قناعت کی سوکھی روٹی
قناعت کی سوکھی روٹی
فلسطین فتح ہوا تو خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کچھ دن بیت القدس میں ٹھہر گئے ۔
امیر المؤمنین کی باری باری کئی صحابہ کرام نے دعوت کی۔ ایک دن خلیفہ دوم نے سپاہ سالار اسلام حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح رضی اللہ عنہ سے از راہ خوش طبعی پوچھ لیا: ” ابو عبیدہ ، کیا بات ہے، آپ نے کبھی میری دعوت نہیں کی ؟ “.
حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جواب دیا: امیر المومنین ! آپ میرے گھر تشریف لائیں، یہ تو میرے لیے بڑی سعادت کی بات ہو گی۔ لیکن میں اس اندیشے سے آپ کی دعوت نہ کر سکا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ امیر المومنین کو ابو عبیدہ کا دستر خوان ناگوار لگ جائے“۔
آخر کار حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دعوت قبول کر لی۔ ابو عبیدہ کے گھر پہنچے تو دیکھ کر حیران رہ گیے ۔ سادے سے دستر خوان پر روٹی کے چند ٹکڑے رکھے ہیں اور پیالیوں میں پانی رکھا ہے۔
حضرت ابو عبیدہ نے عرض کی: ” امیر المومنین ! یہی میری خوراک ہے۔ دونوں وقت پانی میں ڈبو کر روٹی کے سوکھے ٹکڑے کھا لیا کرتا ہوں۔ اور رب کا شکر ادا کرتا ہوں“۔
اسلامی جرنیل حضرت ابو عبیدہ کی اس سادگی کو دیکھ کر حضرت عمر کی آنکھیں بھر آئیں ۔ امیر المومنین نے اس وقت فرمایا تھا : ”لوگو گواہ رہنا ! شام آکر سب بدل گئے؛ لیکن یہاں کی بہاریں ابو عبیدہ کو نہیں بدل سکیں۔
یہ وہی ابو عبیدہ ابن جراح ہیں ، جن کے نام سے ہی رومیوں کے پسینے چھوٹ جایا کرتے تھے۔ جنگوں میں دشمن کی جس صف میں گھس جاتے ، اسے تن تنہا تہس نہس کرکے ہی لوٹتے۔
لیکن آپ کی سادگی کا یہ عالم تھا کہ کوئی سفیر آتا تو کسی سے پوچھے بغیر وہ یہ نہیں کہ پاتا کہ مسلمانوں کا امیر کون ہے۔ (رضی اللہ تعالی عنھم )
جانثاران بدر و احد پر درود
حق گزاران بیعت پہ لاکھوں سلام
انصار احمد مصباحی
پچیس لاکھ علماے کرام و حفاظ عظام کی ضرورت