مسلمانوں میں جلسوں کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے نقصانات

Spread the love

ایک فکر انگیز تحریر قارئین کے نذر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مسلمانوں میں جلسوں کا بڑھتا ہوا رجحان اور اس کے نقصانات ایک دور تھا جب بڑےجلسے کم ہوتے تھے ،میلاد شریف کی محفلیں ہوتی تھیں ،علاقائی نعت خواں،ائمہء مساجد اور علما مدعو ہوتے تھے ایک دو مختصر تقریریں ہوتی تھیں،نعت خوانی ہوتی تھی ،دس بجے رات کو محفل ختم ہوتی اور لوگ واپس جاکر آرام کرلیتے تھے۔ ہر علاقے میں سال میں ایک آدھ بڑا جلسہ ہوتاتھا جس میں باہر سے ایک دو عالم بلائے جاتے تھے اور بصد شوق لوگ دور دراز سے باہر سے آنے والے مہمان عالموں کا خطاب سننے کے لیے آتے تھے۔وہ جلسے پیشہ وارانہ نہیں ہوتے تھے۔نہ آنے والے خطیب ونعت خواں کاپیسوں کا ڈیمانڈ ہوتاتھا ،نہ وہ اپنے اکاؤنٹ میں پیشگی رقم جمع کرانے کی شرط رکھتے تھے۔لیکن جیسے جیسے وقت بدلتا گیا اور چیزوں کی طرح جلسوں کارنگ ڈھنگ بھی بدلنے لگا اور اب تو حال یہ ہوگیا ہے کہ جلسوں کے منتظمین سے لے کر خطبا ونعت خواں تقریبا سب پروفیشنل ہوگئے ہیں۔دین وملت کی خدمت کے نام پر بھولے بھالے عوام سے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، کچھ انتظامیہ کی جیب میں جاتے ہیں اور باقی کاروباری مقرروں اوراسٹیجی گویوں کی جھولی میں ڈال دے جاتے ہیں،یوں ہرسال قوم کے کروڑوں روپے ضائع ہوجاتے ہیں۔اگر جلسوں میں خرچ ہونے والی رقم کانصف حصہ بھی تعلیم اور فلاحی امور پہ خرچ کیاجائے تو مسلمانوں کے ہر علاقے میں بڑے بڑے جامعات کالج ،ہسپتال ،تجارتی کامپلکس وغیرہ قائم کیے جاسکتے ہیں۔۔قوم مسلم کے فکری زوال کی انتہا یہ ہے کہ صرف ذہنی تفریح اور تسکین نفس کے لیے جلسوں میں 50 ہزار، 70ہزار کا ڈیمانڈ کرنے والے مقرریاگوے کو بلایاجاتاہے اور قوم یہ تصور کرتی ہے کہ بڑی نیکی کاکام ہوگیا۔۔کبھی کسی نے یہ سوچا بھی نہیں کہ ایک اسٹیجی گوے کو اگرایک رات میں 70ہزار روپے دے جاتے ہیں تو ایک ماہ میں صرف اس ایک گوے کی جھولی میں قوم کے کتنے روپے جاتے ہیں؟ اس گوے سے پوچھو تو کہے گا کہ پروگرام کے لیے 6 مہینے پہلے رابطہ کرنا ہوگا ،اس کا مطلب یہ ہوا کہ کئی کئی مہینے وہ جلسوں کے لیے بک ہوتاہے۔اگر ایوریج نکال کر ہرماہ 15 جلسے کی بکنگ مان لی جائے تو ایک شب کے 70 ہزار کے حساب سے ایک ماہ کے جلسوں کے دس لاکھ پچاس ہزار روپے ہوتے ہیں اور سال کے آٹھ مہینے پروگرام مان لیاجائے تو چوراسی لاکھ ہوتے ہیں ،اس کے ساتھ جلسوں میں بطور چھوٹ ملنے والی رقم کوشامل کرلیا جائے تو تقریبا ایک کڑور روپے سالانہ اس گوے کی تجوری میں جاتے ہیں، وہ بھی غریب قوم کے پسینے کی کمائی کے۔۔اسی پر مہنگے مقرروں کو بھی قیاس کرلیجیے تو چند مقرروں اور گویوں پر اس غریب قوم کے کڑوروں روپے صرف ہوتے ہیں جس کی جیب سے پانچ سو ہزار روپے تعلیم کے نام پہ نکالتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اس کی روح نکلی جارہی ہے۔۔۔میں سمجھتا ہوں کہ دور حاضر کے مروجہ جلسوں کی روک تھام کے لیے جد وجہد کرنا ایک قسم کاجہاد ہے۔~مفتی رضاء الحق مصباحی راج محلیمرکزی دارالافتاء والقضاء راج محل جھارکھنڈ و سابق شیخ الحدیث وصدر شعبہء افتا جامع اشرف کچھوچھہ شریف یوپی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *