فضائل حج اوراس کے ارکان کے ادا کرنے کا طریقہ

Spread the love

 مولانا محمد محفوظ قادری ::: فضائل حج اوراُس کے ارکان کے ادا کرنے کا طریقہ !

فضائل حج اوراُس کے ارکان کے ادا کرنے کا طریقہ

مکرمی!اللہ رب العزت نے اسلام کی بنیاد پانچ ارکان پر رکھی ہے ان میں سے پانچواں رکن حج کرنا ہے۔ جس کی فرضیت و فضیلت قرآن و حدیث دونوں سے ثابت ہے۔لیکن حج ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کا اللہ نے ہر بندئہ مومن کو مکلف نہیں کیا ہے بلکہ حج کرنا اللہ نے اُسی مسلمان پر فرض قراردیا ہے کہ جو صاحب مال اور ساتھ ہی جسمانی طاقت رکھتاہواور راستہ بھی اس کے لیےپرُ امن ہواگر وہ انسان حج نہیں کرتا ہے تو اللہ کے نزدیک سخت گناہ گار رہے گا۔

اور اگر خدانخواستہ حج کی فرضیت کا انکار کرتا ہے تو دائرہ اسلام سے باہر ہوجائے گا ۔ایام حج شروع ہوچکے ہیں۔اور اس عاشقانہ عمل کی ادائیگی کے لیے پوری دنیا سے لوگ اپنی ظاہری زیب وزینت کو چھوڑکراپنے رب کے ساتھ والہانہ محبت کا اظہار کرنے کے لیے مقامات مقدسہ منیٰ ،عرفات ،مزدلفہ پہنچ کر اپنے آقانبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق حج کی ادائیگی کرکے اپنا تعلق مضبوطی کے ساتھ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی عظیم قربانیوں کے ساتھ جوڑیں گے۔

اور حج ایک ایسی عاشقانہ عبادت ہے کہ یہ ایک وقت میں بدنی،مالی وروحانی تینوں چیزوں پر مشتمل ہے یہ خصوصیت کسی اور عمل کو حاصل نہیں ہے۔حج فرض ہونے کے بعد بندئہ مومن کواس کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔اور جو اس کی ادائیگی میں تاخیر کرتے ہیں اُنکے لیئے اللہ اور اُس کے رسول نے سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں۔اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے۔بیشک پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیاوہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا اور ہدایت ہے

تمام جہان کے لیے اُس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں مقام ابراہیم اور جو شخص اس میں داخل ہواباامن ہے اور اللہ کے لیے لوگوں پر بیت اللہ کا حج(فرض)ہے جو شخص راستہ کے اعتبار سے اس کی ادائیگی کی طاقت رکھے۔اور جو کفر کرے تو اللہ سارے جہان سے بے نیاز ہے۔(قرآن)اور دوسرے مقام پر فرمایا کہ حج اور عمرے کو اللہ کے لیے پورا کرو۔(قرآن)۔

اسی کی تفسیر کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے حج کیا اور رفث(فحش کلام )نہ کیا اور فسق نہ کیاتو گناہوں سے پاک ہوکر ایسا لوٹتاہے جیسے اسی دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔(حدیث)۔

اسی حج کی فضیلت کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم کیا گیاکہ کونسا عمل افضل ہے آپ نے ارشاد فرمایااللہ اور رسول پر ایمان لانا،عرض کیا گیا اس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایا اللہ کی راہ میں جہاد کرنا،پھر عرض کیا گیااس کے بعد آپ نے ارشاد فرمایاحج مبرور۔(حدیث)۔

حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حج کے ذریعہ اللہ گناہوں کو دفع فرمادیتا ہے جوپیشترہوئے ہیں۔(حدیث)۔

حج کوئی معمولی عبادت نہیں ہے اس کے ذریعہ اللہ محتاجی اور گناہوں سے بھی اپنے بندوں کو چھٹکارا عطافرماتاہے جیساکہ اللہ کے رسول اللہ نے ارشاد فرمایاحج وعمرہ محتاجی اور گناہوں کوایسے دور کر دیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور چاندی اور سونے کے میل کودور کرتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔(حدیث)۔

اور حج کرنے والے کی فضیلت حضور کے اس فرمان سے بھی ثابت ہو تی ہے کہ حاجی کی شفاعت کو بھی اللہ اپنے بندوں کے حق میں قبول فرمائے گاجیسا کہ اللہ کے نبی نے ارشاد فرما یاحاجی اپنے گھروالوں میں سے چار سو (لوگوں)کی شفاعت کریگااور گناہوں سے ایسا نکل جائیگاجیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہواہو۔(حدیث)۔

اور جب حاجی اپنے گھر سے حج کے ارادے سے سفر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ حاجی کو حالت سفر میں بھی نیکیاں عطا فرماتا ہے ابوالقاسم حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جو خانہ کعبہ کے ارادے سے آیا اور اونٹ پر سوار ہواتو اونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لیے اُس کے بدلے نیکیاں لکھتا ہے اور خطاکو مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے۔یہاں تک کہ جب کعبہ معظمہ کے پاس پہنچااور طواف کیاساتھ ہی صفا مروا کے درمیان سعی کی پھر سر منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیاجیسے اُس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔(حدیث)۔

اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ حج وعمرہ کرنے والے اللہ کے وفد ہیں اللہ نے انہیں بلایایہ حاضر ہوئے،انہونے اللہ سے سوال کیا اللہ رب العزت نے ان کے سوال کو پورا کیا۔ دوسری روایت میں آتا ہے آقا علیہ السلام نے فرمایاحاجی کی مغفرت ہو جاتی ہے اور حاجی جس کے لئے استغفار کرے اس کیلئے بھی مغفرت ہے۔(حدیث)۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مسجد منیٰ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر تھاایک انصاری اور ایک ثقفی نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر سلام عرض کیا،پھر عرض کی یارسول اللہ! ہم آپ کی خدمت میں کچھ معلوم کرنے کیلئے حاضر ہوئے ہیں یہ سن کر حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایاکہ اگر توچاہے تو میں بتادوں کیا معلوم کرنے حاضر ہواہے،اور اگر تو چاہے تو میں کچھ نہ کہو ں توسوال کر۔

عرض کیا یا رسو ل اللہ! آپ ہی ہمیں بتادیجئے ارشاد فرمایا تواس لئے حاضر ہواہے کہ گھر سے نکل کر بیت الحرام کے لیےجانے کو معلوم کرے اور یہ کہ اس میں تیرے لیے کیا ثواب ہے، اور طواف کے بعد دورکعتیں پڑھنے میں اس میں تیرے لئے کیا ثواب ہے،اور صفامروا کے درمیان سعی کرنے میں کہ اس میں تیرے لیےکیا ثواب ہے،اور عرفہ کی شام کے وقوف کرنے میں کہ اس میں تیرے لئے کیا ثواب ہے،اور جمار کی رمی میں کہ اس میں تیرے لیے کیا ثواب ہے،اور قربانی کرنے میں کہ اس میں تیرے لیےکیا ثواب ہے اور اسی کے ساتھ طواف اضافہ میں۔

اُس شخص نے عرض کی قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے حضور کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایااسی لیے حاضر ہوا تھا کہ حضور سے ان باتوں کو معلوم کروں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب تو بیت الحرام کے ارادے سے گھر سے نکلے گاتو اونٹ کے ہر قدم رکھنے اور ہر قدم اٹھانے پرتیرے لیے نیکی لکھی جائیگی۔اور تیری خطا مٹا دی جائے گی۔اور طواف کے بعد کی دو رکعتیں ایسی ہیں جیسے اولاد اسماعیل میں کوئی غلام ہو اس کو آزاد کرنے کا ثواب۔اور صفا مروا کے درمیان سعی ستر غلام آزاد کرنے کے مثل ہے۔

اور عرفہ کے دن وقوف کرنے کا حال یہ ہے کہ اللہ عزوجل آسمان دنیا کی طرف خاص تجلی فرماتا ہے اور تمہارے ساتھ ملائکہ پر مباہات فرماتا ہے ارشاد فرماتا ہے میرے بندے دور دراز سے پرا گندہ سر میری رحمت کے امیدوار ہوکرحاضرہوئے اگر تمہارے گناہ ریتے(کے ذرات) کی گنتی اوربارش کے قطروں اور سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں تو میں سب کو بخش دونگا میرے بندو!واپس ہوجائو تمہاری مغفرت ہوگئی اور اُس کی کہ جس کی تم شفاعت کرواور جمروں پر رمی کرنے میں ہر کنکری پر ایک ایسا گناہ کبیرہ مٹایا جائیگا جو ہلاک کرنے والا ہے۔

اور قربانی کرنا تیرے رب کے حضور تیرے لیے ذخیرہ ہے اور سر منڈانے میں ہر بال کے بدلے میں نیکی لکھی جائیگی اور ایک گناہ مٹایا جائے گا ۔اس کے بعد خانہ کعبہ کے طواف کا یہ حال ہے کہ تو طواف کر رہا ہے اور تیرے لئے کوئی گناہ نہیں ایک فرشتہ آئیگا اور تیرے شانوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہے گا کہ زمانہ آندہ میں عمل کراور زمانہ گذشتہ میں جو کچھ تھا معاف کر دیا گیا۔( حدیث)۔ اورجولوگ مال و جسمانی طاقت اور راستہ پرامن ہوتے ہوئے حج ادا نہیں کرتے ہیں ان کیلئے اللہ کے رسول نے اللہ رب العزت کی طرف سے بہت ہی سخت وعید بیان فرمائی ہیں حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس اتنا مال ہو خرچ کیلئے اور سواری کا انتظام ہو کہ بیت اللہ شریف جا سکے پھر وہ حج نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ یہو دی ہو کر مرے یا نصرانی۔(حدیث) ۔

 

بہر حال حج نام ہے احرام باندھ کر نویں ذی الحجہ کوعرفات میں ٹھرنے اور کعبہ معظمہ کے طواف کا،اور اس کے لیے ایک خاص وقت مقرر ہے کہ اس وقت میں یہ افعا ل کیے جائیں تو حج ہے ورنہ حج نہیں۔اور حج نو ہجری میں فرض ہو ا۔دکھاوے کے لیے حج کرنا اور مال حرام سے حج کو جانا حرام ہے۔حج واجب ہونے کے شرائط:۔حج واجب ہونے کی شرطیں اس طرح ہیں جب تک کہ یہ شرطیں نہ پائی جائیں حج فرض نہیں ہوگا

(۱)مسلمان ہونا(۲)بالغ ہونا

(۳)عقل مند ہونا

(۴)آزاد ہونا

(۵)تندرست ہونا

(۶)دوران سفر اخراجات برداشت کرنے کے لیے رقم میسرہونا

(۷)راستہ پرامن ہونا

(۸)جان جانے کا خوف نہ ہونا

(۹)عورت کا حالت عدت میں نہ ہونا

(۱۰)عورت کے لیے شوہر یا محرم کا ساتھ ہونا۔

اور حج نام ہے مخصوص دنوں میں مخصوص ارکان کی ادئیگی کرنا اور حج کے تین فرض ہیں۔(۱)احرام باندھنا۔اور احرام باندھنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ادا کہلاتی ہے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے توآپ نے خانہ کعبہ کا طواف کرنا چاہا تو آپ کے پاس دو چادریں تھیں

آپ نے ایک چادر کو باندھ لیا اور ایک چادر کو لپیٹ لیا اور یہ اداآپ کی اللہ کو اس قدر پسند آئی کہ اللہ رب العزت نے صبح قیامت تک ہر آنے والے حاجی کیلئے اس ادا کو فرض قرار دے دیا اور فرمایا جب تک تم میرے خلیل ابرہیم کی اس مبارک سنت کو ادا کر کے حج ادا نہیں کروگے جب تک تمہارا حج قبول نہیں ہو سکتا ۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ فرماتے کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے یمن سے ایک قافلہ آیااور اس نے کہا کہ ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ہمیں حج کے فضائل بتائیں آپ نے فرمایا جوشخص گھر سے حج یا عمرے کے ارادے سے نکلتاہے تو جو قدم بھی اٹھاتا یا رکھتا ہے اس کے قدموں سے اس کے گناہ اس طرح جھڑ جاتے ہیں جس طرح درخت سے پتے گرتے ہیں جب وہ مدینہ طیبہ پہنچ کر مجھ سے مصافحہ کے ساتھ سلام کرتا ہے تو فرشتے اس کے ساتھ مصافحہ اور سلام کرتے ہیں جب وہ ذوالحلیفہ پہنچ کر غسل کرتا ہے تو اللہ اس کو گناہوں سے پا ک وصاف فرمادیتا ہے جب وہ دو نئے کپڑے پہنتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کوجدید نیکیاں عطا فرماتا ہے ۔

اور جب وہــ ’’لبیک اللھم لبیک‘‘کہتاہے تو اللہ جواب میں فرماتا ہے’’ لبیک وسعد یک اسمع کلامک وانظرالیک‘‘میں نے تیرے کلام کو سنا اور تیری طرف متوجہ ہوا۔جب وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو کر طواف اور صفا مروا کے درمیان سعی کرتا ہے تو اللہ تعا لیٰ اسے نیکیوں تک پہنچا دیتا ہے اور جب وہ میدان عرفات میں وقوف کرتا ہے اور طلب حاجات میں آوازیں بلند ہو تی ہیں تو اللہ تعالیٰ ساتوں آسمانو ں کے فرشتوں میں ان لوگوں پر فخر کا اظہار فرماتا ہے۔(غنیتہ الطالبین)۔

(۲)وقوف عرفات :۔حضرت نافع حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ عرفہ کے دن اپنے بندوں کی طرف نظر کرم فرماتا ہے جس شخص کے دل میں بھی ذرہ برابر ایمان ہو اس کو بخش دیتا ہے حضرت نافع فرماتے ہیں میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھاکیا؟سب لوگوں کو بخشا جاتا یا پھر اہل عرفہ کو ؟آپ نے فرمایا یہ مغفرت سب لوگوں کے لیے ہے ۔(غنیتہ الطالبین)۔

اسی وقوف عرفہ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب عرفہ کا دن ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے(جیسے اس کی شایان شان ہے)اور حاجیوں کے سبب ملائکہ پر فخر فرماتا ہے کہ اے فرشتو!میرے بندوں کو دیکھوکس طرح بکھرے ہوئے بال اور غبار آلود چہروں کے ساتھ دور دراز کے علاقوں سے آئے ہیں ساتھ ہی مجھ سے میری رحمت کی امید رکھتے ہیںاور میرے عذاب سے ڈرتے ہیں پس جس شخص کی ملاقات کے لیےکوئی آئے تو اس کا فرض ہے کہ آنے والے کی عزت کرے مہمان کی عزت کرنا میزبان کا فرض ہے ۔

تم گواہ ہو جائو میں نے ان کو بخش دیااور جنت کو ان کی مہمان نوازی کی جگہ قرار دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اے اللہ ان میں فلاں متکبر مرد اور عورت بھی شامل ہے رحیم وکریم اللہ فرماتا ہے میں نے ان کو بھی بخش دیاپس عرفہ کے دن سے بڑھ کر جہنم سے آزادی کا کو ئی دن نہیں ہے ۔(غنیتہ الطالبین)۔

حضرت نافع حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کی شام ہمارے ساتھ وقوف فرمایا جب روانگی کیلئے کھڑے ہوئے تو لوگوں کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور فرمایا اے لوگو!آج کے دن اللہ نے تم پر احسان کیا تمہارے نیکوکاروں کے وسیلے سے بدکاروں کو بخش دیا اور نیک لوگوں کو ان کے سوال کے مطابق عطا فرمایا اور رنج وتکلیف دینے والوں کے علاوہ سب کے گناہ بخش دئے اللہ کے نام سے چل پڑو

فرماتے ہیں کہ جب ہم مزدلفہ میں پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ وقوف فرمایاجب رخصت ہو نے لگے تو لوگوں کو کھڑاکیا اور خاموش رہنے کا حکم دیااور فرمایا اے لوگو! آج کے دن اللہ نے تم پر احسان کیا اور تمہارے بروں کو نیکوکے طفیل بخشا گیا اور نیک لوگوں کو ان کی طلب کے مطابق عطا فرمایا تمہارے گناہوں کو بخش دیااور جو کچھ ایذارسانی کی اسے بھی معاف فرمادیااور ان کے لئے ثواب کا ضامن ہوں اللہ کے نام سے چل پڑو۔ایک اعرابی اٹھااور اس نے آپ کی اوٹنی کی مہار پکڑلی عرض کیا یا رسول اللہ اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجامیں نے دنیا میں ہر برا عمل کیا میں نے جھوٹی قسمیں بھی کھائیں تو کیا میں بھی ان لوگوں میں شامل ہو ں جن کی صفتیں آپ نے بیان فرمائیں؟آپ نے فرمایا کہ اے اعرابی !اگر تو ازسر نو نیک کام شروع کردے توتیرے گذشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے مہار چھوڑدے۔(غنیتہ الطالبین) ۔

اور تیسرافرض طواف زیارت ہے۔اور طواف زیارت خانہ کعبہ کے چاروں طرف (گھومنے )کا نام ہے ۔کعبہ کی تعمیر کی تاریخ اور تفصیل اس طرح ملتی ہے علامہ قسطلانی کے حوالے سے شیخ سلیمان جمل لکھتے ہیں کعبہ کی دس بار تعمیر کی گئی ۔پہلی بار کعبہ کو ملائکہ نے بنایا روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آسمان میں ایک بیت (گھر)بنائیں اور ہر زمین میں ایک بیت بنائیں اور کہا گیا ہے کہ چودہ بیت ہیں اور یہ بھی روایت ملتی ہے کہ جب ملائکہ نے کعبہ کی بنیاد رکھی تو زمین کو اس کی منتہا تک پھاڑااور اس کی بنیاد میں اونٹ جیسے بڑے بڑے پتھر ڈالے اور انہیں بنیادوں پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام نے بناء کی تھی ۔دوسری بار حضر ت آدم علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کی روایت میں آتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے کہا گیا کہ آپ پہلے انسان ہیں اور یہ انسانوں کیلئے پہلا گھر خدا کا بنایا گیا ۔تیسری بار حضرت آدم کے بیٹے شیث علیہ السلام نے مٹی اور پتھروں سے کعبہ کی تعمیر کی ،اور یہ تعمیر حضرت نوح علیہ السلام تک قائم رہی اورطوفان نوح میں یہ کعبہ بھی غرق ہوگیا ۔چوتھی بار اس کو حضرت ابراہیم نے بنایا کہ جن کو اللہ کی طرف سے جبریل علیہ السلام نے کعبہ کی تعمیر کا حکم پہنچایا تھا اسی لئے کہا جاتا ہے کہ دنیا میں خانہ کعبہ کی عمارت سے افضل کوئی عمارت نہیں کیونکہ بنانے کا حکم دینے والا اللہ ہے حکم لانے والے اور انجینئر حضرت جبریل ہیں تعمیر کرنے والے حضرت ابراہیم ہیں اور مددگار حضرت اسماعیل ہیں ۔پانچویں بار کعبہ کو عمالقہ نے بنایا ۔چھٹی بار قبیلہ جرہم نے اور ان میں بنانے والا حارث بن مضاض اصغر تھا ۔ساتویں بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے (جد)قصیٰ نے بنایا۔

آٹھویں بار کعبہ کو قریش نے بنایا اسی تعمیرمیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے اُس وقت آپ کی عمر پینتیس سال تھی ۔نویں بار اس کو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے چونسٹھ ہجری کے اوئل میں بنایا جب یزید بن معاویہ کی فوجوں نے حضرت ابن زبیر سے جنگ کیلئے مکہ پر حملہ کیا اور منجنیق کے پتھر کعبہ پر لگے تو حضرت ابن الزبیر نے استخارے اور صحابہ کے مشورے کے بعد کعبہ کو منہدم کردیا اور ازسرنو ابراہیمی تعمیر کے مطابق کعبہ کی تعمیر کی ،قریش نے تعمیر کے وقت حطیم کا جو حصہ کعبہ سے خارج کردیا تھا حضرت ابن الزبیر نے اس کو پھر داخل کر دیا اور اس کے دو دروازے بنائے جو زمین سے ملے ہوئے تھے حضرت ابن زبیر نے نصف جمادی الاولیٰ میں پہلی تعمیر کو منہدم کر دیا ۔

اور پینسٹھ ہجری میں اس کو دوبارہ تعمیر کیاگیا ،تعمیر مکمل ہونے پر ایک سو اونٹ ذبح کئے اور کعبہ پر غلاف چڑہائے ۔دسویں بار (عبد الملک بن مروان کے حکم سے )کعبہ کو حجاج بن یوسف نے بنایا ،اور حجاج نے ابن زبیر کی پہلی بناء کو توڑ دیا اور دوبارہ قریش کی بناء پر تعمیر کیا اور آج تک کعبہ اسی بناء پر قائم ہے 73ھ میں یہ تعمیر کی گئی ۔

مندرجہ بالا ان تینو ں فرائض کو مقررہ مقامات اور مقررہ اوقات میں ادا کرنالازمی ہے ۔اگر ان میں سے کوئی ایک فرض بھی چھوٹ گیاتو حج ادا نہیں ہو سکتا۔حضرت علی کرم اللہ وجہ سے مروی ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہا تھا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں یہ بیت اللہ شریف کیا ہے؟آپ نے فرمایا کہ اے علی !اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو دنیا میں میری امت کے گناہوں کا کفارہ بنایا ہے میں نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ حجر اسود کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ جنتی جو ہر ہے اللہ رب العزت نے اسے دنیا میں اتارا توسورج کی طرح اس کی بھی شعاعیں تھیں جب سے مشرکین نے اسے ہاتھ لگایا اس کی سیاہی زیادہ ہو گئی اور اس کا رنگ بدل گیا۔(غنیتہ الطالبین)۔

حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے آپ نے فرما یا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا بیت اللہ شریف پر دن رات میں ایک سو بیس رحمتیں نازل ہو تی ہیں ان میں سے ساٹھ طواف کرنے والوں کے لیے ہیں ،چالیس اس کے ارد گرد اعتکاف کرنے والوں کے لیےہیں اور بیس رحمتیں اس کی زیارت کرنے والوں کے لیے ہیں۔(غنیتہ الطالبین)۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی ایام میں ان کے ہمراہ حج کیا آپ مسجد میں داخل ہوئے یہاں تک کہ حجراسود کے پاس ٹھر گئے آپنے فرمایا تو پتھر ہے نہ نقصان دے سکتا ہے نہ نفع اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوتجھ کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو مین تجھے بوسہ نہ دیتا۔(غنیتہ الطالبین)۔

حجراسود کو بوسا دینا بھی پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔حج کے واجبات کی تفصیل :۔(۱)مزدلفہ میں ٹھرناواجب ہے۔وقوف مزدلفہ کا مطلب ہے کہ نوذی الحجہ کے بعد آنے والی رات مزدلفہ میں گزارکرنماز فجر مزدلفہ میں ادا کرکے کچھ دیر قبلہ کی طرف منھ کرکے اللہ سے دعائیں کرنا۔اور اس مقدس مقام مزدلفہ میں اللہ کا ذکر کثرت سے کریں ،تلبیہ پڑھیں ،تلاوت قرآن کریں ،توبہ استغفار کریں اور دعائیں مانگیں کیونکہ یہ بہت مبارک رات ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’جب تم عرفات سے واپس ہوکر مزدلفہ آئو تو یہاں مشعر حرام کے پاس اللہ کے ذکر میں مشغول رہو‘‘۔(قرآن)۔

صبح سویرے فجر کی سنت و فرض ادا کریںاور نماز کے بعد قبلہ رخ ہوکر دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں دراز کر کے اپنے گناہوں پر نادم و شرمندہ ہو کراپنے رب سے روروکر دعائیں مانگیں یہی مزدلفہ کا وقوف ہے کہ جو واجب ہے ۔

(۲)جمرات کو کنکریاں مارناحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے نقل ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ذبح کا حکم دیا گیا تو شیطان سعی کے وقت حاضر ہوا اور حضرت ابراہیم سے آگے بڑھا پس حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سے آگے بڑھ گئے ۔پھر حضرت جبریل علیہ السلام آپ کو جمرتہ العقبہ کی طرف لے گئے تو شیطان وہا ں بھی حاضر ہوا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو سات کنکریاں ماریں پس وہ چلا گیا پھر جمرتہ الوسطیٰ کے پاس ظاہر ہوا ۔ توآپ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریںتو پھر وہ چلا گیا ۔اس کے بعد پھر وہ جمرتہ الاخریٰ کے پاس ظاہر ہوا تو آپ نے پھر سات کنکریاں اس کو ماریں وہ بھاگ گیا۔شطان اللہ کا دشمن ہے اس کو دفع کرنے کیلئے تدبیر در اصل اللہ کی محبت و عظمت کا تقاضہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہماالسلام کی یہ ادا اس قدرپسند آئی کہ اس کو حاجیوں کیلئے مشروع(واجب)کر دیا۔اور ان حضرات کا یہ عمل قیامت تک کیلئے زندئہ جاوید بنادیا گیا۔

(۳)حج قران یا حج تمتع کی نیت کی ہو تو (دم شکر)قربانی کرنا۔

(۴)سر کے بال منڈوانا یا کترواناحضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرما ،صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ !اور بال کٹوانے والوں پر ؟آپ نے پھر یہی ارشاد فرمایا اے اللہ سر منڈوانے والوں پر رحم فرماصحابہ کرام نے پھر عرض کیا یا رسول اللہ!اور بال کٹوانے والوں پر؟آپ نے فرمایا بال کٹوانے والوں پر( بھی رحم فرما)(حدیث)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آقا علیہ السلام نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما،لوگوں نے عرض کیا بال کتر وانے والوں کی آپ نے پھر یہی ارشاد فرمایا اے اللہ ! سر منڈوانے والوں کی مغفرت فرما ۔لوگ پھر عرض گزار ہوئے اور بال ترشوانے والوں کی یہ تین مرتبہ کہا،اور پھر فرمایا بال ترشوانے والوں کی بھی (مغفرت فرما)۔(حدیث)۔

(حج وعمرہ کا ہر عمل اللہ کے محبوب بندوں کی ادائوں کی یاد ہے شیطان کو کنکریاں مارنا ،حجر اسود کو بوسہ دینا ،کہیں اکڑ کے چلنا اور کہیں رک جانا ،صفامروہ کے درمیان دوڑنا،کبھی کنگھی کرنے کی ممانعت،کبھی بال منڈوانے کی اجازت ،اور کہیں مچھر ومکھی کومارنے کی بھی ممانعت ،اور کہیں جانوروں کی قربانی کی اجازت یہ تمام اعمال اللہ کے محبوب بندوں کی ادائوں کی یاد ہیں اور اللہ رب العزت نے ان کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے )اسی طرحلق کروانا سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور اس عمل کوعبادت کا مقام حاصل ہے ۔ (۵)صفا مرواکے درمیان سعی کرناقرآن عظیم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے صفااور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں ۔حج وعمرہ کر نے والوں پر انکا طواف کرلینے میں کو ئی گناہ نہیں ہے کہ ان دونوں کے درمیان چکر لگائے۔اور جو شخص اپنی خوشی سے کو ئی نیکی کرے تو یقینا اللہ بڑا قدر شناش (بڑا)خبردار ہے۔(قرآن) یہاں ہر حاجی کو سعی کرنا چاہئے کیونکہ حضرت ہاجرہ علیہ السلام کی یاد گار ہے ۔حدیث مبارک میں آتا ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور اپنے چھوٹے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو یہاں چھوڑ کر چلے گئے تھے بے بسی ڈر وخوف اور اضطراب کے ساتھ ان پاک پہاڑوں کے درمیان اپنا دامن پھیلائے (حضرت ہاجرہ)خدا سے بھیک مانگتی پھر رہی تھیں ۔

یہاں تک کہ آپکا غم ،تکالیف دور ہوئیں ۔اور ایک روایت میں آتا ہے کہ صفا مروہ کے درمیان سعی کرنا ستر غلام آزاد کرنے کے مثل ہے۔(۶)میقات سے باہر رہنے والوں کو طواف وداع کرنا۔(اگر ان واجبات میں سے کوئی ایک واجب بھی چھوٹ گیا تو اس کی ادائیگی کیلئے دم دینا لازمی ہوگا)ایام حج اور ارکان حج کی ادائیگی ـ:۔آٹھ ذی الحجہ سے بارہ ذی الحجہ تک پانچ ایام ،ایام حج کہلاتے ہیں انہی ایام میں جملہ مناسک حج ادا کرنے ہوتے ہیں جن کی تفصیل اس طرح ہے۔

(۱)آٹھ ذی الحجہ کو حجاج کرام مکہ مکرمہ میں نماز فجر اداکرکے سورج نکلتے ہی منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں سفر میں تلبیہ کی کثرت کی جاتی ہے ۔منیٰ پہنچ کرظہر،عصر ،مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھنے کے بعد رات میں یہیں قیام کرتے ہیں اور نو ذی الحجہ کی نماز فجر بھی منیٰ میں ادا کرتے ہیں ۔

(۲)نو ذی الحجہ کو نماز فجر ادا کرنے کے بعد سورج نکلنے پر عرفات کی طرف روانگی ہوتی ہے اور عرفات میں ظہر وعصر کی نمازیں،ظہر کے وقت ملاکر پڑھی جاتی ہیں ۔میدان عرفات میں اسی قیام کو وقوف عرفات کہتے ہیں جو حج کا سب سے اہم رکن ہے ۔اگر کسی وجہ سے نوذی الحجہ کے دن یا اس رات بھی کوئی یہاں پہنچ نے سے رہ گیا تو اس کا حج ادا نہیں ہوگا اور نہ اس کی تلافی کی کوئی گنجائش ہے ۔

اسی دن غروب آفتاب کے وقت عازمین حج مغرب کی نماز پڑھے بغیر مزدلفہ روانہ ہو جا تے ہیں اور مزدلفہ میں نماز عشا کے وقت میں مغرب وعشاء کی نمازیں جمع کرکے پڑھی جاتی ہیں رات میں مزدلفہ میں ہی قیام ہوتا ہے ۔

(۳)ٖفجر کی نماز کے بعد مزدلفہ میں توقف کرنا (ٹھرنا)واجب ہے۔اس کے بعد عازمین حج منیٰ کو روانہ ہو جاتے ہیں اور منیٰ پہنچ کر عازمین حج کو تین واجبات ترتیب سے ادا کرنے ہوتے ہیں ۔

(۱)بڑے شیطان کوکنکریاں مارنا

(۲)رمی سے فارغ ہونے کے بعد قربانی کرنا۔

(۳)قربانی کے بعد سر منڈوانایا کتروانا۔اس کے بعد احرام کھول کر عام لباس پہن لیاجاتا ہے اور حجاج سے تمام پابندیاں (سوائے مباشرت کے)ختم ہوجاتی ہیں ۔

(۴)حجاج احرام کھولنے کے بعد مکہ مکرمہ میں چوتھا رکن طواف زیارت ادا کرتے ہیں یہ حج کے فرائض میں شامل ہے اور بارہ ذی الحجہ کا آفتاب غروب ہونے تک جائز ہے اس کے بعد دم دینا واجب ہوگاطواف زیارت کے بعد صفا مروہ کی سعی کرنا لازمی ہے۔

(۵)طواف زیارت وسعی کے بعد دورات اور دو دن منیٰ میں قیام کرنا سنت موکدہ ہے مکہ میں یا کسی اور جگہ رات گزارنا ممنوع ہے ۔گیارہ ،بارہ اور تیرہ ذیالحجہ کو ایام رمی کہتے ہیں ان تاریخوں میں تینوں جمروں کی رمی کی جاتی ہے ۔رمی کا وقت زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک رہتا ہے پھر مکہ کو واپسی ہوتی ہے ۔

(۶)طواف وداع یہ حج کا آخری واجب ہے جو صرف میقات سے باہر رہنے والوں پر واجب ہے کہ جب وہ مکہ مکرمہ سے رخصت ہونے لگیں تو آخری طواف کرلیںاور ساتھ ہی دو رکعت نماز مقام ابراہیم علیہ السلام بھی ادا کرلیں ۔

(۷)مکہ میں مناسک حج کی تکمیل کے بعد حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی باگاہ کی حاضری کیلئے عشاق رسول مدینہ منورہ روانہ ہو جاتے ہیں ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مدینہ کی تکلیف وشدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہونگا۔(حدیث )حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ کی حاضری حج کی قبولیت کی ضمانت بھی ہے اسی لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے حج کیا اور میری وفات کے بعدمیری قبر کی زیارت کی تو ایسا ہے کہ جیسے میری حیات میں زیارت سے مشرف ہوا۔(حدیث)۔

ایک اور روایت میں آتا ہے آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا کہ جس نے حج کیا اور میری زیارت نہ کی اس نے مجھ سے جفا کی ۔بہت سے لوگ دوست بن کر طرح طرح سے ڈراتے ہیں کہ راستے میں خطرہ ہے وہاں بیماری ہے یہ ہے وہ ہے ۔خبردار! کسی کی نہ سنواور ہر گزروضہ رسول کی حاضری سے محرومی کا داغ لے کر نہ لوٹوجان ایک دن ضرور جانی ہے اس سے بہتر اور کیا ہوگا کہ محبوب کی راہ میں جائے اور تجربہ ہے کہ جو ان کا دامن تھام لیتا ہے اسے وہ اپنے سایہ میں بآرام لے جاتے ہیں کیل کاکھٹکا بھی نہیں ہوتا۔

آب زم زم

حدیث مبارک میں آتا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ بابرکت ہے اورکھانے والے کے لیے کھانا ہے ۔اور ایک روایت میں آتا ہے کہ یہ پانی بیماری کے لیے شفا ہے۔اور جب زم زم پیو تو یہ دعا پڑھو:’’اللہ انی اسئلک علمانافعا ورزقا واسعا وعملا متقبلاوشفاء من کل دآء‘‘۔زم زم پینے کے کچھ آداب ہیں

(۱)قبلہ رخ ہوکر پیئے۔

(۲)’’بسم اللہ پڑھ کرپیئے۔

(۳)تین سانسوں میں پیئے۔

(۴)اورخوب آسودہ ہوکر پیئے۔

(۵)پینے کے بعد الحمدللہ کہے۔

(۶)دنیا وآخرت کے وسطے دعائیں مانگیے۔

(۷)ہوسکے تو اپنے سر،چہرے اور سینے پر چھڑکے

(۸)جس امید اور نیک نیتی سے اس پاک پانی کو پیا جائے گا اللہ تعالیٰ اس کی ویسی ہی برکتیں اپنے بندے کو عطا فرمائیگا۔

تکبیرات تشریق

یوم عرفہ نو ذی الحجہ ویوم الاضحی دس ذی الحجہ اور ایا م تشریق گیارہ اور تیرہ ذی الحجہ تک (۱۰،۱۱،۱۲ کو یوم النحر بھی کہتے ہیں )ان پانچ دنو میں تکبیرات تشریق کہی جا تی ہیں یہ تکبیر کہنا واجب ہے ۔

ان تکبیرات کا وقت یو م عرفہ یعنی نو ذی الحجہ کی نماز فجر سے شروع ہوتا ہے اور تیرہویں ذی الحجہ (ایام تشریق کے آخری دن )کی نماز عصر تک ہے ۔اس تکبیر کا بلند آواز (جہر) سے ایک بار کہنا واجب ہے ذکر سمجھ کر دو یا تین بار کہنا افضل ہے ۔اگر عورتیں کہیں تو آہستہ آواز میں کہیں گی۔اس تکبیر کو نماز کا سلام پھیرنے کے فوراً بعد کہنا زیادہ بہتر ہے ۔

اگر جان بوجھ کر یا بھول کر مسجد سے نکل گیایا حدث کیا تو یہ تکبیر ساقط ہو جائے گی ۔مقتدی امام کی اقتدا میں تکبیر کہیں تو بہتر ہوگا۔اور اگر امام تکبیر کہنا بھول جائے تو مقتدی فوراً کہدیںامام کا انتظار نہ کریں۔تکبیر کے الفاظ اس طرح ہیں ’’ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لاالٰہ الا اللہ واللہ اکبر،اللہ اکبر،وللہ الحمد‘‘۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ جو لوگ اس سال حج کی ادائیگی کریں گے اللہ تعالیٰ ان کے حج کو قبول فرمائے ۔اور محبوب کی امت کے ہر ہر فرد کو ان مقدس مقامات کی زیارت نصیب فرماکر روضہ رسول پرحاضر ہوکر درودوسلام پڑھنے کاموقع کو عطا فرمائے۔آمین

 مولانا محمد محفوظ قادری

9759824259

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *