علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر تعارف

Spread the love

علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کا مختصر تعارف

از : عمران رضا مدنی بنارسی

جن کے نام سے عشق و محبت کی خوشی آتی ہے۔ جب ان کا ذکر ہو تو بلا اختیار لب پر یہ بات آتی ہے کہ یہ تو وہ شخص ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی ناموس رسالت کی حفاظت کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ جن کی ہر تقریر سے لوگوں کے دل عشق ومحبت سے سرشار ہوتے تھے۔ جن کو دیکھنے سے نبی اکرم ﷺ کی یاد آتی تھی۔ جن کے بیانات نے ہزاروں کو جذبۂ ایمانی عطا کردیا۔ جن کی زندگی کا مقصد ہی بس یہ تھا کہ

انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام

لِلّٰہِ الْحَمْد میں دُنیا سے مسلمان گیا

میری مراد امیر المجاھدین علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ۔

آپ کا مختصر تعارف ذیل میں ملاحظہ فرمائیں !

نام و تاریخ ولادت :

علامہ خادم حسین رضوی صاحب ضلع اٹک کے ایک گاوں نگا کلاں میں ایک زمیندار گھرانے میں 22نومبر 1966 کو پیدا ہوئے ، آپ کے والد کا نام لعل خان ہے

آپ کے ایک بھائی جس کا نام امیر حسین ہے اور چار بہنیں ہیں ، آپ کے والد کا انتقال 2008 میں ہوا اور والدہ کا 2010میں انتقال ہوا ۔

حصول علم :

خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں نکا کلاں کے اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے اس وقت ان کی عمر بمشکل آٹھ سال ہی تھی اور یہ 1974 کی بات ہے۔ جب خادم حسین رحمۃ اللہ علیہ اکیلے جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ کا عمل چل رہا تھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جنھوں نے انہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔ یہ مدرسہ قاضی غلام محمود کا تھا جو پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کے مرید خاص تھے۔

وہ خود خطیب و امام تھے، اس لیے مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لیے استاد قاری غلام یسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔ علامہ خادم حسین رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر 1 کے دار العلوم میں حفظ کیے۔ اس کی وجہ کچھ یوں بنی کہ مدرسہ میں موجود نگا کلاں کے ایک طالب علم گل محمد نے کسی بات پر باورچی کو مارا تھا اور باورچی کو اچھی خاصی چوٹیں آئیں۔

اس وجہ سے گل محمد کو مدرسہ سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے نگا کلاں کے استاد حافظ غلام محمد نے اپنے لائے تمام طلبہ جن کی تعداد اکیس تھی نکال کر مشین محلہ نمبر 1 پر واقع دار العلوم میں داخلہ دلا دیا، جن میں خادم حسین رحمۃ اللہ علیہ بھی شامل تھے۔ آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔

جب آپ کی عمر بارہ برس ہوئی تو دینیہ ضلع گجرات چلے گئے اور وہاں دو سال قرأت کی تعلیم حاصل کی۔ قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1980ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔

وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔

آپ کے مشہور اساتذہ :

1۔مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی:(ترمذی شریف)

2۔مفتی محمد عبداللطیف نقش بندی:(مسلم شریف،ابو دائود شریف)

3۔علامہ محمد رشید نقش بندی:(کنزالدقائق،قصیدہ بردہ شریف)

4۔علامہ عبدالحکیم شرف قادری:(بخاری شریف)

5۔علامہ حافظ عبدالستار سعیدی

6۔علامہ محمد صدیق ہزاروی 1988ء میں دورۂ حدیث مکمل ہوا اور دستارِ فضیلت عطا کی گئی۔

رشتہ ازدواج :

آپ کی شادی اپنی چچا زاد بہن سے ہوئی اور اللہ تعالی نے 2 بیٹوں اور 4 بیٹیوں سے نوازا۔

بڑے صاحب زادے کا نام حافظ سعد حسین رضوی اور چھوٹے صاحبزادے کا نام حافظ انس حسین رضوی ہے آپ کے دونوں بیٹے حافظ قرآن ہیں۔

اقبال سے عشق کی وجہ :

آپ فرماتے ہیں کہ دوران تعلیم درسی کتب کے علاوہ جن کتب کا مطالعہ کرتا تھا ان میں ڈاکٹر اقبال کا فارسی مجموعہ کلام سر فہرست تھا ۔

1988 میں کلیات اقبال خریدی لی تھی اور نو عمری میں ہی اس قلندر شاعر کے افکار کا مطالعہ شروع کردیا ۔ آپ فرماتے ہیں کہ گویا کہ اقبال کی روح نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا ہے ، اقبال کے کلام کے بعد علامہ اقبال کے شاعری کے استاذ مولانا روم علیہ الرحمہ کو پڑھا اور انکے بیشتر کلام کو ازبر یاد کرلیا تھا ۔

درس و تدریس :

آپ علیہ الرحمہ ایک با صلاحیت استاذ بھی تھے، جب آپ نے دوسری مصروفیات کی بنا پر تدریس کردی تو علما و طلبہ بارہا آپ سے عرض کرتے رہتے کہ حضور آپ پھر سے تدریس شروع کردیں، آپ فرماتے میری جگہ کوئی سنبھال لے تو میں تدریس شروع کردوں۔

خادم حسین رضویرحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ نظامیہ رضویہ میں تدریس فرمائی۔ اس کے علاوہ فدایان ختم نبوت پاکستان اور مجلس علما نظامیہ کے مرکزی امیر رہے۔ دار العلوم انجمن نعمانیہ سمیت کئی مدارس، تنظیمات اور اداروں کے سر پرست و نگران رہے۔

ارادت و خلافت :

روحانی طور پر خادم حسین سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ محمد عبد الواحد المعروف حاجی پیر صاحب کالا دیو، جہلم سے مرید تھے۔

خلیفۂ مفتی اعظم ہند علامہ تاج الشریعہ اختر رضا خان ازہری علیہ الرحمہ نے آپ کو خلافت و اجازت سے نوازا تھا۔

شوق مطالعہ :

آپ فرماتے ہیں کہ مجھے اقبال، مولانا روم اور اعلی حضرت فاضل بریلوی کی شاعری نے بہت زیادہ متاثر کیا اور یہ حضرات عشق رسول کے وہ جام پلاتے ہیں جنھیں پینے کے بعد کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی اور اردو شعرا میں اکبر الہ آبادی کی شاعری پسند تھی۔

آپ کو مطالعہ کا جنون رہتا تھا آپ سفرنامے بہت پڑھتے تھے۔ آپ نے حکیم محمد سعید اور مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ کے تمام سفر نامے پڑھ ڈالے ، تاریخ اسلام کا مطالعہ آپ کی اولیں ترجیح تھی اور تمام مسلم سپہ سالار کی سیرت کا مطالعہ کرتے رہتے، آپ فرماتے ہیں : اسلام کے تمام سپہ سالار اپنی مثال آپ ہیں، لیکن حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ نے مجھے بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور آپ کے مزار پر حاضری دینا ایک دیرینہ خواہش تھی اور الحمد للہ پوری ہوئی۔

آزمائش کا وقت :

2009 میں پیش آنے والے ایک حادثے میں علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ معذور ہو گئے اور ویل چیئر تک محدود ہو گئے تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ مولانا خادم حسین رضوی کے بڑے بھائی امیر حسین رضوی گاﺅں میں مسجد تعمیر کروا رہے تھے تو وہ اس سلسلے میں 2009 میں اپنے گاﺅں جانے کے لیے سفر پر روانہ ہوئے ، راستے میں ایک ڈرائیور کو نیند آ گئی اور ایک موڑ سے گاڑی نیچے جا گری ، اس حادثے میں مولانا خادم حسین رضوی کے سر اور ریڑھ کی ہڈی پہ شدید چوٹیں آئیں جس کے باعث ان کے جسم کا نچلا حصہ معذور ہو گیا۔

وفات :

بالآخر امام عزیمت 19 نومبر 2020 رات 8 بجکر 46 منٹ پر ہمیشہ کے لیے داغ مفارقت دے گئے۔

تصانیف: آپ کی دو تصنیف کے بارے میں معلومات ہو سکی ہے اور دونوں ہی کتابیں علما و طلبہ کے درمیان نہایت مقبول و معروف ہیں، اپنے موضوع پر جامع اور طویل کتاب ہیں:

تیسیر ابواب الصرف

تعلیلات خادمیہ

ماخذ: (علامہ خادم حسین رضوی کا سفر زندگی)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *