معراج رسول صلی اللہ علیہ و سلم قرآن وحدیث کی روشنی میں
معراج رسول صلی اللہ علیہ و سلم قرآن وحدیث کی روشنی میں !
از۔۔۔ محمدمحفوظ قادری
اللہ رب العزت نے ہمارے پیارے نبی وجہ تخلیق کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کواس دنیائے فانی میں تمام نبیوں کے بعدتمام انبیا ورسولوں کا سردار بناکر جلوہ گر فرمایا اور پیارے نبی کو بے شمارخوبیاںو کمالات عطا فرمائے ۔
ان تمام خوبیوںو کمالات میں آپ کا ایک کمال معراج بھی ہے جس میں انتیس معراجیں آپ کی منامی (خواب ) کی ہیں جن کی صراحت حدیث رسول سے ہوجاتی ہے منامی معراج خانہ کعبہ سے شروع ہوکر آسمانوں پر اس میں بیت المقدس کا ذکر نہیں ہے ۔ اور ایک معراج جسمانی ہے جس کا ذکر قرآن پاک میں ہے اور یہ حضرت ام ہانی بنت ابو طالب رضی اللہ عنہما کے گھر سے سے شروع ہوکر تحت الثریٰ، عالم برزخ اور عالم دوزخ کا معائنہ فرماتے ہو ئے بیت المقدس پھر آسمانوں سے لا مکاں تک۔
ان دونوں معراجوں میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ معراج منامی میں سینہ مبارک چاک ہونے اور آب زم زم یا کوثر سے دھلنے کا واقعہ پیش نہیں آیا اور جسمانی میں پیش آیا
اور ایک فرق یہ بھی ہے کہ معراج منامی میں براق یا رَف رَف نہیں تھا بلکہ جبریل امین آپ کا دست مبارک پکڑ کر آسمانوںپر لے گئے ۔
معراج جسمانی میں آپ پہلے بُراق پر سوار ہوئے سدرہ تک پھر رَف رَف پر سوار ہوئے عرش معلیٰ تک ، برُاق ایک چوپایا جانور ہے اور رَف رَف ایک تخت کے مانند ہے پھر عرش سے لا مکاں تک تاجدار کائنات کا پید ل جا نا ہوا۔ معراج جسمانی میں تین قوتوں کا ظہور ہوا ۔پہلی قوت بُراق دوسری قوت انبیاء کرام تیسری قوت،قوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ۔
براق کی رفتار کا ذکر حدیث پاک میں اس طرح آتا ہے کہ جہاں تک اس کی نظر جاتی وہا ںتک اس کا قدم جاتا،جب یہ واقعہ معراج پیش آتا ہے تو جبریل امین علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ محبوب خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے دیکھا تاج دار کائنا ت صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے ہیں شہنشاہ کونین کے ادب واحترام کو برقرار رکھتے ہوئے جبریل امین اپنے ہونٹوں کے بوسے ،سے اور اپنے کافوری پروں کو آپ کے قدموں سے لمس(چھوتے) ہیں ام ہانی کے گھر بیدار کرنے کے لیے یہ ہے شان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کہ روزانہ ذکر الٰہی میں راتیں جاگ کر گزاری جاتی ہیں اور معراج کی رات آپ شام سے ہی استراحت فرمانے لگے تھے تاکہ کائنات کے ذرہ زرہ کو پتہ لگ جائے کہ عبد منتظِرہے اور عبدُہُ منتظَر ہوتا ہے ۔یعنی عبد وہ ہے کہ جو معراج کا اور لقاء رب کاانتظار کرے
اورعبدہ ُ وہ ہے کہ رب اور عرشی مخلوق اُس کا انتظار کرے ۔اور اس بات سے یہ بات بھی ثابت ہو جاتی ہے کہ اللہ وحدہٗ لاشریک کے اس معراجی پروگرام سے آپ بے خبر نہیں تھے نہ جانے کتنے زمانوں سے شہنشاہ کونین اس سفر کے سمیع و بصیر تھے ۔
جبریل امین کے جگانے کے بعد آپ نے اٹھ کر وضو فرمایا اور براق پرسوار ہوئے اور براق اپنی برق رفتاری کے ساتھ روانہ ہوا جب عالم برزخ سے گزرہواتووادی جہنم میں وہ آٹھ قسم کے عذاب دیکھے کہ جن کا ذکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث پاک میں بیان کیا ہے جن کا حقیقی وجود قیامت کے بعد ہوگا ۔اس سے پیارے نبی کا یہ مقام بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبوت کا مقام لیے ہوئے نگاہ مصطفی بے مثل ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیداری بھی بے مثل ہے کہ مثل خواب کے آنے والے واقعات کو دیکھ لیتی ہے ۔
پھر یہاں سے آپ بُراق کے ذریعہ مسجد اقصیٰ پہنچتے ہیں اور فرشتوں کے جلوس میں آپ بیت المقدس میں تشریف لے گئے دیکھا وہاں سب کے سب انبیائے سابقین موجود ہیں اور سب سابقین نے یہاں امام الانبیاء حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز ادا فرمائی ۔
اس کے بعد سب نے آپ کو یہاں سے رخصت کیا اور بُراق پر سوار ہوکر آپ پہلے آسمان پر پہنچے یہاں پر آپ کا استقبال کرنے والوں میں حضرت آدم علیہ السلام تھے کہ جنہوں نے ابھی آپ کو رخصت کیا تھا دو سرے آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت یحیٰ علیہماالسلام تھے یہ دونوں آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں ۔
تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام ۔چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام ۔ پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام ۔چھٹے پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ۔ساتویں پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے استقبال کیا ۔یہاں سے بیت المعمور پہنچ کر وتر کی نماز ادا کرائی اور دونوں جگہ اذان کی صدائیں حضرت جبریل علیہ السلام نے بلند فرمائیں ۔اور یہ بیت المعمور وہ جگہ ہے کہ جس میں ستر ہزار فرشتے روز داخل ہوتے ہیں اور جو ایک بار داخل ہوگئے قیامت تک دوبارہ ان کو موقع نہیں مل سکے گا۔یہاں سے مقام سدرہ پہنچے۔
مقام سدرہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا اس کے پھل مقام حجر کے مٹکوں کی طرح ہیں اور اس کے پتے ہاتھی کے کانوں کی طرح اور وہاں چار نہریں تھیں دو ظاہر اور دو پوشیدہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جبریل سے معلوم کیا یہ نہریں کیسی ہیں ۔۔؟حضرت جبریل امین نے جواب دیاپوشیدہ جنت کی نہریں ہیں اور ظاہر نیل و فرات ہیں ۔(مکاشفتہ القلوب)
اور سدرہ سے رَف رَف کے ذریعہ اکیلے عرش تک پہنچے اور یہا سے رَف رَف کو بھی چھوڑ دیا یہاں تک سواری کے ذریعہ معراج ہوئی اور اصل معراج مصطفی یہاں سے شروع ہوتی ہے کیونکہ معراج مصدر میمی ہے عرج یا عروج کے معنیٰ خود سے چڑھنایا پیدل چلنے کے آتے ہیں اور یہاں سے مقام عجزوانکساری، اور رازو نیازکا سلسلہ مصطفی اور خدا کے درمیان شروع ہوتا ہے
صاحب اسرار صوفیاے کرام فرماتے ہیں کہ عرش سے مقام دنیٰ تک ستر ہزار پردے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے طے فرمائے اور ہر پردے کا فاصلہ آسمان وزمین کے برابر ہے اور پرور دگار کی طرف سے اعلان ہوتا ہے’’ اَسریٰ ‘‘یہ تو میرے محبوب کی سیرو تفریح ہے کسی کی اتنی طاقت نہیں کہ محبوب کے مقام کا اندازہ لگا سکے
جس کی تجلیات سے جبریل کے بھی پر جلنے لگیں ،سورج کی گرمی سے تو ذررے جلتے ہیں مگر جب مقام مصطفی اور معراج رسول کی بات آئے تو جبریل کے پروں کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے
آج کی رات اللہ نے سب کے سب راز ونیازاپنے بندو پر ظاہر فرمادئے کہ جب محبوب کی باری آتی ہے تو’’ فاو حیٰ الیٰ عبدہ مااوحیٰ‘‘فرمایاآج کی رات صرف براق کے چلنے کی رفتار بتائی انبیاء کرام کے استقبال کرنے کی کیفیت بتائی مگر شہنشاہ کونین کا مقام اورفتارکی طاقت ’’سبحان الذی اسریٰ ‘‘کہہ کر بتائی ،اور اتر نے کا انداز ’’والنجم اذاھویٰ‘‘ محبوب کی آنکھوں کی طاقت ’’ماذاغ البصر وما طغیٰ‘‘اور محبوب کے بولنے کی طاقت ’’وما ینطق عن الھویٰ‘پیارے نبی کے قلب کی طاقت ’’ماکذ ب الفُوادماراٰی‘‘اور مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے کی طاقت ’’فکان قاب قوسین اوادنیٰ‘‘ہمت اور حوصلہ کی طاقت ’’ماضل صاحبکم وماغویٰ‘‘ فرماکر بتائی ۔
یہ سفر کوئی معمولی سفر نہیں تھا بلکہ قدرت خداوندی کا ایک عظیم شاہ کار تھا اسی وجہ سے اس واقعہ کے شروع میں باری تعالیٰ نے سبحان الذ ی فرمایا مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ کسی بھی خوشی یا عجیب و غریب موقع پر سبحانَفرمایا جاتا ہے ۔
اور آج باری ہے امت کے غمخوار، گناہ گاروں کے شفیع ،نائب پروردگار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بُراق پر سوار ہونے کی ۔نہ ان کے پاس دوست ہیں اور نہ ان کی والدہ ہیں نہ والد اسی طرح نہ کوئی بھائی ہے اور نہ بہن اُ س وقت ان کے حق میں کوئی ان کی عظمت کی صدائیں بلند کرنے والا نہیں تھا ۔
رب نے فرمایا اے ہمارے پیارے تو اکیلا ہونے کا خوف نہ کر تیرے لیئے ہماری طرف سے صدائیں بلند کی جائیں گی جب ہم نے زمین پر تنہا نہیں چھوڑا تو یہاں پر ہم تنہا کیسے چھوڑ دیں گے ۔رب نے اپنی شان کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے لئے فرمایا’’ سبحان الذی‘‘ اور محبوب کیلئے فرمایا ’’اسری بعبد ہ‘‘ِکیونکہ سفر میں پریشانی ومشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور سیر میں راحت وسکون ہوتا ہے اس لئے محبو ب کے واسطے اسریٰ فرمایا ۔
اس کے بعد فرمایا’’ بعبد ہِ‘‘پیارے نبی کے بے شمار القاب اور صفاتی نام ہیں مگر معراج کی رات رب نے نہ رسول کہا ،نہ حبیب،نہ مزمل نہ مدثر ،نہ یٰسین نہ طٰہٰ بلکہ بعبدہِ اس لئے فرمایا کیونکہ رسول اور نبی یہ منصب نبوت اور رسالت بندوں کی طرف ناظر ہیں لیکن آج تو اپنے گھر روانگی ہو رہی ہے اس لیے پرور دگار نے گھریلو لقب سے محبوب کو یاد کیا یا اس لیئے کہ اللہ نے مخلوق کے درمیان بھیجا تو نبی و رسول اور رحمتہ اللعالمین بنا کر مبعوث فرمایا لیکن جب اپنے دربار میں بلانے کی باری آتی ہے تو رب نے فرمایابعبدہ۔اور فرمایا کہ اے دنیا والوجب تم ہمارے محبوب کو پکارو تو یا حبیب اللہ، یا نبی اللہ ،یا رسول اللہ کہہ کر پکارا کرو اور ہم پکاریں گے تو بعبدہ کہیں گے۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان پر گئے تو نصاریٰ نے ابن اللہ کہنا شروع کردیا لیکن پیارے آقا حضور صلی اللہ علیہ وسلم تو لوح قلم سے بھی آگے نکل گئے کہیں یہ مقام مصطفی دیکھ کر کوئی گمراہ نہ ہو جائے اس لیے فرمایا بعبدہ کہ عروج محبوب کاکتنا ہی ہو مگر محبوب خداعبدیت کا تاج سر پر سجائے رہے کیوں کہ عبد تو ساری کائنات ہے مگر عبدہٗ صرف تاجدار کائنات ہی ہیں۔اس کے بعد فرمایا لیلاً(رات) مگررات کی مقدار نہیں بتائی کہ کتنے حصے میں یہ واقعہ پیش آیا لیلاً اسم نکرہ بول کر بتایا کہ محبوب کی سیر کتنی طویل ہی کیوں نہ ہو مگر رات کے تھوڑے حصے میں سفر طے ہوگیا ’’من المسجد الحرام الی المسجد الاقصیٰ‘‘مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔
اس معراج جسمانی میں سیرکے چار حصے ہیں پہلا مسجد حرم سے مسجد اقصیٰ تک ،اور دوسرا اقصیٰ سے سدرہ تک،تیسرہ سدرہ سے عرش تک ،چوتھا عرش سے لا مکاں تک اور عالم برزخ کی معراج امت مسلمہ کیلئے عبرت وگناہوں سے استغفار کی نشانی ہے کیونکہ یہاں پر عمل کی سزا وجزا کے تعلق سے سب کچھ ظاہر کیا گیا ۔اور مسجد اقصیٰ تک مکہ کے کفار کو لاجواب کرنے کے لیے ،سدرہ تک معراج اہل شریعت کے لیے،عرش تک معراج اہل طریقت کیلئے ،لا مکاں تک معراج اہل اسرار کے لیے ۔
معراج کی دوسری حکمت یہ بھی ہے کہ کریم و رحیم آقا علیہ السلام کسی سے بے خبر نہیں ہیں نہ جنت والوں اور نہ دوزخ والوں سے ۔دوسرے یہ بتانے کیلئے کہ تاجدار کائنات پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں و رسولوں کے امام، سردارو تاجدار ہیں ۔تیسرے یہ بتانے کیلئے کہ تمام ملائکہ بھی پیارے رسول کی امت ہیں ۔چوتھے یہ سمجھانے کے لیے کہ عرش وکرسی سب کچھ آقا کے لیے بنایا گیا اور وجہ تخلیق کائنات بھی آپ ہی ہیں ۔
پانچویں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتی طاقت و قوت کے بارے میں بتانے کیلئے کہ جو کچھ اس سیر میں ذات احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا اس سے پہلے نہ وہ کسی کی آنکھ نے دیکھا اور نہ سمجھا بلکہ یو کہئے :اور کوئی غیب کیاتم سے نہاں ہو بھلا :جب نہ خدا ہی چھپا تم پہ کروڑوں درود۔اس کے بعد پھر اگلی حکمت خدا وندی کا ذکر ہوتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار حقیقتیں ہیں پہلی حقیقت بشریت دوسری حقیقت ملکیت تیسری حقیقت نورانیت چوتھی حقیقت سِریت۔ پہلی حقیقت، معراج بشریت کا ظہور ہے ۔دوسری ملکیت کا ظہور ہے ۔
تیسری معراج نورانیت کا ظہور ہے ۔چوتھی میں حقیقت سِریت کا ظہور ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی بھی مثال ملناممکن نہیں ہے کیوں کہ بشر عناصر اربعہ کا ظہور ہے غذا، ہوا ،آگ، مٹی اللہ رب العزت نے ہمارے رسول کو ایسے ایسے راستوں سے گزارا جہاں قدرت الٰہی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا اور اللہ نے مخلوق کو آگاہ کر دیا کہ ہر بشر ان اشیاء کا محتاج ہے مگر ہمارے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان تمان اشیاء سے بے نیاز ہیں ۔ان کلمات سے معلوم ہواکہ مسجد حرام اسراء کی ابتدا اور مسجد اقصیٰ اسراء کی انتہا ہے ۔
اس کے بعد رب نے فرمایا ’’بارکنا حولہٗ‘‘ہم نے برکت دی اس کے ارد گرد۔اور ان برکتوں کی آٹھ قسمیں بتائی گئی ہیں چار شریعت کی اور چار طریقت کی ۔پھر آگے ارشاد باری تعالیٰ ہوا ’’لِنُرَیہٗ من اٰیاتِنا‘‘تاکہ ہم اُسے( حضورصلی اللہ علیہ وسلم)کو اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں ۔
یہ سفر معراج دلیل ہے اس بات کی کہ اپنے محبوب کو اپنے جلووں کے مناظر اور اپنی نشانیاں دکھائیں ۔برکتیں تو مسجد اقصی ٰ کے پاس تھیں مگر اللہ نے ’’آیات‘‘(نشانیوں )کا ذکر وہاں نہیں کیا ۔یہاں ’’اٰیات ‘‘سے مراد دیدار الٰہی وقرب خداوندی کے ابتدا ہونے کی نشانی ہے۔
یہ نشانیاں کچھ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں اورکچھ قلبی مشاہدے سے اور کچھ لذت ذوق سے یعنی کھانے پینے سے ۔معراج کی رات ذات خداوندی کے دید کی رات تھے ۔اٰیات خالیقیت میں تودن رات ، زمان ومکان وغیرہ کا ذکر ہے ۔
مگر ’’اٰیات‘‘ ذات کا مقام یہ ہے کہ نہ رات نہ دن ،نہ زمان و مکان ،نہ چھت نہ سمت وغیرہ کچھ نہیں ۔اسی لئے ’’اسریٰ‘‘ فرماکر رات کی سیر کی انتہاکو مسجد اقصیٰ قرار دیا اس لئے کہ ہم کو اور ہماری تمام نشانیوں کو دیکھنے والا ہی’’ سمیع وبصیر‘‘ ہے اُ س کے علاوہ کسی کی ہمت نہیں کہ وہ ہماری نشانیوں کو دیکھ سکے۔:موسیٰ زہوش رفت بیک پرتوِجمال :تو عین ذات می نگری در تبسمی:۔روح المعانی نے بیان کیا ہے کہ یہاں سمیع و بصیر سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے ۔
قرآن کریم میں باری تعالیٰ کے 99 صفاتی نام مسلمانوں کو اپنے رب کی حمد وثنا اور اس کی تعریفات بیان کرنے کیلئے عطا ہوئے سمیع، بصیر بھی انہی صفاتی نام میں شامل ہیں ۔ لہٰذا شرعاً یہ ضمیر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع ہو سکتی ہے (تفسیر نعیمی)روایات میں آتا ہے کہ تقریباً اٹھارہ سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیدار الٰہی سے مشرف ہوئے اس کے بعد اللہ رب العزت نے دو دو رکعت کرکے پچاس نمازیں (فرض) عطافرمائیں ۔جو ہر گھنٹے بعد باوضو اداد کرنا لازم تھیں ۔
اور غسل جنابت سات مرتبہ کرنااور سات دفعہ دھونے کے بعدناپاک کپڑے کو پاک کرنافرض تھا ۔اسی رات آپ کو شریعت عطا ہوئی اس کے علاوہ اللہ نے آپ کو بے شمار علوم عطا فرمائے یہاں تک کہ آپ نے ارشاد فرما یاکہ باری تعالیٰ نے مجھے ایسے ایسے علوم عطافرمائے کہ میرے سوا ان کا کوئی متحمل نہیں تھا (یہ شان بھی اللہ نے آپ کو ہی عطا فرمائی )۔(روح البیان )۔
جب آپ دربار الٰہی سے واپس اس دنیائے فانی کی طرف تشریف لائے تو آپ نے ایک بار پھر تمام انبیاے کرام سے ملاقات کی ۔پانچویں آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے آپ سے سوال کیا کہ آپ کی امت کو آپ کے رب نے اس عظیم رات میں کیا تحفہ عطا کیا ہے۔۔ ؟رسول اللہ نے ارشاد فرمایا کہ پچاس نمازیں عطا کی ہیں ۔
یہ سن کر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا یہ عبادت بہت زیادہ ہے کم کروائیے میں اپنی امت کو آزماچکا ہوں ۔یہ جواب سن کر حضو صلی اللہ علیہ وسلم کو نو مرتبہ اور بارگاہ الٰہی میں حاضری کا شرف حا صل ہوااور 45نمازیں کم ہو گئیں پانچ نمازوں کے تعلق سے رب نے ارشاد فرمایا کہ ہر نماز کے بدلہ دس نمازوں کا ثواب عطا کیا جائے گا ہم نے تعداد کم کی ہے آپ کی امت کیلئے ثواب میں ذرہ برابر کمی نہیں کی ہے ۔
