مدارس اسلامیہ کا قیام ہمارا دستوری حق

Spread the love

مدارس اسلامیہ کا قیام ہمارا دستوری حق !

تحریر: جاوید اختر بھارتی

ملک میں مدارس کا قیام ہمارا آئینی حق ہے،، ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جس میں ہر شخص کو اپنے مذہب پر عمل کرنے اور مذہب کی ترویج و اشاعت کا حق حاصل ہے ملک کے مدارس انسانیت کا درس دیتے ہیں

اور حب الوطنی کا پیغام دیتے ہیں اور ملک کو آزاد کرانے میں مدارس اسلامیہ کا کلیدی کردار رہا ہے یقیناً مدارس کی ترقی سے ملک کی ترقی وابستہ ہے اس لئے ہمیں مدارس کے تحفظ اور اس کے اصول و ضوابط کا خیال رکھنے کے لیے بیدار رہنا ہوگا

آج کل اخباروں کے صفحات پر مدارس اسلامیہ سے متعلق خبریں خوب نظر آتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے کہا ہے کہ ہم مدارس اسلامیہ کا سروے کرائیں گے اور وہ بھی بالخصوص پرائیویٹ مدارس کا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو اس بات پر اطمینان ہے کہ وہ مدارس جو حکومت سے الحاق ہیں

اس میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے سارے اصول ضابطے درست ہیں حکومت کی تمام شرائط پر عمل درآمد ہورہا ہے اگر اطمینان ہے تو پھر پرائیویٹ مدارس پر اطمینان کیوں نہیں ہے جب کہ تعلیمی نظام و نصاب تو دونوں میں یکساں ہیں اب مدارس کے ذمہ داران اور علماے کرام کے بیانات آرہے ہیں کہ ہم مدارس اسلامیہ پر آنچ نہیں آنے دیں گے

مدارس کے وقار کو مجروح نہیں ہونے دیں گے اور ہر حال میں ہم مدارس کا تحفظ کریں گے اب یہاں بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کس بنیاد پر یہ کھوکھلا دعویٰ کیا جارہا ہے آخر مدارس کے تحفظ کا کون سا مضبوط لائحہ عمل تیار کیا گیا ہے،،

سچائی تو یہی ہے کہ مسلمانوں کے پاس دینی مدارس کم مسلکی مدارس زیادہ ہیں اور اس کے تحفظ کا کوئی لائحہ عمل نہیں ہے خود آج کے ماحول میں مدارس کے ذمہ داران کے طرز عمل سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مدارس کے ذمہ داران سہمے ہوئے ہیں اور خوفزدہ ہیں تبھی تو اس معاملے کو لے کر کہیں کوئی احتجاج نہیں، کوئی جلسہ نہیں،،

کوئی صاحب منی این آر سی بتارہے ہیں تو بہت سے لوگ مدارس کے ساتھ حکومت کی بدنیتی سے تعبیر کررہے ہیں مگر ان سب کے باوجود ذمہ داران نے مدارس کی طرف سے اب تک کوئی قائد میدان میں نہیں اتارا ہے جو حکومت سے پوچھے کہ آخر مدارس کا سروے کرانے کی ضرورت کیوں پیش آئی اور حکومت پرائیویٹ مدارس سے کیا چاہتی ہے جبکہ مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ہم مدارس اسلامیہ کی فہرست اور ڈاٹا تیار کرانا چاہتے ہیں

تاکہ معلوم ہوسکے کہ پرائیویٹ مدارس کی تعداد کتنی ہے پھر ہم اسے گرانٹ دینے پر غور کریں گے لیکن ماضی میں حکومت کی جانب سے یہ بھی اعلان کیا جاچکا ہے کہ اب کسی نئے مدرسے کو گرانٹ نہیں دی جائے گی اس وجہ سے مدرسہ بورڈ کے چیئرمین کا بیان کافی ہلکا اور مایوس کن لگتا ہے

اسی وجہ سے مدارس کے ذمہ داران تشویش کا شکار ہیں اور ڈرے ہوئے ہیں۔ وہ بھی ایک وقت تھا جب مساجد و مدارس سے متعلق ایک فرمان جاری ہوا تھا کہ مساجد و مدارس کی تعمیر، مرمت اور توسیع کے لیے ضلع مجسٹریٹ سے پرمیشن لینی ہوگی

اس وقت بھی بی جے پی کی ہی حکومت تھی اور رام پرکاش گپتا اترپردیش کے وزیر اعلی تھے تو جگہ جگہ احتجاج ہوا تھا، جلسے و جلوس نکالے گئے تھے اور اس فرمان کو سیاہ قانون قرار دیا جارہا تھا اور کل مسلکی اجلاس کا انعقاد پورے اترپردیش میں ہورہا تھا لیکن آج وہ صورت حال نہیں ہے آخر کیوں؟

 

قارئین کرام :  لفظ آخر کیوں سے گھبرائیں نہیں اس لیے کہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ لفظ کیوں بار بار آئے گا مثال کے طور پر حکومت پرائیویٹ مدارس کی جانچ پڑتال کرانا چاہتی ہے تو آخر کیوں، مدارس کے ذمہ داران اب اگر کہیں کہ ہم جانچ پڑتال ہونے نہیں دیں گے

تو آخر کیوں جب کہ حکومت کو معلوم ہونا چاہیے کہ چاہے سرکاری مدارس ہوں یا پرائیویٹ مدارس دونوں میں تعلیمی نظام و نصاب یکساں ہیں اور دونوں میں ہی قرآن وحدیث کی تعلیمات کو ترجیح دی جاتی ہے اور دینی مدارس کی تو پہچان ہی قرآن و حدیث کی تعلیمات سے ہوتی ہے مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران کو بتانا چاہئے کہ پرائیویٹ مدارس مسلمانوں کے تعاؤن سے چلتے ہیں

اور چندے کے لیے کسی سے کوئی زور زبردستی نہیں کی جاتی کیونکہ اگر زور زبردستی کی جائے گی تو پھر مدارس اسلامیہ کے قیام کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا واضح رہے کہ رمضان المبارک کے مہینے میں زکاۃ کی رقم کو جہاں غرباء ومساکین میں تقسیم کیا جاتا ہے وہیں مدارس اسلامیہ کا بھی خیال رکھا جاتا ہے

اور صدقہ و فطرہ کی رقم کو بھی تقسیم کرنے میں مدارس کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے پرائیویٹ مدارس کی حالت خستہ ہوچکی ہے ویسے ہی پرائیویٹ مدارس کے اساتذہ و ملازمین کی تنخواہیں کم ہوتی ہیں اور سرکاری مدارس کے اساتذہ کی تنخواہیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ خدمت دین کا جذبہ پرائیویٹ مدارس کے اساتذہ کے اندر زیادہ پایا جاتا ہے۔

حکومت کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ یوم آزادی و یوم جمہوریہ کے موقع پر پرائیویٹ مدارس جشن منانے میں کافی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تحریک آزادی کی تاریخ بیان کرتے ہیں اور مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ملک کے تئیں ہمہ وقت وفادار رہنے کا پیغام دیتے ہیں سیاسی پارٹیوں کی حمایت سے دور رہتے ہیں۔

علامہ فضل حق خیرآبادی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محمد علی جوہر، مفتی عنایت اللہ، مولانا محمود الحسن دیوبندی، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا عاصم بہاری، عبد القیوم انصاری، مولوی باقر، مولانا ابوالکلام آزاد، عبد اللہ انصاری وغیرہ جیسی عظیم شخصیات نےانہیں مدارس سے تعلیم حاصل کی تھی اور ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی اور ملک کو آزاد کرایا۔

پرائیویٹ مدارس کے اندر کسی طرح کی بد عنوانی بھی نہیں ہوتی پرائیویٹ مدارس اور سرکاری مدارس کا فرق بالکل ویسے ہی ہے جیسے سرمایہ دار اور مزدوری، بانی،، اور لگار،، بالکل یہی حال ہے پرائیویٹ اور سرکاری مدارس کا پرائیوٹ مدارس کی آمدنی کا ذریعہ بہت محدود ہوتا ہے

ایسی صورت حال میں حکومت کو واضح طور پر اعلان کرنا چاہیے کہ سرکاری و پرائیویٹ مدارس کے لیے یہ یہ شرائط ہیں جس کی پابندی ضروری ہے ہم سروے کرائیں گے

اور خلاف ورزی کی صورت میں کاروائی کی جائے گی تو حکومت کی شرائط پر مدارس بھی غور کرتے اور کوئی فیصلہ لیتے مدارس کے ذمہ داران سے بھی اپیل ہے کہ کسی بھی مدرسے میں حکومت کے اہل کار و افسران پہنچیں تو ان کا استقبال کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں

بچوں کو بھی پہلے سے استقبال کے لیے تیار رہنے کی تربیت دیں تاکہ وہ ایک بہترین تاثر لے کر جائیں اور آخر میں ایک بات کا ذکر بہت ضروری ہے کہ ان تمام تدابیر کے ساتھ ساتھ سیاست کو شجر ممنوعہ سمجھنا بند کریں اور بڑھ چڑھ کر سیاست میں حصہ لیں تاکہ ہم مساجد و مدارس کے تحفظ کے لیے باصلاحیت ہوں اور با اختیار ہوں۔

جاوید اختر بھارتی

(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

One thought on “مدارس اسلامیہ کا قیام ہمارا دستوری حق

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *