نفرت مغلوں سےنہیں مسلمانوں سے ہے

Spread the love

نفرت مغلوں سےنہیں مسلمانوں سے ہے

غلام مصطفےٰ نعیمی
روشن مستقبل دہلی

یوپی حکومت نے تعلیمی سیشن 2023/2024 کے بارہویں نصاب سے مغلوں کی تاریخ ہٹانے کا سرکلر جاری کیا ہے۔اب سرکاری اسکولوں میں بارہویں کی کتابوں میں مغلوں کی تاریخ نہیں پڑھائی جائے گی۔


اس سے پہلے بھی مختلف صوبوں میں بھاجپائی حکومتیں مغل دشمنی کے نام پر کئی شہروں/محلوں/بازاروں کے اسلامی نام بدل چکی ہیں۔

کافی عرصے سے شدت پسند لابی یہ مطالبہ کر رہی تھی کہ نصابی کتابوں سے مغلوں کی تاریخ ہٹائی جائے۔یوپی حکومت کے حالیہ فیصلے سے شدت پسندوں کی دیرینہ آرزو پوری ہوگئی ہے۔

اصل نفرت مسلمانوں سے ہے

مغلوں کے نام پر مسلم دشمنی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے کئی صوبوں میں مسلمانوں کے نام پر آباد شہروں/محلوں/بازاروں اور ریلوے اسٹیشنوں کے نام بدلے جا چکے ہیں۔

یوپی میں الہ آباد اور فیض آباد جیسے قدیم اور تاریخی ناموں کو بدلا گیا۔ایم پی میں ہوشنگ آباد، اسلام نگر اور نصراللہ گنج جیسے شہروں کے نام بدلے گئے۔مہاراشٹر میں اورنگ آباد اور عثمان آباد کے نام بدل دئے گئے۔

مسلم ناموں سے نفرت کا یہ سلسلہ گاؤں کھیڑوں سے لیکر چوک چوراہوں اور بازاروں تک پہنچ گیا۔اس مہم کا نیا نشانہ کتابوں سے مغلیہ سلطنت کے اسباق کو ہٹانا ہے۔

کچھ سرکاری مسلمان بی جے پی کے ان اقدامات کی حمایت میں یہ ترک پیش کرتے ہیں کہ مغلوں کے ناموں سے بھارتی مسلمانوں کو کیا لینا دینا؟


ان ضمیر فروشوں کا ترک سن کر ان کی عقلوں پر ترس آتا ہے کاش انہیں پتا ہوتا کہ یہ اقدامات مغل دشمنی نہیں بل کہ اسلام دشمنی کی بنا پر کیے جارہے ہیں

جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ حالیہ حکم نامہ میں مغل تاریخ کے ساتھ ساتھ “اسلام کا ظہور” نامی سبق بھی نصاب سے ہٹا دیا گیا ہے جو ان کی اصل ذہنیت کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔انہیں ہر اس چیز سے چِڑھ ہے جو انہیں اسلام اور مسلمانوں کے شان دار ماضی کی یاد دلائے۔

اس لیے اب یہ لوگ تعلیمی نصاب سے اسلام اور مسلمانوں سے وابستہ اسباق ہٹانے کی مہم پر لگ گیے ہیں۔چوں کہ براہ راست اسلام اور مسلمانوں کا نام لینے سے بین الاقوامی سطح پر بدنامی اور عرب ممالک کی ناراضگی کا خدشہ ہے اس لیے مغلوں کی آڑ لی جاتی ہے تاکہ بین الاقوامی دنیا کے سامنے شرمندگی اور کاروباری نقصان نہ اٹھانا پڑے۔

مغلوں سے نفرت کیوں؟

یہ بات بھی اپنے آپ میں نہایت عجیب ہے کہ بھاجپا اور اس کی ذیلی تنظیمیں مغلوں کو بیرونی حملہ آور قرار دیتے ہیں اور اسی بنیاد پر مغلیہ دور کو دور غلامی مانتے ہیں۔

حالاں کہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سترہ مغل شہزادے راجپوت ماؤں کی کوکھ سے پیدا ہوئے۔مغل فرماں روا ظہیر الدین محمد بابر کو چھوڑ کر سبھی کی پیدائش اکھنڈ بھارت اور موجودہ بھارت میں ہوئی۔

ہمایوں اور اکبر کی پیدائش کابل اور سندھ میں ہوئی جسے آر ایس ایس اور بی جے پی اکھنڈ بھارت کا حصہ قرار دیتے ہیں۔

بادشاہ اکبر کا بیٹا جہاں گیر ایک راجپوت ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔اس طرح جہاں گیر کی رگوں میں مغل خون کے ساتھ ایک راجپوت ماں کا ہندوستانی خون بھی شامل تھا۔

سن 1587 میں جہاں گیر نے جودھ پور کے موٹا راجا کی بیٹی جگت گونسائی سے شادی رچائی۔اسی شادی کے نتیجے میں مغل شہزادے شاہ جہاں کی پیدائش ہوئی، یعنی شاہ جہاں ایسے ماں باپ کی اولاد تھا جن کی رگوں میں ہندوستانی خون تھا۔

بعد میں شاہ جہاں کے گھر میں حضرت اورنگ زیب عالمگیر کی پیدائش ہوئی اس طرح اورنگ زیب خالص ہندوستانی اولاد کے روپ میں پیدا ہوئے۔خود اورنگ زیب نے دو راجپوت خواتین سے نکاح کیا۔

اتنی تفصیلات کے بعد بھی مغل بادشاہوں پر بیرونی حملہ آور ہونے کا الزام لگانا کہاں تک درست ہے؟


اگر وہ لوگ حملہ آور تھے تو اس زمانے کی معزز اور بہادر راجپوت قوم نے آخر ان سے روٹی بیٹی کا رشتہ کس لیے قائم کیا تھا؟


آخر کیوں ایک کے بعد ایک مشہور راجپوت خاندانوں نے مغل شہزادوں کو اپنا داماد بنایا؟
اس زمانے کے معزز اور بہادر راجپوت گھرانے مغلوں کا ننھیال کیوں بنے ہوئے تھے؟


مغلوں کو بیرونی حملہ آور کہنا نہ صرف مغل سلطانوں بل کہ ہندوستان کے ان بہادر راجپوت گھرانوں کی بھی سخت توہین ہے جنہوں نے نہایت اپنائیت کے ساتھ مغلوں سے رشتہ داریوں کا تعلق قائم کیا تھا۔

ہندوستانی معاشرے سے اتنی گاڑھی اور گہری رشتہ داریوں کے باوجود مغلوں سے دشمنی رکھنا اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ شدت پسندوں کو دشمنی مغلوں سے نہیں بل کہ مسلمانوں سے ہے۔مغلوں کا نام صرف اپنی اوچھی ذہنیت کو چھپانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

کتنی عجیب بات ہے!!
بچوں کو سب سے زیادہ پیار ننھیال میں ملتا ہے۔نانا ماموں اور خالاؤں کو سب سے زیادہ پیار اپنے ناتی نواسوں اور بھانجی بھانجوں سے ہوتا ہے لیکن وقت کا عجیب پھیر ہے کہ آج مغل شہزادوں کو سب سے زیادہ برا بھلا ان کے ننھیال ہی میں کہا جاتا ہے۔حالانکہ انہوں نے جن سے رشتہ داریاں قائم کیں انہیں پوری اپنائیت سے نبھایا۔

حکومت میں بڑے بڑے عہدے اور منصب دئے۔جاگیریں اور سرداریاں دیں لیکن اس کے باوجود مسلمان ہونے کی بنا پر ان کے حصے میں نفرتیں اور گالیاں ہی آئیں۔

نفرتوں کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔انصاف پسند مؤرخ جب بھی مغل تاریخ پر کچھ لکھے گا تو اس پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکے گا۔

11 thoughts on “نفرت مغلوں سےنہیں مسلمانوں سے ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *