ایسا قانون ہو جس سے ظلم و جبر کا خاتمہ ہو سکے
ایسا قانون ہو جس سے ظلم و جبر کا خاتمہ ہو سکے
آج دنیا ظلم وجبر کی آماجگاہ بنی ہوئی ہے- ہر سو ظلم کا اندھیرا چھایا ہوا ہے، مظلوموں کی آہیں بلند ہورہی ہیں، ظلم کرنا انسانوں کا شیوہ بنتا جارہا ہے، آج ہر کمزور طاقتور سے خوفزدہ نظر آرہا ہے- آج نہ ہماری عصمتیں محفوظ ہیں اور نہ ہم خود محفوظ ہیں
اس خاکدان بیتی پر ظلم کے ہاتھوں نہ معلوم کتنے افراد ظلم کا شکار ہو چکے ہیں، کتنے آشیانے اجاڑ دیے گئے نہ جانے کتنے نشیمن جلا دیے گئے، ملک کی سرزمین انسانوں کے خون سے سیراب کی جارہی ہے، گویا انسانی خون کی قدر و قیمت پانی سے بھی کم ہو گئی ہے
آج وطن عزیز میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے دنیا اس کی اچھی طرح واقف ہے، مسلمانوں پر ظلم کرنے والے جنگل کے درندے نہیں بلکہ انسان ہی ہیں جنہیں اس اپنی تہذیب اور مادی ترقی پر بڑا فخر ہے، اور یہی لوگ ہیں جو دنیا کو موت کا سامان فراہم کر رہے ہیں
ایسے حالات میں جبکہ انسان زندگی کے امن و سکون سے یکسر محروم ہوچکا ہے، دنیا کے مفکرین دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنانے کے لیے بےشمار منصوبے اور اسکیمیں بنا رہے ہیں، اس دعویٰ کے ساتھ کہ اگر قوانین اور اصولوں ضابطوں کی پابندی کی جائے تو امن و سکون کی فضا قائم ہوسکتی ہے، اور ظلم و ستم کے اندھیرے کافور ہو سکتے ہیں
لیکن انسانی دماغ کے بنائے ہوئے قوانین دستور حیات کبھی کامیاب ثابت نہیں ہو سکے ہیں، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو لوگ قانون کی دفعات مقرر کرتے ہیں وہ خود اس قانون کے پابند نہیں ہوتے، اور دوسری کمزوری اس میں یہ ہوتی ہے کہ انسان جو قانون بناتا ہے وہ اپنے زمانے ماحول و حالات کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر بناتا ہے
یہی وجہ ہے کہ آنے والا زمانہ اس قانون کو چیلنج کردیتا ہے، اور وہ قانون کچھ مدت کے بعد اپنی افادیت کھو دینے کی وجہ سے ناقابلِ نفاذ ہو جاتا ہے
اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ انسان جب کوئی قانون بناتا ہے تو اس کے سامنے ماضی کے تجربات ہوتے ہیں اور حال کے تقاضے اور مطالبات، لیکن مستقبل سے وہ قطعی نابلد و ناآشنا ہوتا ہے مستقبل کے بارے میں اس کا صرف قیاس اور اندازہ ہوتا ہے
لہٰذا آج انسانوں کو ایک ایسے قانون کی ضرورت ہے جو ظلم و جبر کا خاتمہ کرسکے اور جو قابلِ نفاذ اور قابلِ عمل ہو اور جو زندگی کے تمام شعبوں کا احاطہ کیے ہوئے ہو اور اس قانون میں ہر زمانے کے تقاضہ و مطالبات کو پورا کرنے کی بھر پور صلاحیت ہو اسے نہ زمانہ چیلنج کرسکے اور نہ دنیا کی کوئی طاقت، اس سر زمین پر اگر کوئی ایسا جامع قانون ہے تو وہ قانون الٰہی ہے، جو قرآن کریم کی شکل میں آج سے چودہ سو سال پہلے انسانوں کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے نازل کیا گیا تھا
قرآن مجید کا قانون نہایت جامع اور ہر نفس سے پاک، ہر کمزوری سے منزہ اور ہر خوبی سے لیس ہے، بلا شبہ خالق کائنات کا یہ قانون انسانوں کے لیے رحمت ہے، اسے نہ زمانہ چیلنج کرسکتا ہے اور نہ زمانے کے مطالبات، مذہب اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ شاہد ہے کہ زمانے نے کتنے رنگ بدلے لیکن قرآن مجید کے قانون کی افادیت کبھی کم نہ ہوئی، بلکہ آج کے دور جسے مادی ترقی و عروج کا دور کہا جاتا ہے اس میں قرآن مجید کی افادیت اور نکھرتی جارہی ہے
قرآن کریم کی عظمتوں کے آگے دنیا اپنی جبینِ نیاز خم کر رہی ہے اس اعتراف کے ساتھ کہ یہی وہ قانون ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں انسانوں کی رہنمائی کرتاہے یہی وہ قانون ہے جو ہر دور کے انسانوں کے لیے قابلِ عمل ہے اور صبحِ قیامت تک قابلِ عمل رہے گا، یہی وہ قانون ہے کہ جس کے ذریعے دنیا سے ظلم کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور عدل و مساوات کی فضا قائم کی جاسکتی ہے جس میں انسان امن و سکون کی سانس لے سکتا ہے
قرآن مجید کا یہ مقدس قانون جب نازل ہوا اور اس کا نفاذ ہوا تو کچھ ہی مدت کے بعد وہ لوگ جو ظلم و ستم کے خوگر تھے امن کے داعی بن گیے، اور پھر امن و امان کا ایسا دور دورا ہوا کہ حضرتِ سیدنا صدیق اکبر رضی الله تعالیٰ عنہ کے زمانے میں ایک عورت مقام صنعاء سے چلتی اور مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی زیارتیں کرکے عصمت و عزت کے تحفظ کے ساتھ اپنے گھر لوٹ جاتی اور اسے کوئی گزند نہ پہنچتا، دنیا اگر امن و امان چاہتی ہے تو خالق کائنات کے عطا کردہ قوانین کے نفاذ کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے
اگر پوری دنیا کے انسان اپنے آپ کو اسلامی قوانین کا پابند بنالیں تو دنیا سے ظلم و ستم، بد کرداری، بے حیائ، چوری، ڈکیتی، غرضکہ ہر برائی کا خاتمہ ہو سکتا ہے- نبی کریم صلی الله تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اسلام کی ایک حد کو جاری کرنا الله رب العزت کے کسی شہر میں چالیس رات بارش ہونے سے بہتر ہے
اس حدیثِ پاک میں کتنی پیاری مثال دی گئی ہے- بارش کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ابر بارندہ کسی زمین کو سیراب کرتا ہے تو ماحول بڑا ہی خوشگوار، فرحت بخش اور صحت افزاء ہوجاتا ہے- اسی طرح جب کسی مجرم کو جرم کی پاداش میں اسلامی قانون کے مطابق اسے سزا دی جاتی ہے اور اس پر حد جاری کی جاتی ہے، تو اس کے ذریعے ایک خوشگوار اور پرامن ماحول پیدا ہوتا ہے
مثال کے طور پر ایک شخص نے چوری کی اور جرم ثابت ہو جانے پر اسلامی قانون کے مطابق اسے سزا دی جاتی ہے اور اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے
تو دوسروں کے لیے یہ منظر بڑا عبرتناک ہوتا ہے اور ان کے دل میں چوری جیسے گھناو نے جرم سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے، اس عبرتناک منظر کا مشاہدہ کرنے والا ہرشخص یہ سوچتا ہے کہ اگر میں نے اس جرم کا ارتکاب کیا تو مجھے بھی اس طرح ذلیل وخوار ہونا پڑے گا اور اسی طرح میرا بھی ہاتھ کاٹ کر زندگی بھر کے لیے معذور کردیا جائے گا
آئی. اے. قادری برکاتی
کریم گنج، پورن پور، پیلی بھیت، مغربی اتر پردیش
iftikharahmadquadri@gmail.com