اسی طرح سات میں سے چھہ مرتبہ غسل کرنا معاف ہوا ایک مرتبہ فرض رہا۔اس کے بعد آپ براق پر ہی سوار ہو کر خانہ کعبہ تشریف لے آئے۔ ایک روایت میں یوں بھی آتا ہے کہ آپ براق پر سوار ہوکر پہلے بیت المقدس تشریف لائے یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں سے آپ کا سفر شروع ہوا تھااس سفر کے دوران رات کی تین ساعتیں یا تین گھنٹے گزرے تھے اور صبح ہوتے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے یہ واقعہ معراج حضرت ام ہانی کوتفصیل سے بتایا ۔
واقعہ معراج شریعت وطریقت کا ایک حسین منظرہے ۔معراج کی رات اللہ نے جو تحفے آپ کو عطا فرمائے ان کی تفصیل اس طرح ہے سورہ بقرہ کی 27 آیتیں،گناہ گار امت کی بخشش کاوعدہ،تمام وہ علوم عطا فرمائے کہ جن کا تعلق شریعت وطریقت اور حقیقت سے ہے۔ختم نبوت کا تاج آپ کے سر پر سجایا گیا۔معراج کی رات آپ اللہ کی جس صفت کی طرف سے گزرتے رہے وہی اپنی صفت اللہ آپ کو بھی عطا فرماتا رہامثلاً مقام رحیم ،عزیز،کریم اور رؤف سے آپ کا گزر ہوا تو اللہ رب العزت نے اپنے محبوب کو بھی کریم ،رحیم ،رؤف اور عزیز بنادیا۔چوبیس صفاتی نام اللہ نے اپنے ،اپنے محبوب کو عطا فرمائے جن کا ذکر قرآن وحدیث میں ہے۔ اس واقعہ معراج میں غیب کے خزانے چھپے ہوئے ہیں ۔
یہ واقعہ آئندہ زندگی اور تکمیل وحی کا پیش خیمہ ہے ،اس واقعہ میں مدنی زندگی طرف شارہ ہے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا واقعہ معراج کا مکہ والوں کے سامنے اعلان کرنا:27رجب صبح طلوع آفتاب کے بعد چاشت کے وقت حطیم کعبہ میں کھڑے ہوکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے واقعہ معراج کو مکہ والوں کے سامنے بیان فرمایااس وقت حرم کعبہ میں ستائیس مکہ کے سردار جمع تھے اور ان کے علاوہ ملک شام کے ستائیس تاجر بھی وہاں حاضر تھے ابو جہل کہنے لگا کہ اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )! کوئی نئی خبر سنائو !یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اپنے رب کی حمدوثناء بیان کی پھر اپنے نبی آخر الزماں ہونے کا ذکر کیااور پھر واقعہ معراج کو تفصیل سے بیان کیا یہ سن کر سب کے سب ایک دوسرے کی طرف حیران ہوکر دیکھنے لگے۔ مگرشامی تاجروں اور اور کچھ اہل مکہ کی مسجد اقصیٰ دیکھی ہوئی تھی انہوں نے آپ سے خوب سوالات کرنا شروع کردئے یہ ماجرہ دیکھ کر باری تعالیٰ نے اپنے محبوب کے سامنے سے تمام حجابات ہٹا دیئے۔
پیارے رسول کی نظرو ں کے سامنے مسجد اقصیٰ ظاہر ہوگئی اور ان کے ہر سوال کا جواب آپ دیتے رہے اور کفار اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ کبھی بیت المقدس گئے اور نہ آپ نے مسجد اقصیٰ دیکھی ہے اس وجہ سے آپ کے جواب سن کر سب لاجواب ہوگئے۔
ان میں سے اکثر تو مسلمان ہوگئے ۔ مگر ابو جہل اور سردارا ن مکہ منکر رہے اور آج بھی جو ان کے گروہ میں شامل ہونے کی کوشش کرے گااس کا حشر انہی کے ساتھ ہوگا ۔
اے اللہ کے بندو !اس معراج رسول کے منکر نہ ہونا کیونکہ ایسا کرنا کفر اور کھلی ہوئی گمراہی ہے اور نہ اس واقعہ کو سیروتفریح کا ذریعہ سمجھنایہ تمام باتیں عشق رسول سے محرومی کا ذریعہ ہیں۔ستائیس رجب کے روزے کی فضیلت :حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے ستائیس رجب کا روزہ رکھا اس کے لیے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھ دیا جاتا ہے
