واقعہ کربلا حق و باطل کا معرکہ
واقعہ کربلا حق و باطل کا معرکہ
حضرت سیدناحسین رضی اللہ عنہ کامومنانہ کردار یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ واقعہ کربلا اسلامی تاریخ کا ایک کڑوا باب ہے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان واقعات سے کسی کو بھی انکار نہیں ہوسکتا ابتدائے دنیا سے لیکر آج تک صرف دو باتیں ہی رہیں ہیں، ایک ہے حق اور دوسرا باطل اور ان کے درمیان ہر زمانے میں کشمکش چلتی آئی ہے۔
اور آگے بھی یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور ہر زمانے میں حق کے علمبردار باطل کے خلاف صف آراء ہوتے رہیں گے، کیوں کہ آخر حق کو ہی غلبہ حاصل ہونا ہے اور یہ اللہ کا فیصلہ ہے۔اسی طرح کا ایک واقعہ امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اسلامی تاریخ کی حیثیت سے ہمارے سامنے موجود ہے اس پر ہم غور کریں کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بناء پر نواسے رسول حضرت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان عزیز کو قربان کردیا
مگر باطل طاقت کے سامنے سپر نہیں ڈالا، ہر سال ماہ محرم میں لوگ شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں لیکن ان غمگسار حضرات کی اکثریت اس بات کی جانب توجہ نہیںدیتی کہ وہ کیا بات تھی
جس کی بنائی پر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے نہ صرف اپنی جان عزیز بلکہ اپنے کنبہ کے نو نہالوں کو تک کٹوانا گوارا کرلیا اس تناظرمیں اگر ہم دل کی گہرائیوں کے ساتھ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کے پیچھے ایک مقصد عظیم کار فرما تھا جو انہیں اپنی جان سے زیادہ محبوب بن گیا۔
وہ یہ کہ زمین اللہ تبارک تعالیٰ کی ملک ہے اور اس پر حکومت بھی اللہ کے احکام اور اس کے آخری رسول حضرت محمد مصطفی رحمت عالم محسن انسانیت ﷺ کے ارشادات مبارکہ اور آپ کے طریقہ کے عین مطابق قائم رہے اور اس کی باگ ڈور ایسے شخص کے ہاتھ میں ہو جو عوام، مسلمانوں کا منتخب کردہ ہو نہ کہ خود جبری طور پر حکومت کی کرسی پر قابض ہوگیا ہو۔
کچھ اس طرح کے حالات آج سے تقریباً چودہ سو پچاس برس قبل حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے سامنے آئے یعنی خلافت راشدہ کے مبارک و مسعود دور کے ختم کے ساتھ ہی اسلامی دنیا خلافت سے ملوکیت کی طرف منتقل ہورہی تھی یعنی خلافت کی خوبیاں روبہ زوال اور ملوکیت کی خراببیاں وجود پارہی تھیں، مختصر یہ کہ اسلام کی حکمرانی سے انحراف کی کیفیت پائی جانے لگی تھی۔
مثلاً پہلی سہویہ ہوئی کہ تقرر خلیفہ کے دستور میں تبدیلی، خلفاء کے طرز زندگی میں تبدیلی، بیت المال کی حیثیت میں تبدیلی، آزادی اظہار رائے کاخاتمہ،عدلیہ کی آزادی کا خاتمہ، شورائی حکومت کا خاتمہ،نسلی و قومی عصبیتوں کا ظہور وغیرہ وغیرہ ان حالات کے وقوع پذیر ہونے کے بعد جب یزید کو لوگوں پر حکمراں کی حیثیت سے مسلط کیا گیا تو ریاست اسلامی مزاج (عدل و انصاف) سے نکل کر ایک بادشاہی طرز زندگی اختیار کرنے لگی۔
یعنی جہاں پر اللہ کے حکم اور نبی کریم ﷺکی سنت کے عین مطابق عوام کی خواہشات کا پاس و لحاظ رکھا جاتا تھا اب وہاں پر بادشاہ کی پسند و نا پسند پر عمل درآمد ہونا شروع ہوگیا تھا، جہاں پر خلفاء کی غلطی پر عوام کو یہ حق حاصل تھا کہ اس کی نشاندہی کریں، لیکن اس کی جگہ کسی کو کوئی مجال نہیں کہ بادشاہ کی بڑی سے بڑی غلطی پر اْف کہہ سکے، جہاں پر بیت المال امانت سمجھا جاتا تھا اب بادشاہ اپنی ملک سمجھنے لگا۔
جہاں پر عوام کو کھلے عام اپنی رائے کو ظاہر کرنے کی آزادی تھی وہاں پر لوگوں کی زبانوں پر تالے لگادیئے جانے لگے۔ جہاں پر حکومت کے سارے کام مجلس شوری کے مشوروں سے ہوا کرتے تھے اب وہاں بادشاہ کی صوابدید پر چھوڑ دیا گیا۔ جہاں پر حکومت کے عہدے مساوی طور پر سب کو ملتے تھے اب وہاں پر بادشاہ اپنے قبیلے اور رشتہ داروں کو عہدے دینا شروع کردیئے یہ اور اس قسم کی کئی دوسری باتیں تھیں جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو سخت بے چین کرکے رکھ دی تھیں
اسی لیے حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا اور اس کو حق ماننے سے بھی انکار کردیا۔ الغرض یزید نے اپنی حکومت کو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے ذریعہ عوام میں حق ثابت کرنے کیلئے نواسہ رسول کا استحصال کرنا چاہا اسی لئے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو یزید کے ہاتھ پر بیعت کرنے کیلئے مجبور کیا گیالیکن حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے اپنی جان قربان کردی مگر اسلامی شریعت، منہج نبویؐ و خلفائے راشدہ کے طریقہ کے تحفظ کی خاطر باطل طاقت کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔
محترم قارئین !!
اب ہم تھوڑا غور کریں کہ کیا شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہمارے لئے صرف ایک واقعہ ہے یا اس میں کچھ درس بھی ہے اس کو صرف ایک واقعہ یا حادثہ سمجھ کر ہم یوں ہی سرسری گذر جائیں یا کچھ رسمیں ادا کرلیں، کچھ آنسو بہا لیں؟ یہ بات ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں جتنے بھی واقعات گذرتے ہیں یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک نصیحت ہی ہوتے ہیں یعنی ان واقعات سے انسان کو اپنی راہ متعین کرنے حق و باطل کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اسے تجربہ حاصل ہوتا ہے اسی لیے اللہ رب العالمین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ اپنے کلام میں پچھلی قوموں کے واقعات بیان کرتا ہے یعنی باغی قوموں کا ذکر کرتا ہے اور ان کے انجام کو ظاہر کرتا ہے اور فرمانبردار گروہ کا تذکرہ کرتا ہے اور ان کے بہترین انجام کو واضح کرتا ہے۔
یہ سب اس لیے کہ موجودہ اور آنے والی نسلوں کیلئے درس عبرت بن جائے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جو لوگ گذرے ہوئے واقعات پر نظر رکھتے ہیں جنہیں مستقبل سنوارنے کی فکر رہتی ہے اور ایسے ہی لوگ قرآن کی نظر میں ہوش مند لوگ ہیں۔اس طرح مومن کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ ماضی کے تجربات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حال پر غور کرتا ہے یعنی حالات حاضرہ کا گہرائی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے تا کہ مستقبل خوش گوار بن سکے
فلاح آخرت و رضائے الٰہی کا مستحق بن سکے۔تو لیجئے قارئین! اب ہم اپنے مستقبل کی فکر کرتے ہوئے حالات حاضرہ پر غور کریںاوریہ دیکھیں کہ واقعہ کربلا میں یا شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے ہمیں کیا درس ملتا ہے ؟ مضمون کے ابتداء میں ہی عرض کیا جاچکا کہ دنیا میں شروع ہی سے دو طرح کے گروہ پائے جاتے رہے ہیں، ایک وہ ہے جس کی اساس حق پر قائم ہے
ایک گروہ وہ ہے جس کی بنا باطل پر کھڑی ہے۔ اول الذکر گروہ کی پشت پناہی اللہ تعالیٰ کرتے رہے ہیں۔ اس طرح اللہ کی جماعت اور شیطان ملعون کے ٹولوں کے درمیان ہمیشہ سے ہی معرکہ آرائی ہوتی رہی اور ہمیشہ جیت حق کی ہوئی اور باطل ہر وقت ناکام رہا۔ الغرض ہر وقت حق کو دبانے اور اس کو مٹانے کے لیے بدی کی طاقتیں اٹھ کھڑی ہوتی ہیں
جس کا مشاہدہ ہر با شعور آنکھ کررہی ہے یعنی ہر جگہ فرعونی اور طاغوتی قوتیں اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کیلئے کمر بستہ ہیں۔ خود اپنے ملک کے حالات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ملت اسلامیہ کے ساتھ کیا کچھ ہورہا ہے۔ اب حالات اتنا کچھ نازک موڑ احتیار کرجارہے ہیں کہ ملت اسلامیہ کا مذہبی تشخص خطرے میںپڑ چکا ہے۔
مسلمانوں کو عملی ارتداد میں مبتلا کرنے کی تیاریاں شروع کی جارہی ہیں۔ یہ بھی حقیق ہے کہ اہل ایمان کی پوری زندگی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے جڑی ہوئی ہوتی ہے اور اس سلسلہ میں کئی آزمائشوں اور قربانیوں سے گذرنا پڑتا ہے۔ اس آزمائشوں میں پورا اترنے میں سب سے پہلے خود اپنا نفس آڑے آتا ہے۔ جب ایک مومن اس نفس شریر پر قابو پالیتا ہے تو پھر باہر کے شیطانوں سے مقابلہ کرنے کا عزم و حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
آج دنیا میں ہر طرف نمرودی افکار فرعونی نظریات، اور یزیدی اعمال ہورہے ہیں ظلم وبربریت کا ماحول گرم ہے۔
خدا کے ساتھ بغاوت صبح و شام ہورہی ہے۔ایسے حالات میں اہل ایمان کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی اور آپ کے عمل سے درس حاصل کریںاور دنیا کے سامنے مومنانہ کردار پیش کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں راست رو خلافت یعنی خلافت راشدہ کے دور کے ختم ہونے کے تھوڑے عرصہ بعد سے ہی ان کی اجتماعی زندگی میں بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا جسے آج تک پر نہیں کیا جاسکا۔
یہی وجہ ہے کہ ظہور اسلام سے لے کر خلفائے راشدین کے زمانے تک اسلام جس طرح عروج پارہا تھا ملوکیت کے آغاز کے ساتھ اس کی رفتار سست پڑ گئی اور عام طور پر مسلمانوں کے اندر اس بات کا احساس ختم ہوتا چلا گیا کہ یہ خیر امت بناکر اٹھائے گئے ہیں اور یہ لوگ اس بات کو بھی بھول چکے تھے کہ غلبہ دین کے لیے ان کو جدوجہد کرنا ہے اور اقامت دین کیلئے راہیں ہموار کرنا ہے۔
چوں کہ جب بڑے بگڑتے ہیں تو اس کا اثر چھوٹوں پر بھی پڑتا ہے۔ اس لحاظ سے جب سربراہ ملک اپنے فرائض منصبی جن میں امر بالمعروف اور نہی المنکر بھی شامل ہے اس سے غفلت برتیں تو ان حالات میں اندازہ لگایئے کہ عوام الناس کی دینی و اخلاقی حالت کیا ہوکر رہ گئی ہوگی۔
’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تعطل‘‘ کے عنوان سے حضرت مولانا مودودیؒ نور اللہ مرقدہ نے یوں تحریر فرمایا ہے کہ اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو دبانا اور مٹانا تھا جو خدا کو نا پسند ہیں۔ مگر انسانی بادشاہت کا راستہ اختیار کرنے کے بعد حکومت کا مقصد فتح ممالک اور تسخیر علائق اور تحصیل باج و خراج اور عیش دنیا کے سواء کچھ نہ رہا۔
خدا کا نام بلند کرنے کی خدمت بادشاہوں نے کم ہی انجام دی۔ ان کے ہاتھوں اور ان کے امراء اور احکام اور درباریوں کے ہاتھوں بھلائیاں کم اور برائیاں زیادہ پھیلیں۔بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعت دین اور علوم اسلام کی تحقیق و تدوین کیلئے جن اللہ کے بندوں نے کام کیا انہیں حکومتوں سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے۔
اور اپنا کام وہ ان کی مزاحمتوں کے علی الرغم ہی کرتے رہے۔ ان کی کوششوں کے برعکس حکومتوں اور ان کے حکام وہ متوسلین کی زندگیوں اور پالیسیوں کے اثرات مسلم معاشرے کو پیہم اخلاقی زوال ہی کی طرف لے جاتے رہے۔
حد یہ کہ ان لوگوں نے اپنے مفاد کی خاطر اسلام کی اشاعت میں رکاوٹیں ڈالنے سے دریغ نہ کیا جس کی بدترین مثال بنوامیہ کی حکومت میں نو مسلموں پر جزیہ لگانے کی صورت میں ظاہر ہوئی۔اسلامی ریاست کی روح، تقویٰ اور خدا ترسی اور پرہیز گاری کی روح تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا حکومت کے عمال اور قاضی اور سربراہ سپہ سالار سب اس روح سے سرشار ہوتے تھے اور پھراسی روح سے وہ پورے معاشرے کو سرشار کرتے تھے
لیکن بادشاہی کی راہ پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسری کے سے رنگ ڈھنگ اور ٹھاٹھ باٹھ اختیارکرلیے، عدل کی جگہ ظلم وجور کا غلبہ ہوتا چلا گیا پر ہیزگاری کی جگہ فسق و فجور اور راگ رنگ اور عیش و عشرت کا دور دورہ شروع ہوگیا، حرام و حلال کی تمیز سے حکمرانوں کی سیرت و کردار خالی ہوتی چلی گئی سیاست کار شتہ اخلاق سے ٹوٹتا چلا گیا، خدا سے خود ڈرنے کے بجائے حاکم لوگ بندگان خدا کو اپنے آپ سے ڈرانے لگے اور لوگوں کے ایمان و ضمیر بیدار کرنے کی بجائے ان کو اپنی بخششوں کے لالچ سے خریدنے لگے۔
( حوالہ ترجمان القرآن جولائی1960)