سی اے اے کے پیچھے این آر سی
سی اے اے کے پیچھے این آر سی
!شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )وزارتِ داخلہ کی اس وضاحت پر کہ ’ سی اے اے سے ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ‘ کس قدر بھروسہ کیا جا سکتا ہے ؟
مانا کہ سی اے اے کا تعلق پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئے اُن ہندوؤں کو ، جنہیں ’ مظلوم ‘ مان لیا گیا ہے ، شہریت دینے کا قانون ہے ، نہ کہ کسی کی شہریت چھیننے کا ، لیکن یہ قانون دھرم کی بنیاد پر ہے ، اور دھرم کی بنیاد پر کوئی بھی قانون ملک کے آئین سے کھلواڑ ہے
لہٰذا اس کی مخالفت ہر ہندوستانی کو کرنی چاہیے ۔ دوسری بات یہ کہ سی اے اے کا سیدھا تعلق این آر سی سے ہو سکتا ہے ، اور یہ تعلق اپنے آپ میں تشویش ناک ہے ، کیونکہ یہ راست لوگوں کی شہریت پر اثرانداز ہوگا ۔ جہاں تک سی اے اے کی بات ہے تو وزارتِ داخلہ کی وضٓاحت کے باوجود کہ مسلمانوں کی شہریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے
یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ قانون ایک ’ تجربہ ‘ ہے ، یہ جاننے کا کہ دھرم اور مذہب کی بنیاد پر بنے کسی قانون پر ملک کے عام شہری کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں ، منفی یا مثبت ؟ لہٰذٓ سی اے اے کو ’ ہندوتوادیوں ‘ کا ایک ایسا تیر سمجھا جائے جو کئی نشانوں پر جا کر لگ سکتا ہے ۔
واضح رہے کہ سی اے اے سے پہلے شہریت دینے کی بنیاد مذہب نہیں تھا ، لیکن سی اے اے نے تین مسلم ملکوں کے ’ مظلومین ‘ کو شہریت دینے کا جو فیصلہ کیا ہے اس میں یہ شرط ہے کہ وہ مسلمان نہ ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں کیا گیا ہے ؟
یہ سوال اس لیے بھی اہم ہے کہ جن ملکوں کے ہندوؤں ، سکھوں ، پارسیوں ، جینیوں ، بدھسٹوں اور عیسائیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے اُن ملکوں میں ایسے مسلمان بھی بستے ہیں جنہیں ’ مظلوم ‘ کہا جا سکتا ہے ، آخر انہیں انسانی بنیاد پر شہریت دینے کی ضرورت کیوں نہیں محسوس کی گئی ؟
ایک سوال یہ بھی ہے کہ بہت سے ہندوؤں کو بھی آسان شہریت سے محروم رکھا گیا ہے ، جیسے کہ سری لنکا کے تمل ، بھلا کیوں ؟
شاید ان سوالوں کے جواب سی اے اے کے پیچھے پیچھے جو کارروائیاں ہوں گی اُن میں چھپا ہوا ہے ۔ مغربی بنگال کی وزیراعلیٰ ممتابنرجی نے بہت صاف لفظوں میں کہا ہے کہ سی اے اے کے ساتھ این آر سی لگا ہوا ہے ! جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے سی اے اے اور این آر سی کا ایک دوسرے سے تعلق تشویش کا باعث ہے
اور یہ تعلق ہی ہے جو سی اے اے کو متنازعہ بھی بناتا ہے ، اور وزارتِ داخلہ کی وضاحت پر یقین نہ کرنے پر بھی مجبور کرتا ہے ۔ این آر سی کا مطلب ہے شہریت کا قومی رجسٹر ۔ یہ رجسٹر ’ غیر قانونی مہاجرین ‘ کی شناخت میں اور انہیں ملک بدر کرنے میں مدد کرتا ہے ۔
اگر ہندوتوادیوں نے مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں این آر سی کا نفاذ کیا جائے تو کیا کوئی اس نفاذ کو روک سکے گا ؟ نفاذ کا مطلب ایسے دستاویزات کی چھان بین ہے ، جو کسی شخص کو ہندوستان کا حقیقی باشندہ ثابت کر سکیں ۔
مسٔلہ یہ ہے کہ اس ملک میں کاغذات یا دستاویزات کا چلن تو اب ہوا ہے ، لہٰذا بے شمار ایسے حقیقی باشندے اس ملک میں ہیں جن کے پاس نہ پیدائشی سرٹیفیکٹ ہیں ، اور نہ ہی دوسرے متعلقہ دستاویز ۔ یہ کیا کریں گے ، ان کی شہریت کیسے ثابت ہوگی اور کیا ان کے سر پر ملک بدری کی تلوار نہیں لٹکے گی ؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ سی اے اے اور این آر سی کا گٹھ جوڑ حکومت کو زبردست طاقت فراہم کر دے گا اور وہ این آر سی کی بنیاد پر جنہیں ملک سے بدر کرنا چاہے گی انہیں ملک بدر کر دے گی ، اور سی اے اے کی بنیاد پر ہندوؤں ، پارسیوں وغیرہ کو شہریت عطا کر دے گی ۔
مطلب یہ کہ سی اے اے بھلے مسلمانوں یا اس ملک کے کسی دھرم کے شہری کی شہریت نہ چھینے لیکن یہ ایک ایسا ’ تجربہ ‘ ہے جس کی کامیابی پر این آر سی لایا جاسکتا ہے ، اور ایسا ہوا تو اس کے اثرات سارے ملک پر پڑیں گے ۔
اسی لیے اس ملک کے غیر مسلم بھی سی اے اے کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ، اور آواز اٹھانی بھی چاہیے ۔ اسی لیے چاہے کسی بھی طرح کی وضٓاحت آئے اس پر یقین کرنا مشکل ہے ۔