زیارت حرمین شریفین
زیارت حرمین شریفین مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ وجھارکھنڈ
زیارت حرمین شریفین کی خواہش ہر مؤمن کے دل میں انگڑائی لیتی ہے، وسائل میسر ہوں اور اللہ بلائے تو اس خواہش کی تکمیل بآسانی ہوجاتی ہے، کبھی کبھی وسائل نہیں بھی ہو تو اللہ بلا لیتا ہے
وہ ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے کہ بندہ بآسانی حرمین شریفین تک پہونچ جاتا ہے اور کیوں نہ ہو جب آسمان وزمین کے خزانہ کی ملکیت اسی کی ہے، وسائل کی موجودگی کے با وجود بلاہٹ نہ ہو تو انسان دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔ پھر جو خوش قسمت حرمین شریفین تک پہونچ جاتا ہے وہ پوری زندگی ان احوال وکوائف کو بیان کرتا رہتا ہے
یہ بیان تقریری بھی ہوتا ہے اور تحریری بھی ، لکھنا آتا ہے تو قلبی واردات ، وکیفیات کا ذکر تحریری ہوتا ہے، کبھی سفر نامے کی شکل میں اور کبھی حج وزیارت پر ایک باب میں اضافہ کی شکل میں، اس فہرست میں ڈاکٹر کلیم عاجز کی ’’یہاں سے کعبہ کعبہ سے مدینہ‘‘ ، عبد الخالق خلیق کی ’’حاضری‘‘
راقم الحروف (محمد ثناء الہدیٰ قاسمی)کا سفرنامہ’’ یہ سفر قبول کرلے‘‘ مولانا رضوان احمد ندوی کی ’’گھر سے بیت اللہ تک‘‘ شائع ہو کر مقبول ہو چکی ہیں، اس سلسلے میں بعض حیثیت سے ممتاز مفتی کے سفرنامہ’’ لبیک‘‘ کی حیثیت بھی ادبی دنیا میں تسلیم کی گئی ہے
یہ ایک ایسے شخص کا سفر نامہ ہے جو قلبی واردات بھی لکھتا ہے اور باغیانہ انداز میں اسرار ورموز بھی واشگاف کرتا جاتاہے، خود ممتاز مفتی نے اسے سفر نامہ کے بجائے رپوتاز قرار دیا ہے ، حج کے سفر ناموں میں سورش کشمیری کا سفر نامہ’’شب جائیکہ من بودم‘‘ غلام ثقلین کی ’’ارض تمنا‘‘ عبد اللہ ملک کے ’’حدیث دل ‘‘ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ان سفر ناموں میں حج کے حوالہ سے نئی نئی جہتوں کا ادراک واحساس ہوتا ہے۔
اردو میں حج کا پہلا سفرنامہ حاجی محمد منصف علی کا ’’ماہ مغرب المعروف بہ کعبہ نما‘‘ کے نام سے ۱۹۱۷ء میں سیدھے سادے اسلوب میں لکھا گیا اور طبع ہو کر مقبول ہوا، اس کے بعد ۱۸۴۴ء میں سید شاہ عطا حسین فانی گیاوی نے ’’ دید مغرب المعروف بہ ہدایت المسافرین ‘‘کے نام سے اور نواب سکندر بیگم نے ’’یاد داشت تاریخ وقائع حج‘‘ کے نام سے اپنا سفر نامہ لکھا، لیکن یہ دونوں سفرنامے طباعت کے مرحلے سے گذر نہ سکے، مزید معلومات کے لیے حج کے سفرنامے پر ڈاکٹر محمد شہاب الدین کا تحقیق مقالہ جو انہوں نے علی گڈھ مسلم یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے کے لیے لکھا ہے، مطبوعہ شکل میں موجود ہے، اس کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
اس طویل سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی جناب ارشد انور الف (ولادت ۱۵؍ جنوری ۱۹۷۰ء )بن الحاج افضل حسین (م ۲۳؍ستمبر ۲۰۱۸ئ) ساکن گیاری ضلع ارریہ ، استاذ آزاد اکیڈمی ارریہ کا یہ سفرنامہ ہے، موصوف نے ۲۰۱۴ء میں بہار حج کمیٹی کی جانب سے خادم الحجاج کے طور پر حرمین شریفین کا سفر کیا تھا
اس سفر نامہ میں جو کچھ دل پر گذری اس کو پیش کیا ہے، اس کے ساتھ اس کے دوسرے حصہ میں رہنمائے حج وزیارت کے طور پر ضروری مسائل ، دعائے مسنونہ ، زیارت کے آداب وغیرہ پر بھی روشنی ڈالی ہے
اس طرح یہ سفر نامہ ماضی میں لکھے گئے سفرناموں کے دونوں مقاصد کی تکمیل کرتا ہے، حج کے ابتدائی سفر ناموں میں آپ پائیں گے کہ ان میں معلومات اور مناسک کی تفصیل زیادہ اور واردات قلبی کا ذکرلیکن موجودہ دور کے سفرناموں میں مناسک کم اور دلی کیفیات کا اظہار زیادہ ملتا ہے
اگر ایک جملہ میں اس کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ابتدائی سفر ناموں میں ’’کیا ہے‘‘ کی تفصیل ہوتی تھی اور موجودہ حج کے سفرنامے کا محور’’کیا پایا‘‘ ہے، اس طرح کہنا چاہیے کہ آج کل کے سفرنامے میں حج وزیارت کے ایام کی آپ بیتی ہیں جن میں مقصد سفر کے ساتھ اپنے قلبی واردات وکیفیات ، محسوسات وتجربات کو بیان کرنا مقصود ہوتا ہے۔
ارشد انور ’’الف‘‘ نے بڑی خوب صورتی سے دونوں دور کے انداز کو الگ الگ حصوں میں ہمیں برت کر دکھایا ہے، ہم اس سفرنامے سے ان کے دلی جذبات واحساسات کا بھی اندازہ لگا سکتے ہیں اور مناسک حج کو بھی سمجھ سکتے ہیں، کتاب کی ضخامت بہت نہیں ہے
مختصر میں بات کہنے کی کوشش کی گئی ہے، مصروفیت کے اس دور میں ضخیم کتاب پڑھنے کے لیے نہ تو وقت ہے اور نہ قوت خرید، ارشد انور الف اس راز کو اچھی طرح جانتے ہیں، اس لیے انہوں نے بڑی خوش اسلوبی سے مختصر انداز میں اپنی بات رکھنے کا کام کیا ہے۔
ارشد انور صاحب اصلا سائنس کے استاذ ہیں، سائنس جیسے خشک اور کھر درے مضمون کے ساتھ ادب لطیف کا گذر ذرا کم ہی ہوتا ہے، لیکن ارشد انور سائنسی حقائق وانکشافات کی معلومات کے ساتھ اپنے سینہ میں ایک درد مند دل بھی رکھتے ہیں، موقع ملتے ہی یہ درد مند دل ادب لطیف کے نرغے میں چلا جاتا ہے پھر وہ کہانیاں لکھنے لگتے ہیں
شاعری بھی کرتے ہیں اور نثر بھی خوبصورت لکھتے ہیں۔ ارشد انور نے اپنا تخلص ’’الف ‘‘ رکھا ہے، مجھے وجہ تسمیہ نہیں معلوم؛لیکن بچپن میں استاذ نے پڑھایا تھا ’’الف‘‘ سے اللہ کو پہچان ’’ب‘‘ سے بڑوں کا کہنا مان، ارشد انور اللہ کو پہچاننے کے مرحلے سے گذر رہے ہیں
اس مرحلہ کو عروج بخشنے میں زیارت حرمین شریفین کا خاص حصہ ہے، کیوں کہ انہوں نے مکہ میں کعبہ کی تجلیات ، اللہ کے جلال اور مدینہ طیبہ سے اللہ کے رسول کے جمال کو کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے اور یہ دونوں چیزیں معرفت الٰہی کے لیے اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں، انہیں سرمۂ کیمیا کہا جا سکتا ہے۔
میں اس اہم کتاب کی تصنیف وتالیف پر ارشد انور ’’ الف‘‘ کو مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ یہ کتاب مقبول بھی ہو اور یہ سفر ان کا آخر سفر ثابت نہ ہو آپ بھی ہماری اس دعا پر آمین کہیے اور پڑھنے کے لیے تھوڑا انتظار کیجیے، میں بھی مسودہ کو مطبوعہ شکل میں دیکھنے ض کا منتظر ہوں۔