دینی جلسوں میں اصلاحی مقاصد کا فقدان

Spread the love

دینی جلسوں میں اصلاحی مقاصد کا فقدان : لمحہ ٔفکریہ

از : تحریر: مفتی محمدشمس تبریزقادری علیمیؔ

مذہب اسلام ایک ہمہ گیردین اورضابطہ حیات ہے۔ اس کی تعلیمات و ہدایات کا دائرہ زندگی کے تمام شعبوںپرمحیط ہے۔اس لیے مذہب و روحانیت کے علاوہ اخلاق وکردار، معیشت ومعاشرت،سیاست و حکومت ، تہذیب وثقافت اورعلم وفن کے تمام شعبے بھی اسی دائرے میں آتے ہیں۔

اسلام ایک نظریہ حیات کے ساتھ ساتھ ایک نظام زندگی بھی ہے۔دیگرمذاہب وملل کے برعکس اس کے احکام وفرامین صرف انسانی زندگی کے اخلاق و روحانی پہلوؤں تک ہی محدودنہیں بلکہ وہ تمام امورومعاملات میں بھی مکمل ہدایت اوررہنمائی فراہم کرتاہے جن کاتعلق انسان کی معاشی و معاشرتی اورسیاسی وثقافتی زندگی سے ہو۔اس لیے اسلام کی تبلیغ کے یہ معنی ہیں کہ اس کی تعلیمات وہدایات کوزندگی کے تمام شعبہ جات پرپھیلایاجائے۔

لیکن یہ بھی ایک مسلم حقیقت ہے کہ کوئی نظریہ یاکوئی ضابطہ وعظ ونصیحت اور تقریروخطابت کے بغیرنہیں پھیل سکتا۔ ہردورمیں انسانی رشدوہدایت کے لیے مذہبی تقریبات کاانعقادعمل میں آتارہاہے۔خودزمانہ رسالت میں بھی انسان کی ہدایت وفلاح اورسعادت و کام یابی کے لیے محفلوں کاانعقادہوتارہا۔آج بھی یہ تقریبات کثرت سے جگہ جگہ منعقدکی جاتی ہیں۔

یہاں تک کہ معمولی دیہاتوں میں بھی ان کی جھلک پوری آب وتاب کے ساتھ دیکھی جاسکتی ہے۔ان کابنیادی مقصدامت مسلمہ کی رشدوہدایت اوراصلاح اعمال ہے ۔

ان کے ذریعہ تاریک دلوں میں عشق وعرفان کی قندیلیں روشن کی جاتی رہیں،غافل اورخوابیدہ ذہنوں کوبیدارکیاجاتارہااورخشک طبیعتوں میں ایمانی جوش وحرارت پیداکی جاتی رہی ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دینی جلسوں کی بڑی شاندار تاریخ رہی ہے۔

ان جلسوں کا معاشرے اور عوام دونوں کی اصلاح میں بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔ جادۂ حق سے منحرف لوگوں کو شاہراہ حق پر واپس لانے، ضلالت و گمراہی، فسق و فجور اور بد عملی کی زندگی گزار رہے افراد کو صراط مستقیم پر لا کھڑا کرنے کا ان جلسوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اسے بھلا کیسے بھُلایا جا سکتا ہے۔

ہمارے علماء و اسلاف جو علم و عمل دونوں کا پیکر ہوا کرتے تھے انہوں نے اس باب میں ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن سے ہماری دعوتی تاریخ کے صفحات روشن ہیں۔دینی جلسوں اور دعوتی کانفرنسوں کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جو امت کی بیداری اور فرض شناسی کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کا حوصلہ رکھنے والوں اور احقاق حق اور ابطال باطل کے جذبہ سے سرشار افراد کا وجود آج کے اس مادی دور میں ازبس غنیمت ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی نیتوں میں خلوص اور ان کی تعداد میں اضافہ فرمائے ۔ آمین۔

ایک عرصہ تک جلسے اپنے اس مقصدپرکاربندرہے اوربہت حدتک اس میں کامیابی بھی ملی،لیکن اسے عصرحاضرکاالمیہ کہیے کہ آج جب مذہبی جلسوں کی صورت وہیئت کاجائزہ لیاجاتاہے توان کی حقیقی صورت مٹتی نظرآتی ہے۔ان کی حالت نہایت افسوس ناک دکھائی دیتی ہے۔آج جب مذہبی کانفرنسوں کی خستہ حالی کے اسباب وعلل پرغورکیاجاتاہے تویہ حقیقت اظہرمن الشمس ہوجاتی ہے کہ اس کاذمہ دارکوئی ایک طبقہ نہیں بلکہ مشترکہ طورپرخطباء ،سامعین اورمنتظمین سب ہیں۔

جلسے اوراجلاس کے تعلق سے اراکین کانفرنس کی کوتاہ اندیشی کونظراندازنہیں کیاجاسکتاہے۔ان کارویہ خطرناک اورجلسوں کی ناکامی کاذمہ دارہے۔میں نہیں سمجھتاکہ اتنے سارے انتظامات اوراخراجات سے مذہبی اجلاس کے انعقادمیں ان کامقصداخلاص وللہیت کے بجائے شہرت وناموری اورریاونمودہوسکتاہے ؟۔

لیکن آج کے جلسوں کی ناکامی اس بات کی روشن دلیل ہے کہ اخلاص کاان کے اندربہت حدتک فقدان ہوتاہے۔نیزمقررین کاانتخاب بھی اس کی شہادت دیتاہے،کیوں کہ عام طورپرانہیں مقررین کومدعوکیاجاتاہے جوبے جالفاظی اورتصنع سے مذہبی اجلاس کونمائش گاہ میں تبدیل کردیتے ہیں۔اس پریہ کہ جلسہ کی کاروائی صبح تک چلاتے ہیں،جس کامنفی اثریہ مرتب ہوتاہے کہ سامعین سے فجرکی نمازضائع ہوجاتی ہے۔

 

دینی جلسوں میں اصلاحی مقاصدکافقدان اس لیے بھی ہے کہ جلسوں میں بہت سےایسے خطباءمدعوکیے جاتے ہیں جوغیرمعمولی شہرت کے حامل ہوتے ہیں اور”جہانِ خطابت “کے بے تاج بادشاہ کہے جاتے ہیں،جب ان کی تقریروں کا جائزہ لیاجاتا ہے تویہ بات آفتابِ نیم روز سے بھی زیادہ واضح ہوجاتی ہے کہ تقریریں اصلاح معاشرہ ،تعلیم امت،دینی دعوت کی تذکیر اورخوف وخشیت خداوندی کی تلقین سے یکسرخالی ہوتی ہیں۔ دینی امورہوں یادنیوی معاملات کسی خاص مقصدکے تحت ہی انجام دیئے جاتے ہیں۔

جلسوں کا جامع مقصد تبلیغ دین اور اصلاح وغیرہ ہی ہے چاہے آپ انہیں جن الفاظ سے تعبیر کریں۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک جلسے سے دین کی مکمل تبلیغ اور معاشرے کی تمام خرابیوں کی اصلاح ممکن نہیں۔ اس لیے چنداہم اورضروری امورکومدنظررکھیں ۔ مثلاً شادی بیاہ کی فضول رسموں کا خاتمہ، جہیز کی روک تھام، نظافت و صفائی، اقامت صلوٰۃ، پھر دیکھنا چاہیے کہ جلسے سے متوقع اصلاح ہوئی یا ہورہی ہے یا نہیں؟

بعض جلسوں کے منتظمین کے اقوال واعمال وتصرفات بول رہے ہوتے ہیں کہ یا تو انہیں جلسے کے مقصد کا ہی پتہ نہیں ، یا اگر پتہ ہے تو مقصد وہ نہیں جو عام طور سے سمجھا جاتا ہے بلکہ کچھ اور ہے۔

مشاہدات بتارہے ہیںکہ بہار وبنگال کے علاقوں میں اکثر جلسے مدارس کے چندے کے لیے ہوتے ہیں۔ جلسے کے مقررین اپنی تقریروں سے اسی جلسے میں عوام سے مدرسے کے لیے پیسے نکلواتے ہیں۔اب ظاہر ہے کہ جو مقرر اپنی چرب بیانی اور طلاقت لسانی کے بل پر جتنا زیادہ پیسہ مدرسہ کی جھولی میں گروادے اتنا ہی وہ کام یاب ہے۔ مقصد کے ادراک سے غافل صرف منتظمین اور مقررین ہی نہیں ہوتے بلکہ سامعین با تمکین بھی ہوتے ہیں۔ وہ جلسوں کے بعد مقررین کو نمبردیتے ہیں۔ فلاں کی تقریر ایک نمبر کی رہی اور فلاں کی؟……۔

ا نھیں اس سے مطلب نہیں ہوتا کہ کس نے کیا کہا؟ کس نے دلائل کی روشنی میں بات کی اور کس نے ہوائی فائرنگ کی۔ وہ مقرر کی اچھل کود، ایکٹنگ، لفاظی اور بے سر وپیر کے قصے کہانی پر نمبر دیتے چلے جاتے ہیں۔ آج کل ایسے خطباء کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے جومن گھڑت ،بے تکی،جاہلانہ کامیڈی سنانے کاہنر رکھتے ہیں۔ہنسنے ،ہنسانے والے مقررین و شعراء کو ’’سکّۂ رائج الوقت اور انٹرنیشنل خطبا،شعرا‘‘ کے القاب سے نوازاجاتاہے۔

اکثر وبیشترموجودہ جلسوں کی حالتیں اس قدر ناگفتہ بہ ہیںکہ جس میں اہل ِ علم وبصیرت حضرات شرکت کرنے سے سخت اجتناب کرتے ہیں۔راقم کی طبیعت بھی اس طرف مائل نہیں ہوتی۔ایک جگہ عرس مقدس میں شرکت کاموقع نصیب ہوا ،جہاں عظیم الشان کانفرنس کاانعقادکیاگیاتھا۔ جس میں دوردراز کے مشہورومعروف خطبا ،شعراء مدعوتھے۔

راقم بھی احباب کے ساتھ اسٹیج پر گیا اسی امید کے ساتھ کہ خطباء وقت کی نصیحت آمیز باتوں سے مستفید ہوسکوں۔نقیب اجلاس نے بہت سارے موضوع القاب کے ذریعے خطیب شب کوسامعین وسامعات کے روبر وپیش کیا۔شب تقریباً اپنی نصف منزل طے کرنے ہی والی تھی۔

 

سیمانچل،بہار دیہی علاقہ کے محنت وجفاکش، ایماندارسنی سادہ لوح مسلمانوں کاٹھاٹھیں مارتا مجمع اس امید پراپنی دن بھر کی تَکان بھلاکر ،نیند قربان کررہاتھا کہ خطیب اعظم کی زبان سے نکلے ہوئے بیش بہا گوہر ِآبدارسے دامن مراد بھر لوں گا۔

مگر ہائے افسوس ………………………….!

خطیب جھنکار،واعظ گرج دار جیسے ہی مائک پر آئے ،اپنے مخصوص لب لہجہ میں سامعین سے مخاطب ہوئے اور پھر کیا تھا،آوازوں کی گرج،مثل برق ِ طپاں انداز بیاں،ساؤنڈ کی کڑک، لباس کی بھڑک دیکھ کر سامع کادل گیا دھڑک ، تقریباً ڈیڑھ / دوگھنٹے کے ظریفانہ اسلوب،طنزومزاح سے پُر مزاحیہ خطابت ہوتی رہی ہے۔ آغاز گفتگو کو دیکھتے ہی اہل فکر ونظر نے اسٹیج کوالوداع کہہ دیا ۔ اور تھکے ماندے سامعین بھی محفل چھوڑنے پر مجبور ہوگے ۔

آج کے اکثر جلسوں کے حالات اسی طرح کےہیں۔ سیرت النبیﷺ کا جلسہ ہو یا جشنِ خلفاے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین یا فیضانِ اولیاء کانفرنس چاہے جس نام سے بھی موسوم ہو مگرخطاب اس کے برعکس ہی سننے کو ملتا ہے۔

اتفاق سے اگر کسی پیر صاحب کی شرکت ہوگئی تو پھر مکمل کانفرنس ان کی نذر ہوجانی ہے۔اور ان کی کرامات بیان کرنے پر ہی شعرا ،خطبا اپنی مکمل کاوش صرف کرنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ نعت و منقبت کے نام پرپیر صاحب کی تعریفات میں شب گزر جاتی ہے ۔

اور ایسا ہو بھی کیوں نہ ؟ کیوں کہ آج کے اکثر جلسوں میں اگر کوئی آقائے کریم ﷺ کی نعت پاک ،یاصحابہ واغواث کی شان اقدس میں اکابرین صوفیا و مشائخ کا تحریر کردہ کلام پڑھ دے تو سامعین اور اہل اسٹیج کی جانب سے حوصلہ افزائی کےایک بھی جملے سننے کو نہیں ملتے لیکن اس کے برعکس ہو تو……….ہر چہار جانب سے نعرے اور داد وتحسین کی صدائیں گونج اٹھتی ہیں۔

اکثر جلسوں کی بے مقصدیت کا حال یہ ہوتا ہے کہ تیاریاں ہو رہی ہیں، رضا کار دوڑ دھوپ کر رہے ہیں(وہ رضا کار جن میں سے اکثر چہرے مہرے سے بھی مسلمان نہیں معلوم ہوتے) کھاناپک رہا ہے، شامیانہ لگ رہا ہے، مہمانوں کی آمد آمد ہے۔ مگر قریب میں مسجد ہوتی ہے، اذان ،نماز ہوتی ہے

مگر دین کے یہ سپاہی تن من دھن سے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں، اکا دکا جو پہلے سے نماز کے پابند ہوتے ہیں ان کے علاوہ باقی سب ’’دین کے کام‘‘ میں مشغول رہتے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ کسی وقت میں جب ٹی وی اور موبائل کا چلن زیادہ نہیں تھا اور سینما بینی کے بعض لوگ عادی ہوتے تھے اس وقت جلسوں کے اس قسم کے رضا کار جلسے کی رات ’’ دینی کاموں‘‘ سے فارغ ہوکر اس شوق کی تکمیل میں مشغول ہو جایا کرتے تھے۔ محفل وعظ تو تا دیر رہے گی قائم ٭ یہ ہے مے خانہ ابھی پی کے چلے آتے ہیں

بہر حال جلسے کے انعقاد سے قبل منتظمین کو چاہیے کہ جلسے کے اہداف و مقاصد طے کریں اور اپنا ٹارگیٹ متعین کر لیں۔ ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ان کی جد وجہد ہو، اور بعد از جلسہ جائزہ لیں کہ کیا کھویا کیا پایا۔

اسی تناظر میں جلسے کی کامیابی یا ناکامی کا حکم لگایا جائے۔ کسی جلسے کی کامیابی یہ نہیں ہے کہ وہ دیر رات تک چلا ، یا اس میں فلاں مشہور مقرر کی شرکت اور تقریر ہوئی، یا سامعین کی تعداد بہت زیادہ تھی، یا اس کا نظم ونسق بہت اچھا تھا، وغیرہ وغیرہ۔بلکہ جلسہ کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ عوام کے قلوب واذہان کو جنھجھوڑنے میں کتنا کامیاب رہا۔ اس سے معاشرہ کی کیا اصلاح ہوئی، کس برائی کا اس سے خاتمہ ہوا، کس اچھائی کے فروغ کا سبب بنا۔

یہ وہ حقائق ہیں جن کی وجہ سے مذہبی جلسوں کے انعقاد کا اصلی مقصد فوت ہوتا ہوا نظرآتا ہے،اس کے ذریعہ نہ تولوگوں کے اندرجذبہ عمل پیدا ہوتا ہے اورنہ ہی خوف وخشیت الٰہی ۔دینی محفلوں کی ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اکثر مقررین کوئی پائیداراورمؤثرخطاب کرتے ہی نہیں صرف قصے اورکہانیوں میں وقت ضائع کرتے ہیں۔

اورعقائد واعمال کی دعوت دینے کے بجائے اپنی ہی جماعت کی قدآور،گرانقدراورمعظم شخصیتوں کوطعن وتشنیع کے تیرسے گھائل کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ایسی صورت میں دینی جلسوں کی تقریری کوششیں سادہ لوح سنی مسلمانوں کے اندرمؤثرنہیں ہورہی ہیں تواندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کہ معاندین ومخالفین اسلام کے اندرکیسے اثراندازہوسکتی ہیں،اورلوگ اسلام وایمان اوراس پرعمل کی جانب کیسے مائل ہوں گے۔

دینی جلسوں کوکام یاب بنانے کے لیے ہمارے بیدارمغزاوراہل فکر و نظرعلماے کرام کوتوجہ دینی چاہیے ۔

منتظین جلسہ سے راقم کی درخواست ہے کہ اپنے جلسوں میں ایسے خطبا کومدعوکریں جوعلمی اورعملی دونوں خوبیوں سے مزین ہوں، مخلص اوربے لوث ہوں،قوم وملت کے بہی خواہ ہوں،مؤثرشخصیت کے حامل ہوں ، پیشہ و راوردنیا دارخطیبوں کوہرگزدعوت نہ دی جائے اگرچہ وہ شہرت کی بلندیوں کوچھورہے ہوں، کیوں کہ ایسے لوگ خودغرض اورمفادپرست ہوتے ہیں۔ قوم وملت کا دردا ن کے دلوں میں نہیں ہوتاہے۔

لہذا ان سے اصلاحی مقاصداوردعوت وتبلیغ کی توقع فضول ہے۔

واللہ المستعان والموفق الی الصراط المستقیم۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *