مدارس اور عصری تعلیم کے امتزاج پر مشتمل ایک بہترین نظام تعلیم
مدارس اور عصری تعلیم کے امتزاج پر مشتمل ایک بہترین نظامِ تعلیم
ہمیں درپیش 33 چیلنجز اور ان کا تدارک
مشن تقویتِ امت قسط 22 نظامِ تعلیم سیریز 3
از : قیام الدین قاسمی سیتامڑھی خادم مشن تقویتِ امت
گزشتہ قسط میں اپنے نظام کے 23 نکاتی بنیادی خدو خال پر بات کی،( اس کو پڑھنے کے لیے کلک کریں ) اب ہم اس کے تحت تیار کیے جانے والے نصابوں پر بات کرنے جارہے ہیں
لیکن اس سے پہلے ایک سوال ہے:
ہمیں نئے نظام و نصاب کو متعارف کروانے کی ضرورت کیوں پڑرہی ہے؟
کیوں کہ فی الوقت تین طرح کے نظام ہیں
1 مدارس کا نظام
2 عصری تعلیم کے لیے اسکول کالج و یونیورسٹی کا نظام
3 دونوں کے امتزاج والا نظام۔
مدارس ہماری معیشت کو ٹھیک کرنے میں قاصر ہونے کے ساتھ نیچے بیان کیے گئے کئی سارے چیلنجز کا مقابلہ کرنے لائق فضلا تیار نہیں کرپارہے ہیں اور اسکول کالج و یونیورسٹی ہماری نسل کو گمراہی سے بچانے میں ناکام ہیں، اور دونوں کے امتزاج پر کام کرنے والے ادارے دو قسم کے ہیں:
1 یا تو وہ عالمیت کے سال کو کم کررہے ہیں تاکہ وہ جلد از جلد فارغ ہوکر عصری تعلیم حاصل کرسکیں، اس چکر میں وہ لفظ عالم کے ساتھ مذاق کے مرتکب ہورہے ہیں کہ مطلوبہ صلاحیت حاصل ہوئی نہیں بس مولانا کہلائے جانے کے لیے عالم کی سرٹیفکیٹ تھما دیا۔
2 یا پھر وہ عصری علوم کے ساتھ کمپرومائز کررہے ہیں جہاں محض خانہ پری کے لیے عصری علوم پڑھائے جارہے ہیں جس کی بنا پر آگے تعلیم جاری رکھنے کے لیے ان کے پاس آرٹس کے سبجیکٹس علاوہ کوئی آپشن نہیں رہتا۔
کل ملا کر جدید چیلنجز کا حل نکالنے میں موجودہ سارے نظام کہیں نہ کہیں ناقص نظر آرہے ہیں۔ موجودہ نظاموں خصوصاً عالمیت کے کورس میں ہمارے سامنے جو چیلنجز ہیں ان کی فہرست کچھ یوں ہے:
1 ریسرچ پیپر لکھنے اور اس کے طریقۂ کار کا فقدان
2 ضروری قانونی معلومات کی کمی
3 ہندوتوا پر مطالعہ نہ ہونے کے برابر
4 نظریات فلاسفہ اور ان کا رد
5 مدعو کی زبان ہندی اور انگریزی سے ناواقفیت
6 تقابل ادیان
7 تفہیم مغرب
8 علم کلام پر معمولی توجہ
9 دعوت کی تربیت
10 سماج سے متعلق ہر فن کی
ضروری معلومات کا نہ ہونا مثلاً معاشیات، سماجیات، نفسیات، سوشل سائنس وغیرہ
11 مقاصد شریعت پر عدم بصیرت
12 سیرت کا تجزیاتی مطالعہ نہ ہونا
13 تربیت: یعنی اخلاق کی عمدگی اور باطنی شفافیت کی کمی
14 کمیونیکیشن اور نیگوسئیشن اسکلز یعنی دوسروں کو سمجھانے کی اہلیت
15 اسلامی ادارے کی خصوصیات، ان کو اپنی یا وقف کی زمین پر قائم کرنے کے قانونی و وسائلی مراحل اور ان کے نظم و نسق کے طریقے
16 روزمرہ کے ضروری سرکاری کاموں کو خود سے کرنے کی عدم اہلیت
17 رائے عامہ ہموار کرنا، پبلک ریلیشن
18 جاب یا قدردانی کا عدم تیقن
19 ٹکنالوجی کا صحیح اور مفید استعمال
20 دنیا میں ہورہی اہم تحقیقات اور بڑے اداروں اور ان کی خصوصیات سے ناواقفیت
21 مطالعہ کےطریقۂ کار، کتابوں کی فراہمی اوران کی ترتیب پر عدم رہ نمائی
22 طریقۂ تدریس کی ٹریننگ
23 کیرئیر کاؤنسلنگ کی کمی
24 سرٹیفیکیشن کانہ ہونا
25 ابتدائی درجات میں مادری زبان کوترجیح نہ دینا
26 مدارس اور طلبا کی دوران تعلیم عوام سے براہ راست رابطے کی کمی
27 صلاحیتوں کی قدر کرنے والے علما و مشائخ سے تعلقات کی کمی
28 فراغت تک کا لمبا وقفہ
29 استدلالی دماغ کی عدم پختگی
30 ادارے کا اپنے قدیم فضلاء سے گہرے روابط نہ ہونا
31 ادارے کا ایک تحریک بن کر اپنے فضلا کو اس مشن کا نمائندہ نہ بنانا
32 نصاب خواندگی کو پورا کرنے کے علاوہ صلاحیت کے معیار کے لحاظ سے ہر سال کا کوئی ٹارگٹ سیٹ نہ ہونا
33 جدید طرز پر تیار کردہ کتابوں کے بجائے قدیم روایتی کتب پر اصرار۔
ان تحریروں کوبھی پڑھیں
مشن تقویتِ امت کے زیر اہتمام ایک نئے نظامِ تعلیم کا خاکہ
زمانہ سیکھتا ہے ہم سے ہم وہ دلی والے ہیں
اپنی خوابیدہ صلاحیتوں کوبیدار کرنے، اضافہ اوربرقرار رکھنے کے پچیس طریقے
نوجوانوں کی معاشی پریشانیوں کوکیسے دورکیا جائے؟
مال کی محبت پیدا کیوں ہوتی ہے؟
اپنی نسلوں میں اجتماعی، دینی اور تخلیقی سوچ پیدا کرنے کے گیارہ طریقے
تو آئیے اب ایک ایک چیلنج کو لے کر اس کے حل پر غور کرنا شروع کرتے ہیں، یہ ایک سلسلہ ہے جس میں نصاب پر غور کرنے والے ہر شخص اور ادارے کی شرکت چاہتا ہوں کیوں کہ یہ ہماری نسلوں کی دینی و دنیوی کامیابی و ناکامی کا ضامن ہے۔
میڈیم آف ایجوکیشن کیا ہو یعنی کس زبان میں ہم تعلیم دیں؟ اس سلسلے میں ہمارے سامنے تین تقاضے ہیں:
1 بر صغیر کے مجموعی مسلمانوں کی مادری زبان اردو کی حفاظت و اشاعت
2 قرآن، عربی اشعار، کتب قدیمہ کی افہام و تفہیم کے لائق بنانے کے لیے عربی زبان کی حفاظت و اشاعت
3 مدعو کی زبان ہندی اور انگریزی سے کما حقہ واقفیت سالوں کی طوالت، مدارس کی فضیلت اور گریجویشن کے سالوں میں عدم مطابقت اور سرٹیفکیشن کا نہ ہونا اس سلسلے میں بھی ہمارے سامنے دو تقاضے ہیں:
پہلا تقاضہ یہ ہے کہ مدارس کے سال کی حد بندی ختم کی جائے یعنی قدیم زمانے کی طرح جو جتنی جلدی مطلوبہ معیار کو حاصل کرلے اتنی جلدی اسے سند فراغت دے دی جائے اور تجربہ کار اساتذہ کی نگرانی میں وہ تعلیم دینا شروع کردے۔
دوسرا تقاضہ یہ ہے کہ مدارس اور عصری اداروں کو معلومات اور سال کے لحاظ سے ہم آہنگ کیا جائے۔
اور دونوں میں مطابقت بہت مشکل ہے لیکن ہمارے پاس ان مشکل راہوں کو اپنائے بغیر فی الحال کوئی چارہ نہیں ہے۔
اب اس ہم آہنگی کے دو طریقے ہیں:
ایک عزیمت کا راستہ
دوسرا رخصت کا راستہ
عزیمت کا راستہ یہ ہے کہ ہم اپنا بورڈ بنا کر سرکار کو یہ باور کرانے اور پاس کرانے میں کام یاب ہوجائیں کہ ہم اپنے بچوں کو مثلاً دس سال کی عصری تعلیم پانچ سال میں دے سکتے ہیں البتہ اس کام کو ایک لمبا عرصہ اور لمبا تجربہ چاہیے، اس پر کام جاری رہے گا ان شاءاللہ
رخصت کا راستہ یہ ہے کہ ہم مدارس کے نظام میں عصری تعلیم گاہوں کی سرٹیفکیشن کا مطلوبہ معیار پورا کرکے کم از کم بی اے کی مساوی ڈگری منظور کرالیں
فی الحال اسکول کا اسٹرکچر پانچ+تین+تین+چار ہے
یہاں ہمارے پاس ایک فائدہ یہ ہے کہ نارمل ایجوکیشن میں دسویں سولہ سال کی عمر میں ہوتی ہے لیکن سی بی ایس ای کے معیار کے مطابق چودہ سال کے بعد یعنی پندرہویں سال میں وہ دسویں کا امتحان دے سکتا ہے یعنی ایک سال کم ہوگیا لہٰذا ہمارے اسکول کا اسٹرکچر پانچ+چار+تین+دو ہوگا اور ہمارے مدرسے کا اسٹرکچر بھی پانچ+چار+تین ہوگا
مشترکہ نظام 1 یعنی پہلی سے لے کر دسویں تک مدرسے اور اسکول دونوں کا نصاب ایک ہی رہے گا
2 آٹھ سال کی عمر تک (نرسری، ایل کے جی، یوکے جی، اسٹینڈرڈ 1، 2، اور 3 تک پانچ سال) بچہ اسکول نہیں جائے گا، وہ گھر پر ہی پڑھے گا، والدین کو بچوں سے محبت کرنا سکھایا جائے گا، بچوں کو خوش اخلاق بنانے کی ٹریننگ دی جائے گی، اور الٹرنیٹ اسکولنگ سسٹم اور ہوم اسکولنگ سسٹم کے کچھ ماڈلز اپلائی کرکے بچوں کی صلاحیتوں کو ابھارنے والے گیمز کھلائے جائیں گے۔
3 بارہ سال کی عمر تک (اسٹینڈرڈ 4، 5، 6 اور 7 تک چار سال) حفظ کے ساتھ ساتھ قرآنی عربی سکھائی جائے گی اس حد تک کہ وہ قرآن کا ترجمہ سمجھنے لگے، اور ساتھ میں اردو اور ہندی پڑھائی جائے گی
4 پندرہ سال کی عمر تک (اسٹینڈرڈ 8، 9، اور 10 تک) تین سال علوم اول دوم اور سوم میں ضروری قرآنی علوم کو ہم اردو زبان میں پڑھائیں گے کیوں کہ علوم کی ابتدائی معلومات مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان میں بچوں کو پڑھانا ظلم ہے، بچہ نئی زبان پر دھیان دے کہ نئی معلومات پر؟
5 ایک وقت میں ہم صرف دو مضامین زیادہ سے زیادہ چار مضامین پڑھائیں گے مثلاً نحو و صرف، فقہ اصول فقہ اور مقاصد شریعت، حدیث اصول حدیث، تفسیر اصول تفسیر، علم الکلام اور علم الادیان، تفہیم مغرب و رد الحاد، علم معانی اور علم بیان و بدیع، علم منطق اور علم فلسفہ، علم تاریخ اور علم جغرافیہ، علم اجتماع اور علم سیاسیات، علم معیشت اور علم تجارت، علم صحافت اور علم دعوت، سیرت کا معلوماتی مطالعہ اور سیرت کا تجزیاتی مطالعہ، علم وراثت و علم حساب اور علم کمپیوٹر (کوڈنگ)، علم لسان اور علم ادب، علم طبیعی اور علم کیمیاء، علم حیوانات اور علم نباتات، علم نفسیات و علم تدریسیات، علم تخریج و جرح و تعدیل اور علم اسماء الرجال وغیرہ وغیرہ
6 ہر سال تین، چار یا پانچ حصوں پر مشتمل ہوگا یہاں تک تو مشترکہ تعلیم ہوئی
7 اب یہاں سے دونوں تعلیم کی راہیں الگ ہوجائیں گی لیکن جگہ ایک ہی رہے گی یعنی مدرسے میں رہ کر ہی ان کی آگے کی پڑھائی ہوگی، چوں کہ ہم سمجھتے ہیں تربیت کے لحاظ سے مدرسے کا ماحول اسکول کے ماحول سے زیادہ بہتر ہے
8 علوم کی ان تین سالوں کی تکمیل پر دسویں کے سرٹیفکیٹ کے ساتھ ساتھ ڈپلومہ اِن دینیات کی سرٹیفکیٹ بھی دی جائے گی اسکول کی تعلیم
9 دسویں کے بعد دو سال یعنی بارہویں تک کی تیار بورڈ اگزام اور آگے دئیے جانے والے مسابقتی امتحانات (مثلاً نیٹ، جے ای ای، کلیٹ وغیرہ) دونوں کو سامنے رکھ کر کرائی جائے گی
مدارس کی تعلیم
10 مدارس کی کل تعلیم نو سال پر مشتمل ہوگی جس میں دسویں تک تو وہ علوم اول دوم سوم کر ہی چکا ہوگا
11 علوم چہارم میں پورے سال صرف انگریزی کی تعلیم ہوگی اور گیارہویں میں اس کو ڈپلومہ ان انگلش لینگویج کی سرٹیفکیٹ بھی ملے گی
12 علوم پنجم میں اسے کسی بھی اوپن اسکولنگ سسٹم سے بارہویں بورڈ کا اگزام دلوا دیا جائے گا
13 علوم پنجم ششم اور ہفتم میں کتابیں عربی ہوں گی لیکن زبانِ تدریس (میڈیم آف انسٹرکشن) اور نوٹس وغیرہ انگریزی میں ہوں گے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بولے جانی والی زبان انگلش ہے، پوری دنیا کے ریسرچ پیپرز انگریزی میں شائع ہوتے ہیں یا دیگر زبانوں سے انگریزی میں منتقل کئے جاتے ہیں، گویا اس وقت سب سے بڑی علمی زبان انگریزی ہے، نیز مدعو کی سب سے بڑی تعداد انگریزی زبان بولتی ہے، ان تینوں پہلوؤں کو سامنے رکھ کر اب بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارا عالم انگریزی میں علم حاصل کرے تاکہ وہ ایک طرف تحقیقات کے ایک نئے جہاں سے باخبر رہے تو دوسری طرف باطل نظریات کا بلاواسطہ ادراک کرکے کماحقہ تدارک بھی کرسکے اسی طرح اسے اپنی دعوت کی اشاعت کا ایک بڑا میدان بھی میسر آئے۔
14 علوم ہفتم میں صحاح ستہ ختم ہوگی لیکن عالمیت کی تکمیل اس سال نہیں ہوگی
15 عالمیت کا آخری سال جس کا نام ہم نے تکمیل علوم رکھا ہے، اس سال ہم ان مضامین پر فوکس کریں گے جن کا تعلق براہِ راست معاشرے کی نظریاتی فکری اور عملی تربیت سے ہے مثلاً مقاصد و مصالح شریعت، تقابل ادیان، فقہ مقارن، رد الحاد اور مجادلتی صلاحیت (debating skills) وغیرہ وغیرہ
16 تکمیل علوم کے سال ریسرچ پیپر وغیرہ لکھنا لازم ہوگا اس کے بغیر عالمیت کی سند نہیں ملے گی
17 عالمیت کی سند کے ساتھ ساتھ گریجویشن کی تکمیل، ڈپلومہ اِن عربک لینگویج، اور ڈپلومہ اِن کمپیوٹر اپلیکیشن کی سندیں بھی دی جائیں گی
18 علوم پنجم کے بعد سے ہر امتحان میں 33 فیصد جوابات عربی میں اور 66 فیصد جوابات انگلش میں لکھنا لازم ہوگا 19 جو بچے اسکولی نظام کو جلدی پورا کرلیں گے ہم اُنہیں ڈی ایم وغیرہ سے مل کر اسپیشل ایگزام دلواکر آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے, اور جو بچے مدرسے کے نظام کو جلدی پورا کرلیں گے انہیں مختلف تخصصات کروائے جائیں گے
اس پورے نظام پر وہ تمام چیزیں لاگو ہوں گی جو پچھلی قسط میں بیان کی گئیں یعنی پیشہ ورانہ مہارت کی تعلیم اور ہر ہفتے فیلڈ ورک وغیرہ وغیرہ اگلا مرحلہ ہے ہر سال پر فنون کی تقسیم اور ہر فن کے لیے بہتر سے بہتر کتاب کا انتخاب، دعا فرمائیں اللہ یہ مرحلہ بھی بآسانی پایۂ تکمیل تک پہنچائے
جاری ۔۔۔۔
اس پورے نظام پر بہی خواہان ملت کے مفید مشوروں اور تنقیدوں کا تہ دل سے استقبال ہے
7070552322