قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کا وجود خطرے میں
قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان کا وجود خطرے میں :
محمد رفیع
، طویل عرصہ کے بعد قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان (NCPUL) کو ڈایریکٹر مل گیا ہے۔ لیکن معتبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ڈایریکٹر کی نامزدگی بدعنوانی کی بنیاد پر ہوئی ہے۔
اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے اکیمڈیسین کا نام پینل میں ہونے کے باد بھی NCPUL کے سابق پبلیکیشن آفیسر و نیشنل بک ٹرسٹ (NBT) کے سابق اردو مدیر ڈاکٹر شمس اقبال کو قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان کا ڈایریکٹر نامزد کر دیا گیا۔
اردو زبان کے فروغ پر اس کے برے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور NCPUL کا وجود بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔
یہ باتیں قومی اساتذہ تنظیم بہار کے ریاستی کنوینر، خادم اردو و آزاد صحافی محمد رفیع نے کہی ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ کل 22 لوگوں نے ڈایریکٹر بننے کے لئے درخواست دی تھیں، لیکن الگ الگ تاریخ میں، 17 جنوری و 1 فروری کو انٹرویو ہوا۔ انٹرویو میں دو دو اور چار چار امیدواروں کو الگ الگ بلایا گیا۔
یہ بڑی سازش کا ثبوت پیش کرتا ہے۔ محمد رفیع سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر اس کے پیچھے کی کہانی کیا ہے؟ کیا بدعنوانی کی بو نہیں آتی ہے؟
جن 22 لوگوں نے درخواست دیا تھا ان میں لکھنؤ یونیورسٹی کے صدر شعبہ پروفیسر (ڈاکٹر) عباس رضا نیئر، دلی یونورسٹی کے پروفیسر (ڈاکٹر) محمد یحییٰ صبا، پروفیسر احرار، پروفیسر قادری، پروفیسر وارثی، پروفیسر متھن اور پروفیسر نوخیز وغیرہ شامل ہیں۔ میری جانکاری کے مطابق سیلیکشن کمیٹی کے صدر بھی بدعنوانی میں شامل ہیں اور ڈاکٹر شمس اقبال جس کا سابقہ
رکارڈ اچھا نہیں رہا ہے، NCPUL میں جب وہ پی پی او تھے تب کمپوٹر فروخت کے معاملے کو لے کر بدعنوانی ہوئی تھی۔
اس لئے محمد رفیع نے کہا کہ ابھی بھی وقت ہے کہ قومی وزیر براۓ اقلیتی فلاح جناب دھرمیندر پردھان اچھے و قابل اکیمڈیسین ڈایریکٹر قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان کے عہدہ پر فائز کرنے کی مہربانی کریں، اردو آبادی پر ان کا بڑا احسان ہوگا۔