مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی دینی ، علمی و تصنیفی خدمات
مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی دینی ، علمی و تصنیفی خدمات
از قلم : طفیل احمد مص
وطنِ عزیز ہندوستان کے علمی ، ادبی اور روحانی مراکز میں سے ایک اہم علمی و روحانی مرکز ” خانوادۂ فرنگی محل ” بھی ہے ، جہاں کے جلیل القدر علما و فقہا ، اربابِ شریعت و طریقت اور اصحابِ فضل و کمال نے علوم و فنون کی ترویج و توسیع اور مذہب و ملت کی تبلیغ و اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور ان بیش بہا کارناموں کے سبب اس مبارک خانوادے کو ” دار العلم و العمل ” اور ” ہندوستان کا کیمبرج ” کہہ کر پکارا گیا ہے ۔ علامہ غلام علی آزاد بلگرامی ” مآثر الکرام فی تاریخ بلگرام ” میں لکھتے ہیں :
اگر چہ جمیع صوبہ جاتِ ہند بوجوہ حاملانِ علم تفاخر دارند ، اما صوبۂ اودھ و الہٰ آباد خصوصیتے دارد کہ در ہیچ صوبہ نتواں یافت .یعنی اگر چہ ہندوستان کے تمام صوبے حاملانِ علم کے سبب قابلِ فخر ہیں ، لیکن صوبۂ اودھ و الہٰ آباد کو کچھ ایسی خصوصیات حاصل ہیں جو دوسرے صوبوں کو حاصل نہیں ۔ اربابِ علم و حکمت اور اصحابِ تصوف و معرفت کے سبب صوبۂ اودھ کو جو علمی امتیاز اور بلند مقام حاصل تھا ، اس کی ایک بڑی وجہ اس کے دائرے میں ” خانوادۂ فرنگی محل ” کا شامل ہونا بھی تھا ، جو پورے صوبۂ اودھ میں علم و ادب اور فکر و دانش کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا ۔ ملا قطب الدین شہید سہالوی ، بانیِ درسِ نظامی ملا نظام الدین فرنگی محلی ، بحر العلوم ملا عبد العلی فرنگی محلی اور علامہ عبد الحی فرنگی محلی و غیرہم کے دینی اور علمی کارناموں سے کون واقف نہیں ۔ اس علمی و روحانی خانوادے کا شجرۂ نسب ایک شاخ سے حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسری شاخ سے قبیلۂ انصار سے جا ملتا ہے ۔
خانوادۂ فرنگی محل کی علمی تاریخ کا آغاز حضرت علامہ قطب الدین شہید سہالوی ( متوفیٰ : 1103 ھ ) کی وفات کے بعد ان کے نام ور فرزند بانیِ درسِ نظامی ملا نظام الدین محمد فرنگی محلی ( متوفیٰ : 1161 ھ ) سے ہوتا ہے ۔ ملا قطب الدین شہید سہالوی اپنے وقت کے عظیم المرتبت عالم اور جامعِ معقول و منقول فاضل تھے ۔ پوری زندگی درس و تدریس میں گذاری ۔ دیارِ پورب میں علم کی ریاست آپ پر ختم ہو گئی ۔ اکثر علمائے ہند کا سلسلۂ تلمذ آپ پر منتہی ہوتا ہے سبحۃ المرجان کی یہ عبارت ملاحظہ کریں :
و الملا قطب الدین ( الشھید السھالوی ) امام الاساتذۃ و مقدام الجھابذۃ ، معدن العقلیات و مخزن النقلیات . صرف عمره فی شغل التدریس و انتھت الیه ریاسۃ العلم فی الفورب و سلسلۃ تلمذ اکثر علماء الھند تنتھی الیه .
