اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

Spread the love

اردو ہے جس کا نام، ہمیں جانتے ہیں داغ

جاوید جمال الدین

اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے مذکورہ شعررختہ کی ویب سائٹ سے لیا گیا ہے ،جس میں دنیا کے بجائے ہندوستان میں دھوم کااستعمال کیا گیا ہے۔

جی ہاں واقعی ملک میں اردو کی دھوم منفی انداز میں مچی ہوئی ہے ،صرف اس ایک مثبت خبر کے ساتھ کہ شمال مشرقی خطہ میں بھی اردو زبان کے فروغ کے لیے اقدامات کیے جائیں گے،منفی باتوں کا تذکرہ آگے کروں گا

لیکن پہلے اس اہم خبر پر گفتگو کرلیتے ہیں کہ جو حال میں اردو اخبارات میں نمایاں طور پر شائع ہوئی کہ قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان نے واقعی بڑی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ملک میں اردو کی ترقی وترویج کابیڑہ اٹھایا ہے

اوریہ خوش آئندہ خبرہے کہ شمالی ،جنوبی اور مغربی ہندوستان کے بڑے بڑے اردو کے علاقوں اور خطوں کو چھوڑ کر دورافتادہ شمال۔مشرقی ریاست ناگالینڈ میں اردو زبان کے فروغ اور ترقی کے سبھی مواقع تلاش کیے جارہے ہیں۔

دراصل حال میں اردو کونسل کے چند افسران کے سہ رکنی وفد نے ڈائرکٹر پروفیسر شیخ عقیل احمد کی سر براہی میں ناگالینڈ کے چیف سکریٹری محمد جان عالم سے ملاقات کر کے خطے کی تہذیبی و ثقافتی ترقی اور اردو زبان کے فروغ کے لیے امور اور امکانات پر تبادلہ خیال کیا اور اس حوالے سے کونسل کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی پیشکش کی۔

چیف سکریٹری ناگالینڈ نے قومی اردو کونسل کے وفد کو اپنی طرف سے سنجیدہ اقدامات کی یقین دہانی کروائی۔

شیخ عقیل نے خواہش ظاہر کی ک نا گالینڈ کے کلچرل فیسٹیولز میں اردو کے اسٹالز کے ساتھ ساتھ قوالی ، غزل خوانی وغیرہ کے پروگرام کیا جای تا کہ انھیں اردو زبان کے اس خوبصورت پہلو سے آشنا کروایا جائے اور ناگازبان میں موجود کہانیوں، بچوں کی کہانیوں یا اساطیر پر مشتمل کتابوں کا اردو میں ترجمہ کروانا چاہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مقامی لوگوں میں اردو کا ذوق پیدا کیا جاۓ اور اردو زبان کی طرف نھیں راغب کیا جائے ۔

انھوں نے چیف سکریٹری سے اپیل کی کہ سرکاری اسکولوں میں پرائمری لیول پر اردو پڑھانے اور سکھانے کا انتظام کیا جاۓ ، اس سلسلے میں کونسل اپنے دائرہ اختیار کے مطابق مدد کر نے کیلئے تیار ہے ۔

