سورہ فاتحہ ایک مختصر تعارف
سورہ فاتحہ ایک مختصر تعارف
محمد عبدالحفیظ اسلامی
سورہ فاتحہ میں سات آیات ، ستائیس کلمے ، ایک سو چالیس حروف ہیں۔ کوئی آیت مبارکہ ناسخ یامنسوخ نہیں۔
تفاسیر کے مطالعہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ سورہ فاتحہ ایک عظیم سورۃ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی کی روشنی میں اسے دیکھا جائے تو ہمیں اس کی عظمت کا اندازہ ہوجائے گا۔ حضرت مولانا محمد نعیم الدین صاحب مرادآبادی اس سلسلے میں یوں تحریر فرمایا۔
اس سورۃ میں تعلیماً بندوں کی زبان میں کلام فرمایا گیا ہے۔ (کنزالایمان)ہر صاحب ایمان جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن حکیم جیسی بابرکت کتاب نازل فرمایا ، اس کتاب کا ایک حصہ مکی دور میں نازل ہوا اور اس کا بقیہ حصہ مدینہ شریف میں نازل ہوا۔
اس طرح پورا قرآن حکیم مکی و مدنی حیات مبارکہ میں مکمل ہوچکا۔ سورہ فاتحہ مکی ہے،یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نبوت کے ابتدائی زمانے کی سورت ہے۔
روایات کے ذریعہ ہمیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ سب سے پہلی سورت جو مکمل طور پر پر نازل ہوئی ہے وہ ’’سورہ فاتحہ‘‘ ہے کیوں کہ اس سے قبل جو آیات مبارکہ نازل ہوئی تھیں جوکہ سورہ علق ، سورہ مزمل اور سورہ مدثر میں شامل ہے وہ متفرق آیات شمار کی جاتی ہیں۔
اب ہم سورہ فاتحہ کی اصل حقیقت کی طرف چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آخر وہ کونسی خصوصیت ہے جس کی بدولت قرآن حکیم میں فہرست کے مطابق صفحہ اول پر رکھا گیا ہے اور اس میں کونسا مضمون آیا ہے جوکہ اُمت محمدیہ کی دنیاوی و اُخروی کامیابی و نجات کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔
مفسرین کرام اس سلسلہ میں یوں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’دراصل یہ سورۃ ایک دعا ہے جو خدائے تعالیٰ نے ہر اُس انسان کو سکھائی ہے جو اس کی کتاب کا مطالعہ شروع کررہا ہو۔
کتاب کی ابتداء میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر تم واقعی اس کتاب سے فائدہ اُٹھانا چاہتے ہو تو خداوند عالم سے یہ دعا کرو۔ انسان فطرتاً دعا اسی چیز کی کیا کرتا ہے جس کی طلب و خواہش اس کے دل میں ہوتی ہے اور اسی صورت میں کرتا ہے جب کہ اسے یہ احساس ہوکہ اس کی مطلوب چیز اس ہستی کے اختیار میں ہے جس سے وہ دعا کررہا ہے۔
پس قرآن کی ابتداء میں اس دعا کی تعلیم دے کر گویا انسان کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ وہ اس کتاب کو راہِ راست کی جستجو کے لئے پڑھے ، طالب حق کی جیسی ذہنیت لے کر پڑھے اور یہ جان لے کہ علم کا سرچشمہ خداوند عالم ہے۔ اس لئے اسی سے رہنمائی کی درخواست کرکے پڑھنے کا آغاز کرے۔
اس مضمون کو سمجھ لینے کے بعد یہ بات خود واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن اور سورہ فاتحہ کے درمیان حقیقی تعلق کتاب اور اس کے مقدمہ کا سا نہیں بلکہ دعا اور جواب دعا کا سا ہے۔سورۂ فاتحہ ایک دعا ہے بندے کی جانب سے اور قرآن اسی کا جواب ہے خدا کی جانب سے بندہ دعا کرتا ہے۔
اے پروردگار ! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ہے وہ ہدایت و رہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے۔(تفہیم القرآن)
سورۂ فاتحہ الٰہی تعلیمات کا لب لباب ہے اور بندہ عاجز و محتاج کی ایک درخواست بھی ، جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو سکھائی ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کی جائے اور اللہ تعالیٰ ہی سے مدد چاہی جائے، مالک یوم الدین سے نجات و مغفرت کی دعا کی جائے۔
ان بندوں کی اتباع و تقلید کی توفیق مانگی جائے جن پر اللہ تعالیٰ نے نعمت خاصہ کی نوازش فرمائی۔ اللہ تعالیٰ کے خصوصی انعام یہ ہیں۔ دین وایمان پر استقامت ، قرآنی بصیرت ، ایمانی جرأت و فراست۔
اللہ تبارک و تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والہانہ اطاعت و فرماں برداری ، اہل حق سے محبت ، حق کے مخالفین سے عداوت ، نیکیوں سے رغبت ، بُرائیوں سے نفرت اور حق پر قائم رہنے اور دین حق برپا کرنے کے لیے دنیا کا ہر نقصان گوارا کرنے کی ہمت ، دنیا میں نیکیوں کی اشاعت اور بُرائیوں کو مٹانے کا عزم و حوصلہ ، مصیبتوں میں صبر و رضا نعمتوں میں شکر و اطاعت، کاروبار میں توکل ، گناہوں پہ توبہ ، حرکت و سکون میں اللہ تعالیٰ ہی کے فضل و رحمت پر نظر۔ دل و دماغ علم الٰہی کے نور سے منور ، دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کی والہانہ طلب و حرص۔ (مطالب قرآن حکیم)
احادیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سورۃ الفاتحہ کے مختلف نام آئے ہیں۔ اگر ان ناموں پر غور کیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا قرآن حکیم کی ساری تعلیمات اور اس کے مطالب کو سمیٹ دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر چند ناموں کا ذکر کرنا یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے۔(۱) فاتحۃ الکتاب- جس کے صاف طور پر یہ معنی ہوتے ہیں ۔ ’’دیباچہ قرآن‘‘ اسی طرح اس کے لئے ’’اُم الکتاب‘‘ و ’’اُم القرآن‘‘ کے نام بھی آتے ہیں۔اس سلسلے میں مولانا افتخار احمد قادری مصباحی اپنی تصنیف ’’فضائل قرآن‘‘ کے صفحہ ۱۴۲ پر یوں تحریر فرمایا ہے۔
ان دونوں کے مختلف اسباب ام شئی : اصل شئی کو کہتے ہیں اور پورے قرآن سے چار باتوں کو صاف کرنا مقصود ہے۔ الٰہیات کے مسائل معاد کی تعلیم و تصور ، نبوت کے احکام و مسائل اور قضا و قدر کا ثبوت ۔ ارشاد الٰہی :-اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ – اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔’’الہیات کا پتہ دیتا ہے اور ”مَالِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ۔ “ سے دوبارہ جینے (جی اُٹھنے) کا پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ اللہ کی قضاء قدر سے ہوتا ہے اوراِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ – صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ۔سے قضا اور قدر الٰہی کا سراغ ملتا ہے اور نبوت کا بھی ، اور قرآن کے سب سے عظیم مقصد یہی چار ہیں اور اس سورہ کے اندر یہ چاروں ہی پائے جاتے ہیں۔ اس لئے اس کا نام ’’اُم القرآن‘‘ اصل قرآن اور ’’اُم الکتاب‘‘ اصل کتاب ہوا۔ ۲۔ آسمانی تمام کتابوں کا نچوڑ تین اُمور ہیں۔
(۱) زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء
(۲) خدمت و اطاعت میں مصروف ہونا
(۳) مکاشفات اور مشاہدات کی طلب و درخواست
۳۔ اس سورۃ کے اُم القرآن و اُم الکتاب ہونے کا تیسرا سبب یہ ہے کہ تمام علوم کا مقصد وقار ربوبیت اور ذلت عبودیت کی شناخت و آشنائی ہے
۴۔ اُم القرآن نام ہونے کا چوتھا سبب یہ ہے کہ ایک معنی لشکر کے جھنڈے کے ہیں۔ قیس بن حطیم عربی شاعر کہتا ہے:- نَعَبْنَا اُمَّنَا حَتّٰی ابذَ عَدُّوْا’’ہم نے اپنا جھنڈا گاڑ دیا یہاں تک کہ وہ دشمن بکھر گئے‘‘سورۂ فاتحہ کا نام اُم القرآن اس لئے ہوا کہ یہ سورہ اہل ایمان کی پناہ گاہ ہے جیسا کہ جھنڈا لشکر کی پناہ گاہ ہوا کرتا ہے۔سورۂ فاتحہ کی جو تاثیر ہے اس کا اندازہ رسالت مآب صلی علیہ وسلم کی ایک حدیث (قدسی) سے ہوتا ہے جو مسلم شریف میں ہے،ترجمہ پیش ہے۔حضرت ابوہریرہؓ ، رسول اللہ صلی علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے نماز کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے۔ اس کا نصف حصہ میرے لئے ہے اور نصف میرے بندے کے لئے ہے اور میرے بندہ کو وہ بخشا گیا جو اس نے مانگا۔ جب بندہ الحمدﷲ رب العالمین کہتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ میرے بندہ نے میرا شکریہ ادا کیا اور جب وہ الرحمن الرحیم کہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے میری بڑائی بیان کی اور جب بندہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ کہتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ یہ حصہ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے میں نے اپنے بندے کو وہ بخشا جو اس نے مانگا۔ پھر جب بندہ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِّیْنَ کہتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے بندے کیلئے ہے اور میں نے اپنے بندے کو وہ بخشا جو اس نے مانگا۔
صحیح بخاری و مسلم میں نماز اور سورہ فاتحہ کے متعلق یہ بات آئی ہے کہ لاصلاۃ لـمــن لــم یــقــرأ بفاتـحۃ الکتاب۔ ’’اس شخص کی نماز نہیں جس نے سورہ فاتحہ نہیں پڑھی‘‘۔اہل ایمان بندوں کی سب سے بڑی عبادت ’’نماز‘‘ ہے جوکہ بندگی رب کی سب سے بڑی نشانی ہے۔ جس کے بغیر مسلمانیت میں بہت بڑا خلا واقع ہوجاتا ہے۔ جس میں سورہ فاتحہ کو لازم کردینا ، سورہ فاتحہ کی عظمت پر ایک بہت بڑی دلیل ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت آئی ہے۔ (یہ اس طویل روایت کا آخری حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے جو سورہ فاتحہ سے متعلق ہے) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں ایک ایسی بات بتاؤں جس کی طرح نہ تورات میں نازل ہوئی ، نہ انجیل میں ، نہ زبور اور فرقان میں
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کیوں نہیں یا رسول اللہ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نماز کیسے پڑھتے ہو ؟
اُنھوں نے سورہ فاتحہ پڑھی۔ رسول اللہ نے فرمایا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تورات ، انجیل ، زبور اور فرقان میں اس جیسی کوئی سورۃ نازل نہیں فرمائی۔ اس میں مثانی کی سات آیتیں ہیں اور یہ سورہ قرآن عظیم ہے جو مجھے دی گئی، (ترمذی ص ۱۱۱ ج ۲)۔
سورہ فاتحہ کی حقیقت اور اس کی عظمت اور اس کی تاثیر و فضائل ، مختلف تفاسیر اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے ہم کو معلوم ہوئے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ہمیں پورے قرآن حکیم پر غور کرنے اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات گرامی پر عمل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔
محمد عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگارفون نمبر : 9849099228
اسلام کا نور تو ہمیشہ فروزاں رہےگا