4 thoughts on “اسلام کا نظام زکوٰۃ صالح اور پر امن معاشرے کا ضامن

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *