جو کام آتنک وادی نہ کر سکے وہ اگنی ہوتری نے کردیا

Spread the love

از : شکیل حسن شمسی :: جو کام آتنک وادی نہ کر سکے وہ اگنی ہوتری نے کردیا

جو کام آتنک وادی نہ کر سکے وہ اگنی ہوتری نے کردیا

کشمیر میں جو لڑائی چل رہی تھی وہ ہندوستانیت اور دہشت کے درمیان تھی، جس پر پاکستان نواز دہشت گرد ایک اسلامی تحریک کا لیبل لگانا چاہتے تھے، تاکہ مسلم ممالک میں ہمدردی کی لہر پیدا کر سکیں، اس کے باوجود۔

کشمیر کے علاحدگی پسندوں نے ہمیشہ یہ کوشش کی کہ کشمیر میں چل رہی دہشت گردانہ تحریک پر ہندو مسلم کا لیبل لگا دیا جائے لیکن کشمیر کے سیکڑوں سال پرانے کلچر اور باہمی بھائی چارے کو وہ کبھی برباد نہیں کر سکے۔

1990ء کی دہائی میں پاکستان کے اشارے پر کشمیری پنڈتوں پر حملے کرکے انھوں نے کشمیر کے مسئلے کو ہندو مسلم قضیہ میں بدلنے کی سب سے مذموم کوشش کی تھی۔

اس وقت وادی کے مظلوم مسلمان اپنے ہندو بھائیوں پر ہو رہے مظالم کو آنسو بھری آنکھوں سے دیکھتے رہے، کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے دہشت گردوں کے نشانے پر تھے۔

عالم یہ تھا کہ کسی بھی مسلمان کے گھر میں دہشت گرد گھس جاتے تھے اور وہاں جو لڑکی پسند آتی تھی اس سے نکاح کرنے کے لئے ماں باپ پر دباؤ ڈالتے تھے اور انکار کرنے پر گولی کا نشانہ بنا دیتے تھے۔

کوئی بھی کشمیری مسلمان ہندوستان کی حمایت میں زبان کھولے تو اس کو موت کے گھاٹ اتارتے وقت دہشت گرد ذرا بھی جھجھک محسوس نہیں کرتے تھے۔

دہشت گردوں کی ہندوستانی مسلمانوں سے نفرت کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے چرار شریف جیسی عبادت گاہ کو جلانے میں بھی ایک پل کی تاخیر نہیں کی۔ مسلمانوں کو اتنی بڑی تعداد میں قتل کیا کہ قبرستانوں میں جگہ کم پڑنے لگی۔

دہشت گردوں نے ہندوستانی افواج پر حملہ کئے تو کشمیر کی پولیس پر بھی حملے کرنے میں کوئی امتیاز نہیں کیا۔

کشمیر کی پولیس میں کام کرنے والے مسلم نو جوانوں کو مسجدوں اور گھروں کے قریب گھیر گھیر کر مارا، مسلمان پولیس والوں کا خون بہاتے وقت دہشت گردوں کو نہ تو اسلام کا خیال آیا اور نہ مسلمانوں کا۔

کشمیر کے لیے ہندو بھی اپنی جان دیتے رہے اور مسلمان بھی اپنا خوں لٹاتے رہے

ظاہر ہے کہ کشمیر میں جو لڑائی چل رہی تھی وہ ہندوستانیت اور دہشت کے درمیان تھی، جس پر پاکستان نواز دہشت گرد ایک اسلامی تحریک کا لیبل لگانا چاہتے تھے

تاکہ مسلم ممالک میں ہمدردی کی لہر پیدا کر سکیں۔ اس کے باوجود دہشت گرد کشمیر کی لڑائی کو ہندو مسلم قضیہ میں تبدیل نہیں کرسکے۔ کشمیر کے لیے ہندو بھی اپنی جان دیتے رہے اور مسلمان بھی اپنا خوں لٹاتے رہے۔

ہمارے جیسے مسلمانوں کے لیے تو کشمیر ہندوستان کا ایک اٹوٹ حصہ ہمیشہ سے تھا۔ یہاں پر بتاتا چلوں کہ 1980ء میں (جب میں لکھنوٴ یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کر رہا تھا) تو مجھے ایران کے اسلامی انقلاب کی سالگرہ کے موقع پر مختلف علماء، پروفیسرس اور اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایران جانے کا موقع ملا۔

وہاں دنیا بھر سے لوگ آئے ہوئے تھے۔ اسلامی انقلاب کی پہلی سالگرہ کے جشن وہاں جا بجا ہو رہے تھے۔ اسلامی انقلاب کی سالگرہ کا اختتامی جشن تہران یونیورسٹی میں منعقد ہوا۔

اس میں تقاریر کے بعد دنیا بھر کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کے سلسلے میں قرار داد پیش کی جا رہی تھی تو پاکستان کے وفد کی قیادت کر رہے ۔

میاں طفیل احمد کھڑے ہوئے اور انھوں نے کہا کہ اس میں کشمیر کے مسئلے کو بھی شامل کیا جائے جس کے بعد میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا کہ نہیں کشمیر اس قرار داد کا حصہ نہیں بن سکتا

کیوں کہ ہم بھارت کے سات کروڑ مسلمان اپنا کشمیر پاکستان کو دینا نہیں چاہتے (اس وقت بھارت میں مسلمانوں کی آبادی سات کروڑ کے قریب تھی) میری طرف سے اعتراض کیے جانے کے بعد کشمیر کا مسئلہ اس قرار داد میں شامل نہیں ہو سکا۔

ہندو مسلم منافرت پھیلانے والے “دی کشمیر فائلس

ظاہر ہے کہ مجھ سے یہ بات نہ تو بھارت سرکار نے کہنے کے لئے کہا تھا نہ میں کسی آفیشل ڈیلی گیشن کا حصہ تھا۔ میں نے اس لئے مخالفت کی کہ مجھے لگتا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ ہندوئوں اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان اور پاکستان کے بیچ کا ایک قضیہ ہے۔

مگر اب کشمیر فائلس نام کی ایک فلم کے ذریعہ فلم ساز وویک اگنی ہوتری نے ساری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ کشمیر ہندوستانیت کی دہشت گردی سے جنگ نہیں ہے بلکہ یہ ہندو اور مسلم قضیہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس فلم کو ہر وہ آدمی بڑھاوا دے رہا ہے جو ہندو مسلم منافرت پھیلانے پر یقین رکھتا ہے۔

ابھی تک ہندوستانی مسلمان اور ہندوستانی ہندو کشمیر کے معاملے کو دہشت گردی سے جوڑ کر دیکھتے تھے، مگر اب اس فلم کے ذریعہ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے کہ جیسے کشمیر کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور کشمیری پنڈتوں کو دہشت گردوں نے نقل مکانی پر مجبور نہیں کیا تھا بلکہ جیسے مقامی مسلمانوں نے ان کو وادی چھوڑنے پر مجبور کیا تھا، جب کہ سچ تو یہ ہے دہشت گردوں نے ہندوئوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔

 

ہندو مسلم منافرت کی کوشش

اصل بات تو یہ ہے کہ دہشت گرد یہی چاہتے ہیں کہ دنیا کشمیر کے معاملے کو ہندو مسلم قضیہ کی طرح دیکھے۔ وہ تو یہ کام نہیں کر سکے البتہ وویک اگنی ہوتری اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں نے یہ کام بہت آسانی سے کردیا۔ ویسے میں نے یہ فلم نہیں دیکھی اور نہ دیکھوں گا کیوں کہ اس فلم کی نمائش کے دوران باقاعدہ طور پر مسلمانوں کے خلاف نعرے لگائے جا رہے ہیں۔

اور اس فلم کے ذریعہ ملک میں ہندو مسلم منافرت کو فروغ دیا جا رہاہے اور چوں کہ میرا تعلق اس طبقے سے ہے جو ہندو مسلم اتحاد پر یقین رکھتا ہے، تو میرے لیے ممکن نہیں کہ ایک ایسی فلم دیکھوں جو وطن کو جوڑنے نہیں توڑنے کے لئے بنائی گئی ہے۔

ہولی کے اس مبارک موقع پر آئیے ہم سب دعا کریں کہ سماج میں نفرت پھیلا کر سیاسی اور معاشی فائدے اٹھانے والوں کے منصوبے بھی ہولی کی آگ میں جل کر خاک ہوں اور ہر طرف محبت کا رنگ پھیلے۔

مضمون نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *