عصری تعلیم مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کا واحد حل
عصری تعلیم: مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کا واحد حل
دنیا تیز رفتاری سے ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور جدید تعلیم کے بغیر آج کسی قوم کا وجود نمایاں نہیں رہ سکتا۔ افسوس کہ مسلمان، جو کبھی علم و تحقیق کے علمبردار تھے، آج تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی، معاشی اور سماجی میدان میں بھی ان کا کردار کمزور دکھائی دیتا ہے۔ اس صورتحال کا واحد حل عصری تعلیم ہے، جو مسلمانوں کو ہمہ جہت ترقی کے راستے پر گامزن کر سکتی ہے۔اسلامی تعلیمات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ تعلیم کی اہمیت بنیادی ہے۔
قرآن کی پہلی وحی ’’اقرأ‘‘ نے ہی انسان کو علم کی روشنی کی طرف متوجہ کیا۔ حضور ﷺ نے بھی واضح فرمایا کہ ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘ یہ علم صرف مذہبی علوم تک محدود نہیں بلکہ دنیاوی اور عصری علوم کو بھی شامل کرتا ہے۔
مسلمانوں کی ابتدائی تاریخ گواہ ہے کہ جب انہوں نے سائنس، طب، ریاضی اور فلسفہ میں مہارت حاصل کی تو پوری دنیا ان کے علم و ہنر کی قائل ہوئی۔مگر آج تصویر بالکل مختلف ہے۔ مسلم ممالک میں شرح خواندگی تشویشناک حد تک کم ہے۔
نصاب پرانی روایات کا پابند ہے اور تحقیق کا ماحول ناپید۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان معیشت، سیاست اور سائنس کے میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ اس خلا کو پر کرنے کے لیے عصری تعلیم کو اختیار کرنا ناگزیر ہے۔عصری تعلیم دراصل وہ علم ہے جو زمانے کی ضروریات سے ہم آہنگ ہو۔ اس میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیکل سائنس، انجنئرنگ، بزنس، سوشل سائنسز اور دیگر شعبے شامل ہیں۔
یہ تعلیم نہ صرف روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہے بلکہ شعور اور بصیرت بھی عطا کرتی ہے۔ ایک تعلیم یافتہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کے بل پر معیشت کو مضبوط کرتا ہے، سیاست کو استحکام بخشتا ہے اور سماج کو بہتر بناتا ہے۔
مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کے لیے عصری تعلیم کا کردار ناقابلِ انکار ہے۔ معاشی میدان میں تعلیم یافتہ افراد ہی نئی صنعتوں اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کا دروازہ کھول سکتے ہیں۔
سیاسی سطح پر تعلیم ہی وہ شعور دیتی ہے جس سے قوم اپنے حقوق کا دفاع کر سکے۔ تحقیق اور سائنس میں مہارت کے بغیر کوئی قوم دنیا پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ تعلیم ہی وہ ہتھیار ہے جس سے مسلمان عالمی سطح پر اپنا تشخص بہتر بنا سکتے ہیں۔لیکن اس راستے میں کئی رکاوٹیں ہیں۔
سب سے بڑی رکاوٹ ذہنی جمود ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عصری تعلیم دین سے دوری کا باعث ہے، حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اسلام نے کبھی دنیاوی تعلیم کی مخالفت نہیں کی بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
دوسری بڑی رکاوٹ وسائل کی کمی ہے۔ مسلم دنیا میں تعلیمی بجٹ ناکافی ہیں اور تحقیق پر سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ان چیلنجز پر قابو پانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلم حکومتیں تعلیم کو اولین ترجیح بنائیں۔
نصاب کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالا جائے اور دینی و دنیاوی علوم کو یکجا کیا جائے۔ تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں، نوجوانوں کو ٹیکنالوجی کے شعبے میں خصوصی تربیت دی جائے اور خواتین کو تعلیم کے برابر مواقع فراہم کیے جائیں۔
مخیر حضرات اور عوام کو بھی آگے بڑھ کر تعلیمی ادارے قائم کرنے اور غریب طلبہ کی معاونت کرنی چاہیے۔اگر مسلمان آج یہ عہد کر لیں کہ وہ عصری تعلیم سے منہ نہیں موڑیں گے تو کل کا دن ان کا ہوگا۔
یہی تعلیم انہیں معاشی، سماجی اور سیاسی میدان میں سربلندی عطا کرے گی۔ یہی تعلیم انہیں تحقیق و ایجادات میں ممتاز بنائے گی اور یہی تعلیم انہیں دنیا کی آنکھوں میں عزت و وقار بخشے گی۔یقیناً، مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی کا واحد حل عصری تعلیم ہے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو جدید اور معیاری تعلیم سے آراستہ کریں اور اپنی تہذیب و اقدار کے ساتھ دنیا کی صفِ اول کی اقوام میں شامل ہونے کا سفر شروع کریں
۔✍️ محمد سفیر الدین راہی