تعلیمی نظام رام بھروسے
تعلیمی نظام رام بھروسے
عمر فراہی
لوگ مدرسوں پر تو تنقید کرتے ہیں کہ مدارس اپنی قدیمی روایت سے ہٹ کر مدرسوں کو جدید بنانے کے تعلق سے بخیل ہیں مگر میں جہاں تک جدید اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال دیکھ رہا ہوں یہاں بھی معاملہ بہت اچھا نہیں ہے ۔
بہت سے اسکول اور کالج یا تو تعلیم کے نام پر تجارت کر رہے ہیں یا جو سرکاری ادارے ہیں وہاں عوام کے ٹیکس کا ایک بڑا حصہ برباد کیا جارہا ہے ۔
ہمارے انجینیر وہ چاہے گورنمنٹ کالجوں سے پڑھ کر نکلیں یا پرایویٹ کالج سے اس وقت تقریباً دس لاکھ کے قریب انجینیر ہر سال نکلتے ہیں ۔کالج تو بہرحال ان کی پوری تربیت نہیں کر پاتے کہ یہ بچے خود سے رسرچ کرکے کچھ بنا سکیں سرکار کے پاس بھی ان کی تربیت کا کوئی ٹھوس نظم اور منصوبہ نہیں ہے ۔سرکار کے بہت سے ٹریننگ سینٹر جو کئی ایکڑ کی زمینوں پر مشتمل ہیں وہاں بچوں کی تربیت کے نام پر مشینیں بھی ہیں لیکن ملازمین صرف تنخواہیں لیتے ہیں اور چلے جاتے ہیں ۔
بھارتی انڈسٹری میں ماہر کاریگروں کی قلت ہے ۔جو لڑکے تھوڑا کالجوں وغیرہ سے گریجویٹ کر لیتے ہیں وہ چھوٹی کمپنیوں میں ہاتھ کالا کر کے کام سیکھنا نہیں چاہتے خواہ انہیں اپنے پیشے کو چھوڑ کر کال سینٹر وغیرہ میں بیس پچیس ہزار میں نوکری ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔
جو لڑکے نہیں پڑھ پاتے وہی کچھ کام سیکھنے کا وقت بھی نکال پاتے ہیں ورنہ سال میں اگر دس لاکھ انجینیر ڈگری لے کر آتے ہیں تو ان میں سے تقریبا نو لاکھ سے زیادہ بچے دوسرے non technical کاموں میں لگ جاتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ہم آج تک اپنے انڈین برانڈ کا ایک موبائل فون بھی عالمی بازار میں فروخت نہیں کر پا رہے ہیں ۔مشینوں کے معاملے میں وہی مشینیں ہی بناتے ہیں جس کا استعمال ہم خود کر سکتے ہیں ۔
آٹو موبائل میں کچھ گاڑیاں اگر ہماری کمپنیاں بناتی بھی ہیں تو اسے بھی صرف ہم ہی استعمال کر سکتے ہیں یا کچھ ساؤتھ افریقہ وغیرہ کے غریب ممالک میں بیچ پاتے ہیں۔
جب کہ اس میں بھی بہت سے سامان اور ٹکنالوجی کیلئے ہم بیرونی ممالک کی ٹکنالوجی اور انجینیروں کے محتاج ہوتے ہیں ۔ہماری GDP نہیں بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کی ہم بہت سے سامان عالمی بازار میں فروخت کرنے سے عاجز ہیں ۔ہاں بڑے کے گوشت کو ایکسپورٹ کرنے کے معاملے میں ہم برازیل کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں تو اس لیے کہ جانوروں کی پیداوار میں قدرت کا دخل ہوتا ہے ۔
چوں کہ میرا تعلق خود انجینیرنگ کے کاروبار سے ہے اور کچھ لیمیٹیڈ کمپنیوں سے رابطہ بھی رہا ہے اس لیے جو پریشانیاں آج ہماری کمپنیوں کو لاحق ہے وہ بحث میں آتے رہتی ہیں ۔یہی حال گورنمنٹ کی آئی آئی ٹی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا بھی ہے ۔
انسٹیٹیوٹ کے پڑھے لکھے انجینیروں کو پریکٹیکل معلومات نا کے برابر ہوتی ہے ۔ہاں گورنمنٹ سے جو اچھا خاصہ فنڈ ملتا ہے وہ اس کا استعمال کرکے باہر سے جو ڈیولپمنٹ کرواتے ہیں گورنمنٹ کو رپورٹ یہی دیتے ہیں کہ انہوں نے ریسرچ کیا ہے ۔
ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وسائل یا تعلیم یا تعلیمی بیداری ہی اہم نہیں ہوتی ۔اس کے بعد کا مرحلہ یہ ہوتا ہے کہ ہم ان وسائل اور تعلیمی لیاقت کا استعمال کرنے کے اہل بھی ہیں یا نہیں یا بچوں میں یہ اہلیت پیدا کر پارہے ہیں یا نہیں ۔ملک کو آزادی حاصل کیے ہوئے ستر سال ہو چکے ہیں
اور ہماری حکومتیں تقریباً پچاسی لاکھ کروڑ کا بیرونی قرض بھی لے چکی ہے پھر بھی ملک خود کفیل نہیں ہو سکا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے یہاں ذہانت یا کالج اور یونیورسٹی کی کمی ہے ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ افراد کی قیادت نااہلوں اور جاہلوں کے ہاتھ میں ہے ۔
تقریپا یہی حال مسلم اداروں اور تنظیموں کا بھی ہے ۔تقریبا تنظیمیں کہتی ہیں کہ وہ بہت اچھا کام کر رہی ہیں اور کچھ لوگ محنت بھی کر رہے ہیں لیکن ان کا رخ صحیح نہ ہونے کی وجہ سے زمینی سطح پر یہ کام دکھائی نہیں دیتے اور یہ تنظیمیں اپنے کام کا احتساب بھی نہیں کرتی ہیں ۔
اس کے برعکس ترقی یافتہ ممالک اگر ترقی کر سکے تو ان کی قیادتیں کسی حد تک باصلاحیت اور ایمان دار رہی ہیں اور انہوں نے نہ صرف صحیح رخ پر کام کیا ہے ان کے یہاں احتساب کرکے اپنے کام اور ترقی کا جائزہ بھی لیا جاتا ہے ۔
مثال کے طور پر مغربی ممالک جہاں کبھی بچوں کو تین سال سے اسکولوں میں داخلہ کروانے کا چلن تھا اب وہاں پانچ سال سے کم کے بچوں کا اسکولوں میں داخلہ ممنوع ہے
جب کہ ہمارے یہاں اسکولوں میں آج بھی بچوں کو ڈھائی سے تین سال کی عمر میں داخلے کا چلن عام ہے ۔ہمارے یہاں کا معاملہ یوں سمجھ لیں کہ ہم مغرب کی نقالی تو کرتے ہیں
لیکن نظم ضبط کا معاملہ رام بھروسے ہوتا ہے اور ابھی کچھ سال تک رام بھروسے ہی چلے گا ۔
جب تک صلاحیت مند افراد مفاد پرستی سے اوپر اٹھ کر اور ملی جذبے سے سرشار ہوکر قوم کی ترقی میں معاون نہیں بنیں گے ، اور ان میں قوم کی خدمت کا جذبہ نہیں پیدا ہوگا، تب تک یہی صورت حال بنی رہے گی!