اسی طرح انھوں نے سرکاری شعبے میں ایک لینگویج سیل کے قیام کی بھی اپیل کی جو اردو کے فروغ کے لیے کام کرے، انھوں نے کہاکہ ک کے ساتھ مل کر ہم مختلف ادبی و ثقافتی پروگرام کر یں گے۔ چیف سکریٹری نے ان کی باتیں دیچی سے سنیں اور یقین دہانی کروائی کہ سرکار سے بات کر کے وہ لینگویج سیل بنائیں گے اور اس کے ذریعے اردو کے فروغ کی کوشش کر یں گے ، انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں مقامی این جی اوز سے بھی مدد لے جائے گی اور سرکاری اسکولوں میں اردو پڑھانے کا بھی انتظام کیا جاۓ گا۔جان عالم نے کہا کہ ہم بھی اس خطے میں اردو کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ قومی اردو کونسل یہاں اپنی تر قیاتی اسکیمیں نافذ کرنا چاہتی ہے۔مذکورہ مثبت خبر سے میں پُر مسرت تھا کہ دو خبروں نے مُجھے دوبارہ جھنجھوڑ دیا ،اتفاق سے دونوں کا تعلق عروس البلاد ممبئی سے ہے،اس کی تفصیل میں جانے سے پہلے یہ بتادوں کہ مہاراشٹر ہندوستان کی واحد ریاست ہے ،جہاں اردو ذریعہ تعلیم سے ایل طالب علم بارہویں جماعت (ایچ ایس سی) تعلیم حاصل کرسکتا ہے،قیام مہاراشٹر کے موقع پر اس کے لیے مجاہدآزادی اور سابق ریاستی وزیر مصطفیٰ فقہہ نے کافی جدوجہد کی اور اس کا خمیازہ بھی علاقائی کانگریس لیڈرشپ نے انہی۔ دیاتھا۔خیر پہلی افسوس ناک خبر یہ ہے کہ ممبئی کے میونسپل کارپوریشن او،سرکاری اور نیم سرکاری اردو میڈیم سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اسکولوں میں طلباء کی کم ہوتی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے، بمبئی ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت اور میونسپل کارپوریشن کو پھٹکار لگائی ہے اور ہدایت دی ہے کہ وہ سرکاری اور نجی اسکولوں کے اعداد و شمار فراہم کرے۔کچھ عرصہ قبل چیف جسٹس موہت شاہ اور جسٹس ریکھا سوندربلڈوٹا کی ایک ڈویژن بنچ نے مرزا ناہید بیگ کی طرف سے اقلیتی برادریوں کوٹرینگ دینے والے اسکولوں کی بندش سے متعلق دائر مفاد عامہ کی عرضی (PIL) کی سماعت کرتے ہوئے،اعداوشمار طلب کیے ،

حالانکہ اردو میڈیم بچوں کی تعداد کم ہونے کے باوجود پسماندہ علاقے اور کھوپڑیوں کے بی ایم سی اسکولوں میں بچوں کی تعداد سوالاکھ پہنچ چکی ہے۔دراصل عرض گزار نے کہاکہ بی ایم سی نے مردم شماری کے مطابق آبادی میں اضافہ کے باوجود اسکولوں کی ضرورت کاجائزہ نہیں لیا اور اس کے مطابق اسکول نہیں کھولے گئے ہیں۔جبکہ 2011میں بی ایم سی کمشنر کے ذریعہ پیش کردہ حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ 208 اسکولوں میں 1,02,082 طلباء اور 39 پرائمری اسکولوں میں 13,407 طلباء ہیں۔ اور ان دس برس میں یہ تعداد بڑھ کر دیڑھ لاکھ سے تجاوز کرگئی ہے،اور بی ایم سی اسکولوں میں بچوں کو ٹھونس دیا جاتا ہے،اردو میڈیم طلباء نے مراٹھی اور ہندی کے طلباء کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔عدالت نے سچر کمیٹی کی رپورٹ کو دیکھنے کا مشورہ دیاتھا، جس میں ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی حالت کو اجاگر کیا گیا تھا۔ کمشنر کاکہناتھاکہ اردو طلباء کو براہ راست داخلوں کے ذریعے داخلہ دینے کی کوشش کی جا رہی ہےتب جسٹس شاہ نے پوچھا، “دیگر طلبا

کا کیا ہوتا ہے؟ وہ پرائمری اسکول کے بعد کہاں جاتے ہیں؟ کیا وہ اپنی پڑھائی چھوڑ دیتے ہیں یا وہ دوسرے میڈیم میں چلے جاتے ہیں،” بی ایم سی کے وکیل کے اس جواب سے کہ دیا کہ ہوسکتا ہے کہ وہ سرکاری اسکولوں میں داخلہ لے رہے ہوں۔ تب ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جج نے کہاتھاکہ “آپ کا خیال ہے کہ اردو میڈیم کے نئے اسکولوں کی ضرورت نہیں ہے،لیکن آپ سخت کمیٹی کی رپورٹ پر عمل کریں۔” لیکن ان چند سال میں میونسپل کارپوریشن نے کوئی ایسی پالیسی اختیار نہیں کی ہے کہ اُردو ذرائع تعلیم کے طلباء کی تعداد میں اضافہ کیا جائے یا ڈراپ آوٹ طلباء کو واپس اسکول کیاجائے ۔اس پورے معاملے میں اردو کونسل کیا کرسکتی ہے،اس پرآگے ذکر کرونگا لیکن ممبئی سے یہ غمناک خبر ملی ہے کہ گزشتہ تقریباً ایک صدی سے شائع ہورہا معروف ادبی و ثقافتی رسالہ ‘شاعر’ دم توڑ چکا ہے ،سیماب اکبر آبادی اور اعجاز صدیقی کی محنت ولگن کا روشن ستارہ ماہنامہ شاعر غروب ہوچکا ہے۔ممذکورہ رسالہ میں ہمیشہ نامور ادبا اور شعرا کی تحریریں مدیرانہ مہارت اور صوری حُسن کے ساتھ یکجا کی جاتی تھیں ،جن میں سیماب اکبرآبادی، ساغر نظامی، رفعت سروش، شمیم کرہانی، سلام مچھلی شہری، اعجاز صدیقی اور دیگر شعرا کی منظومات، ڈاکٹر ظ انصاری، ڈاکٹر گیان چند، یوسف ناظم، خموش سرحدی، اسرار اکبرآبادی، علی جواد زیدی وغیرہ کے مضامین،اور اہم شخصیات پر مضامین بھی شائع کیے جاتے تھے،1969 میں مہاتماگاندھی کی یوم پیدائش پر سو سال مکمل ہونے کے نتیجے میں صدی شمارہ میں تین ڈرامے، گاندھی جی کے معاصر اکابرین کی معلومات اور گاندھی جی کی حیات اور شخصیت نیز ان کی تحریروں پر مشتمل بہت سا اہم مواد شامل ہے۔میں نے اُردو کی زبوں حالی پیش کردی ہے،اردو کونسل کے ناگالینڈ میں اردو کے فروغ کی کوشش کا خیر مقدم کرتے ہیں ،لیکن حال میں اردو زبان کے شعبہ کو بند کرکے پنجاب یونیورسٹی نے شعبہ بیرونی زبان میں شامل کردیا تھا،اترپردیش میں دوسری سرکاری زبان ہونے کے باوجود اس کا بہت بڑا حال ہے،کچھ مہینے پہلے سرکاری اسپتالوں میں مختلف شعبوں میں اردو تختیاں لگانے کہ اہم ترین فیصلہ کو واپس لیاگیا،بہار میں اردو مترجمین کی بھرتی پر اسے پاکستانی زبان کہ ے والوں کو جواب نہیں دیا جاتا ہے کہ یہ اس ملک کی زبان ہےاور پاکستان نے تو اسے ذبردستی سرکاری درجہ دے دیا ہے۔خیر کونسل برائے فروغ اردو زبان کو یہاں وہاں جانے کے بجائے ایسی ریاستوں کا رُخ کرنا چاہیے جہاں اگر پوری تن دہی سے توجہ دی گئی تو اردو پروان چڑھ کر سکتی ہے،یوپی،بہار،ہریانہ ،میوات،پنجاب ،ہماچل ،اتراکھنڈ ،تلنگانہ،کرناٹک اور مہاراشٹر میں توجہ دی جائے ۔اس کے ساتھ محکمہ ریلوے نے پورے ہندوستان میں اردو بورڈ لگا کر اسے ژندہ رکھا ہے۔لیکن املے کی غلطی جگہ جگہ نظر آتی ہے،اگر کونسل ایک مہم کے ذریعہ ملک بھر میں جہاں جہاں ریلوے اسٹیشنوں پر اردو میں تختیاں نصب ہیں ،ان کا املا ریلوے کے تعاون سے درست کروائے تو یہ اردو کے فروغ کے لیے اہم قدم ہوگا،اور شروعات حضرت نظام الدین سے کی جائے جہان دو عشرے سے پلیٹ فارم نصب بورڈوں پر غلط املا لکھا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *