گلی کی بلا گلے میں
افسانہ گلی کی بلا گلے میں
ازضیاءرومانی۔ایم۔اے9036856550
اللہ کے بعداگرکوئی ہماری بے غرض مدد کرتے ہیں تو وہ والدین ہی ہوتےا ہیں۔ میرادل کہتاہے کہ اگراللہ کے بعد کسی کے روبرو سجدہ کرنے کی ہمارا مذہب اجازت دیتا تومیں اپنے والدین کے قدموں میں سجدے کرتےنہ تھکتا۔ میرے تجربات ومشاہدات کےسبب آج دل سے یہ آواز آتی ہے آپ چاہےاسے مبالغہ آرائی سمجھیں یااپنے والدین کے تئین میری فطری محبت ہی سمجھ لیں۔ مگرآپ کویہ حقپقت بتاتے ہوئے میں بہت شرمندہ ہوں کہ یہاں میں نے اپنے والدین کی جن الفاظ میں تعاریف کی ہے وہ سبھی انسانوں کی طرح محض انکا تعاریف ہی کیا ہے ۔حقیقت میں میں ان کے ان بیش بہااحسانوں کوسمجھ توسکاہوں مگراپنی زندگی میں وہ جس قدرمجھ سے انکے بدلے کے مستحق تھے۔ میں اس کارتی بھر بدلہ چکانہیں سکاہوں۔ جب ان کو میرے تعاون کی ضرورت تھی اس وقت میں ان کہ کام نہیں آسکا۔ جس کا مجھے تاحیات ملال رہے گا۔ میں آپ کی جانکاری کے لئے اپنی ذندگی کاایک قصہ سناناچاہتاہوں جس سے ثابت ہوتاہے کہ والدین جیسا اللہ کے سوا بے لاگ و بے لوث محسن کوئی نہیں ہوتا۔ جب میں اپنے شہر میں کاروبار میں مسلسل گھاٹوں کاسامناکرنے لگا۔ خود اپنے رشتہ دار بھائی اس کاروبار میں مجھے نیچا دکھا کرخود آگے بڑھ رہے تھے۔ میں بہت پریشان حال تھا۔ تو مجھے پتہ ہی نہیں میرے والد نے اپنے ایک دوست کے ذریعہ کب میرے ایک ہم جماعت دوست سے رابطہ پیدا کرلیا۔ اس دوست کو میرے حالات سے واقف کروا کر اسے یہ تلقین کردی تھی کہ وہ میرے لئے اپنے شہر میں کوئی مناسب نوکری دیکھ کرمجھے اپنے شہر بلالے۔ دفعتاً میرے ایم اے کے کلاس میٹ سید اقبال پاشاہ نے مجھے خط لکھا کہ ان کے شہر میں ایک نجی کالج میں لکچرار کا پوسٹ خالی ہے۔یہاں سب سہولیات ہیں فوراً میں چلا آؤں۔ مجھے تواس بات کی خبر بھی نہیں ہوئی تھی کہ یہ نوکری میرے والد محترم کی کوششوں سے ملی تھی۔ ادھر میری امی کے ایک ماموں جان سے بھی گذراش کر دی گئی تھی کہ وہ اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرکہ یہ پوسٹ میرے لئے محفوظ کر دیں۔ الغرض میں اپنے دوست کے پاس چلا آیا۔ بطور لکچرارنوکری جوائن کرلی۔ مگر ابتداء میں یہاں رہنے کا مسئلہ آیا۔ ہر روز اپنے گاؤں سے آجا نہیں سکتا تھا کیونکہ یہاں سے ہمارا گاؤں تقریباً 80 میل دورتھا۔ ویسے موٹروں کی سہولت تو تھی۔مگر ہر روز اس قدر لمبا سفر مجھ سے ممکن نہ تھا۔ راستہ لوکل کچا راستہ تھا وقت مسافت دو ڈھائی گنٹھوں کا تھا اس طرح ہر روز پانچ گنٹھوں کا سفر تھکا دیتا تھا۔ لہذا اباجان نے مجھے صلاح دی کہ کچھ دن اپنے ماموں جان کے ہاں رہ لوں پھرکہیں گھر کرائے پر لے کر اپنی بیوی کولے جاؤں۔ الغرض میں ہفتہ بھر یہاں رہتا ہرروز کالج جاتا ہفتہ کی چھٹی میں اپنے والدین کے پاس چلا آتا۔ پیرکے دن اپنے گھر سے نکلتا تو سبھی گھر والے محسوس کرتے جیسے بیٹی میکے سے سسرال جا رہی ہے۔ یہاں میرے ماموں سرکاری بس ٹرانسپورٹ میں ایک اہم عہدے پرفائز تھے۔ مامی سرکاری اسکول ٹیچر تھیں۔ جن کا ایک اچھاخاصہ چار کمروں پرمشتمل گھرتھا۔ گھرکے اوپر بھی ایک کچن ہال اور کمرے کاخالی گھرتھا جس میں بیکار سامان ڈال چھوڑا تھا۔ ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ جو اعلیٰ تعلیم کے لۓ دوسرے شہروں میں ہاسٹل میں رہ رہے تھے۔ ماموں تو ہماری آمد پر مطمئن تھے۔مگر مامی کچھ تنگ نظر تنہائی پسند خیالات کی تھیں۔ ان کے چہری کے اتار چڑاؤ پران کا قابونہ تھا۔ اپنے دلی کیفیت وہ چھپا نہیں سکتی تھیں۔ایک نظر میں ہی مجھے پتہ چل گیاتھا کہ میرا ان کے ہاں رہنا انہیں پسند نہ تھا۔ رشتہ داری سے مجبور مجھے برداشت کررہی ہیں۔ الغرض مجبوری تھی کچھ دن اس شہر کی واقفیت حاصل ہونے تک مجھے ان کا سہارا لینا پڑا۔ میں ایک خالی کمرے میں رہ گیا۔ رات وہیں پڑھائی کی تیاری کرتا۔ صبح اٹھتا جی چاہتا کہ سیدھے کالج بھاگ جاؤں۔ مگر مصلحتاً کھانے کے وقت ماموں آواز دے دیتے میں دل نہ خواستہ کچھ کھا پی لیتا اور ڈیوٹی پرنکل لیتا۔ دوپہر کام ختم ہوتا تو وہیں ایک درگاہ کے احاطے میں کچھ ریر بیٹھ جاتا۔ کالج کے قریب ایک مقبول ولی اللہ کی درگاہ تھی تھوڑی دیر درگاہ کے پاس مریدوں کو آتے جاتے دیکھتا۔ان لوگوں کے درمیان سہ پہر تک بیٹھا رہتا۔ درگاہ کے آس پاس ادھر اودھر خاصہ میدان تھا۔ ہریالی بھی تھی بلند درختوں کی چھاؤں میں بیٹھنے تھک جاتا تو کمر سیدھی کرلینے کے لئے پیڑ کے نیچے سوجاتا مغرب ماموں کے گھر چلے آتا۔ اس طرح چند دن گزرے۔۔ ماموں کے ہاں کچھ کھا لیتا اور اپنے لئے مختص کمرے میں آکر پڑھائی میں لگ جاتا۔ کافی دیر تک پڑھتے رہتا کیونکہ درس وتدریس کے ابتدائی دنوں میں کافی مطالعہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ محنت سے ہی کالج میں طلبا پر ہولڈ حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ میں ادھرکمرے میں ہوتا ماموں مامی حسب عادت ادھر اودھر کی باتوں میں رہا کرتے ۔ مامی تواپنی ساتھی اساتذہ کے متعلق تبصرے کیا کرتیں۔ ان کے کام دھام پرنکتہ چینی زیادہ تعاریف کم کیا کرتیں۔ ان باتوں ماموں خوب مزے لیتے اور میری پڑھائی میں قلل پڑتا۔ میں مجبوراً انہیں برداشت کرلیا کرتا۔ ایک دن ماموں میرے کمرے میں آئے اور کچھ ناراضگی سے کہنے لگے۔۔ “جان جوان لڑکے ہو۔ سارا وقت گھرمیں بیٹھے رہتے ہو۔۔ تھوڑا باہر بھی نکلا کرو۔۔ “- اس دن سے میں کالج سے آنے کے بعدوقت گذاری کے لئے محلے کے پارک میں جا کر کچھ دیر بیٹھنے لگا۔وہاں محلے کے ایک اردو معلم سے میری دوستی ہوئی۔ انہوں نے مجھے اپنے ایک دوست سے مجھے متعارف کرا دیا۔۔ ان کے ایک بھائی جو فلمی گانوں کاشوق رکھتے تھے۔وہ بھی میرا دوست بن گییا۔ اسی محلے میں ایک بیواہ بوڑھی خالاجان کا دکان تھا۔ میں نے ان سے بھی دوستی کرلی۔ وہ لوگ پارک میں بیٹھتے مغرب تک پارک کے چکر لگاتے۔ ہواخوری کرتے۔ اس طرح دن گزرنے لگے۔ ایک ہفتے میں اپنے گاؤں گیا تو میرے والد نے بتایا کہ تمہارے ماموں آئے تھے وہ شکایت کررہے تھے کہ تم خواہ مخواہ محلے کے ایرے غیرے لڑکوں کے ساتھ آتے جاتے ہو۔ لگتا ہے تمہارے ماموں کو یہ سب پسند نہیں ہے۔ میں نے والد محترم کو بتایا کہ پہلہ تومیں کالج سے آکرکمرے میں مطالعہ میں وقت گزارتا تو ماموں نے ہی صلاح دی تھی کہ میں باہر بھی چلا پھرا کروں اس طرح ہمیشہ کمرے میں قید نہ رہوں۔ والد نے معاملہ کو سمجھتے ہوئے مجھے صلاح دی کہ میں کرائے پر کوئی گھرلے لوں۔ ماموں کو میراان کے گھر پر رہہنا شاید پسند نہیں ہے۔ دوسرے ہفتہ میں اپنے ایک دوست کے دکان کے پیچھے والے گوڈاؤن میں رہ لیا۔ مگر نہ ماموں نے مجھے سے ملاقات کی اور نہ کوئی میرا حال چال دریافت کیا۔ جب میں اپنے گھر گیا تو والد نے پوچھا کہ میں ہفتہ بھرکہاں رہا؟ میں نے انہیں بتا دیا کہ میں اپنے ایک دوست کے ساتھ آرام سے رہا۔ دراصل مجھے وہاں کافی مشکلیں اٹھانی پڑی تھیں ۔گوڈاون میں نہ ہوا نہ روشنی تھی۔اس سبب راتوں میں نیند بھی نہیں لگتی تھی۔ الغرض کافی تلاش بسیار کے بعد ایک مخلص معلم کے آنگن میں کرایہ پرمکان مل گیا۔ مگر اس دوران نہ مامی نے اور نہ ماموں نے میرے حال چال دریافت کئے۔ بھلا بیچارے گلی کی بلا اپنے گلے میں وہ کیوں ڈال لیتے۔۔؟