سعودی عرب میں ہالووین تیوہار کا جشن
سعودی عرب میں ”ہالووین“ تیوہار کا جشن
محمد صابر حسین ندوی
ان دنوں سعودی عرب سے کچھ خاص تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں، جن میں عرب بدو شیاطین کے چہرے بنا کر گھوم رہے ہیں، خواتین نے چڑیل کی صورت اختیار کر لی ہے، یہ دراصل سعودی اپنے حقیقی کعبہ واشنگٹن کی پیروی کر رہے ہیں، یہ ایک خاص تہوار ہے جس کو ہالووین (Halloween) کہا جاتا ہے، جسے امریکا میں منایا جاتا ہے
جس میں گلی کوچوں، بازاروں، سیرگاہوں اور دیگر مقامات پر جابجا ڈراؤنے چہروں اور خوف ناک لبادوں میں ملبوس چھوٹے بڑے بھوت اور چڑیلیں چلتی پھرتی دکھائی دیتی ہیں، اکثر گھروں کے باہر بڑے بڑے کدو پِیٹھے نظر آتے ہیں جن پر ہبت ناک شکلیں تراشی گئی ہوتی ہیں اور ان کے اندر موم بتیاں جل رہی ہوتی ہیں۔ کئی گھروں کے باہر ڈراونے ڈھانچے کھڑے دکھائی دیتے ہیں اور ان کے قریب سے گزریں تو وہ ایک خوف ناک قہقہہ لگا کر دل دہلا دیتے ہیں، اس کی تاریخ کیا ہے؟
اور اسے کیوں منایا جاتا ہے؟ دائرہ معارف نے اسے بڑے سادے الفاظ میں سمجھایا ہے؛ کہ تاریخ دانوں کا کہنا ہے ہالووین کا سراغ قبل از مسیح دور میں برطانیہ کے علاقے آئرلینڈ اور شمالی فرانس میں ملتا ہے، جہاں سیلٹک قبائل ہر سال ٣١؍اکتوبر کو یہ تہوار مناتے تھے، ان کے رواج کے مطابق نئے سال کا آغاز یکم نومبر سے ہوتا تھا۔
موسمی حالات کے باعث ان علاقوں میں فصلوں کی کٹائی اکتوبر کے آخر میں ختم ہوجاتی تھی اور نومبر سے سرد اور تاریک دنوں کا آغاز ہو جاتا تھا، سردیوں کو قبائل موت کے ایام سے بھی منسوب کرتے تھے؛ کیوں کہ اکثر اموات اسی موسم میں ہوتی تھیں، قبائل کا عقیدہ تھا کہ نئے سال کے شروع ہونے سے پہلے کی رات یعنی ٣١؍اکتوبر کی رات کو زندہ انسانوں اور مرنے والوں کی روحوں کے درمیان موجود سرحد نرم ہوجاتی ہے اور روحیں دنیا میں آکر انسانوں، مال، مویشیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ روحوں کو خوش کرنے کے لیے مخصوص قبائل ٣١؍ اکتوبر کی رات آگ کے بڑے بڑے الاؤ روشن کرتے تھے، اناج بانٹتے تھے اور مویشیوں کی قربانی دیتے تھے، اس موقع پر وہ جانوروں کی کھالیں پہنتے اور اپنے سروں کو جانوروں کے سینگوں سے سجاتے تھے۔
جب آٹھویں صدی میں ان علاقوں میں مسیحیت کا غلبہ ہوا تو اس قدیم تہوار کو ختم کرنے کے لیے پوپ بونی فیس چہارم نے یکم نومبر کو ’تمام برگزیدہ شخصیات کا دن‘ قرار دیا۔ یہ دن اس دور میں ’آل ہالوز ایوز‘ کہلاتا تھا جو بعد ازاں بگڑ کر ہالووین بن گیا۔ کلیسا کی کوششوں کے باوجود ہالووین کی اہمیت کم نہ ہو سکی اور لوگ یہ تہوار اپنے اپنے انداز میں مناتے رہے۔ تو وہیں امریکا دریافت ہونے کے بعد بڑی تعداد میں یورپی باشندے یہاں آکر آباد ہوئے، وہ اپنے ساتھ اپنی ثقافت اور رسم و رواج اور تہوار بھی لے کر آئے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع میں ہالووین میری لینڈ اور جنوبی آبادیوں میں یورپی تارکین وطن مقامی طور پر چھوٹے پیمانے پر منایا کرتے تھے۔
انیسویں صدی میں بڑے پیمانے پر یورپ سے لوگ امریکا آکر آباد ہوئے جن میں ایک بڑی تعداد آئرش باشندوں کی بھی تھی، ان کی آمد سے اس تہوار کو بڑا فروغ اور شہرت ملی اور اس میں کئی نئی چیزیں بھی شامل ہوئیں جن میں، ٹرک آر ٹریٹ، خاص طور پر قابل ذکر ہے، جو آج اس تہوار کا سب سے اہم جزو ہے۔ انیسویں صدی کے آخر تک امریکا میں ہالووین پارٹیاں عام ہونے لگیں جن میں بچے اور بڑے شریک ہوتے تھے، ان پارٹیوں میں کھیل کود اور کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ڈراؤنے کاسٹیوم پہنے جاتے تھے۔
اس دور کے اخباروں میں اس طرح کے اشتہار شائع ہوتے تھے جن میں ایسے بہروپ دھارنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی جنہیں دیکھ کر لوگ دہل جائیں۔ اسی طرح ١٩٥٠ء کے لگ بھگ ہالووین کی حیثیت مذہی تہوار کی بجائے ایک ثقافتی تہوار کی بن گئی جس میں دنیا کے دوسرے حصوں سے آنے والے تارکینِ وطن بھی اپنے اپنے انداز میں حصہ لینے لگے، رفتہ رفتہ کاروباری شعبے نے بھی ہالووین سے اپنا حصہ وصول کرنے کے لیے نت نئے کاسٹیوم اور دوسری چیزیں مارکیٹ میں لانا اور ان کی سائنسی بنیادوں پر مارکیٹنگ شروع کردی؛ یہاں تک کہ اب ہالووین اربوں ڈالر کے کاروبار کا ایک بہت بڑا ثقافتی تہوار بن چکا ہے۔ (دیکھیے: دائرہ معارف ہالووین)
یہی وہ عالمی ثقافت ہے جو شیطانی کاز میں لگی ہوئی ہے، دجالی طاقتوں کا شیوہ ہے، وہ دنیا میں روشنی کی بجائے اندھیرا، تاریکی اور شیطانیت پر ایمان لانا چاہتے ہیں، وہ اس شیطان کو اپنا سب کچھ تسلیم کرنا چاہتے ہیں جو انسانوں کا کھلا ہوا دشمن ہے، یورپ، امریکا دین بیزار ہوچکے ہیں، وہاں مذہبیت دم توڑ چکی ہے، انسان جانور بننا چاہتا ہے
مگر یہ عرب کس گمان میں ہیں، جہاں اسلام اترا، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان میں مبعوث ہوئے، جہاں سے صفائی ستھرائی، انسانیت، رواداری و ہمدردی کی تعلیمات عام ہوئیں، اجالے کی طرف بڑھنے، صراط مستقیم کو اپنانے اور شیطانی چالوں سے نکل ایک رب کی پناہ میں آنے کی دعوت پھیلی، وہ نادان واشنگٹن کی محبت میں اتنے مگن ہوچکے ہیں کہ اپنے دین و مذہب کا کوئی پاس نہیں، انہوں نے پوری طرح امریکہ کے سامنے اپنے آپ کو پیش کردیا ہے، گویا وہ سر بسجود ہوچکے ہیں
انہیں اپنا معبود و مالک جان چکے ہیں، وہاں سے آنے والی ہر تہذیب و ثقافت کو سر آنکھوں پر رکھتے ہیں، خواہ وہ اسلام دشمنی میں ہو، اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت میں ہو، اس سے بڑھ کر یہ کہ انہیں اسلامی تحریکات، علماء و دعاۃ پسند نہیں، انہیں جیلوں میں ڈھونس دینے کو اپنی ہنرمندی اور تجدیدی کام سمجھتے ہیں؛ لیکن وہیں عوام میں شیطانی فکر، مغرب کی محبت اور اوباشی پنپ رہی ہے، انہیں ان کا کوئی لحاظ نہیں ہے، وہ بھول رہے ہیں کہ ایک دن قیامت آنے کو ہے، اگر وہ اسلام اور حقیقی مسلمانوں کی صف میں کھڑا ہونا نہیں چاہتے، اگر انہیں شیطان و دجال کی صورت و ہئیت پسند ہے تو عنقریب ان کا حشر انہیں کے ساتھ ہوگا، انہیں بدترین لوگوں میں شامل کردیا جائے، وہ رسوا ہوں گے اور دنیا و آخرت میں ان کیلئے کوئی ٹھکانا نہ ہوگا۔
Mshusainnadwi@gmail.com
7987972043