سیاسی میدان اور سیاسی شعور
سیاسی میدان اور سیاسی شعور !
تحریر: جاوید اختر بھارتی
کھیل کا میدان ہو یا الیکشن کا میدان اس میں ہار اور جیت لگی رہتی ہے اس میں نہ ہمیشہ جیت ہوتی ہے اور نہ ہی ہمیشہ ہار ہوتی ہے جیسے کل ہارنے والا شخص آج جیت سکتا ہے بالکل اسی طرح آج جیتنے والا شخص کل ہاربھی سکتا ہے ، لیکن کھیل اور الیکشن میں تھوڑا سا فرق ہے ،،
حکمت عملی تو دونوں میں ہوتی ہے لیکن الیکشن میں حکمت سے زیادہ قسمت کابھی دخل ہوتا ہے کیوں کہ پولنگ بوتھ کے اندر پردہ کے پیچھے ووٹ دیتے وقت ہر ووٹر ہر قسم کے دباؤ ،ڈر اور خوف سے آزاد ہوتا ہے کس کو ووٹ دینا ہے، کس کو ووٹ دے رہا ہے یہ ایک راز ہے اور اس راز سے پردہ اٹھانا ٹھوس ثبوت کے ساتھ کسی کے لئے ممکن نہیں ہے،، اسی وجہ سے قیاس آرائیوں کا بازار گرم رہتا ہے
کسی کو واہ واہی لوٹنے کی پڑی رہتی ہے تو کسی کو اسی قیاس آرائیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دوسرے کی مخالفت اور دشمنی کی آگ کو بھڑکا نے کی کوشش ہوتی ہے اور خود شکست خوردہ و فاتح شخص بھی اسی قیاس کی بنیاد پر شکوک وشبہات کی زنجیر پہنے ہوئے نظر آتے ہیں حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے کہ ناکام شخص کو پہلے اپنا محاسبہ کرنا چاہیے کہ کہاں ہم سے چوک ہوئی ہے، ہم نے اپنے ساتھ میں جنہیں رکھا وہ سب ہمارے سچے ہمدرد تھے
یا ان میں کچھ آستین کے سانپ بھی تھے جو وقت ملتے ہی ڈسنے کے انتظار میں تھے اور جب انہیں موقع ملا تو وہ چوکے نہیں اور اپنا کام کرگئے۔ اب جو کام یاب ہوگیا تو انسانیت اور ذمہ داری کی بنیاد پر اسے یہ سوچنا چاہیے کہ مجھے پورے علاقے کے لوگوں نے اپنا رہ نما، اپنا ترجمان تسلیم کیا ہے لہٰذا اب مجھے پورے علاقے کے لوگوں کی نمائندگی کرنا ہے کیونکہ اب میں جو کچھ بھی ہوں سب کے لیے ہوں
مگر افسوس کہ کامیابی کے بعد بھی لوگ فہرست بناتے ہیں اور نظر دوڑاتے ہیں کہ کس نے ووٹ دیا ہے اور کس نے نہیں دیا ہے یہی وجہ ہے کہ نااتفاقیاں بڑھتی جاتی ہیں اور اس کے اثرات پانچ سال بعد تک بھی باقی رہ جاتے ہیں،،
بیلیٹ پیپر میں بہت سے نشان ہوتے ہیں اس میں کسی ایک نشان پر اپنی حمایت کی مہر لگانا صرف اپنے دل کی آواز پر ہوتا ہے،، اور جہاں تک دل کا اور ووٹ کا معاملہ ہے تو ایک انسان کا دل دوسرے انسان کے دل سے محبت تو کرسکتا ہے، دوست تو بناسکتا ہے مگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کے دل پر حکومت نہیں کرسکتا ہے نہ انفرادی طور پر اور نہ ہی اجتماعی طور پر،، کیونکہ دلوں پر حکومت اسی کی ہے جس نے دل بنایا ہے،،
اور جہاں سیکڑوں یا ہزاروں دلوں کی حمایت کا مسئلہ ہو اور اسی حمایت یا مخالفت پر جیت اور ہار منحصر ہو وہاں اگر کوئی یہ دعویٰ کرے کہ کسی کو جتانا اور کسی کو ہرانا ہماری مٹھی میں ہے ہم جسے چاہیں جتا دیں جسے چاہیں ہرا دیں تو یہ صرف بڑبولا پن ہے، پاگلپن ہے اور ہٹ دھرمی پر مبنی خیالی پلاؤ ہے
کس قدر حیرت کی بات ہے کہ حالیہ بلدیاتی الیکشن کا نتیجہ آنے کے بعد ایسے لوگ ایک یا دو نہیں بلکہ ممبری اور چیرمینی کے کنگ میکروں کی ایک بڑی تعداد ہے جسے دیکھو گردن اکڑائے ، سینہ پھلائے اینٹھی چال چل رہا ہے ،اور خود کو کنگ میکر سمجھ رہا ہے ،کچھ لوگ تو ان کنگ میکروں کی بات سنتے ہیں اور مسکرا کر گردن ہلاتے ہوئے اپنا راستہ پکڑتے ہیں،، مگر ہاں کچھ بھولے بھالے لوگ ان کی باتوں کو بڑی سنجیدگی سے سنتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں کہ ان میں سے کس کی بات سچ مانا جائے،، جیتنے والے کو جتانے والا اصل کنگ میکر کون ہے ؟
ایسے ہی ایک صاحب نے ایک کنگ میکر سے جب کہ وہ لمبی لمبی چھوڑ رہا تھا سوال کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ فلاں کو میں نے جتایا ہے اور فلاں صاحب بھی یہی دعویٰ کررہے ہیں کہ فلاں کو میں نے جتایا ہے ،اتنا سنتے ہی یہ کنگ میکر آپے سے باہر ہوگئے اور کہنے لگے کہ اس کی کیا اوقات ہے کہ وہ کسی کو چار ووٹ بھی دلا سکے وہ خود تو جیتنے کی طاقت نہیں رکھتا تو دوسروں کو جتانے کی کیا بات کرتا ہے سچائی یہ ہے کہ ایک آدمی صرف اپنے ایک ووٹ کا مالک ہے اب یہ اس کے اوپر منحصر ہے کہ وہ اپنے ووٹ کا استعمال کس بنیاد پر کرتا ہے یہ بھی اس کی سوچ اور اس کی دور اندیشی پر منحصر ہے،،
جہاں تک بات سیاسی شعور کی ہے تو آج اترپردیش کے ایک مشہور علاقے میں سیاسی شعور کا سوشل میڈیا پر بڑا تذکرہ ہورہاہے جب کہ سچائی یہ ہے کہ اس علاقے کا بھی سیاسی شعور نالی، کھڑنجہ اور لال کارڈ تک محدود ہے کیونکہ پچیس سال میں وہاں ممبر اسمبلی بھی باہر کے ضلع کا ہوا ہے اسی سے سیاسی شعور کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے،،۔
اور آگے بڑھئے بلدیاتی انتخابات میں شراب، دارو، پیسوں کا خوب بول بالا رہا اور پولنگ کی صبح سے پہلے والی رات تو پوری طرح پیسہ، دارو اور شراب کے نام رہی اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر الیکشن کیوں لڑا جاتا ہے عوام کی خدمت کے لیےیا خود دولت کمانے کے لیے؟۔
اگر عوام کی خدمت مقصود ہے تو زمینیں فروخت کرنے کی کیا ضرورت ہے، شراب، دارو کی کیا ضرورت ہے کیوں نہیں ایک الیکشن ختم ہونے کے بعد اور دوسرا الیکشن آنے سے قبل یعنی اس درمیان میں کوئی نیتا، کوئی لیڈر اپنی زمینیں فروخت کرکے وہ سارا پیسہ اپنے حلقہ کی عوام میں تقسیمِ کردیتا،، مگر نہیں یہاں تو عوام کو لالچ میں مبتلا کرنا ہے، اور عوام کو سیاسی شعور سے محروم کرنا ہے تاکہ اپنا الو سیدھا ہوتا رہے، غربت، بے روزگاری، بدعنوانی، بدیانتی دامن پسارتی رہے ۔
حکومت و الیکشن کمیشن کو چاہیے الیکشن دوران یعنی پرچہ نامزدگی سے پولنگ تک کی مدت میں شراب بیچنے پر پابندی عائد کرے تاکہ انتخابی ضابطہ اخلاق میں بھی چار چاند لگے اور سماج، معاشرے اور سوسائٹی میں بھی گندگی نہ پھیلے،، اس خرافات پر توجہ نہیں دی گئی تو مستقبل میں اس کے نتائج انتہائی سنگین ہوں گے۔
جاوید اختر بھارتی
(سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
javedbharti508@gmail.com