مدرسے کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے بھاگنے والے گاؤں کا المیہ

Spread the love

مدرسے کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے بھاگنے والے گاؤں کا المیہ

از قلم! محمد صفدر رضا علائی
( مربت پور پیکبان کٹیہار بہار

آج ہمارے گاؤں دیہات کی گلیوں میں ایک نیا “فیشن” چل پڑا ہے — ایک خطرناک سوچ، ایک زہر آلود ذہنیت، جو دھیرے دھیرے ہماری آنے والی نسلوں کے ایمان کو چاٹ رہی ہے۔ وہ ماں جو کل تک چاہتی تھی کہ اُس کا بیٹا حافظِ قرآن بنے، وہ باپ جو خواب دیکھتا تھا کہ اُس کا بیٹا دین کا خادم بنے، آج کہہ رہا ہے:
“مدرسے میں کیوں دوں؟ تنخواہ کیا ملے گی؟ کیا کھائے گا؟ اسکول میں دوں گا، ڈاکٹر بنے گا، انجینئر بنے گا!”

افسوس! کیا ہم نے دین کو صرف تنخواہ کے ترازو پر تولنا سیکھ لیا؟ کیا دینِ محمدی ﷺ اب صرف ایک “کم تنخواہ والی نوکری” بن کر رہ گیا؟ کیا قرآن پڑھانے والے، اذان دینے والے، نماز پڑھانے والے، نکاح پڑھانے والے، موت پر تلقین کرنے والے سب کے سب بےوقعت ہو گئے؟ نہیں! یہ تو وہی طبقہ ہے جس کی برکت سے آج بھی یہ دنیا قائم ہے۔

آج ایک باپ یہ سوچتا ہے کہ:”ڈاکٹر بنے گا تو لاکھوں کمائے گا۔ مدرسے میں گیا تو بس اذان دے گا، اور دو ہزار کی نوکری کرے گا۔”

مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ڈاکٹر لاکھوں کمائے گا، لیکن روزِ قیامت وہ کسی کو بخش نہیں سکتا۔ مگر ایک عالمِ دین، ایک حافظِ قرآن، ایک مفتی، ایک داعی، لاکھوں کو جہنم سے نکال کر جنت کی راہ دکھا سکتا ہے۔ مدرسہ وہ جگہ ہے جہاں دنیا نہیں، دین بنتا ہے، امت بنتی ہے، اللہ والے بنتے ہیں!

کیا ہم نے کبھی سوچا کہ:

اگر سب ڈاکٹر اور انجینئر بن جائیں تو جنازہ کون پڑھائے گا؟

نکاح کون کرائے گا؟

فتوے کون دے گا؟

روزہ ٹوٹنے کا مسئلہ کس سے پوچھو گے؟

کفن دفن کی سنتیں کون سکھائے گا؟

تمہارے بچوں کو قرآن کون پڑھائے گا؟

یہ بات سچ ہے کہ دین کے خادموں کی دنیاوی تنخواہیں کم ہیں، لیکن ان کی آخرت کی تنخواہ ایسی ہے جس پر فرشتے بھی رشک کریں۔ کیا اللہ کی رضا، رسول اللہ ﷺ کی شفاعت، جنت کے باغات، حوض کوثر کا جام — یہ سب تمہیں کم لگتا ہے؟

ہم گاؤں والوں کو ایک بات خوب سمجھنی چاہیے:
مدرسہ صرف علم کی جگہ نہیں، یہ ایمان کی فیکٹری ہے!
یہ وہ جگہ ہے جہاں فاقے بھی ہوتے ہیں، لیکن دل سیراب ہوتا ہے۔ جہاں ٹاٹ پر بیٹھا بچہ سونے کے تختوں کے وارثوں سے افضل ہوتا ہے۔

آج ہم نے دین کو چھوڑا، تو دیکھو ہمارے گاؤں میں:

لڑکیاں بےپردہ ہو گئیں

بچے بے ادب ہو گئے

نماز مسجدوں سے غائب ہو گئی

طلاقیں عام ہو گئیں

اولاد نافرمان ہو گئی

اور ماں باپ روتے رہ گئے!

یہ سب کچھ تب ہوتا ہے جب دین کو چھوڑ کر دنیا کے پیچھے بھاگا جائے۔
مدرسے کے بچے آج بھوکے رہ جاتے ہیں، مگر کل وہ قوم کے لیے مشعلِ راہ بن جاتے ہیں۔

یاد رکھو! اگر ایک بچہ مدرسے میں جائے گا تو پوری بستی کے سینے میں ایمان کی روشنی دوڑے گی۔ اگر وہ بچہ حافظ بنے گا تو اپنے ماں باپ کو جنت کا تاج پہنائے گا۔ اگر وہ عالم بنے گا تو ایک امت کو گمراہی سے بچائے گا۔ اور اگر وہ مفتی بنے گا تو اللہ کے حکم کا ترجمان بنے گا!

لہٰذا، اے گاؤں کے بھائیو! ہوش کے ناخن لو!
مدرسے کو تنخواہ سے مت ناپو، دین کو دنیا کے ترازو میں مت تولو!
تمہارے بچے اگر دین پڑھیں گے تو تمہاری نسلیں محفوظ ہوں گی۔
تمہارا گاؤں آباد ہوگا، تمہاری مسجدیں روشن ہوں گی، تمہاری زندگیوں میں برکت ہوگی۔

آؤ، ہم عہد کریں: ایک بچہ دنیا کے لیے، ایک دین کے لیے!
تاکہ ہمارا گاؤں دنیا و دین دونوں میں کامیاب ہو جائے۔

از قلم! محمد صفدر رضا علائ
( مربت پور پیکبان کٹیہار بہار)

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *