کیا حقیقت میں لاؤڈ اسپیکر ہندوستانیوں کے لیےمصیبت کا باعث ہے
از قلم : محمد فداء المصطفٰی کیا حقیقت میں لاؤڈ اسپیکر ہندوستانیوں کے لیےمصیبت کا باعث ہے
کیا حقیقت میں لاؤڈ اسپیکر ہندوستانیوں کے لیےمصیبت کا باعث ہے
آج کے پر تشدد دور میں جہاں مسلمانوں کے خلاف متعدد قسم کے پروپیگنڈے بنائے جارہے ہیں تاکہ مسلمانوں کو کسی بھی طرح سے ہندوستان سے نکال دیا جائے
کچھ دنوں کی بات ہے کہ پہلے بابری پھر تین طلاق ، (اب ایک طلاق کی باری) یکساں سول کورٹ، تیری پورہ تشدد، حجاب اور پھر لاؤڈ اسپیکر پر مسلمانوں کو نست و نابود کرنے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے ۔
اب ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں لاؤڈ اسپیکر کو لے کر کے مساجد کے معاملے پر پابندی عائد کی جا رہی ہو اور جتنے بھی سازشیں ، پروپیگنڈے اور چلاکیاں دکھائی جا رہی ہے
وہ فقط ہم مسلمانوں کو اس ہندوستان سے باہر بھیجنے کے لیے ہندوستان سے دربدر کرنے کے لیے ہی پروپیگنڈے بنائی جا رہی ہے۔
کیا ہندوستانی آئین اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ ایک طرفہ صرف ایک مذہب پر پابندی عائد کی جائے
حالاں کہ ہندوستانی دستور میں وضاحت کے ساتھ یہ لکھا ہوا ہے کہ اس ہندوستان میں تمام مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے مذہب کے اصول و ضوابط کے مطابق زندگی گزارنے کا پورا پورا حق ہے ان کے معاملات میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتا ہے۔
ہاں مگر ایک بات کہنا چاہتا ہوں ہو کہ اگر ہندوستانی دستور میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں سے سے لاؤڈ اسپیکر ہٹانے کی اجازت دے رہا ہے تو بالکل اسی طرح سے اس ہندوستان کے مختلف مذاہب کی عبادت گاہوں سے بھی لاوڈاسپیکر ہٹانے کی اجازت ملنی چاہیے
کیوں کہ اس ہندوستان میں سب ایک سامان ہیں سب کو عزت بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے سب کے سب برابر کے حقدار ہیں۔حالیہ دنوں میں ہندو تہواروں کے دوران ملک بھر میں پرتشدد واقعات اور مسلمان اقلیتی برادری کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کے ایک سلسلے کے بعد بھارت کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں مذہبی اجتماعات اور لاؤڈا سپیکر کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
یہ پابندی انتہا پسند ہندو رہ نما اور ریاست کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عائد کی ہے جنہوں نے پولیس کو مذہبی رہ نماؤں سے بات کرنے کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے 4 مئی تک پولیس اہلکاروں کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔آدتیہ ناتھ نے پولیس کو زیادہ محتاط رہنے کا حکم دیا کیوں کہ آئندہ چند دنوں میں کئی بڑے تہواروں کی آمد ہے
جن میں مسلمانوں کی عید الفطر اور ہندوؤں کا اکشے تریتیا تہوار شامل ہے۔ دونوں تہوار ممکنہ طور پر اگلے مہینے ایک ہی دن 3 مئی کو ہو سکتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے یہ بھی ہدایت کی کہ مذہبی پروگرام صرف مقررہ جگہوں پر ہی منعقد کیے جائیں۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے ساتھ ہی نہیں ہونا چاہیے
بلکہ اس ہندوستان کے جتنے بھی متفرق مذاہب ہیں جو اپنی اپنی عبادت گاہوں میں لاؤڈ اسپیکر کا استعمال کرتے ہیں ان تمام عبادت گاہوں سے لاؤڈ اسپیکر کو ہندوستانی آئین کے مطابق ہٹا دینا چاہیے
جس طریقے سے مسلمانوں کی مساجد سے لاؤڈ اسپیکر کو ہٹایا جا رہا ہے اس آئین اور دستور کے مطابق بقیہ تمام مذاہب کی عبادت گاہوں سے بھی لاؤڈ اسپیکر کو ہٹا دینا چاہیے کیونکہ بھائی یہ تو ہندوستان کا آئین ہے نا۔اور ہندوستان کا آئین صرف ایک مذہب کے لیے تو نہیں ہوسکتا ہے
اسی لیے جب ایک پالیسی یا تو ایک قانون لایا جا رہا ہے تو تمام مذاہب کے لیے ہوں گے نہ کہ صرف ایک مذہب کے لیے۔ سپریم کورٹ نے لاؤڈ سپیکروں کے استعمال کے لیے ایک رہ نما اصول متیعن کیا ہے۔
اس کے تحت اس کی آواز کی ایک حد طے کی گئی تھی۔ اس کے علاوہ رات دس بجے سے صبح چھ بجے تک لاؤڈ سپیکروں کے استعمال پر پابندی عائد ہے
کیوں کہ آئین کی دفعہ 21 کے تحت پر سکون نیند سونا انسان کے بنیادی حقوق کے دائرے میں شامل ہے۔ ایک شکایت کنندہ کا کہنا تھا کہ ان کے والد دل کے مریض ہیں۔ گذشتہ برس ان کا آپریشن ہوا ہے۔
لاؤڈ سپیکروں کے شور شرابے سے ان کے والد اور 73 برس کی والدہ کئی راتوں سے سو نہیں سکی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ خواہ وہ مندر ہو یا مسجد، کسی کو بھی دوسرے کا سکون غارت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
گذشتہ دنوں کیرالہ سے خبر آئی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت والے خطے ملاپورم میں بعض مسجدوں نے اذان کے لیے رضا کارانہ طور پر لاؤڈ سپیکرز کا استعمال بند کر دیا ہے تاکہ مقامی لوگوں بالخصوص غیر مسلموں کو تکلیف نہ پہنچے۔ ابھی کچھ عشرے پہلے تک یہاں مولویوں میں یہ بحث چھڑی ہوئی تھی کہ لاؤڈ سپیکر پر آذان دینا اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔
آج انڈیا کی لاکھوں مسجدوں میں شاید ہی ایسی کوئی مسجد ہو جہاں لاؤڈ سپیکرز نہ لگے ہوں۔ اور یہ سب جتنے معاملات ہو رہے ہیں
فقط مسلمانوں ان کے آنے والے نسلوں کی بربادی کے لیے حیالات چلا کیاں دکھائی جا رہی ہے ۔لیکن میں اس نئے نسل کے نوجوانوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ میرے دوستوں یہ ہندوستانی حکومت جو ہمیں مٹانے پر آمادہ ہے لاکھ کوشش کر لیں پھر بھی یہ مسلمانوں کو مٹا نہیں سکتی ہے
کیوں کہ یہ ایسی قوم ہے جسے مٹانے والا خود ہی مٹ گیا کیا نمرود نے خدائی کا دعویٰ نہیں کیا تھا
تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اسے ہلاک کر دیا پھر فرعون نے نے خود کو خدا سمجھا تو دریائے نیل میں اللہ تبارک و تعالیٰ سے غرق کردیا بڑے بڑے لوگوں نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اپنی قابلیت کو سب سے سے بہترین مانا لیکن کیا رہا آخر کار وہ لوگ بھی قبر میں سماگئے شداد نے بھی دعویٰ کیا تھا خدائی کا لیکن وہ بھی ابھی بھی ہلاک و برباد ہو گیا ۔
میرے دوستو تو آج آج خود کو تبدیل کرنے کا وقت ہے ہے خود کی صلاحیت کو پہچاننے کا وقت ہے ہمیں یہ لوگوں کو بتانا ہے کہ ہم نہ کسی کے آگے جھکے تھے نہ جھکے ہیں نہ جھکے گیں
ہم وہ قوم ہے جس کے اوپر پر نہ جانے کتنی ظلم ڈھائے گیے گئے بڑی سے بڑی مشکلات نے گھیر لیا زندگی میں بہت سارے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا لیکن یہ قوم تمام مشکلات اور تمام چیلنجز کا ہمت کے ساتھ سامنا کیا اور ہر میدان میں کام یاب ہوے بالکل اس طریقہ سے ہمیں آج آج خود کو خواب و غفلت سے بیدار کرنے کا وقت ہے
خود کو کو ثابت کرنے کا وقت ہے کہ آج ہم خود کے اوپر آ گئےتو پورے ہندوستان کا نقشہ بدل کر رکھ سکتے ہیں لیکن ہم اس عظیم ملک میں امن و امان وشانتی کے پیغام کو پھیلانا چاہتے ہیں اور کچھ نہیں ۔
اور قاری ایم انور رحمانی، سیالکوٹ کا کہنا ہے کہ: مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر پابندی نہیں ہونی چاہیے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے قرآن اور حدیث کی باتیں بتائی جاتی ہیں۔اور اذان دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ گھروں میں عورتیں ہوتی ہیں جو اذان کی آواز سن کر نماز ادا کرتی ہیں۔ جو لوگ اسے بند کرانا چاہتے ہیں میرے خیال میں وہ مسلمان نہیں۔
اور شیر یار خان، سنگاپور کا ماننا ہے کہ: لاؤڈ سپیکر کا استعمال ہر عوامی برائی کے لیے بھی بند ہونا چاہئے جیسا کہ موسیقی کے پروگرام۔
سیاسی جلسہ جلوس وغیرہ۔ معاشرے کو جن جن چیزوں سے تکلیف پہنچے ان تمام برائیوں پر پابندی ہونی چاہئے۔ بالکل ہند وستانی دستور کے مطابق تمام مذاہب کے ماننے والوں کو برابری کا حق ملنا چاہیے کسی کو بھی فرق کرنے کا حق حاصل نہیں ہے
اور اگر یہ مودی حکومت ہمیں مٹانا چاہتی ہے تو میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ
باطل سے دبنے والے ہیں آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
از قلم : محمد فداء المصطفٰی
دارالہدی اسلامک یونیورسٹی، ملاپورم کیرلا