علامہ عبدالشکور مصباحی علیہ الرحمہ کی شخصیت

Spread the love

حضرت استاذ محترم علامہ عبدالشکور مصباحی علیہ الرحمہ کی شخصیت سے متعلق کئی سالوں پرانی تحریر ۔ مسلسل سفر کی وجہ سے آج لیپ ٹاپ سے نکال کر یہ تحریر شیئر کی جا رہی ہے اور چوں کہ یہ ان کی حیات میں لکھی گئی تھی ، اس لیے اس کے جملوں میں حیات کی عکاسی ہے۔ 

محدث جلیل : استاذ جلیل

خالد ایوب مصباحی شیرانی

چیف ایڈیٹر: ہندی ماہ نامہ ’’احساس‘‘ جے پور، راجستھان

تعلیم و تربیت کے انداز سکھانے والی کتابوں میں ایک کام یاب و کامل استاذ کے لیے جن جن خوبیوں کا ذکر ملتا ہے، اللہ رب العزت کا بے پناہ شکر ہے کہ استاذ مکرم، محدث جلیل حضرت علامہ عبد الشکور صاحب قبلہ مصباحی شیخ الحدیث؛ جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کو ان اعلی ترین معلمانہ خوبیوں کا بدرجہ اتم حامل پا کر اپنا ’’استاذ‘‘ کہتے اور سمجھتے ہوئے زبان و دل فخر محسوس کرتے ہیں

آئیے! اس اجمال کی تفصیل اور دعوے کی دلیل جاننے کے لیے آنے والے چند اوصاف و حقائق اور واقعات و شواہد کا مطالعہ کریں اور بیک وقت یہ جانیں کہ ایک سچے معلم کی کیا کیا خوبیاں ہونی چاہیے اور حضرت محدث جلیل دام ظلہ کے اس سلسلے میں کیا کچھ امتیازات ہیں۔

طلبہ کا خیال

فقیر راقم الحروف نے تین سالہ زمانہ طالب علمی میں ذرا دور سے اور دو سالہ زمانہ تربیت تدریس میں بہت قریب سے حضرت والا کا یہ وصف خاص طور پر نوٹ کیا کہ آپ طلبہ کا بھر پور خیال رکھتے ہیں۔ ان کی راحت و تکلیف کا بھی اور ان کی تعلیم و تربیت کا بھی۔ بلکہ ان کا بھی اور ان کے سرپرستوں کا بھی ۔ طلبہ کے حال کا بھی اور ان کے مستقبل کا بھی۔

گاہے گاہے غیر حاضر رہنے والے طلبہ کو جس دردمندانہ اور حکیمانہ اسلوب میں سمجھاتے ہیں، اس وقت آپ کا انداز تکلم بھی اور انداز تفہیم بھی، دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس وقت آپ کی زبان سے نکلنے والے درد مندانہ الفاظ دل میں اتر جانے والے ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے کوئی لٹا پٹا مہربان سرپرست کسی بے پرواہ نو خیز کے سامنے اپنی آنکھوں دیکھی تباہیوں کے حالات و تجربات شیئر کر رہا ہو۔

کبھی کبھار اس لہجے میں ذرا کرختگی بھی آجاتی ہے اور تفہیم زجر کی صورت اختیار کر لیتی ہے، لیکن انسانی نفسیات کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہوں گے کہ یہ انداز ٹھیک فطرت کے مطابق ہے۔ آخر ایک تاراج کارواں کا حشر دیکھنے والے بوڑھے کی غیرت یہ کب گوارا کرے گی کہ اس کے ہاتھوں میں کھیلنے والی نئی نسل بھی اسی تباہی کی ڈگر پر جائے

جس پر وہ کڑھن محسوس کر رہا ہے۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ اگر وہ نسل کسی بھی طور پر راستہ بدلنے کے لیے تیار نہ ہو تو کیا اس وقت اس خیر خواہ اور درد مند بوڑھے کی حمیت بھڑک بھڑک نہیں اٹھے گی اور کیا اس وقت اس کا انداز تخاطب تمام تر لسانی و ادبی تکلفات سے بالا تر ہو کر بالکل سادگی اور کرختگی کے سانچے میں نہیں ڈھل جائے گا ؟؟؟

نماز کی تاکید

تعلیمی ماحول کی بہتری کے بعد آپ کی نصیحتوں کا جو سب سے نمایاں حصہ ہوتا ہے، وہ ہے نماز کی تاکید ۔ آپ اس سلسلے میں کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ راقم الحروف نے نوٹ کیا کہ عرس حافظ ملت کے موقع پر جب تمام اسٹاف اور انتظامیہ کی حضرت سربراہ اعلی ادام اللہ فیضہ کی قیادت میں میٹنگ ہوتی ہے تو حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ کی سب سے زیادہ تاکید اس موقع پر یہ ہوا کرتی ہے کہ دوران عرس زائرین و حاضرین کو پنج وقتہ نمازوں کے لیے کیسے لے جایا جائے؟ اس کے لیے بہتر سے بہتر اقدامات ہونے چاہیے۔

الحمد للہ حتی المقدور اس کے لیے نت نئی تدابیر استعمال میں لائی جاتی ہیں اور بہت حد تک اس چیز کا اثر بھی نظر آتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کبھی تربیت یافتہ اضافی مبلغین کا اہتمام کیا جاتا ہے تو کبھی فارغ ہونے والے طلبہ ہی کو اس کام پر مامور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنے مہمانوں کو، اپنے ساتھ پنج وقتہ نمازوں کے لیے لے کر آئیں وغیرہ۔

اسی طرح دوران درس بھی نماز باجماعت کی تاکید آپ کی تربیت کا اہم ترین حصہ ہوا کرتی ہے۔ہم نے یہ محسوس کیا کہ بھلے وقتی طور پر ہی سہی آپ کی اور حضرت صدر العلما علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کی نماز سے متعلق نصیحتوں کا اثر صاف دیکھنے میں آتا ہے۔ آپ حضرات کی نصیحتوں کے بعد مسجد کی رونق میں محسوس اضافہ ہوتا ہے۔

شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ آپ حضرات ایک طرف جہاں حضر سے لے کر سفر تک، نمازوں کے سخت پابند ہیں، وہیں بے پناہ حق گو، حق پسند اور بے نفس بھی ہیں۔ راقم ان دونوں شخصیات کی بات اس لیے کر رہا ہے کہ ان کے تعلق سے یہ اس کا اپنا مشاہدہ ہے، امید ہے ہر ناصح صلات کا یہی انداز ہو اور یہی نتیجہ بھی ہو ۔

فضول خرچی

جس طرح حضرت محدث جلیل دام ظلہ طلبہ کی تعلیمی غفلتوں اور تضییع اوقات کی عادت بد سے شاکی رہتے ہیں، اسی طرح ان کی رسمی بے راہ رویوں پر بھی سخت کڑھن محسوس کیا کرتے ہیں۔ بالخصوص جامعہ اشرفیہ کے طلبہ اپنی دستار بندیوں کے موقع پر جس قسم کے تکلفات کیا کرتے ہیں، آپ ان سے سخت بیزار رہتے ہیں اور اسی وجہ سے کسی فارغ ہونے والے طالب علم کی ایسی دعوت میں شریک نہیں ہوتے۔

کیوں کہ عاقبت نا اندیش طلبہ کا یہ جذبہ رسم پروری اتنا خطرناک ہے کہ امیر گھرانوں پر تو بھلے اس بارسے خاطر خواہ فرق نہیں پڑتا لیکن غریب طلبہ کے سرپرستوں کے لیے یہ جذبہ درد سر بن جاتا ہے۔

دستار فضیلت کی خوشیوں میں یہ جذباتی بچے والدین کی مجبوریوں اور ان کی فطرت کو سمجھے بنا، ان کے سامنے کچھ ایسے حالات بنا دیتے ہیں کہ چار نا چار والدین بچوں کی ضد پوری کرتے ہیں اور کبھی کبھی یہ صورت حال اتنی نازک ہو جاتی ہے کہ غریب والدین قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں، خوشیاں منانے کا یہ جذبہ بہرحال حوصلہ شکنی کا مستحق ہے۔

حضرت علامہ عبد الشکور صاحب اس جذبے کو بالکل کچل کچل دینا چاہتے ہیں۔ جب کبھی آپ اس موضوع پر نصیحت فرما رہے ہوتے ہیں ، اس وقت آپ کی باتوں کے ساتھ آپ کا انداز بھی نوٹ کرنے لائق ہوتا ہے۔ در اصل یہ موضوع جتنا حساس ہے، آپ کا لب و لہجہ بھی بالکل اتنا ہی حساس ہوا کرتا ہے۔ اور یہی کسی سچے ناصح کی علامت ہے۔

آئین جواں مردی حق گوئی و بے باکی

علامہ عبد الشکور صاحب قبلہ کا ایک نمایاں وصف آپ کی حق بیانی اور حق پسندی ہے۔ عام طور پر اپنی ہی بات کو حرف اخیر سمجھ کر اس پر اڑے رہنا بلکہ کبھی کبھی اس ضد میں حد سے گزر جانا ، بعض ارباب علم کی پہچان سا ہو جاتا ہے جب کہ یہ خام علم کی علامت اور سچے علم سے دوری کی نشانی ہے، ورنہ حق بیانی اوروضوح ِحق کے بعد حق پسندی سچے وارثان نبی کا خاصہ رہا ہے۔

علامہ عبد الشکور صاحب قبلہ طبعا حق بیان اور حق پسند عالم دین واقع ہوئے ہیں ۔ اس سلسلے میں آپ لومۃ لائم سے بے فکر اور ملمع سازیوں سے کافی دور و نفور نظر آتے ہیں۔ اس مزاج نے دستور زماں کے مطابق آپ کو گاہے گاہے آزمائشوں کے مراحل سے بھی گزارا لیکن عادت تو بہرحال عادت ہوتی ہے۔

اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی۔ آپ کے اس مزاج کااندازہ ہر وہ حساس طبیعت انسان بڑی آسانی سے لگا سکتا ہے ،جو آپ کے ساتھ چند لمحات بتائے۔

سنیت کے پژمردہ حالات پر کڑھن کا اظہار

عام طور پر جو علما ٹھیٹھ درس گاہی مزاج رکھتے ہیں، وہ علمی میدان کے تو شہسوار ہوتے ہیں لیکن علمی دنیا سے باہر نکلنے کے بعد خارجی اور زمینی دنیا سے ان کا رشتہ بہت کم زور نظر آتا ہے۔

علامہ عبد الشکور صاحب قبلہ نے راقم کے سامنے کئی بار سنیت کے پژمردہ حالات پر اپنی سخت کڑھن کا اظہار کیا اور راقم نے دیکھا کہ ہر ایسے موقع پر آپ علی الفور ماضی قریب کے بزرگان دین کا ذکر جمیل چھیڑ دیتے ہیں ۔ گویا آپ یہ تقابل کر رہے ہوں کہ موجودہ بزرگوں کی قیادت اور ماضی قریب کے بزرگوں کی قیادت میں کس قدر نمایاں فرق ہے۔

بالخصوص آپ اپنے ماوا و ملجا حضور حافظ ملت اور حضور مفتی اعظم ہند علیہما الرحمہ کا ذکر فرماتے اور ان بزرگوں کی زندگیوں سے صالح قیادت اور قائدانہ صلاحیت کی نظیریں پیش فرماتے ۔

کبھی موجودہ دور کی مشہور ہستیوں کی گرانی اور آسائشوں کا ذکر کرتے اور بتلاتے کہ ایک غریب بستی کے لیے ہمارے موجودہ بزرگوں کی خدمت و زیارت کر پانا کس قدر مشکل ہو چکا ہے ۔ آخر ہر بستی کے لوگ عمدہ کاروں اور فلائٹس کا انتظام تو نہیں کر سکتے ،ایک جلسے کے لیے لاکھوں لاکھ کے صرفے کے متحمل تو نہیں ہو سکتے، ہر سامان راحت تو نہیں مہیا کر سکتے؟

جبکہ ہمارے بزرگوں کی روایت یہ رہی کہ کبھی وہ کسی بستی میں سائیکل کے ذریعے جاتے تو کبھی پیدل بھی چلے جاتے ۔ اور ان کے لیے کسی سامان راحت کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی زندگی میں اس کی بہت مثالیں ملتی ہیں کہ آپ دور دراز بستیوں میں بھی پیدل چلے جایا کرتے تھے۔

حافظ ملت کی صحبت و محبت

استاذ مکرم حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ نے اپنے استاذ مکرم حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی بہت صحبتیں اٹھائی ہیں، بارہا آپ کے ساتھ سفر کیے، بہت قریب سے دیکھا، آپ سے پڑھا بھی اور آپ کی نگرانی میں ایک مدت تک پڑھایا بھی۔ اس طرح قسام ازل نے آپ کو ابو الفیض سے خوب خوب فیض لینے کا موقع عطا فرمایا اور بہت ممکن ہے یہ سب اسی فیض کرم کی برکتیں ہوں۔

اس صحبت با برکت کا اندازہ آپ کا ہر محفل نشیں بہت قرینے سے لگا سکتا ہے۔ سفر و حظر میں نمازوں کی پابندی کا مسئلہ ہو، یا ہر ہر گام پر شریعت مطہرہ بلکہ سنت نبویہ کی مکمل پاس داری کا ذکر، وقت کے نظم و نسق کا معاملہ ہو یا تعمیری فکر کا تذکرہ، قائدانہ صلاحیت کی بات ہو یا تدریسی کمالات کی، خطاب کرنے کا گر ہو یا تحریر کا ہنر۔

انسانوں سے میل ملاقات کا طریقہ ہو، یا اخلاق کریمانہ کا جوہر حسن، خوف خدا کی نعمت کا تذکرہ چھڑا ہو، یا دولت عشق کا نغمہ گایا جا رہا ہو، یہ بوڑھا آدمی ہر موقع پر اپنے محسن و مربی اور استاذ مکرم کا ذکر کسی نہ کسی بہانے سے چھیڑ ہی دیتا ہے۔ اللہ رب العزت کا بے پایاں احسان یہ ہے کہ اس کریم نے واقعتا اس شخص کو استاذ بھی ایسا ہی عطا فرمایا، جو بیک وقت علم و عمل، فکر و نظر، ذکر و صبر اور شکر و صلاح کے ہر زمینی میدان میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا تھا۔

ظاہر سی بات ہے جس نے کسی سے اس قدر فیضان کرم بھر بھر لوٹا ہو، وہ اپنے کرم فرما کو کسی میدان میں کیسے فراموش کر سکتا ہے اور کیسے ٹوٹ ٹوٹ کر اس سے محبت نہ کرے گا!

مزاج میں استغنا

حضرت محدث جلیل دام ظلہ کی ایک نہایت ممتاز خو، جو آج گزرتے وقت کے ساتھ ہی نا پید ہوتی جا رہی ہے، استغنا ہے۔ رب صمد اس عظیم نعمت سے جسے نوازتا ہے، اسی کو نوازتا ہے ، ورنہ یہ نغمہ ہر ساز پر نہیں گایا جاتا۔ آپ کے اس مزاج کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب موبائل فون پہلے پہل مارکیٹ میں آیا تھا اور جب اس قدر ارزاں نہ ہوا تھا بلکہ اس کی کچھ ویلیو تھی ۔ کیوں کہ اس وقت آج کی طرح ہر کہہ و مہ کے پاس موبائل فون نہیں ہوا کرتا تھا بلکہ قدرے با حیثیت یا سرمایہ دار ہوگ ہی خرید پاتے تھے۔ اس وقت درجہ فضیلت میں جو طلبہ تھے

انھوں نے آپ سے بطور تحفہ موبائل فون قبول کرنے کی گزارش کی لیکن آپ کی غیور وغنی طبیعت کو نہ قبول کرنا تھا، سو ہزار اصرار کے با وجود راضی نہ ہوئے اور نہ قبول کیا۔

یہاں بات در اصل تحفہ، جس کا قبول کرنا سنت ہے، اس سے نظر اندازی کی نہیں بلکہ یہ آپ کی طبع بے نیاز کی بے نیازی ہے۔ اور یہ بات بھی ہم بطور تاویل نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ آپ کے مزاج آشنا ہونے کی بنیاد پر بطور حقیقت کہہ رہے ہیں۔

واضح رہے کہ تحفہ قبول کرنا بلا شبہ سنت ہے لیکن اس تحفے کی نوعیت اور اس کو قبول کرنے کی کیفیت خود تحفہ قبول کرنے والا بہتر جانتا ہے ، اسی وجہ سے نہ تو ہر تحفہ قبول کرنا سنت اور نہ ہی بطور تحفہ دی جانے والی ہر چیز شرعی تحفہ۔ شریعت تحفے تحائف لینے دینے کا مزاج ضرور عطا کرتی ہے اور بے شک اس طرز عمل سے محبت پیدا ہوتی ہے لیکن اشخاص و احوال پر نظر کرنا اور پھر اسی اعتبار سے حکم صادر کرنا، اس سے پہلے سکھاتی ہے۔

لگ بھگ یہی مزاج و انداز فقیر راقم الحروف نے حضرت صدر العلما، علامہ محمد احمد مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کا بھی نوٹ کیا ہے۔ آپ بھی جلدی سے کسی کا تحفہ قبول نہیں فرماتے۔ یہ انداز زندگی جہاں اسلامی غیرت و حمیت کا غماز ہے وہیں ، شریعت مطہرہ کی باریکیوں پر مکمل آگاہی، بصیرت اور فراست مومنانہ کا بھی واضح اشاریہ ہے۔

حوصلہ افزائی

حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ کی ایک ممتاز خوبی اپنے ما تحتوں کی حوصلہ افزائی اور اصاغر نوازی بھی ہے۔ شاید قرب قیامت کی نوازش ہے کہ یہ خو بو بھی اب ہمارے اکابر کا طرہ امتیاز نہ رہی بلکہ اسے ہم اپنے لیے آزمائشوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا زمانہ آتے آتے اس بابت اخلاقی گراوٹ اتنی عام ہو چکی ہے

کہ عام اکابر چھوٹوں پر دست شفقت رکھنے اور اصلاح کرنے کی بجائے جھڑکیاں دینے بلکہ اپنے حلقے سے خارج کرنے کا مزاج رکھتے ہیں۔یہ اخلاقی روش ایک طرف جہاں ہمارے ایسے اکابر کی قائدانہ صلاحیتوں پر ریمارک لگاتی ہے، وہیں نسل نو میں جو گنے چنے حوصلہ مند، باکار اور جذب دروں رکھنے والے افراد رہ گئے ہیں، ان کو بھی اس بات پر ابھارتی ہے کہ وہ حضرات حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ جیسا بڑا جگر گردہ رکھنے والے حوصلہ افزا بزرگان دین کو رب تعالی کی نعمت عظمی سمجھیں۔

حضرت شیخ الحدیث کی اس خوئے کریمانہ کا اندازہ آپ کے پاس بیٹھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔لیکن اس سے زیادہ احسن انداز سے اس کا اندازہ ان کتابوں اور کتابچوں کے ابتدائیات سے لگایا جا سکتا ہے، جو عام طور پر طلبہ اشرفیہ کی اولین کاوشیں ہوا کرتی ہیں۔

کہاں ہندوستان کے سب سے بڑے سنی حنفی ادارے کے شیخ الحدیث کا مقام علو اور کہاں ایک طالب علم کی پہلی پہلی تحریری کاوش! لیکن ایسے کتابچوں پر آپ کی شاید کوئی ایسی تحریر ہو، جس میں آپ نے لکھنے والے طالب علم کی حوصلہ افزائی نہ فرمائی ہو۔

آپ کی اس طرح کی تمام تحریریں در اصل لکھنے والے اس طالب علم کے کمال سے زیادہ ، آپ کے اس جذبے کا کمال ہوا کرتی ہیں۔ اصاغر نوازی کا ٹھیک یہی جذبہ معروف درد مند اور اصلاح پسند عالم باعمل حضرت علامہ عبد المبین نعمانی ادام اللہ فیضہ کا بھی ہے۔

حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ کی ایسی تحریریں اس اعتبار سے بھی قابل قدر ہیں کہ آپ طبعی طور پر تحریری مذاق نہیں رکھتے، اور شاید یہی وجہ ہے کہ عام طور پر مشاق قلم کاروں کی کتابوں پر بنام تقریظ کچھ نہیں لکھا کرتے جبکہ اگر کوئی طالب علم دعائیہ کلمات لکھنے کی گزارش لے کر جاتا ہے تو کچھ نہ کچھ لکھ ہی دیتے ہیں۔

تعلیم و تربیت؛ ایک شخصیت کے دو پہلو

چوں کہ حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ اپنے مذاق طبعی سے لے کر عملی میدان تک ہر طور پر ایک بہترین مدرس رہے ہیں اور آپ کی پوری زندگی کا اصل سرمایہ یہی عظیم خدمت علم رہی ہے، اس لیے بہر حال آپ کو ایک معلم ہی کے روپ میں دیکھا گیا اور اسی کے روپ میں دیکھا جانا چاہیے۔

درج بالا دلائل و حقائق کی روشنی میں ہم نے دو دو چار کی طرح یہ حقیقت جانی کہ ایک کامیاب اور کامل استاذ کے اندر اپنے تلامذہ کی تربیت کے تعلق سے جو جو صفات ہونی چاہیے، ہمارے حضرت شیخ الحدیث دام ظلہ ان صفات پر کھرے اترتے ہیں۔

یہ بات ہمیشہ حاشیہ خیال میں رہنی چاہیے کہ معلمی کا یہ منصب وہ اشرف و اعلی منصب ہے ،جو در حقیقت حضور رسالت پناہ ﷺ کا منصب جلیل ہے۔

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے بعثت مصطفوی کے لیے ان الفاظ میں دعا فرمائی تھی :  (سورہ بقرہ، آیت نمبر: ۱۲۹)اے ہمارے رب! ان میں انھیں میں سے ایک ایسا رسول بھیج، جو ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے ، انھیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انھیں خوب پاک صاف فرمادے۔  بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

اللہ رب العزت نے وقت آنے پر اپنے خلیل نبی کی جلیل دعا کو ہمارے سید المرسلین ﷺ کے روپ میں قبول فرمایا اور ٹھیک انھی الفاظ کے ساتھ ارشاد فرمایا:

(سورہ بقرہ، آیت نمبر: ۱۶۴) بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انھیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا،جو ان پراس کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے، انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت سکھاتاہےجبکہ اس سے پہلے وہ ضرور کھلی گم راہی میں تھے۔

اسی نعمت عظمی اورعظیم احسان کا ذکر کرتے ہوئے تیسری جگہ فرمایا:

 (سورہ جمعہ، آیت نمبر: ۲)وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انھیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا، جوان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے، انھیں پاک کرتا ہےاور انھیں کتاب و حکمت کا علم عطا کرتا ہے۔ بے شک وہ اس سے پہلے ضرور کھلی گم راہی میں تھے۔

چوتھے مقام پر فرمایا:  (سورہ بقرہ، آیت نمبر: ۱۵۱)جیسے کہ ہم نے تم میں تمھیں میں سے ایک ایسا رسول بھیجا ،جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے ، تمھیں پاک کرتا ہے ، کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمھیں وہ تعلیم فرماتا ہے، جس کا تمھیں علم نہ تھا۔

ان آیات طیبات میں ہم نے صاف صاف دیکھا کہ اللہ رب العزت نے جہاں جہاں اس عظیم منصب رسالت کا ذکر فرمایا ہے، تزکیہ و تطہیر یعنی بالفاظ دیگر تربیت کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ اس سے پتہ چلا کہ تعلیم اس وقت تک نا مکمل ہے، جب تک اس میں تربیت کا عنصر بہت نمایاں طور پر نہ پایا جائے کیوں کہ علم کا مقصد عمل ہے اور جب تک علم پر عمل نہ ہو، تب تک یہ شجر بے ثمر ذرا فائدہ تو پہنچا سکتا ہے لیکن اصل فائدہ کبھی نہیں پہنچا سکتا ۔

اس حقیقت میں بھی کوئی شک نہیں کہ جیسے حقیقی علم استاذ کی رہ نمائی کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ، اسی طرح عمل کا ہنر بھی سچے استاذ ہی کے کردار سے آتا ہے۔ زبان سے تو بہت لوگ بھلی باتیں کرتے ہیں لیکن اصل چیز بھلی باتیں کہنا نہیں ہوتا، بھلا کرکے دکھانا، بھلائیوں کی تربیت کرنا اور مسلسل یہی کرتے رہنا ہوتا ہے ۔

اگر آج کے دور میں اسے محروم القسمتی کہا جائے کہ عملی زندگی میں ہر جگہ قول و عمل کے معاملے میں اچھے خاصے انسانوں کی چھٹائی ہو جاتی ہے اور سنگم شخصیات انگلیوں پر گنے جانے کے لائق رہ جاتی ہیں، تو اسی کے ساتھ اسے حسن اتفاق بھی کہا جائے کہ ہمارے حضرت شیخ الحدیث صاحب قبلہ کچھ ایسی ہی سنگم شخصیات میں سے ایک گہر نایاب ہیں۔ آپ انھی چیزوں کی نصیحت فرماتے ہیں

جن پر خود عامل ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کی باتیں دل سے نکلتی ہیں اور ٹھیک دل ہی میں اتر تی ہیں۔ ظاہر ہے آپ کی یہ خوبو شعوری یا غیر شعوری طور پر آپ کے تلامذہ میں بھی ضرور منعکس ہوگی اورمعلمی کا اصل مقصد یہی ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ حدیث پاک کے مطابق ’’علم ینتفع بہ‘‘ کا بہترین نمونہ ہمارے شیخ الحدیث صاحب قبلہ کی ذات والا تبار کو اللہ رب العزت عمر خضر عطا فرمائے، بے شک آپ کی پوری زندگی بلکہ سچ تو یہ ہے کہ زندگی کا لمحہ لمحہ یا تو علم قرآن و سنت کی تعمیم و تدریس سے تعبیر رہا ہے، یا پھر اس کی فکر سے عبارت رہا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آپ کے خوان علم سے بلا شبہ ہزاروں ہزار تشنگان علم و حدیث نے سیرابی حاصل کی۔

اسی طرح اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ آپ کے اوصاف عالیہ سے اخاذ طبیعتوں نے بہت کچھ اخذکیا اور اس طرح آپ کے علمی و عملی فیضان سے ایک دنیا فیض یاب ہوئی اور اب تک ہو رہی ہے۔دنیا نے بھلے آپ کی قدر دانی کی ہو ،یا نہ کی ہو، آپ کا رب منعام آپ کو ان خدمات جلیلہ کا بہترین اجر ضرور عطا فرمائے گا۔

آہ آسمان علم و فضل کا ایک درخشندہ ستارہ غروب ہوگیا 

One thought on “علامہ عبدالشکور مصباحی علیہ الرحمہ کی شخصیت

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *