شہر اور گاؤں ، فوائد اور نقصان
شہر اور گاؤں ، فوائد اور نقصان
تحریر: توصیف القاسمی (مولنواسی) مقصود منزل پیراگپور سہارن پور واٹسپ نمبر 8860931450
گاؤں کی خوبصورتی اور سادگی پر بہت کچھ لکھا گیا ہے بے پناہ اشعار مضامین ناول اور کہانیاں موجود ہیں ، قلم کاروں نے جب بھی حسن و جمال کی منظر کشی کی ہے تو گاؤں کی زندگی کی منظر کشی ضرور کی ہے گاؤں کی صبح وشام کی تعریف کی ہے بہتے پانی جھرنوں نالوں کو اپنی شاعری میں جگہ دی ہے گاؤں کی بھولی بھالی لڑکی پر ناول لکھے ہیں گاؤں اور برسات کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے جبکہ موسم برسات کسانوں کی خوشیوں بھری چھٹیاں ۔
یہ سچ ہے کہ شہروں میں کچھ فائدے ہیں مثلاََ اسکول کالج ہاسپٹل اور کاروبار کی سہولتیں ہیں ملازمت وغیرہ شہروں میں ہی ہیں ، آنے جانے کی بے پناہ آسانیاں ہیں
یہ تمام چیزیں گاؤں میں دستیاب نہیں ہوتی ، مگر گاؤں میں جو چیز سب سے اہم ہوتی ہے وہ ہے گاؤں والوں کا آپس میں مل جل کر رہنا ، ایک دوسرے کے کام آنا اسی روش سے ان کے بہت سے مسئلے حل ہوجاتے ہیں ۔
شہری زندگی میں کام گھر اور موبائل کے علاوہ کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا مگر گاؤں میں کام گھر موبائل کے علاوہ آج بھی بیٹھکیں آباد ہیں ، حقہ پارٹیوں نے کووڈ 19 کے بعد دوبارہ جنم لے لیا اور ان پر خوب قہقہے بلند ہوتے ہیں دنیا جہان کی خبریں حقے کے نے پکڑ تے شروع ہوجاتی ہیں ۔
راقم الحروف ابھی 15/ اگست 2024 کو یومِ آزادی کے موقع پر گاؤں گیا عین اسی وقت یعنی 14/ اگست کی شام کو مغرب کے بعد ہمارے خاندان کے ایک بزرگ حاجی محمد اقبال ( بالا ) کا انتقال ہوگیا
اس موقع پر گاؤں اور خاندان کیا ہوتا ہے ، محبت اور تعلق داری کیوں ضروری ہے ، ان چیزوں کی اہمیت سمجھ میں آگئی ، میں نے دیکھا ماشاءاللہ تقریباً پوری برادری اور خاندان کفن دفن اور قبر کھدائی وغیرہ جیسے امور میں شریک ہے اور ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے ، کنبے خاندان اور برادری کی خواتین اکٹھی ہوگئی جو میت کے گھرانے کی روتی بلکتی خواتین کو صبر کی تلقین کر رہی ہیں ۔
کام کرنے والے مزدور اور کسان حضرات نے موت کی خبر سن کر چھٹی کرلی ہے ، جب کہ میت کے پڑوسی مہمانوں کے لیے کھانے کے انتظام میں لگ گئے ہیں ۔۔
تمہارے شہر میں میت کو سب کاندھا نہیں دیتے مارے گاؤں میں چھپر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں جلا وطن ایک بڑے مفکر سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کو اپنا وطن شہر گاؤں گلیاں بھی یاد آتی ہیں ؟ انہوں نے کہاکہ انسان صرف علم عقل اور نظریات کا نام نہیں ہے بلکہ انسان کے اندر جذبات اور خون کا بھی بہت بڑا حصہ ہے ، جذبات اور خون ہی سے تعلقات رشتے ناطے ماں باپ بھائی بہن اور خاندان کا وجود ہوتا ہے اور وہی درحقیقت اصل”انسان“ ہے ، انسان ان ہی رشتوں سے محبت کرتا ہے ان کے لئے جیتا اور مرتا ہے ان کی عزت کو اپنی آن بان اور شان سمجھتاہے خوشی اور غمی کے موقعوں پر ان ہی رشتوں کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے
اپنے بیوی بچوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیرنے کے لئے زمانے کے غم سمیٹتا ہے کبھی کبھی تو اپنا گاؤں خاندان اور رشتے ناطوں کی گھیرا بندی سے بھی نکل پڑتا ہے جو اس کے لیے ایک کڑوا گھونٹ ہوتا ہے ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گاؤں کی زندگی انسان دوستی کے اردگرد گھومتی ہے جبکہ شہری زندگی دولت اور دولت سے پیدا شدہ عیبوں کے اردگر ۔
میں نے شہروں میں کتنے ہی جنازے دیکھے ہیں ایسی بھی اولاد دیکھی ہے جو باپ کو دفن کرتے ہی کام پر نکل گئی اور پھر کبھی قبرستان کی طرف یا دعائے مغفرت کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا
ایک بدنصیب خاتون کا انتقال ہؤا اس کا شوہر اس دن بھی شراب کے نشے میں چور تھا اور اسی ڈگمگائی حالت میں وہ چارپائی کو کندھا دے رہا تھا ، بجنور کے ایک صاحب کا انتقال ہؤا بیوی پہلے ہی انتقال کرچکی تھی وارثوں میں تین معصوم بیٹیاں تھی اور بس! گھر بار رشتے دار خاندان بھائی بہن نام کی کوئی چیز نہیں جس گھر میں لاش رکھی ہوئی تھی اس کا کئی مہینوں کا کرایہ بھی باقی تھا ، انتہائی کسم پرسی کی حالت میں محلے کے مسلمانوں نے مل جل کر کفن دفن کا انتظام کیا
اب سوال تین معصوم بچیوں کا تھا ، شہر کے سارے مال دار اپنی عیاشی میں مست تھے کوئی آگے نہیں بڑھا ، بیچاریوں کے گھر میں غربت سر چڑھ کر بول رہی تھی
ایک غریب مسلمان نے ان پر رحم کھایا اور اپنی روٹی میں سے آدھی ان تین بچیوں کو دینے پر راضی ہوگیا مگر ان بچیوں کی وجہ سے جلدی ہی گھر میں ہنگامہ برپا ہونے لگا ، بات پولیس اسٹیشن تک پہنچ گئیں اور پھر بچیوں کا کیا ہؤا کچھ پتا نہیں ؟
یہ ہی بچیاں گاؤں میں ہوتی تو گاؤں والے جیسے تیسے کرکے پالتے بھی اور شادی بھی کرتے ، ان کی عزتوں کی حفاظت بھی کرتے عید و بقرہ عید پر ان کو اپنی خوشیوں میں شریک بھی کرتے اور سب سے بڑھ کر ان کے باپ کو عزت کے ساتھ دفناتے بھی ۔
آج بھی گاؤں میں کچھ کچے مکانوں والے گھر میں ہمسائے کے فاقہ نہیں ہونے دیتے
تحریر: توصیف القاسمی
(مولنواسی) مقصود منزل پیراگپور سہارن پور واٹسپ نمبر 8860931450