اور ایک دسری روایت میں آتاہے کہ ماہ رجب میں ایک دن اور ایک رات ایسی ہے کہ جس شخص نے رات کو قیام کیا اور دن میں روزہ رکھاتو اس کو اُس شخص کے برابر ثواب دیا جائے گاجو ایک سو سال کے روزے رکھتا ہے اور راتوں کو قیام کرتا ہے (غنیتہ الطالبین )۔
پیارے آقا نے ارشاد فرمایا کہ میری معراج یہ تھی کہ میں نے اپنے رب کا دیدار کیا اور ہم کلامی کا شرف حاصل کیا لیکن اے میرے غلاموں تمہاری معراج ،معراج میں ملنے والا تحفہ پانچ وقت کی نماز ہے ۔پیارے رسول نے اپنے مرتبہ اور مقام کے ذریعہ رب کا قرب حاصل کیا اور یہ غلام نماز کے ذریعہ رب کا قرب حاصل کر سکتے ہیں ۔
اور نماز ایک ایسی عبادت ہے کہ جس میں اللہ کی حمدو ثناء بیان کی جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سلام کا تحفہ پیش کیا جا تا ہے ان دونوں عمل کے ذریعہ ہم اللہ اور رسول کے قریب ہو سکتے ہیں مگر شرط یہ ہے کہ ہم نمازوں کے پابند ہوجائیں کوئی بھی نماز بنا عذر شرعی ہماری ضائع نہیں ہونی چاہئے۔غلامان مصطفی کو چاہئے کہ اپنے بنی کے فرمان کے مطابق زندگی گزاریں ۔
اس ماہ میں جس قدر ہوسکے پیارے رسول پر درود مبارک کی کثرت کریں اور خاص طور سے ستائیسویں شب میں۔ اس رات جس قدر ہوسکے قضائے عمری کا اہتمام کریں اگر ہوسکے تو نفلی عبادت بھی کریں ،قرآن کی تلاوت کریں ۔اس رات اللہ کے دربار میں توبہ اسغفار کرکے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے معافی طلب کریں ۔دن میں روزے کا اہتمام کریں ۔
اپنے اخلاق ،کردار،سوچ و فکر کو پاکیزہ بنائیں بغض و عداوت ،حسد ،نفرت ،کینہ،چغل خوری،جھوٹ اور مکرو فریب جیسی تمام عادات قبیحہ ورذیلہ سے اپنے آپ کو بچاکر زندگی گزاریں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی ان باتوں کی نصیحت کرتے رہیں۔
اللہ ہم گناہ گاروں کو صحیح معنی میں عشق رسول عطا فرماکر دنیا و آخرت میں اپنے پیارے رسول کا وفادار غلام بنائے رکھے ۔اور مسلمانوں کو چاہیے کہ اپنے گھروں میں واقعہ معراج کا ذکر کیا کریں اور اپنے بچوں کی پرورش اس انداز سے کریں کہ ان کے دل بچپن سے ہی عشق رسول سے پُر رہیں کسی اور طر ف وہ بہک نہ جائیں ۔
اہل سنت والجماعت کا جو طریقہ حق ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کی محفلیں منعقد کرنے کا ان محفلوں کا بھی اپنے بچوں کو پابند بنائیں خود بھی سنتوں پر عمل کرنے کے پابند بنیں اور اپنے بچوں کو بھی پیارے نبی کی سنتوں کا عادی بنائیں۔اللہ ہم سب کو معراج رسول کی برکتیں عطا فرماکر عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
از۔۔۔ محمدمحفوظ قادری ، رام پور
یو۔پی 9759824259
مجاہد انقلاب حضرت مفتی عنایت احمد کاکوروی علیہ الرحمہ
ماہ رجب میں تبارک کی روٹی و کونڈوں کی شرعی حیثیت
معزز علماے اہل سنت سے مودبانہ گزارش
مجاہد آزادی علامہ فضل حق خیر آبادی
جنگ آزادی 1857ء کا روشن باب : قائد انقلاب علامہ فضل حق خیرآبادی
جنگ آزادی میں علماے کرام کی سرگرمیاں
جنگ آزادی میں مسلمانوں کی حصہ داری
شمالی ہندوستان کے خطئہ روہیل کھنڈ کی ممتاز و روحانی
شخصیت حضرت حافظ شاہ جمال اللہ نقوش پارینہ
خطئہ روہیل کھنڈکی ممتاز وروحانی شخصیت حضرت سیدنا فیض بخش شاہ درگاہی محبوب الٰہی
Pingback: ماہ مقدس رمضان کا استقبال کیسے کریں ⋆ از۔۔۔۔۔محمدمحفوظ قادری