( سبحۃ المرجان فی آثار ہندوستان ، ص : 147 ، مطبوعہ : دار الرافدین ، بیروت
بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر موصوف کی دینی و علمی خدمات سے کافی متاثر تھے ۔ ملا صاحب کے صاحب زادگان ( ملا محمد اسعد ، ملا محمد سعید ) کی خواہش پر اورنگ زیب عالم گیر نے لکھنؤ میں فرانسیسی تاجروں کے لیے ایک خالی کوٹھی 1694ء میں الاٹ کردی ۔ یہ کوٹھی ” حویلی فرنگی ” کہلاتی تھی ۔ ملا قطب الدین کے صاحب زادگان سہالی ( ضلع بارہ بنکی ، یوپی ) سے منتقل ہو کر فرنگی حویلی میں سکونت پذیر ہو گئے اور اس طرح قصبۂ سہال کا علمی سورج فرنگی محل کے ایوان میں جگمگانے لگا اور یہی خاندان آگے چل کر ” خانوادۂ فرنگی محل ” سے پوری دنیا میں مشہور ہوا ۔ ملا قطب الدین کے چھوٹے صاحب زادے ملا نظام الدین فرنگی محلی ( بانی درسِ نظامی ) نے اپنی بے پناہ علمی صلاحیتوں سے فرنگی محل کو دار العلم بنا دیا ۔ آج بر صغیر پاک و ہند میں درس نظامی کا جو نصاب رائج ہے ، یہ انہیں کا مرتب کردہ ہے ۔
آزاد بلگرامی لکھتے ہیں :
و انا دخلت لکناؤ فی التاسع عشر من ذی الحجہ سنۃ ثمان و اربعین و مائۃ و الف و اجتمعت بالملا نظام الدین فوجدته علیٰ طریقۃ السلف الصالحین و کان یلمع فی جبینه نور التقدیس
17 / ذی الحجہ 1148 ھ کو میں لکھنؤ گیا تھا اور ملا نظام الدین سے ملاقات کی تھی ۔ وہ سلف صالحین کے طریقے پر گامزن تھے اور تقدس کا نور ان کی پیشانی سے ہویدا تھا ۔
( سبحۃ المرجان ، ص : 177 ، بیروت )
تیرھویں صدی ہجری کے نصفِ اخیر اور چودھویں صدی کے نصفِ اول میں خانوادۂ فرنگی محل کے جن دو با کمال عالم اور مایۂ فاضل کا ملک و بیرونِ ملک خوب چرچا رہا اور جن کی ہمہ جہت دینی ، علمی ، تصنیفی اور سماجی خدمات نے پورے عہد کو متاثر کیا ، وہ حضرت علامہ عبد الحی فرنگی محلی ( متوفیٰ : 1304 ھ ) و حضرت مولانا قیام الدین عبد الباری فرنگی محلی ( متوفیٰ : 1344 ھ ) ہیں ۔ یہ دونوں رشتے میں سگے خالہ زاد بھائی تھے ۔ اول الذکر بزرگ درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں تا حیات مشغول رہے اور ثانی الذکر نے درس و تدریس اور تصنیف و تالیف کے علاوہ سیاسی و سماجی تحریکات میں بھی حصہ لیا اور عرب و عجم میں شہرت و ناموری حاصل کی ۔
مولانا عنایت اللہ انصاری فرنگی محلی کے بقول
آپ اور استاذ الاساتذہ مولانا عبد الحی ( فرنگی محلی ) رحمۃ اللہ علیہ حقیقی خالہ زاد بھائی تھے ۔ آخری دور میں یہ دونوں خالہ زاد بھائی عزت و شہرت ، علم و کمال کے چاند اور سورج تھے ۔ بحر العلوم ( مولانا عبد العلی فرنگی محلی ) کے بعد اربابِ فرنگی محل میں کسی کو ایسی شہرت کہ جو ہندوستان کے عوام و خواص ، علما و امرا ، شہر اور دیہاتوں سے گذر کر بیرونِ ہند عرب و عجم تک پہنچی ہو ، ان دونوں بھائیوں کے سوا اور کسی کو حاصل نہیں ہوئی اور اس امر میں تو حضرت استاذ ( مولانا عبد الباری ) اپنے تمام اسلاف پر سبقت لے گئے تھے کہ ان کی شہرت دنیائے اسلام سے گذر کر یورپ کے قصورِ سلاطین و اربابِ سیاست تک پہنچ گئی تھی ۔
( تذکرہ علمائے فرنگی محل ، ص : 106 ، اشاعت العلوم برقی پریس ، فرنگی محل ، لکھنؤ )
آپ مجدد اسلام اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان محدث بریلوی کے ہم عصر اور مکتوب الیہ بھی تھے ۔ آپ کا سلسلۂ نسب آٹھ واسطوں سے ملا قطب الدین شہید سہالوی سے جا ملتا ہے ، جو حسبِ ذیل ہے : قیام الدین محمد عبد الباری بن عبد الوہاب بن عبد الرزاق بن جمال الدین بن علاؤ الدین احمد بن انوار الحق بن احمد عبد الحق بن ملا محمد سعید بن ملا قطب الدین شہید سہالوی ۔ آپ کی ولادت 10 / ربیع الثانی 1295 ھ ؛ مطابق 14 / اپریل 1878 ء بروز اتوار فرنگی محل ، لکھنؤ میں ہوئی ۔ والد کا نام مولانا عبد الوہاب فرنگی محلی ہے ۔ جد امجد مولانا عبد الرزاق فرنگی محلی نے اپنے اس بلند اقبال پوتے کا نام ” قیام الدین محمد عبد الباری ” رکھا ۔ پانچ سال کی عمر میں رسمِ بسم اللہ
خوانی ادا کی گئی ۔ حفظِ قرآن کی تکمیل کے بعد درس نظامی کی تعلیم شروع کی اور میزان سے لے کر متوسطات تک اکثر کتبِ عربیہ کا درس مولانا عبد الباقی فرنگی محلی سے لیا ۔ قطبی مع حاشیۂ سید ، میبذی ، خلاصۃ الحساب ، اقلیدس ، تفسیر جلالین اور نفحۃ الیمن وغیرہ مولانا غلام احمد پنجابی سے پڑھا ۔ مطولات میں سے معقولات کی اکثر کتابیں مولانا عین القضاۃ علیہ الرحمہ سے پڑھیں اور مدینہ منورہ کے مختلف شیوخِ حدیث سے اجازتِ حدیث حاصل کر کے مروجہ علوم و فنون کی تحصیل سے فراغت پائی ۔ عہد طالب علمی سے ہی ابتدائی جماعت کے طلبہ کو درس دینے لگے تھے ۔ فراغت کے بعد باضابطہ درس و تدریس کا آغاز کیا ۔ تدریسی مشغولیات کا یہ عالم تھا کہ نمازِ فجر سے لے کر دس بجے دن تک اور ظہر کے بعد سے عصر تک اور بسا اوقات رات کو بھی تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ۔
آپ شروع سے کثیر المطالعہ واقع ہوئے تھے ۔ عادت کے مطابق رات زیرِ تدریس کتابوں کا مطالعہ نہایت انہماک کے ساتھ کرتے ۔ بعض اوقات رات کے دو اور کبھی تین بجے تک آپ کا مطالعہ جاری رہتا ۔ زمانۂ درس و تدریس میں دو پہر کو قیلولہ نہیں کرتے ، بلکہ مطالعۂ کتب میں مصروف رہتے ۔
فرنگی محل کے نونہالوں کے لیے بالخصوص اور دیگر مسلم بچوں کے لیے بالعموم ” مدرسہ نظامیہ ” کی بنیاد رکھی ، جہاں سے کثیر تعداد میں طالبانِ علومِ اسلامیہ نے اپنی علمی پیاس بجھائی ۔ اس مدرسہ میں از اول تا آخر آپ نے درس دیا اور شاگردوں کی ایک ٹیم تیار کی ۔ ( مصدرِ سابق ، ص : 106 ؛ 107 ؛ 108 ، مطبوعہ : فرنگی محل ، لکھنؤ ذاتی اوصاف و کمالات
: مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے ذاتی اوصاف و کمالات کا ایک جہاں قائل ہے ۔ علم و عمل اور اخلاص کے مثلّث اور مروجہ علوم و فنون میں یکتائے روزگار تھے ۔ حسنِ اخلاق اور خوبیِ کردار میں بے مثال تھے ۔ قادرِ مطلق نے ان کو بیشمار اوصاف و کمالات سے نوازا تھا ۔ وہ بیک وقت عالم و فاضل ، حافظ و مدرس ، مفتی و محدث ، شیخِ طریقت ، مفکر و محقق ، مصنف و مؤلف ، سیاسی قائد اور قومی رہنما تھے
سید سلیمان ندوی ( تلمیذ شبلی نعمانی ) نے ان کے اوصاف و کمالات کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے :
فرنگی محل کے متاخرین میں حضرت استاذ استاذی مولانا عبد الحی کے بعد مولانا عبد الباری کی ذات نمایاں تھی ، جو بزرگ اجداد کی بہت سی روایات کی حامل تھی
۔ ارشاد و ہدایت ، وعظ و نصیحت ، درس و تدریس ، تلاش و مطالعہ ، تحریر و تالیف ان کے روزانہ مشاغل تھے ۔ ان دینی و علمی مناقب کے ساتھ دین و ملت کی راہ میں ان کا جاں فروشانہ جذبہ اور مجاہدانہ اخلاص ہمرنگِ شہدا تھا ۔ ذاتی اخلاق ، جود و سخا ، تواضع و انکسار ، علم کی عزت ، صداقت و حق گوئی ، ان کے اوصافِ گراں مایہ تھے ۔ وہ بے کسوں کے ملجا ، مسافروں کے ماویٰ اور تنگ دستوں کے دستگیر تھے
۔ عبادت گزار ، شب زندہ دار اور حق کے طلب گار تھے ۔ ہندوستان میں ان کی ذات ذی اقتدار علما کی حیثیت سے اس وقت فرد تھی ۔ جدید تعلیم یافتوں کی سیاسی جد و جہد کو مذہبی تحریک بنا دینا ، یقیناً انہیں کا کارنامہ شمار کیا جائے گا ۔ اس لیے ان کی یہ غیر متوقع موت صرف فرنگی محل کا نہیں ، بلکہ اسلام کا سانحہ ہے اور بنا بریں ان کی جواں مرگی ہمیشہ کے لیے تاریخ اسلام کا ایک اندوہناک واقعہ شمار ہوگا ۔
( یادِ رفتگاں ، ص : 56 ؛ ناشر : دار المصنفین ، اعظم گڑھ ، یوپی ) سیاسی بصیرت و ملی قیادت : برّ صغیر پاک و ہند کے علمائے اہل سنت نے دیگر دینی و علمی کارناموں کے علاوہ ملکی سیاست و ملی قیادت میں بھی حصہ لیا ہے اور قوم و ملت کی فلاح و بہبود کے لیے بے مثال قربانیاں پیش کی ہیں ۔ علامہ فضل حق خیر آبادی ، صد الافاضل علامہ نعیم الدین مرادآبادی ، حضرت محدث اعظم ہند ، رئیس المحققین علامہ سید سلیمان اشرف بہاری و غیرہم کے سیاسی شعور اور قائدانہ بصیرت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا عبد الباری فرنگی محلی کے سیاسی کارناموں اور سماجی کارگزاریوں کو ہم کسی صورت فراموش نہیں کر سکتے ۔
بیسویں صدی عیسوی میں مسلم قیادت کی باگ ڈور جن اولو العزم علمائے کرام کے ہاتھوں میں تھی ، موصوف ان میں سے ایک تھے ، بلکہ اس معاملے میں مختلف جہتوں اپنے ہم عصروں میں منفرد و ممتاز تھے ۔ یہ اقتباس ملاحظہ کریں اور ملی قیادت کے حوالے سے ان کی تہہ دار فکر و شخصیت کا اندازہ لگائیں :
” حضرت مولانا قیام الدین محمد عبد الباری فرنگی محلی چودھویں صدی ہجری کے نصفِ اول کی وہ مقتدر شخصیت ہے ، جس کے محور پر عہدِ جدید کی ہندوستانی مسلم تاریخ بلکہ ہندستانی سیاست کی جدید تاریخ بڑی حد تک گردش کرتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ “
( ممتاز علمائے فرنگی محل ، ص : 179 ، ناشر : مکتبہ ایوبیہ ، کشی نگر ، یوپی )
غرض کہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی ذات بیشمار اوصاف و خصوصیات کی حامل تھی ۔ مروجہ علوم و فنون میں مہارتِ تامہ حاصل تھی ۔ زندگی کا بیشتر بڑا حصہ درس و تدریس اور وعظ و تلقین میں بسر کیا ۔ علاوہ ازیں ملکی سیاست میں بھر پور حصہ لیا ۔ آپ کا سیاسی شعور بڑا گہرا تھا ۔ حالاتِ
حاضرہ پر کڑی نظر تھی ۔ قومِ مسلم کے روشن مستقبل کے لیے ایک سیاسی پلیٹ فارم پر آپ نے بہت دنوں تک گاندھی جی کے ساتھ مل کر کام کیا اور آخر میں ان سے علاحدہ ہو گئے
۔ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کی سیاسی جد و جہد کو مذہبی تحریک میں بدل دینا اور اس پلیٹ فارم سے قومی و ملی قیادت کا فریضہ انجام دینا ، آپ کی سیاسی بصیرت اور مضبوط حکمت عملی کی روشن دلیل ہے ۔ مولانا موصوف ایک درد مند دل لے کر دنیا میں آئے تھے اور اپنی قوم کو خوش حال دیکھنا چاہتے تھے ۔
یہی وجہ ہے کہ وہ قومی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ کوشاں رہتے اور دنیا میں جہاں کہیں مسلمانوں پر ظلم ہوتا ، مسلم مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی جاتیں ، آپ تڑپ اٹھتے اور اپنے سیاسی اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ان مظالم کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے ۔ ہندوستان میں ہند و مسلم اتحاد کی دعوت سب سے آپ ہی نے دی ، جس سے دینی طبقے میں اضطراب بھی پیدا ہوا ، لیکن آپ اس کی پرواہ کیے بغیر اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور اسلامیانِ ہند کی ہمہ جہت ترقیوں کے لیے تا دمِ حیات کوشاں رہے ۔
مولانا عنایت اللہ انصاری ، مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی سیاسی سرگرمیوں اور مختلف تحریکات سے ان کی گہری وابستگیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
جنگ بلقان ، اس کے بعد مسجد کان پور کا واقعہ ، پھر ترکوں کے ساتھ لارڈ جارج کے شرم ناک ظلم کے پے در پے ایسا واقعات پیش آئے جنہوں نے عالمِ اسلامی میں تلاطم پیدا کردیا اور یہ صاف نظر آنے لگا کہ یورپ کے اقتدار پسند اور اسلام کے دشمن مسلمانوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینے پر تلے ہوئے ہیں تو مولانا عبد الباری صاحب علمائے حقانی کے طور پر دلیرانہ اور اور مجاہدانہ طور پر سیاسیاتِ مذہبی میں کمال
سرگرمی اور جاں فروشی سے منہمک ہو گئے اور خدام کعبہ ، خلافت کمیٹی اور جمعیۃ العلماء کا سنگ بنیاد رکھا اور یہ ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے کہ جمعیۃ العلماء اور خدام کعبہ کے بانی و مؤسس حضرت استاذ ہی تھے اور مجلسِ خلافت کو ہندوستان کے تمام اہلِ اسلام کی عام تحریک و اشاعت کرنے میں مولانا ہی کا قدم سب سے آگے تھا
۔ اس کے ابتدائی انتظامات و مصارفِ قیام آپ ہی کے مبارک ہاتھوں انجام پائے ۔ بہر حال ان تمام تحریکات میں مولانا نے دامے درمے سخنے قدمے جو کوششیں کی ہیں ، وہ اخبار بیں حضرات خوب جانتے ہیں ۔
( تذکرہ علمائے فرنگی محل ، ص : 110 ؛ 111 ، مطبوعہ : اشاعۃ العلوم برقی پریس ، فرنگی محل ، لکھنؤ آپ حالات کے تقاضوں کے تحت اگر چہ ہندو مسلم اتحاد کے قائل تھے ( شاید آپ کی نظر میں اس کی کوئی وجہِ شرعی رہی ہو ) مگر ایمان و عقائد کے معاملے میں سخت تھے اور اس باب میں کسی قسم کی مداہنت کے قائل نہیں تھے اور اس کی سب سے مضبوط دلیل آپ کے حکم سے فرنگی محل میں اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور اور حفظ الایمان کا نذرِ آتش کیا جانا ہے اور یہ کام وہی کر سکتا ہے یا کروا سکتا ہے ، جو عقائد کے معاملے میں غایت درجہ متصلب ہو ۔
اس حوالے سے مفتی محمود احمد رفاقتی مظفر پوری لکھتے ہیں : آپ کو تمام علوم میں تبحرِ تام حاصل تھا ۔ فاضل بریلوی مولانا احمد رضا آپ کو ” فاضلِ اکمل ” کہتے تھے ۔
حرمین طیبین کی زیارت سے واپسی ( 1323 ھ ) کے بعد مدرسہ نظامیہ میں درس و تدریس میں مشغول ہوئے ۔ پوری قوت سے درس دیتے تھے ۔ پہلے مختلف فنون سے دلچسپی تھی ۔ آخر میں صرف حدیث شریف پڑھاتے تھے ۔ بڑے بڑے علما اور فضلا نے آپ سے اخذِ علوم کیا ۔ آپ کو سیاست سے بھی دلچسپی تھی ۔ مسٹر گاندھی کو آپ ہی کی ذات سے
شہرت نصیب ہوئی ۔ مگر اعلیٰ حضرت امام اہل سنت مولانا شاہ احمد رضا بریلوی علیہ الرحمہ کی توجہ دلانے پر مسٹر گاندھی کا ساتھ چھوڑ دیا ۔ بقیعِ مبارک ، مدینہ طیبہ اور جنت المعلیٰ مکہ معظمہ کے مزارات کے انہدام اور آلِ سعود کے مظالم و جفا کی آپ نے سخت مخالفت کی ۔ آپ ہی کے حکم سے مولوی اشرف علی تھانوی کی بہشتی زیور اور حفظ الایمان ، فرنگی محل میں جلائی گئی تھی ۔ آپ نے مولوی تھانوی کو حفظ الایمان کی کفری عبارت سے توبہ کے لیے بار بار متوجہ کیا ، مگر ان کو توبہ کی توفیق نصیب نہ ہو سکی
تذکرہ علمائے اہلِ سنت ، ص : 173 ؛ 174 ، سنی دار الاشاعت علویہ رضویہ ، فیصل آباد ، پاکستان ) مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی ہمہ گیر خدمات کا ایک روشن اور تابناک پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے مختلف موضوعات پر ایک سو سے زائد کتب و رسائل تصنیف کیے ہیں ۔ آپ کا شمار ہندوستان کے صاحبِ تصانیفِ کثیرہ علما و مصنفین میں ہوتا ہے ۔
آپ کی پوری زندگی درس و تدریس ، اشاعتِ دین اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی اور کثیر تعداد میں کتابیں لکھیں ۔ میری ناقص معلومات کی حد تک علامہ عبد الحی فرنگی محلی کے بعد آپ اس خانوادے کے دوسرے کثیر التصانیف عالم و فاضل ہیں ۔ آپ کی تصنیفی خدمات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ تبلیغی اسفار اور ملی و سیاسی سرگرمیوں میں ہمہ تن مصروف رہنے کے با وجود اتنی وافر مقدار میں کتابیں آپ کے قلمِ اعجاز رقم سے کیسے وجود میں آ گئیں !!
ان کی تصنیفی خدمات کے حوالے سے سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں :
فرنگی محل ( لکھنؤ ) میں مدرسہ نظامیہ کے نام سے ایک باقاعدہ مدرسہ عربیہ کی بنیاد ڈالی اور اس کو باقاعدہ مدرسہ بنا دیا ، جس سے متعدد اصحابِ فکر اور اہلِ قلم طلبہ پیدا ہوئے ۔ انہوں نے اپنے بعد اپنی تالیفات و تصنیفات کی فہرست یادگار چھوڑی ہے ۔ وہ فقہِ حنفی کے پُر جوش حامی تھے اور ان کی قلمی و علمی کوششیں زیادہ تر اسی کے متعلق صرف ہوتی رہیں ۔ ان کی چھوٹی بڑی تصنیفات و رسائل کی فہرست سو ( 100 ) کے قریب ہوگی ، جن میں سب سے زیادہ مفید و کار آمد ان کی اردو تفسیر تھی جو افسوس کہ ناتمام رہی ۔
امام محمد کی ” سیر کبیر ” کا کام بھی ان کے پیش نظر تھا ۔ علمِ حدیث میں بھی ان کے ایک دو رسالے ہیں ۔
( یادِ رفتگاں ، ص : 57 ، ناشر : دار المصنفین ، اعظم گڑھ ، یوپی ) تذکرہ علمائے فرنگی محل ، ص : 116 ؛ 117 میں آپ کے مندرجہ ذیل کتب و رسائل کی فہرست پیش کی گئی ہے
علمِ صرف
( 1 ) تحفۃ الاخوان ( 2 ) ہدیۃ الخلان ( 3 ) المنتخب ( 4 ) سلسلۃ الذہب ( 5 ) تسہیل الصرف ( 6 ) جامع الفوائد ( 7 ) ارتقاء الشرف ( 8 ) شرح ہدایۃ الصرف ( 9 ) شرحِ فصولِ اکبری ( 10 ) مقدمۃ الصرف علمِ نحو :
( 11 ) نور الصباح شرح المصباح ( 12 ) ہدیۃ الطلبہ ( 13 ) شرح ہدایۃ النحو ( 14 ) حاشیہ الفیه علمِ حکمت و فلسفہ : ( 15 ) تحفۃ الاصحاب ( 16 ) عین الصواب ( 17 ) حاشیۃ النافعہ علی ظفرۃ الزاویه ( 18 ) رسالہ فی الھیئۃ القدیمہ و الجدیده
علمِ منطق
: ( 19 ) اعتصام الاذہان ( 20 ) شرح ایسا غوجی ( 21 ) تقریب الاذہان علمِ فقہ :
( 22 ) الانصاف فی الاوقاف ( 23 ) الدرر الفاخرہ للذریۃ الطاہرہ ( 24 ) العمل المغفور ( 25 )رحمۃ الغفور ( 26 ) خیر الزاد ( 27 ) الفیض الربانی ( 28 ) قرۃ العیون ( 29 ) حیات اولی الالباب الحظر ( 30 ) رسالہ تحقیق الجزیه ( 31 ) احقاق السماع ( 32 ) احسن القربات ( 33 ) رجم الشیطان ( 34 ) غایۃ المامول ( 35 ) القول المؤید ( 36 ) کشف الحال ( 37 ) طعن السنان ( 38 ) التعلیق المختار ( 39 ) رسالہ فی مسائل الطہارۃ ( 40 ) ذب الطاعنین ( 41 ) خیر الدعاء ( 42 ) الحرز المصنون ( 43 ) رحمۃ الامۃ ( 44 ) صرع الجان ( 45 ) فتاویٰ قیام الملۃ و الدین ( 46 ) تعلیق الازہار ( 47 ) البیان المسلم فی ترجمۃ الکلام المبرم فی نقص القول المحکم ( 48 ) العمل الماجور بترجمۃ المبرور فی رد القول المنصور ( 49 ) الحج المغفور فی ترجمۃ السعی المشکور فی المذھب الماثور ( 50 ) محاسنِ جمیلہ ( 51 ) سوق الایمان ( 52 ) رسائل متعلق ذبیحہ ( 53 ) الاصلاح
علمِ فرائض :
( 54 ) کتاب الفرائض ( 55 ) حاشیۂ سراجیہ ( 56 ) الاظہار فی توریث الاماء و الاصہار ( 57 )
علمِ کلام :
( 58 ) غایۃ الکلام ( 59 ) زبدۃ الفرائد ( 60 ) کتاب العقائد ( 61 ) سائنس و کلام
اصولِ فقہ ( 62 ) ملہم الملکوت شرح مسلم الثبوت ( 63 ) نھایۃ الانکشاف فی درایۃ الاختلاف ( 64 ) اعجاز الابصار شرح المنار
علمِ حدیث
( 65 ) الآثار المحمدیہ ( 66 ) الآثار المتصله ( 66 ) الدرۃ الباھره فی الاحادیث المتواتره ( 67 ) شفاء الصدور ( 68 ) راحۃ الفواد ( 69 ) الارشاد فی الاسناد ( 70 ) الباقیات الصالحات ( 71 ) الہیاکل المعنویه فی شمائل النبویه ( 72 ) اربعینِ حدیث ( 73 ) آثار
الامامۃ ( 74 ) الاربعین الزاجره فی الحوادث الحاضره ( 75 ) الذھب المؤید فی ما ذھب الیه احمد ( 76 ) ھدیۃ الطیبه لصلۃ ابن شیبه ( 77 ) الذب عن ابی حنیفه ( 78 ) ……. بہ ابن قتیبۃ< علمِ تفسیر :
( 79 ) فیض القادر تفسیر آیۃ الغافر ( 80 ) بیان القرآن ( 81 ) تفسیر الطاف الرحمٰن
>سیرت و سوانح : ( 82 ) تنویر الصحیفه ( 83 ) شہادت الحسین ( 84 ) تنشیط الحبین ( 85 ) رساله فی الوفات ( 86 ) رسالہ فی المعراج ( 87 ) مختصر التاریخ ( 88 ) اصول التاریخ ( 89 ) الآثار الاول ( 90 ) ( 91 ) تحفۃ الاخلاء ( 92 ) ( 93 ) جلاء الابصار ( 94 ) ( 95 ) الہدیۃ المنیفه ( 96 ) الرحلۃ الوافیه ( 97 ) الرحلۃ الحجازیه ( 98 ) حیرۃ المسترشد لوصال المرشد ( 99 ) عرس حضرت بانسہ ( 100 ) ملفوظ حضرت سید السادات ( 101 ) مقدمۃ التعلیق المختار علی کتاب الآثار ( 102 ) تسھیل المنھج فی اسماء رجال کتاب الحج ( 103 ) مقدمه حاشیۂ سیر صغیر و سیر کبیر تصوف و سلوک :
( 104 ) افضل الشمائل ( 105 ) سبیل الرشاد ( 106 ) رسالۂ نصیحت ( 107 ) رسالۃ التوبه ( 108 ) نظم الفرائد ( 109 ) محاسنِ یوسفی ( 110 ) حاشیۂ فصوص الحکم ( 111 ) رسالۂ اذکار و اشغال ( 112 ) علمِ ادب :
( 113 ) حاشیۂ حماسہ ( 114 ) شرحِ قصیدہ بردہ
مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی ان تصانیف کے علاوہ مختلف کتبِ درسیہ پر حواشی ہیں ۔ جیسے : حاشیۂ شرحِ سلم قاضی ، حاشیۂ میر زاہد ، حاشیہ علیٰ حاشیہ غلام یحییٰ بہاری ، حاشیۂ شرحِ ہدایت الحکمت ، حاشیۂ شمسِ بازغہ ، حاشیۂ نور الانوار ، حاشیۂ اصول بزدوی ، حاشیۂ شرحِ مشکوٰۃ اور رسالۂ سائنس و کلام جس کی 34 / جلدیں ہیں اور ان میں سے صرف ایک جلد شائع ہوئی ہے
اہلِ علم و قلم سے درد مندانہ گذارش :
اسلافِ کرام کے علمی سرمایے کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے ۔ زندہ قوم اپنے بزرگوں کی علمی ، ادبی اور تحقیقی کاوشوں کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتی ۔ اربابِ علم و قلم کی بارگاہ میں دست بستہ گذارش ہے کہ وہ مولانا عبد الباری فرنگی محلی علیہ الرحمہ کے مذکورہ بالا کتب و رسائل کو زمانے کی دست برد سے بچائیں ۔ انہیں سرِ نو ایڈٹ کریں اور ضرورت کے مطابق ان کا ترجمہ و تشریح و تسہیل و تخریج کر کے منظرِ عام پر لائیں ۔