زرعی قوانین واپس ہوسکتے ہیں تو سی اے اے اور این آر سی کیوں نہیں
از قلم : محمد احمد حسن سعدی امجدی زرعی قوانین واپس ہوسکتے ہیں تو سی اے اے اور این آر سی کیوں نہیں
زرعی قوانین واپس ہوسکتے ہیں تو سی اے اے اور این آر سی کیوں نہیں
۔19 نومبر2021 کو وزیراعظم نے اپنے من کی بات میں تینوں زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا ، اس کے بعد ہی سے وزیراعظم کا وہ بیان پورے ملک میں موضوع سخن بنا ہوا ہے
کہیں وزیراعظم کے اس قدم کو خوب سراہا جارہا ہے تو وہیں تمام سیکولر پارٹیوں کی طرف سے وزیر اعظم کے اس اعلان پر بہت سے سوالات کھڑے ہو رہے ہیں ،جو کہ ہونا بھی چاہیے کیونکہ گزشتہ سال موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ سے تینوں پاس کیے،
جس کے بعد اچانک پورے ملک کا ماحول خراب ہوگیا ، کسان طبقے میں شدید بے چینی پائی گئی اور ہزاروں کسان حکومت کے خلاف احتجاج پر آمادہ ہوئے اور کسان آندولن کو اب ایک سال ہونے کو ہے، احتجاج کے دوران محکمہ پولیس کی طرف سے کسانوں پر ظلم و تشدد کے پہاڑ توڑے گیے
اس دوران تقریباً 700 کسانوں نے اپنی جانیں بھی گنوا دیں ، لیکن اس پوری ایک سالہ طویل مدت میں حکومت اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی رہی، اب ایک سال گزرنے کے بعد اس طریقے سے موجودہ حکومت کے ذریعے تینوں بلوں کو واپس لینے کا اعلان کرنا یہ حکومت کی منشا کو صاف طور پرظاہر کر رہا ہے
کیوں کہ حکومت کو حقیقی معنوں میں اگر کسانوں کے درد کا احساس ہوتا تو وہ ان قوانین پر پہلے ہی غور وفکر کرکے واپس لینے کا اعلان کر دیتی ،لیکن اب اس وقت ٹھیک الیکشن سے قبل قانون واپس لینے کا اعلان کرنا اس سے صاف طور پر اندازہ ہوتا ہے کہ مرکزی حکومت کسانون کے مسائل کو لے کر نہیں بلکہ 2022 میں یوپی اور پنجاب کے اسمبلی انتخابات کے حوالے سے فکر مند ہے اور اپنے لیے فضا ہموار کر رہی ہے۔
اسی طرح 11 دسمبر 2019 کو موجود حکومت کی جانب سے سی اے اے اور اس سے قبل این آر سی جیسے سیاہ قانون پاس کیے گئے ،جس کے بعد پورے ملک کا امن و امان ماتم میں تبدیل ہوتا نظر آیا ،ہر چہار جانب جمہوریت پسند عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ایک حد تک حکومت کو آئینہ دکھانے کا کام کرتی رہی
کسان آندولن کی طرح لکھنؤ اور بعض علاقہ میں امن پسند احتجاج کرنے والوں پر پولیس انتظامیہ کی جانب سے لاٹھی اور ڈنڈے برساۓ گئے اور اکثر لوگوں خاص طور سے مسلمانوں پر یو اے پی اے لگاکر انھیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔اس کے علاوہ دہلی کے شاہین باغ میں مسلسل تین ماہ تک احتجاج چلا اور بلاتفریق مذہب وملت لوگوں نے اس میں شرکت کی ، پھر اچانک کرونا کی آمد ہوئی اور پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آیا
اسی کے ساتھ تمام احتجاجات بند کرنے پڑے اور حکومت نے بھی سی اے اے اور این آر سی کے مسئلہ کو ملتوی کر دیا ۔ ویسے ان دونوں قوانین کو تو ملک کا ہر شخص سمجھتا اور جانتا ہے کہ اگر یہ نافذ ہو گئے تو ہندوستان کی ایک بڑی اقلیت مسلم اور دیگر اقلیتوں کو بے شمار صعوبتیں برداشت کرنی پڑ سکتی ہیں۔
کیوں کہ گزشتہ چند سالوں سے موجودہ حکومت نے جو بھی بل پاس کیے ان میں سے اکثر کو دیکھ یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا ٹارگٹ صرف اور صرف مسلم ہی ہیں
رہی بات سی اے اے اور این آر سی کی تو اس بل کے ذریعہ بھی وہ مسلمانوں کو پریشان کرنا چاہتے ہیں۔
جس طرح زرعی قوانین کو واپس لینے کا اعلان کیا گیا کیونکہ اس سے کسانوں کو نقصان کا اندیشہ تھا اسی طرح سی اے اے اور این آر سی جیسے بے بنیاد قانونوں کے ذریعہ بھی ملک میں رہنے والے مسلمانوں میں شدید بے چینی پائی جاے گی۔
لہذا ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ جلد از جلد سی اے اے اور این آر سی جیسے سیاہ اور نفرت آمیز قوانین کی واپسی کا بھی اعلان کیا جاے
از قلم : محمد احمد حسن سعدی امجدی
ریسرچ اسکالر۔ البرکات اسلامک ریسرچ
اینڈ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ علی گڑھ۔
8840061391
ان مضامین کو بھی پڑھیں
تحریر میں حوالہ چاہیے تو تقریر میں کیوں نہیں
ہندوستان کی آزادی اور علامہ فضل حق خیر آبادی
مذہبی مخلوط کلچر غیرت دین کا غارت گر
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
عورتوں کی تعلیم اور روشن کے خیالوں کے الزامات
سیاسی پارٹیاں یا مسلمان کون ہیں محسن
قمر غنی عثمانی کی گرفتاری اور تری پورہ میں کھلے عام بھگوا دہشت گردی
اتحاد کی بات کرتے ہو مسلک کیا ہے
افغانستان سے لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں
مہنگی ہوتی دٓاوا ئیاںلوٹ کھسوٹ میں مصروف کمپنیاں اور ڈاکٹرز
۔ 1979 سے 2021 تک کی آسام کے مختصر روداد
Pingback: دہلی کی تین منزلہ عمارت میں لگی بھانک آگ ⋆ اردو دنیا ⋆ رپورٹ